جمعہ، 5 اکتوبر، 2012

Where are the masters of the world?


دنیا سمیٹنے والے کہاں ہیں


محمد آصف ریاض

آدمی کے دل میں جب کوئی نیکی کا خیال آتا ہے تو شیطان اس کے اوپر حملہ کر دیتا ہے۔ مثلا جب کوئی شخص کسی کو ضرورت مند پاتا ہے تو اس کے دل میں خیر خواہی کا جذبہ ابھر تا ہے،پس وہ چاہتا ہے کہ وہ اس ضرورت مند کی مدد کرے۔ لیکن شیطان اس کے دل میں یہ خیال پیدا کرتا ہے کہ اگر وہ اسی طرح اپنے سرمایہ کو لٹا تا رہا تو اس کی بیوی، بچے اور اس کے گھر والوں کا کیا ہوگا؟ شیطان انسان کے سامنے کبھی بیوی،کبھی بچے اور کبھی رشتہ دار کی شکل میں آتا ہے اور اسے فقیری سے ڈرانے لگتا ہے۔ اور بلا شبہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔

 شیطان انسان کے اندراور زیادہ اور زیادہ کی طلب پیداکرتا ہے۔ وہ انسان کو بتا تا ہے کہ اگر وہ اپنا مال بڑھا نے میں ناکام رہا تو بہت جلد مفلس اورقلاش ہوجائے گا۔ اس کے بچوں اور گھر والوں کی زندگی تباہ ہوجائے گی۔ شیطان انسان کو یہ سوچنے کا موقع نہیں دیتا کہ اگر وہ زمین کے تمام خزانوں کا مالک بھی بنا دیا گیا تب بھی وہ ان خزانوں کے ساتھ رہنے والا نہیں۔ مثلاً اس دنیا میں بہت سارے محلات آج کھنڈر پڑے ہو ئے ہیں ان کے مکین آج کہیں نظر نہیں آتے۔ یہ محلات بتاتے ہیں کہ آدمی اگر اپنے لئے عالی شان محلات تعمیربھی کرلے تو وہ وہاں ہمیشہ رہنے والا نہیں ہے لیکن بات یہ ہے کہ شیطان انسان سے وہ چیز بھی چھین لیتا ہے جسے"کامن سنس" کہا جا تا ہے۔

انسان کا کامن سنسن بتا تا ہے کہ وہ اس زمین پر ہمیشہ رہنے والا نہیں ہے۔ وہ پچاس ساٹھ سال کے اندر اس دنیا سے رخصت ہونے والا ہے۔ چنانچہ اسے اپنی محدود زندگی کو سامنے رکھ کرزندگی کا منصوبہ بنانا چاہئے۔شیطان  انسان کو یہ بتا تا ہے کہ اگر وہ لا محدود کے لئے دوڑ بھاگ نہیں کرتا تواس کے بچے دوسروں سے پچھڑ جائیں گے۔ یہاں بھی شیطان بچوں کو سامنے لاکرانسان سے اس کا کامن سنسن چھین لیتاہے۔ اگر انسان اپنے کامن سنسس کا استعمال کرے تو وہ پائے گا کہ زمین پر آنے والا ہر بچہ اسپیشل ہے۔ ہر بچہ اپنے ساتھ ایک دماغ لے کر آتا ہے۔ اگر اس نے اپنے اس دماغ کا صحیح استعمال کیا تو وہ اپنے باپ سے بڑا امپائر کھڑا کر لے گا اور اگرایسا نہیں کر سکا تو وہ اس امپائر کو تباہ کر دے گا جو اس کے باپ نے اس کے لئے چھوڑ اتھا۔ اگر بچہ اہل ہوگا تو وہ اپنا ایمائر خود بنائے گا اور اگر نا اہل ہوا تو پھر اس کے لئے امپائر چھوڑنے کا کوئی فائدہ نہیں؟
لیکن شیطان انسان کو اور زیادہ اور زیادہ کی طلب میں ڈالتا ہے۔ وہ انسان کو ہر لمحہ فقیری سے ڈراتا رہتا ہے تاکہ انسان خوف میں آکر الٹا سیدھا فیصلہ کرنا شروع کر دے۔ قرآن کا ارشاد ہے "الشیطان یعد کم الفقرا" شیطان تمہیں فقیری سے ڈرا تا ہے۔

شیطان انسان کو یہ بتا تا ہے کہ اگر وہ دنیا کے حصول میں پیچھے رہ گیاتو وہ ناکام ہوجائے گا۔ حالانکہ اگر انسان نظر اٹھا کر دیکھے اور غور و فکر کرے تو  پائے گا کہ جو لوگ دنیا سمیٹ چکے تھے ان کا کیا ہوا؟وہ تو آج کہیں نظر نہیں آتے ؟


شیطان انسان کو مس لیڈ کرتا ہے، وہ اسے اور زیادہ کی طلب میں ڈال کر موت کی کھائی میں اتار دیتا ہے،جس کے بعد انسان کے پاس کچھ کرنے کا موقع نہیں بچتا۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ” زیادتی کی چاہت نے تمہیں غافل کردیا، یہاں تک کہ تم قبرستان جا پہنچے“۔  التکاثر(102:1-2)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں