ہفتہ، 14 مئی، 2016

اگر آپ کے پاس تخلیقی ذہن ہے توکوئی آپ کو روک نہیں سکتا

اگر آپ کے پاس تخلیقی ذہن ہے توکوئی آپ کو روک نہیں سکتا

محمد آصف ریاض
بہارکے دربھنگہ ضلع کے رہنے والے ایک نوجوان جمیل شاہ کی یہ خواہش تھی کہ وہ بالی ووڈ کے بڑے ستاروں کےساتھ کام کرے۔ وہ انھیں دیکھے اوران کے ساتھ رقص کرے۔ اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لئے جمیل شاہ پہلےدہلی آئے پھریہاں سے بنگلورگئے اوراس کے بعد فلمی نگری ممبئی پہنچ گئے۔
وہ بیک گرائونڈ ڈانسربن کربڑے بڑے فنکاروں کے ساتھ ڈانس کرنا چا ہتے تھے۔ لیکن یہ کام اتنا آسان نہیں تھا کیونکہ وہ ایک غریب آدمی تھے۔ اسی درمیان ان کی ملاقات معروف ڈانس گروسندیپ سپارکرسے ہو ئی۔ سپارکرنے بغیرفیس لئےجمیل کوڈانس سکھا نا شروع کردیا۔ لیکن اس دوران ایک اورمسئلہ کھڑا ہوگیا۔ رقص کے جوتے بہت مہنگے ہوتے ہیں۔ ان جوتوں کو خریدنے کے لئے دس ہزار سے لے کرلاکھوں روپے تک خرچ کرنا پڑتا ہے اورجمیل کے لئے اتنا پیسہ جٹانا آسان نہیں تھا۔ عام طور پر ڈانسراپنے جوتے انگلینڈ سے امپورٹ کرتے ہیں۔ جمیل انگلینڈ سے جوتے امپورٹ نہیں کرسکتے تھے،چناچہ انھوں نے ڈانسروں کے جوتوں کا گہرا مشاہدہ کیا اوراسی قسم کا ایک جوتا بنا کراپنے گرو سندیپ سپارکرکو دکھا یا۔
یہ جوتا فلم انڈسٹری میں زیادہ ترلوگوں کو پسند آیا اور پھر 2007 سے جمیل نے با ضابطہ طور پر جوتے بنانے کا کام شروع کردیا۔ جمیل کہتے ہیں کہ سب سے پہلے انھوں نے ڈینو موریا کے لئے، پھر پرینکا چوپڑا کے لئے، دھوم تھری میں عامرخان کے لئے، زندگی نہ ملے گی دوبارہ میں ریتک روشن کے لئے، ان کے علا وہ عالیہ بھٹ، کاجول، اجئے دیوگن، سلمان خان، رنبیر کپور، قطرینہ کیف، سری دیوی اور بہت سے دوسرے ستاروں کے لئے جوتے بنائے۔ اب حال یہ ہے کہ انھوں نے جوتوں کا کاروبار شروع کردیا ہے اور زیادہ تر فلمی ستارے انگلینڈ  کے بجائے انھیں سے  جوتا خریدنا پسند کرتے ہیں کیونکہ ان کے جوتے اچھے بھی ہوتے ہیں اور بہت سستے بھی۔
ایک اور اسٹوری
ایک اردواخبارمیں جمیل کی اس اسٹوری کوپڑھ کرمجھے ایک اوراسٹوری یاد آگئی۔ یہ اسٹوری میں نے How to make wealth   نامی ایک کتاب میں پڑھی تھی۔  یہ اسٹوری چرچ کے ایک ملازم کے بارے میں تھی۔ ایک شخص چرچ میں نوکری کرتا تھا۔ لیکن ایک بارایسا ہوا کہ وہاں کا پادری بدل گیا۔ اس نے ایک نیا قانون لایا ۔ اس نے کہا کہ تین مہینے کا وقت دیا جا تا ہے چرچ کے وہ ملازمین جو انگریزی نہیں جانتے وہ انگریزی سیکھ لیں، جو لوگ انگریزی نہیں سیکھ پائیں گے انھیں ملازمت سے نکال دیا جائے گا۔
تین مہینے بعد پادری نے تمام ملازمین کو بلا یا اوران سے انگریزی کے بارے میں پوچھ تاچھ شروع کی۔ پیسٹرنے کہا کہ میں اب تک انگریزی نہیں سیکھ سکا ہوں۔ پادری نے جواب دیا تو پھرآج سے آپ کوئی اورنوکری ڈھونڈھ لیں۔ پیسٹرپریشان ہوا۔ وہ چرچ سے اداس ہوکرنکل گیا۔ لیکن اس کی عادت تھی کہ جب وہ بہت مشکل میں ہوتا تھا توسگریٹ پیتا تھا۔ آج بھی اسے سگریٹ کی طلب ہوئی۔ اور یہ طلب بہت شدید تھی۔ لیکن بہت دورتک پیدل چلنے کے با وجود اسے سگریٹ کی کوئی دکان نہیں ملی۔ یہیں اس کے ذہن میں ایک آئڈیا آیا ۔ اس نے سوچا کہ اس کی طرح کتنے لوگ ہوں گے جن کی جیب میں پیسہ ہوگا، اوروہ سگریٹ پینا چاہتے ہوں گے لیکن کوئی سگریٹ بیچنے والا نہیں ہوگا۔ چنانچہ پیسٹر نےفیصلہ کیا کہ وہ چرچ کے قریب ہی ایک سگریٹ کی دکان کھولے گا۔ اوراس نے دوسرے ہی دن چرچ کے قریب سگریٹ کا ایک اسٹال لگا لیا۔ یہ اسٹال کامیاب ثابت ہوا، پھراس نے کئی اوراسٹالس لگوائے ، اس طرح اس نے پورے امریکہ میں سگریٹ کا بزنس پھیلا دیا اور خوب پیسہ کمایا۔
کہا جا تا ہے کہ ایک مرتبہ بینک کا ایک مینیجراس سے ملنے آیا۔ اس نے پوچھا کہ سر! آپ جانتے ہیں کہ ہمارے بینک میں آپ کے کتنے پیسے ہیں؟ پیسٹر نے جواب دیا میں نہیں جانتا، البتہ ہمارا منشی جانتا ہوگا۔ اس نے پوچھا کہ آپ کیوں نہیں جانتے؟ پیسٹرنے جواب دیا "میں پڑھا لکھا نہیں ہوں" ! مینیجر نے حیرانی سے پوچھا۔ سر، ذرا سوچئے کہ اگر آپ پڑھے لکھے ہوتے تو کیا ہوتے؟ پیسٹر نے قدرے اطمینان سے کہا" چرج کا ایک نوکر۔"
اصل بات یہ ہے کہ یہ دنیا امکانات کی دنیا ہے۔ اورکسی امکان کو واقعہ وہی لوگ بنا سکتے ہیں جواپنےاندر تخلیقی ذہن رکھتے ہوں۔ جو بہت سوچتے ہوں اورکریٹیو مائنڈ کے ساتھ سوچتے ہوں، جو ڈرینڈ سیٹر ہوں نہ کہ ٹرینڈ فولور۔ اس دنیا میں کامیابی کا صرف اور صرف ایک ہی راز ہے اور وہ ہے؛ محنت، محنت اور تخلیقی ذہن کے ساتھ محنت۔
کسی دانشورکا  قول ہے: " اگر آپ کے پاس تخلقی ذہن ہے توکوئی آپ کو روک نہیں سکتا۔"

  When you have a creative mind it doesn't stop going))

بدھ، 11 مئی، 2016

آپ کی ہر بات ریکارڈ کی جا رہی ہے

آپ کی ہر بات ریکارڈ کی جا رہی ہے

محمد آصف ریاض
آٹھ مئی 2016 کودہلی میں واقع ایک میگزین کےآفس میں جانےکا موقع ملا۔ وہاں موجود صحافیوں سے بات چیت ہوئی ۔ یہ بات چیت بہت خوشگوارماحول میں ہوئی ۔ تمام لوگوں نے میری باتیں بغورسنیں۔ وہاں میری بات ریکارڈ کی جا رہی تھی ۔ جب میں اپنی بات کہہ چکا تومجھے خیال آیا کہ کہیں میں کوئی غلط بات تو نہیں کہہ گیا؟ جب گھرواپس آیا تو ہربات اپنی بیوی سے دہرا یا،اوراس سے پوچھا کہ میں نے کوئی بات غلط تو نہیں کہہ دی؟ کیونکہ وہاں میری ہربات ریکارڈ کی جا رہی تھی۔ کیمرے کی وجہ سے میرے اوپرایک قسم کا دبائوتھااورمیں اپنی باتیں بہت سوچ سمجھ کہہ رہا تھا۔
اب میں سوچنے لگا کہ دنیا کی ریکارڈنگ انسان کو کس قدرحساس بنا دیتی ہے۔ کیمرے کے سامنے جب بولنا ہو تو انسان بولنے سے پہلے بھی سوچتا ہے اوربولنے کے بعد بھی۔ وہ ایک مرتبہ نہیں ہزارمرتبہ سوچتا ہے۔ کیوں ؟ اس لئے کہ وہ جانتا ہے کہ جو کچھ وہ بول رہا ہے وہ اس کے خلاف شہادت کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
لیکن اس دنیا میں ایک اور ریکارڈنگ ہے جس سے انسان غافل ہے۔ وہ اس قدر خفیہ ہے کہ انسان کو پتہ بھی نہیں چلتا اوراس کی ہر بات ریکارڈ کر لی جاتی ہے۔
قرآن میں ہے کہ انسان بولتا بھی نہیں کہ لکھنے والا اس کو لکھ لیتا ہے۔ " یقیناً تم پرنگہبان عزت والے ، لکھنے والے مقرر ہیں، وہ جانتے ہیں جو کچھ تم کرتے ہو"۔
وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِينَ ﴿١٠﴾ كِرَامًا كَاتِبِينَ ﴿١١﴾ يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ ﴿١٢﴾
آدمی کا حال یہ ہے کہ وہ بول رہا ہے۔ وہ بے تکان بولتا جا رہا ہے، نہ بولنے سے پہلے سوچتا ہے اور نہ بولنے کے بعد! کیوں؟ اس لئے کہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ کوئی اس کو پکڑنے والا نہیں ہے۔ کہیں کوئی کیمرہ نہیں ہے جو اس کی کہی ہوئی بات کوشہادت (evidence) کے طور پر استعمال کر سکے۔
کاش! انسان یہ جان لیتا کہ وہ جہاں بھی ہو جو کچھ بھی کرتا یا بولتا ہو، اس کا ہر قول ہر فعل خدا کے یہاں ریکارڈ میں ہے۔ قرآن میں ہے۔ "چاہے تم کوئی بات پکارکرکہو، وہ تو چپکے سے کہی ہوئی بات بلکہ اس سے مخفی تر بات کوبھی جانتا ہے 20: 7))
( اورتم جہاں کہیں بھی ہو، وہ تمہارے ساتھ ہے اورجو کچھ تم کر رہے ہو اللہ تعالی اسے دیکھ رہا ہے ) الحدید / 4
( کیا آپ نے یہ نہیں دیکھا کہ اللہ تعالی آسمانوں وزمین کی ہر چیز کو جانتا ہے۔ تین آدمیوں کی سرگوشی نہیں ہوتی مگر وہ ان کا چوتھا ہوتا ہے اور نہ پانچ کی مگر وہ ان کا چھٹا ہوتا ہے اور نہ اس سے کم اور نہ ہی زیادہ مگر وہ جہاں بھی ہوں وہ ان کے ساتھ ہوتا ہے پھر قیامت کے دن انہیں ان کے اعمال سے آگاہ کرے گا بیشک اللہ تعالی ہر چیز کو جاننے والا ہے ) المجادلۃ / 7
کاش ، اگرانسان یہ جان لیتا کہ اس کا ہرقول اورہرفعل ایک خدائی کیمرے میں محفوظ کیا جا رہا ہے، تو وہ بولنے کا تحمل نہیں کرتا۔ اس کا حال یہ ہوجا تا کہ وہ بولتا کم اورسوچتا زیادہ ۔
بلال ابن حارث کہتے ہیں رسول صلی اللہ علیہ وسم نے فرمایا۔ آدمی اللہ کی ناراضگی کی ایک بات کہتا ہے ، وہ اس کو زیادہ اہم نہیں سمجھتا ۔ مگر اللہ اس پر اپنی ناراضگی اس وقت تک کے لئے لکھ لیتا ہے جبکہ وہ اس سے ملے گا۔
روایات میں آتا ہے علقمہ تابعی نے کہا کہ بلال ابن حارث کی حدیث نے مجھے بہت سی بات بولنے سے روک دیا۔

(رواہ ابن ماجہ و الترمذی )  

پیر، 9 مئی، 2016

کامریڈ ، میں مرنا نہیں چاہتا، تم مجھے مرنے مت دو

کامریڈ ، میں مرنا نہیں چاہتا،  تم مجھے مرنے مت دو

محمد آصف ریاض
آسمان پانی برساتا ہے اورزمینیں اپنی شادابیاں اگل دیتی ہیں۔ یہ شادابیاں دیکھنے والوں کوبھلی معلوم پڑتی ہیں۔ آدمی اپنے ارد گرد ان شادابیوں کو دیکھ کرخوش ہوتا ہے اوریہ سوچنے لگتا ہے کہ اب زمین سے یہ شادابیاں کبھی ختم ہونے والی نہیں ہیں۔ اب یہ گل اوربوٹے کبھی مرنےوالے نہیں ہیں۔ اب ان ندیوں اورآبشاروں کی روانی میں کوئی خلل پیدا ہونے والا نہیں ہے۔ اب ان پھولوں کی مسکراہٹ کو کوئی چھینے والا نہیں ہے۔
تاہم ایک وقت آتا ہے جب آدمی اسی خطہ زمین سے دوبارہ گزرتا ہے اوراس باروہ یہاں ایک برعکس دنیا کا نظا رہ کرتا ہے۔ وہ زمینیں جوکل تک شادابیاں اگل رہی تھیں، وہ آج بیان بیان نظرآتی ہیں۔ آدمی یہ دیکھ کرحیران رہ جا تا ہے کہ کل تک جہاں ایک دنیا آباد تھی، جہاں پھول کھلے تھے، پودے پروان چڑھ رہے تھے، پتیاں باد سرسرکے ساتھ جھوم رہی تھیں، جہاں پرندے خوبصورت نغمے سنا رہے تھے، وہ دنیا یکایک برباد ہوچکی ہے۔ جہاں کل تک ہر طرف زندگی رقص کر رہی تھی، اب وہاں ہرطرف خوفناک ریگستانی سناٹاہے۔
یہ ایک تمثیل ہے جس سے انسانی زندگی کی حقیقت کا پتہ چلتا ہے۔ آدمی ماں کے پیٹ سے نکل کرزمین پرآباد ہوتا ہے، پھروہ زمین پرطاقت حاصل کرتا ہے، وہ کم عمری سے جوانی کی طرف بڑھتا ہے،رفتہ رفتہ وہ مال اوراولاد والا بن جا تا ہے۔ اب اس کے ذہن میں یہ خیال ابھرتا ہے کہ اس نے زمین پرکنٹرول حاصل کرلیا ہے۔ اب اس کی دنیا کبھی اجڑنے والی نہیں ہے۔ اب اس کی طاقت میں کوئی کمزوری پیدا ہونے والی نہیں ہے۔
لیکن تبھی انسان پرایک تجربہ گزرتا ہے جواس کی تمام خوش گمانیوں الٹ دیتا ہے۔ وہ صدماتی تجربہ اس کی زندگی کی تمام لذات کا خاتمہ کردیتا ہے۔ یہ تجربہ موت کا تجربہ ہے۔ موت کا تجربہ انسان کو بتاتا ہے کہ وہ ایک ایسی دنیا میں ہے جہاں اس کے پاس آسما نی فیصلوں کو قبول کرنے کے سوا، کوئی چارہ نہیں ہے۔
وینزوئیلا کے صدرہوگو شاویز (28 July 1954 – 5 March 2013 ) جنوبی امریکہ کے بہت ہی طاقتور لیڈر تھے۔ انھوں نے امریکہ اور یوروپ کے کسی دبائو کو کبھی برداشت نہیں کیا۔ محض  58 سال کی عمر میں ہارٹ اٹیک سے ان کی موت ہوگئی ۔ میل آن لائن کی رپورٹ کے مطابق انھوں نے آخری وقت میں کامریڈ کو بلا یا۔ وہ اس سے کچھ کہنا چاہ رہے تھے لیکن کمزوری کے سبب کچھ بول نہیں پا رہے تھے، تبھی کامریڈ نے اپنا کان ان کے منھ میں لگا دیا۔ تواس نے سنا۔
"کامریڈ ، میں مرنا نہیں چاہتا ہوں ، برائے مہربانی تم مجھے بچا لو، تم مجھے مرنے مت دو۔"     
I do not want to die, please do not let me die) (
Mail Online 7, March 2013
قرآن میں زندگی کی اس حقیقت کا بیان ان الفاظ میں ہوا ہے: "ان کے سامنے دنیا کی زندگی کی مثال بیان کرو کہ آج ہم نے آسمان سے پانی برسا دیا تو زمین کی پود خوب گھنی ہوگئی، اورکل وہی نباتات بھس بن کر رہ گئ جسے ہوائیں اڑائے لئے پھرتی ہیں۔ اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے" 18- 45 ))

منگل، 3 مئی، 2016

نہیں بات یہ ہے کہ وہ یتیم کی تکریم نہیں کرتے

محمد آصف ریاض
اگرایک شخص یہ کہے کہ خدا نے مجھے عزت دی، خدا نے مجھے دوسروں پرفضیلت دی، خدا نے مجھے مال اوراولاد والا بنا یا ،خدا نے مجھے علم ودانش سے نوازہ، تو آپ یہ سمجھیں گے کہ یہ تمام شکرکے الفاظ ہیں۔ لیکن عجیب بات ہے کہ خدا نے ان تمام الفاظ کو ناشکری کے خا نے میں رکھا ہے۔
قرآن کا بیان ہے: " مگرانسان کا حال یہ ہے کہ جب اس کا رب اسے آزما ئش میں ڈالتا ہے اوراسے عزت اورنعمت دیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھےعزت دی، اورجب وہ اسکو آزمائش میں ڈالتا ہے اوراس کا رزق اس پرتنگ کر دیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے ذلیل کردیا۔" ( سورہ الفجر آیت 15- 16 )
یہاں دومتضاد باتیں ہیں۔ ایک یہ کہ جب وہ انسان کوعزت اور نعمت دیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے عزت دی اورجب وہ اس کا رزق تنگ کردیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے ذلیل کیا۔
قرآن کے اس بیان میں بظاہرایک رویہ شکرکا ہے"خدا نے مجھے عزت دی" اوردوسرا رویہ ناشکری کا  "خدا نے مجھے ذلیل کیا" لیکن قرآن نے ان دونوں رویوں کوناشکری کے خانے میں رکھاہے۔
مثلاً قرآن میں اس بیان کے فوراً بعد آگے بیان ہوا ہے : " ہرگز نہیں بلکہ تم یتیم سےعزت کا سلوک نہیں کرتے، اورمسکین کو کھانا کھلانے پرایک دوسرے کو ترغیب نہیں دیتے، اورمیراث کا سارا مال سمیٹ کر کھا جاتے ہو، اور مال کی محبت میں بری طرح گرفتار ہو۔"
ایسا کیوں ہوا کہ خدا نے بظاہرشکرکے الفاظ بولنے والے اورناشکری کے الفاظ بولنے والے دونوں قسم کے انسان کو ایک ہی خانے یعنی نا شکری کے خانے میں رکھا؟
اصل بات یہ ہے کہ اللہ انسان کی بولیوں پرنہیں جا تا، وہ اس کے عمل پرجا تا ہے۔ ایک شخص جسے خدا نے نعمت اورعزت دی، جسے شہرت اوردولت سے نوازہ گیا، اگروہ کسی مجمع یا تنہائی میں خدا کی طرف سے ملی ہوئی چیزوں کا ذکر کرتے ہوئے یہ کہے کہ خدا نے مجھے یہ دیا، خدا نے مجھے وہ دیا، خدا نے مجھے فضیلت دی ، خدا نے مجھے حاجی بنایا، خدا نے مجھے غازی بنایا ، خدا نے مجھے علم والا بنایا تودرحقیقت وہ اپنے رب کی بڑائی بیان نہیں کررہا ہے، وہ خود اپنی بڑائی بیان کررہا ہے۔ بظاہر وہ خدا کا نام لے رہا ہے لیکن درحقیقت وہ اپنا اچیومنٹ بتا رہا ہے۔  
یہاں جو یہ کہا کہ " یتیم کا اکرام نہیں کرتے"، یہ بہت ہی معنی خیزبات کہی ۔ یتیم کون ہوتا ہے؟ یتیم درحقیقت کسی سماج کا سب سے کمزورانسان ہوتا ہے۔ اورسماج کے سب سے کمزورانسان کی عزت وہی شخص کرسکتا ہے جوحقیقی معنوں میں اللہ والا ہو، جس نے اپنے ایگو کو اللہ کے لئے کرش کر دیا ہو، جو فخرو مباہات کی نفسیات سے نکل کر تواضع کی نفسیات میں جی رہا ہو۔ ایسا کوئی بھی شخص جو اپنے سے کمزور کی عزت نہیں کرتا وہ درحقیقت اپنی انانیت میں جینے والا انسان ہے، بظاہروہ زبان سے للاہیت کے جتنے بھی الفاظ بولے خدا کے یہاں ان الفاظ کی کوئی قیمت نہیں۔
یتیم کی تکریم کا حکم دے کرخدا یہ بتا رہا ہے کہ انسان کوچاہئے کہ وہ ہروقت تواضع کی نفسیات میں جئے، وہ سرکشی اور کبر کی نفسیات کو چھوڑدے، اور جب کوئی بات بولے توخوب سوچ لے کہ کہیں وہ شکرکے الفاظ کے پردے میں خود اپنے ایگو (ego)کی فیڈ نگ تو نہیں کررہا ہے؟ کیونکہ ایسا کر کے وہ انسان کودھوکہ دے سکتا ہے لیکن وہ خدا کو دھوکہ نہیں دے سکتا۔ خدا نے پہلے ہی خبردار کردیا ہے" تم چاہے اپنی بات پکار کر کہو، وہ تو چپکے سے کہی ہوئی بات بلکہ اس سے مخفی تر بات کوبھی جانتا ہے۔"

وَإِن تَجْهَرْ بِالْقَوْلِ فَإِنَّهُ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَى