بدھ، 26 اکتوبر، 2016

Where everybody is fighting against everybody

Muhammad Asif Reyaz

 What was the situation when Muslims in the 13th century entered the world which is today called Europe? To understand the real situation in Europe I would recommend you to read a Russian commentator’s words. His words have been taken as reference by Professor Thomas Arnold in his famous book The Spread of Islam in The World. Read the comments:
 “Without the fear of the law an empire is like a steed without reins. Constantine and his ancestors allowed their grandees oppress the people, there was no more justice in their law courts, no more courage in their hearts,  the judges amassed treasures from the tears and blood of the innocent,  the Greek soldiers were proud only of the magnificent of their dresses. The citizens did not blush of being traitors; the soldiers were not ashamed to fly.”
“At length the Lord poured out his thunder on these unworthy rulers, and raised up Mohammad whose warriors delight in battle, and whose judges do not betray their trust.”
Spread of Islam in the world: page No 148 
This is the first part of the story, now read the second part of the story.
 Now that, European powers have entered the world which is called Muslim world from Syria to Iraq to Afghanistan, what is going on there? To know the real situation of Muslim world again read another Russian commentator, this time Russian Prime Minister Dmitry Medvedev.
 “It would be impossible to win such a war quickly, especially in the Arab world, where everybody is fighting against everybody." Russian Prime Minister clarified on Muslim world while talking to a local newspaper.
Surely history repeats itself. When Muslims were of a good character, they were getting the results accordingly. But when they became as corrupt as early Christains and Jews they got the same result as they had got. And in the words of Russian commentator:
“The Lord poured out his thunder on these unworthy rulers.” It reminds us that, “You reap what you sow.” And of course Muslims are no exception to this universal truth.

پیر، 24 اکتوبر، 2016

Two stories from Sicily to Sindh

Muhammad Asif Reyaz
Abu Rayhan Muhammad ibn Ahmad Al-Biruni , was a man of great knowledge. He was well versed in the Physics, Mathematics, and Astronomy he had also distinguished himself as a historian and chronologist. He was well versed in different languages like Arabic, Sanskrit, Persian, Greek, Hebrew and Syriac.
In 1017 he travelled to India to learn about Hindus and discussed with them questions of religion, science, literature and very basis of their civilization. He remained in India for 17 years studying and exploring these subjects. After learning everything about India he wrote the most famous book named Tarikh Al-Hind (History of India) , also known as Albiruni ‘s India.
Reading this book, you will come across many interesting stories. Here I am mentioning you two stories from the book that I find very interesting.
 The first story is related to Sicily presently with Italy. And the second is related to Sindh presently with Pakistan.
When Muslims at the time of Omayyad Caliphate won Sicily, they found an idol there. That Idol was very beautiful and shining. That was made of gold and diamond. When this Idol was brought to Caliph he saw it and said; this is of no use for me, send it to Sindh the Raja of  Sindh who is Hindu will buy this paying handsome amount of money and so happened. The Idol was brought to Raja of Sindh and he bought it paying very big amount of money.
The second story is about Sindh. When Muhammad al-qasim won Sindh and he entered Multan. He found the city thriving and economy there was very much flourishing.
He asked people the reason of the city’s prosperity. He was informed that this is because of Adyttya Devta. Where is this Devta? he asked. He was brought to Adyttya Mandir. He saw the Devta and said; let it be remain here, let it be preserved for it will ensure our economy going. 
This shows the pragmatic approach of earlier Muslim leaders. Their decisions were smart, efficient, and compassionate.
In comparison, today’s Muslim leaders lack this quality and hence don’t receive the same respect as their predecessors did.  

ہفتہ، 24 ستمبر، 2016

Why these walls are? What the Europe is afraid of?

یہ دیواریں کیوں ہیں؟ اہل یوروپ کس چیز سےخوف زدہ ہیں؟
محمد آصف ریاض
آبنائے باسفورس پرترکی نے جب دنیا کا تیسرا سب سے بڑا پل تعمیرکیا اوراس پل کے ذریعہ ایشیا کو یوروپ سے جوڑدیا تواہل یوروپ نے ترکوں کے اس عمل کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا۔ انھوں نے ترکوں کی اس بے مثال کوشش کوسراہنے کے بجائےاسے اپنی تہذیب اورکلچرکے لئے خطرہ سے تعبیرکیا۔ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ جس وقت ترکی یہ پل تعمیرکررہا تھا ٹھیک اسی وقت یوروپ اپنےارد گرد دیواریں تعمیرکررہا تھا تاکہ کوئی باہری اس کے اندرداخل نہ ہوجائے۔ بلغاریہ میں دیواریں اٹھائی جا رہی تھیں، ہنگری، آسٹریا، سلووینیا، یونان، یوکرین اوراسٹونیا میں دیواریں تعمیر کی جا رہی تھیں، حد تو یہ ہے کہ برطانیہ اورفرانس میں بھی رفوجیوں کو روکنے کے لئے دیواریں کھڑی کی جا رہی تھیں۔
اپنےآپ کو دیواروں کے اندر محصور پاکرعیسائیوں کے مذہبی پیشوا پوپ فرانسس کو مداخلت کرنی پڑی۔ انھوں نے عیسائیوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا " دیوار اٹھا نا مسیح کی تعلیمات میں سے نہیں ہے۔" ایک اخبار نے ان کے اس قول کو اس طرح نقل کیا ہے۔:
Building walls 'is not Christian
واشنگٹن پوسٹ نے اس پرایک اسٹوری کی ہے۔ اس اسٹوری میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح یوروپ اپنےآپ کودیواروں کے درمیان محصورکررہاہے۔ اس اسٹوری کی سرخی یہ ہے۔ " یوروپ لوگوں کو باہر رکھنے کے لئے دیواریں تعمیر کر رہا ہے۔
 "Europe is building more fences to keep people out"
سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر یوروپ کس چیزسے ڈرتا ہے؟ وہ کیوں اپنےآپ کو دیواروں کےاندرمحصورکررہا ہے؟جواب بہت واضح ہے۔ وہ یہ کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ انٹریکشن سے ڈرتا ہے۔
سڑکیں، موٹرویز، ریلویز، ہوائیں پٹیاں، بندرگاہیں، یہ انسانی رشتوں کے استحکام کی علامت ہیں۔ یہ قوموں کے درمیان انٹریکشن کا دروازہ کھولتی ہیں۔ اوریوروپ کے لیڈران اسی انٹریکشن سے خوفزدہ ہیں۔ یوں تو ان کے خوف کی کئی وجوہات ہیں۔ تاہم میں یہاں چند وجوہات کا خصوصی ذکرکروں گا۔
(1) اسلام کا دین فطرت ہونا۔ اسلام دین فطرت ہےاس لئے یہ ہراس شخص کو پسند آتا ہے جواپنی فطرت پرجیتا ہے۔
(2) اسلام توریت انجیل، زبوریا یا کسی نبی اوررسول کو مسترد نہیں کرتاجیسا کہ دوسرے مذاہب میں ہے بلکہ اسلام ان پرایمان لانے کی تلقین کرتا ہے۔ چنانچہ ایک عیسائی جب دین اسلام میں داخل ہوتا ہے تونہ اسےاپنا رسول چھوڑنا پڑتا ہے،اورنہ ہی اسے اپنی کتاب کومسترد کرنا پڑتا ہے۔ ایک عیسائی مذہب اسلام میں داخل ہوکراپنے آپ کوکرسچن پلس مسلمان سمجھتا ہے۔اسلام میں ان کے لئےکچھ کھونا نہیں بلکہ پانا ہی پاناہے۔
(3) اسلامی سادگی۔ اسلامی تعلیمات میں سادگی کی بڑی اہمیت ہے۔ مسلمانوں میں تمام قسم کے بگاڑ کے باوجود سادگی اوراصول پسندی آج بھی باقی ہے۔ مثلاً مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ آج بھی شراب کاری ، بدکاری اور سود خوری سے نفرت کرتا ہے۔ وہ عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کے ساتھ آج بھی حسن سلوک کا رویہ اختیارکرتا ہے۔
(4) امن پسندی۔ مسلمانوں نے ہزارسالوں تک اس دنیا کو چلایا۔ مسلمانوں کی قیادت میں دنیا پرامن بنی رہی لیکن جیسے ہی یہ دنیا مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل کرعیسائیوں کے ہاتھوں میں آئی تو دنیا کو 2 جنگ عظیم کا سا منا کرنا پڑا جس میں تقریباً 85 کروڑ لوگ مارے گئے،اوریہ جنگیں آج بھی جاری ہیں۔ مغرب (عیسائی دنیا) جنگ بڑھکانے میں تو مہارت رکھتا ہے لیکن جنگ کی آگ بجھانے سے اسے کوئی دلچسپی نہیں ۔ عراق، افغانستان، سیریا، فلسطین، وغیرہ میں آپ اس کی مثالیں دیکھ سکتے ہیں۔
عیسائی لیڈران یہ جانتے ہیں کہ اگر مسلمانوں اورعیسائیوں کے درمیان انٹریکشن بڑھا اوران کے درمیان نفرت کی دیوارگرا دی گئی توان کے بچے بوڑھے، جوان ، مرد عورتیں سب اسلام کی آغوش میں ہوں گے۔ یہاں میں آپ کو ایک مثال دوں گا۔
سیمون کولیزسعودی عرب میں برطانیہ کے سفیرہیں۔ انھوں نے 30 سال کا عرصہ مسلما نوں کے ساتھ گزارا۔ ایک مدت تک مسلمانوں کے برتائو اوران کے حسن سلوک سے متاثر ہوکرانھوں نے اسلام میں داخل ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ ستمبر  2016 میں وہ اچانک اپنی اہلیہ کے ساتھ حج کے لئے نکل پڑے اور وہاں پہنچ کر حالت احرام میں انھوں نے ٹیوٹ سے یہ اطلاع دی کہ وہ مسلمان ہوچکے ہیں۔ انھوں نے لکھا؛
God bless you. In brief: I converted to Islam after 30 years of living in Muslim societies and before marrying Huda,” he wrote.         
 " اللہ پاک آپ پررحم فرمائے۔ مختصریہ کہ میں اسلام میں داخل ہوچکا ہوں۔ میں مسلمانوں کے درمیان 30 سال رہا اس درمیان میں ان سے اس قدر متاثر ہواکہ ھدیٰ سے شادی سے قبل ہی اسلام میں داخل ہوگیا ۔"
یہ ہے انٹریکشن کی طاقت ۔ انٹریکشن قوموں کے درمیان نفرت کی دیواروں کو گرا دیتی ہے۔ اور یوروپی لیڈران انٹریکشن کی اسی طاقت سے خوفزدہ ہیں ۔اسی لئے وہ ہر طرف نفرت کی دیوارکھڑی کر رہے ہیں۔ کہیں پتھر کی دیوار، کہیں مسلک کی دیوار، کہیں مذہب کی دیوار، کہیں گورے کی دیوار کہیں کالے کی دیوار!
لیکن یہ دیواریں قدرتی نہی ہیں بلکہ مصنوعی ہیں۔ ان دیواروں کو خدا نے نہیں بنا یا بلکہ اسے خدا کی مرضی کے خلاف بنا یا گیا ہے اور جیسا کہ بائبل میں لکھا ہوا ہے؛ " جو پلانٹ میرے باپ نے نہیں لگا یا اسے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے گا۔"
Every plant that my heavenly Father has not planted will be rooted up."

جمعرات، 8 ستمبر، 2016


مسلمانان ہند یہ جاننے میں ناکام رہے کہ " کل کیا ہوگا، کل کے بعد کل کیا ہوگا، اگلے ہفتے کیا ہوگا ، اگلے مہینے کیا ہوگا اور اگلے سال کیا ہوگا۔"

محمد آصف ریاض
پچھلے دنوں مجھے ایک پروگرام میں بلا یا گیا۔ وہاں مجھ سے مسلم سیاست پربولنے کے لئے کہا گیا۔ ہم نے کہا کہ جمہوریت میں ہم مسلمان اورہندو سیاست کی بات نہیں کرسکتے، البتہ ہم سیاست کی بات کرسکتے ہیں۔ سب سے پہلے ہم نے سیاست کے بارے میں انھیں ونسٹن چرچل کا ایک قول سنایا ۔ چرچل نے کہا تھا :
 "سیاست اس اہلیت کا نام ہے کہ آدمی پیشگی طور پر یہ بتا سکے کہ کل کیا ہوگا، اگلے ہفتے اور اگلے مہینے اور اگلے سال کیا ہوگا، اور اگر کچھ نہ ہو تو آدمی میں یہ صلاحیت ہو کہ وہ یہ بتا سکے کہ کیوں نہیں ہوا۔"
Politics is the ability to foretell what is going what is going to happen tomorrow, next week next month and next year,and to have the ability to afterwards to explain why it did not happen”
Winston Curchill
کسی آدمی میں پیشگی طور پرچیزوں کو سمجھنے کی یہ صلاحیت کب پیدا ہوتی ہے؟ یہ صلاحیت اس وقت پیدا ہوتی ہے جبکہ اس کا مطالعہ بہت گہرا ہو، وہ چیزوں کوغیر جانبدار ہو کراعتدال پسندی کی نگاہ سے دیکھتا ہو، وہ ہر قسم کی کنڈیشننگ سے پاک ہو، وہ  اپنے ارد گرد کی دنیا کا گہرا ادراک رکھتا ہو، وہ انسانی نفسیات کو سمجھنے میں غلطی نہیں کرتا ہو، وہ تاریخی واقعات سے آشنا ہو، وہ جغرافیائی اور مذہبی حالات کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو، وہ لائن سے نکل کر بٹوین دی لائن، اور بیائونڈ دی لائن کا مفہوم سمجھتا ہو، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کے اندر 'جاگتے رہو' کی اسپرٹ موجود ہو۔
سیاست میں دوراندیشی کی بڑی اہمیت ہے۔ اسی سیاسی اہلیت کی کمی نے ملک میں مغل سلطنت کا خاتمہ کردیا، اسی سیاسی اہلیت کی کمی نے مسلمانوں کو اس ملک میں ایک ناچیز شئے بنا دیا ۔
مسلمانان ہند نے اپنی ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے تین ایسی غلطیاں کیں جس نے تاریخ کا رخ موڑ دیا۔ (1) پہلی غلطی انگریزوں کو کاروبارکرنے کی اجازت کی شکل میں۔ (2) دوسری غلطی 1857 کی بغاوت کی شکل میں۔(3) تیسری غلطی ملک کی تقسیم کی شکل میں۔
یہ تینوں غلطیاں مسلمانوں نے اس لئے کیں کیونکہ ان کے اندر یہ سمجھنے کی صلاحیت ختم ہوچکی تھی کہ" کل کیا ہوگا، کل کے بعد کل کیا ہوگا ، اگلے ہفتے کیا ہو گا ، اگلے مہینے کیا ہوگا، اور اگلے سال کیا ہوگا اور اس کے بعد کیا ہوگا۔"
انگریز ہندوستان میں
انگریزجب ہندوستان میں آئے تووہ فاتح کی شکل میں نہیں آئے تھے۔ وہ کاروباری کی شکل میں آئے تھے۔ انھوں نے یہاں مسلم حکمرانوں کی خوشامد کی اوراپنے لئے تجارت کے مواقع حاصل کئے، پھرانھوں نے مغل حکمرانوں سے اپنے لئے ٹیکس فری تجارت کا پروانہ حاصل کیا اوراس کے بعد انھوں نے رشوت کے ذریعہ گورنراورعلاقائی حکمرانوں کو خریدنا شروع کر دیا جو بعد میں مغل سلطنت کی تباہی کا سبب بنا۔ مغل حکمراں انگریز بیوپاریوں کی خوشامد سے اس طرح متاثرہوئے کہ وہ یہ جان نہ سکے کہ ان کے عزائم کیا ہیں، اورکل کیا ہونے والا ہے، اور جب جاگے تو وقت نکل چکا تھا۔
ایسٹ انڈیا کمپنی
ایسٹ انڈیا کمپنی نے 1623 تک سورت، احمد آباد، بھروچ، آگرہ اورموسولیپٹم میں اپنی فیکٹریاں قائم کرلیں تھیں۔ 1625 میں انھوں نے سورت میں واقع اپنی کمپنی کو قلعہ بند کرنا شروع کردیا جس پر مغل حکمراں بگڑ گئے اور فیکٹری کے چیف کو گرفتار کرلیا ۔  1639 میں کمپنی نے مدراس کے مقامی لیڈر کی ا جازت سے اپنی فیکٹری قائم کی اوراسے قلعہ میں تبدیل کرلیا۔ سترہویں صدی تک مدراس میں کمپنی پوری طرح آزاد ہوگئی ۔ 1633 میں ایسٹ انڈیا نے اڑیسہ میں پہلی فیکٹری قائم کی، انگلش کمپنی کو بعد میں بنگال کےھگلی میں فیکٹری کھولنے کا پروانہ ملا، پھر پٹنہ ، ڈھاکہ اور بنگال کے دوسرے علاقوں میں فیکٹریاں کھولی گیں۔ ملکی معیشت پرقبضہ کرنے کے بعد انگریزوں نے ملک پرحکومت کرنے کا عزم ظاہرکردیا تب مغل حکمراں اورنگ زیب سے ان کا ٹکرائو ہوا۔
اورنگ زیب نے  1686 میں انگریزوں سے لوہا لیا اورانھیں زبردست شکست دی۔ ان کی فیکٹریاں ضبط کرلیں اورانھیں مار کردوردرازکےعلاقوں میں بھگا دیا۔ سورت ، وشاکھا پٹنم ، مسولیپٹم میں ان کی فیکٹریاں ضبط کر لی گئیں اور ممبئی کے قلعہ کو ان سے چھین لیا گیا۔ مورخین لکھتے ہیں کہ انگریزوں نے مغل حکومت کی طاقت کا غلط اندازہ کر لیا تھا جب انھیں مغل حکومت کی اصل طاقت کا اندازہ ہوا تو انھوں نے ایک بار پھر "خوشامد اور خوش الفاظی" سے کام لینا شروع کرد یا اور معافی تلافی کے ساتھ کئی سالوں کے بعد پھر سے تجارت کا پروانہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اورنگ زیب  نے 150,000 کا معاوضہ وصول کرکےانھیں ایک بار پھر تجارت شروع کرنے کی اجازت دے دی۔
1691 میں انگریزوں کو   3000 روپے سالانہ کےعوض بنگال میں فیکٹری کھولنے کی اجازت دے دی گئی۔ مغلوں کی اس نااہلی کی قیمت نواب سراج الدولہ کو پلاسی کی جنگ 23 جون 1757میں چکانی پڑی جب وہ انگریزوں کے ہاتھوں بری طرح مار کھا گئے اوران کی شکست نے انگریزوں کے لئے پورے ملک کا دروازہ کھول دیا اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے اس ملک کےحکراں بن بیٹھے۔ ایک مورخ نے انگریزوں کی چالبازی اور مغلوں کی نا اہلی کا ذکران الفاظ میں کیا ہے۔:
"جب انگریزوں کو یہ ادارک ہوگیا کہ وہ فی الحال مغل امپائر سے ٹکر لینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں تو انھوں نے اپنا طرزعمل بدل لیا اوراب  خوشامد اور خوش الفاظی سےکام لینے لگے ۔ انھوں نے مغل حکمراںوں کے سامنے یہ عرضی داخل کی کہ "ان کے جرائم معاف کرد ئے جائیں"۔ مغل حکمراں نے انھیں معاف کردیا کیونکہ ان کے پاس یہ جاننے کی اہلیت نہ تھی کہ معصوم دکھائی دینے والے یہ کاروباری ایک دن ان کی حکومت کے لئے خطرہ بن جائیں گے۔"
 Having  discovered that they were not yet strong enough to fight with the Mughal power, the English once again became humble petitioners and submitted "that the ill crimes they have done may be pardoned."
Once again they relied on flattery and humble entreaties to get trading concessions from the Mughal Emperor. The Mughal authorities readily pardoned the English folly as they had no means of knowing that these harmless-looking foreign traders would one day pose a serious threat to the country.
1857 کی بغاوت
اب جبکہ مغل حکمرانوں کو شکست دے کر انگریزاس ملک کے حکمراں بن چکے تھے مسلمانوں نے نا حق اور نا عاقبت اندیشی کے طور پر ان نئے حکمرانوں کے خلاف بغاوت کر دی۔ ایک بار پھر مسلمان یہ جاننے میں ناکام رہے کہ جہاں ان کے حکمراں اورلائو لشکر ہارگئے، وہاں وہ محض عوامی بھیڑ کےبل پرکس طرح جیت سکتے ہیں۔ نتیجہ کے طور پر انگریزوں نے انھیں بری طرح کچل دیا، ان کی جاگیریں چھین لی گئیں ، ان کی جائدادیں ضبط کر لی گئیں ، انھیں نوکری سے نکال دیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کے بہترین دماغ قتل کردئے گئے۔ کہا جا تا ہے کہ اس بغاوت میں 70 ہزار سے زیادہ علما قتل کر دئے گئے تھے۔ بغاوت سے پہلے مسلمان یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ ان کی یہ بغاوت کیا نتیجہ لائے گی۔ 1857 کی اس شکست نے مسلمانوں کو معاشی ، سیاسی ، سماجی اور تعلیمی ، ہر لحاظ  سے توڑ کر رکھ دیا۔ اب وہ اس پوزیشن میں بھی نہیں رہے کہ وہ انگریزوں کے ساتھ کوئی بارگنینگ کرسکیں۔ اپنی ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے اپنی بارگیننگ کی طاقت بھی کھو دی اور انگریزوں پر ان کا جو رعب طاری تھا وہ بھی ختم ہوگیا۔ اس سلسلے میں مزید جانکاری کے لئے پڑھئے سرسید احمد خان کی کتاب "اسباب بغاوت ہند" ۔
آزادی ہند
1947 میں جبکہ انگریزوں کا ملک سے جانا طے ہوگیا تو مسلمانوں نے ایک بار پھرتاریخی غلطی دہرائی ۔ وہ غلطی ملک کی تقسیم کی غلطی تھی۔ مسلمانوں کے سچے لیڈرمولانا ابوالکلام نےانھیں خبردارکیا کہ اگرملک بٹ گیا تو ہندوستانی مسلمان ایک ناچیز اقلیت بن کررہ جائیں گے۔ لیکن لوگوں نے آزاد کی جگہ جناح کو ترجیح دی اورنتیجہ سب کے سامنے ہے۔ مزید جانکاری کے لئے پڑھئے مولانا آزاد کی سوانح  India Wins Freedom ))
مسلمانوں کو یہ جاننا چاہئے کہ تاریخی غلطیوں کا حل سیاسی شور و غاغا میں نہیں ہے۔ تاریخی غلطیوں کا حل اس فراست میں ہے جس کے ذریعہ آدمی یہ جان سکے کہ " کل کیا ہوگا ، کل کے بعد کل کیا ہوگا، اگلے ہفتے کیا ہوگا، اگلے مہینے کیا ہوگا، اگلے سال کیا ہوگا اور اس کے بعد کیا ہوگا۔"
یہ فراست کسی انسان یا قوم میں اس وقت پیدا ہوتی ہے جبکہ اس کے اندرعلم کا غلغلہ ہو ۔ اگر مسلمان یہ چاہتے ہیں کہ وہ ایک بار پھر سر بلند ہوں، تو انھیں سر سید احمد خان کے لفظوں میں  سب سے پہلے " علم کے خزانوں " پر قبضہ کرنا چاہئے۔ 

پیر، 5 ستمبر، 2016

پوپ فرانسس نے دیوار پر لکھی تحریر کو پڑھنے میں غلطی نہیں کی ہے

پوپ فرانسس نے دیوار پر لکھی تحریر کو پڑھنے میں غلطی نہیں کی ہے!

محمد آصف ریاض

ترکی کے صدر رجب طیب اردوگان نے جب 26 اگست 2016 کو یاووزسلطان سلیمان پل  Yavuz Sultan Selim Bridge  کا افتاح کیا تو وہ منظردیکھنے کے لائق تھا۔ وہ اپنے قافلہ کے ساتھ ایشیا سے یوروپ کےاندراس انداز میں داخل ہوئے جیسے کوئی فاتح اپنے مفتوحہ علاقے میں داخل ہوتا ہے۔
آبنائے باسفورس پرتعمیر ہونے والا یہ پل دنیا کا سب سے بڑا پل مانا جا رہاہے۔ 29 مئی 2013 کو اس پل کی تعمیرکا کام شروع ہوا تھا جسے 26 اگست 2016 کو مکمل کر لیا گیا۔
سلیمان یاووز پل دنیا کا  سب سے زیادہ چوڑا اور اونچا پل ہے، اس میں آٹھ ہائی ویز اور دو ریلوے لائنس ہیں۔ 3 بلین ڈالر سے تعمیر کیا گیا یہ  پل صرف ایک پل نہیں ہے بلکہ یہ دو براعظموں ایشا اور یوروپ کا ملن ہے۔ اور یوروپ اس پل کی تعمیر سے قطعی خوش نہیں ہے۔ وہ اسے اپنے لئے ایک خطرہ محسوس کررہا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ اگراسی طرح پل اور سڑکیں تعمیر کرکے ایشیا کو یوروپ سے جوڑ دیا گیا تو ان کا اپنا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ چنانچہ اہل یوروپ ان دنوں اپنے ارد گرد دیوارکھڑی کر کے اپنے آپ کو محصور کرنے میں مصروف ہیں۔  یوروپ میں ان دنوں کوئی پل یا کوئی سڑک تعمیر نہیں کی جا رہی ہے وہاں صرف دیواریں کھڑی کی جا رہی ہیں۔
حال ہی میں واشنگٹن پوسٹ نے ایک اسٹوری کی ہے۔ اس اسٹوری میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح یوروپ اپنےآپ کودیواروں کے درمیان محصورکررہاہے۔ اس اسٹوری کی سرخی یہ ہے۔
Europe is building more fences to keep people out
اسٹوری میں بتایا گیا ہے کہ ہنگری، آسٹریا، سلووینیا،  بلغاریہ ، یونان، یوکرین اور اسٹونیا میں باہر سے آنے والوں کو روکنے کے لئے دیواریں کھڑی کی جا رہی ہے۔ یہاں تک کہ فرانس اوربرطانیہ میں بھی دیواریں کھڑی کی جا رہی ہیں اور حد تو یہ ہے کہ ایک جرمن پولیس آفیسر نے جرمنی میں بھی دیوار تعمیر کرنے کی تجویز پیش کی تھی جسے مارکل نے مسترد کردیا ۔  مضمون نگار نے اس بات پر اپنی گہری تشویش کا ظاہر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ  1989 میں جب برلن کی دیوار گرا دی گئی تھی توایسا محسوس کیا گیا تھا کہ یوروپ اب کوئی دیوارتعمیر نہیں کرے گا۔ تاہم چیزیں اس کے برعکس ہوتی نظر آرہی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ امریکہ بھی اپنے یوروپی برادران کے نقش قدم پر چل پڑا ہے۔ امریکہ کے صدارتی امیدوار ٹرمپ نے ایک انتخابی جلسہ میں یہ کہہ کردنیا کو چونکا دیا کہ اگروہ صدرمنتخب ہوئے تو میکسیکو اور امریکہ کے درمیان دیوارکھڑی کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں کریں گے۔  
یہ بھی ایک عجیب بات ہے کہ ایک طرف اہل مغرب اپنے ارد گرد دیوارتعمیر کرنے اوراپنے آپ کو دیواروں کے اندر محصور کرنے میں مصروف ہیں، وہیں دوسری طرف عالم اسلام میں ایک اورقسم کی سرگرمی جا ری ہے۔ وہاں بڑے بڑے پل ، کشادہ  سڑکیں، ہائی ویز، ہوائی اڈے ، اسکول ، کالج ، اسپتال اورشاپنگ مالز تعمیر کئے جا رہے ہیں۔
مثلاً ترکی استنبول میں دنیا کا سب سے بڑا ہوائی اڈہ تعمیر کررہا ہے، اسی کے ساتھ وہ ترکش اسٹریم پائپ لائن پروجکٹ پربھی کام کررہاہے، جس کے ذریعہ روس سے بذریعہ ترکی  یوروپ کو گیس اورتیل فراہم کرایا جائے گا۔ دبئی دنیا کا عظیم تجارتی مرکزبن چکا ہے۔ پاکستان پاک چین اقتصادی راہداری کی تعمیر میں مصروف ہے۔ اس راہداری کے ذریعہ کاشغر (چین) کو گوداور( پاکستان) سے ریلوے اور موٹر ویز کے ذریعہ جوڑ دیا جائے گا۔ واضح ہوکہ گوداورسے کاشغرتک کی دوری تقریباً 2442 کلومیٹرہے۔ اس منصوبہ پرکل 46 بلین ڈالرلاگت کا اندازہ ہے۔ اس راہداری کو  CPEC یعنی چین پاک اکانومک کاریڈوربھی کہا جا تا ہے۔ اس منصوبہ کے ذریعہ چین 'ون بلٹ ون روڈ' کے اپنے منصوبہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتا ہے۔
ترکی اور پاکستان کی طرح سعودی عرب میں بھی معاشی اور تجارتی سرگرمیاں تیزترہوگئی ہیں ۔ اسی سال اپریل 2016 میں سعودی عرب کے شاہ سلمان بن عبد العزیز نے قاہرہ مصرکا دورہ کیا اوراپنے اس دورے میں انھوں نے سعودی عرب اور مصر کے درمیان بحیرہ احمرRed See  پر ایک پل تعمیر کر نے کا اعلان کیا۔ اپنے اعلان میں انھوں نے کہا  : "
"دوبرے اعظموں، ایشیا اورافریقہ کو جوڑنے کا یہ تاریخی قدم ہے، سعودی عرب اور مصر کے اس تاریخی قدم سے دونوں براعظموں کے درمیان تجارتی سر گرمیاں تیز تر ہوجائیں گی۔"
۔"This historic step to connect the two continents, Africa and Asia, is a qualitative transformation that will increase trade between the two continents to unprecedented levels."  
مغرب کے برعکس عالم اسلام میں جس قسم کی سرگرمیاں جاری ہیں اس کا عیسائیوں کے مذہبی پیشوا پوپ فرانسس نے بر وقت نوٹس لیا ہے۔  اپنے ایک بیان میں انھوں نے عیسائی دنیا کو خبردارکرتے ہوئےکہا ہے " دیواریں کھڑی کرنا انجیل کی تعلیمات میں سے نہیں ہے۔"
ایک انگریزی اخبارنے پوپ کے اس بیان کوان الفاظ میں نقل کیا ہے۔:
Pope Francis questions Donald Trump's Christianity, says border wall not from Gospel"
ایسا لگتا ہے کہ پوپ فرانسس عیسائی دنیا میں پہلے اورآخری انسان ہیں جنھوں نے دیوار پرلکھی تحریر کو پڑھنے اور سمجھنے میں کوئی غلطی نہیں کی ہے اورصورت حال کا بروقت نوٹس لیا ہے، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ عیسائیوں کے سیاسی لیڈران دیوار پرلکھی اس تحریر کو پڑھنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں یا نہیں!

بدھ، 31 اگست، 2016

اونٹ سوئی کے ناکے سے گزر سکتا ہے لیکن مالدار خدا کی جنت میں داخل نہیں ہوگا


اونٹ سوئی کے ناکے سے گزر سکتا ہے لیکن مالدار خدا کی جنت میں داخل نہیں ہوسکتا

محمد آصف ریاض


انجیل میں ہے کہ ایک شخص نے مسیح سے پو چھا؛ استاذ مجھےبتا ئیے کہ وہ کون سے بھلے کام ہیں جن کے ذریعہ میں ہمیشگی کی زندگی پالوں؟

مسیح نے جواب دیا یہی کہ " قتل نہ کرو، زنا اور بدکاری سے بچو، چوری نہ کرو، جھوٹی گواہی سے بچو، اور یہ کہ اپنے ماں باپ کا احترام کرو، اور اپنے پڑوسیوں سے اسی طرح سلوک کرو جس طرح کا سلوک تم خود اپنے ساتھ کرتے ہو ۔"

“‘Do not murder, do not commit adultery, do not steal, do not bear false witness, honor your father and mother, and love your neighbor as yourself.

یہ سن کر اس شخص نے جواب دیا؛ استاذ، یہ وہ کام ہیں جو میں پہلے سے ہی کرتا ہوں! تب مسیح نے کہا کہ جائو، جو کچھ تمہارے پاس ہے انھیں خدا کی راہ میں خرچ کردو۔ یہ سن کر وہ شخص بہت اداس ہوا اور اداسی کے ساتھ اٹھ کر وہاں سے چلا گیا کیونکہ اس کے پاس بہت سا مال تھا۔ 

تب مسیح نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ دیکھو میں کہتا ہوں " مالدارکا خدا کی جنت میں داخلہ بہت مشکل ہے۔ دیکھو؛ میں پھر کہتا ہوں کہ ایک اونٹ سوئیں کے ناکے سے گزر سکتا ہے، لیکن مالدار خدا کی جنت میں داخل نہیں ہو سکتا۔"

23Then Jesus said to His disciples, “Truly I tell you, it is difficult for a rich man to enter the kingdom of heaven. 24Again I tell you, it is easier for a camel to pass through the eye of a needle than for a rich man to enter the kingdom of God.” 

انجیل میں یہ الفاظ پڑھ کر مجھے حیرانی ہوئی ۔ مجھے لگا کہ مالدار ہونا سب سے بڑا گناہ ہے۔ اورکسی شخص کے غیر جنتی ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ مالدار ہے۔ یہ بات مجھے سمجھ میں نہیں آرہی تھی کہ آخر مالدار ہونا اتنا بڑا گناہ کیوں ہے کہ ایک "اونٹ تو سوئی کے ناکے سے گزر سکتا ہے لیکن مالدارخدا کی جنت میں داخل نہیں ہو سکتا"! بہت غورو خوض کے بعد میں ایک نتیجے پر پہنچا۔

انجیل میں جو بات بیان ہوئی ہے بلا شبہ الفاظ کے اعتبار سے وہ ایک پر اسرار بات معلوم پڑتی ہے لیکن اپنی روح کے اعتبار سے وہ حقیقت پر مبنی ایک بیان ہے۔ وہ حقیقت واقعہ کا ایک تمثیلی اعلان ہے۔

سب جانتے ہیں کہ کوئی شخص خود بخود مالدار نہیں ہوجاتا۔ مالدار بننے کے لئے آدمی کو بہت زیادہ مشقت کر نی پڑتی ہے۔ مالداری کےحصول کے لئے آدمی کو رات دن محنت کرنی پڑتی ہے۔ جب کوئی شخص اپنا تن من دھن لگا دیتا ہے تب جاکر وہ صورت پیدا ہوتی ہے جسے ہم مالداری کہتے ہیں۔

اب ذرا غور کیجئے؛ آدمی کے پاس محدود توانائی ہے۔ اس کے پاس سوچنے سمجھنے کے لئے ایک ہی دل اور دماغ ہے۔ آدمی اگر ایک کام کرے تو وہ دوسرا کام نہیں کر سکتا، آدمی اگر ایک بات سوچے تو اسی وقت وہ دوسری بات نہیں سوچ سکتا۔ انسان کی اس محدودیت کا اعلان قرآن میں ان الفاظ میں ہوا ہے" خدا نے کسی سینے میں دو دل نہیں رکھا"۔

آدمی کے پاس محدود وسائل ہوتے ہیں ۔ اب اگر کوئی شخص اپنےسارے وسائل کو دنیا کی طلب پر صرف کردے تو ظاہر ہے کہ اس کے پاس جنت کے حصول کے لئے کوئی اثاثہ نہیں بچے گا، تب خود بخود وہ صورت پیدا ہوگی جو کسی شخص کو جنت سے محروم کردے گی۔ اسی صورت حال کا اظہار انجیل میں ان الفاظ میں ہوا ہے کہ "اونٹ سوئی کے ناکے سے گزر سکتا ہے لیکن مالدارخدا کی جنت میں داخل نہیں ہو سکتا"!

قرآن میں اسی بات کا اعلان ان الفاظ میں ہوا ہے

بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا ﴿١٦﴾ وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ ﴿١٧﴾

"مگر تم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت بہتر ہے اور باقی رہنے والی ہے۔"

أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ ﴿١﴾ حَتَّىٰ زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ ﴿٢﴾

"زیادتی کی چاہت نے تمہیں غافل کردیا یہاں تک کہ تم قبرستان جا پہنچے"

آدمی اگر دنیا سے دل لگا لے اور اسی کے بارے میں سوچے اور محنت کرے تو یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ آدمی جنت کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہے، اور جو شخص جنت کے بارے میں سنجیدہ نہ ہو جو اس کے لئے مشقت نہ اٹھائے اسے جنت ملنے والی نہیں ہے۔ 

انجیل کے اس بیان کو آپ انجیل کے ایک دوسرے بیان سے سمجھ سکتے ہیں۔ انجیل میں ہے:

"No one can serve two masters. Either you will hate the one and love the other, or you will be devoted to the one and despise the other. You cannot serve both God and money.
Matthew 6:24

"کوئی بھی شخص اپنے دو مالکان کو خوش نہیں کر سکتا۔ یا تو تم ایک سے نفرت کرو گے اور دوسرے سے محبت؛ یا تم ایک کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دو گے اور دوسرے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھو گے۔ تم خدا اور مال دونوں سے محبت نہیں کر سکتے۔"

منگل، 16 اگست، 2016

زندگی دھارے سے نہیں، بھائی چارے سے چلتی ہے

زندگی دھارے سے نہیں، بھائی چارے سے چلتی ہے

محمد آصف ریاض

ایک روز میں ایک وکیل کے گھرٹھہرا، تو دیکھا کہ گھر والوں کے درمیان ان کے معاملات ٹھیک نہیں ہیں۔ وہ باہر جیتے ہوئے انسان معلوم پڑتے تھے لیکن گھر والوں میں وہ ہارے ہوئے انسان معلوم پڑ رہے تھے۔ میں نے بہت غور کیا کہ ایسا کیوں ہے کہ ایک شخص جو دوسروں کے معاملات ٹھیک کرانے کی گارنٹی لیتا ہے، وہ خود اپنے معاملات میں بے ٹھیک بنا ہوا ہے؟
مجھے تجسس ہوا۔ میں نے یہ جاننا چاہا کہ ایک کامیاب وکیل اپنے گھر والوں میں ناکام کیوں ہے؟ وہ جو باہر سب کے معاملات ٹھیک کرانے کی گارنٹی لیتا ہے، وہ اپنے معاملات میں اس قدر بےٹھیک کیوں ہے؟
اس حقیقت کے ادراک کے لئے میں نے ایک اور وکیل سے ملاقات کی ۔ میں اس کے گھر ٹھہرا تو دیکھا کہ گھروالوں اوراحباب کے درمیان اس کے معاملات بہت بہتر ہیں۔ میں سوچنے لگا کہ ایسا کیوں ہے کہ ایک وکیل اپنے گھر والوں میں ہارا ہوا، انسان معلوم پڑتا ہے اور دوسرا جیتا ہوا انسان۔
تھوڑی تحقیق کے بعد پتہ چلا کہ پہلا وکیل ہرچیزکو قانون کی نگاہ سے دیکھتا ہے، وہ ہر چیز میں 'دھارا' تلاش کرتا ہے جبکہ دوسرا وکیل ہرمسئلہ کا عملی (pragmatic)  حل چاہتا ہے۔
دوسرے وکیل کی کامیاب زندگی کا رازاس حقیقت کے ادراک میں پوشیدہ تھا: " زندگی دھارے سے نہیں ، وہ محبت، حسن سلوک، اور بھائی چارے سے چلتی ہے۔"
اسی بات کوایک معروف امریکی مفکرمارک ٹیون نے ان الفاظ میں سمجھانے کی کوشش کی ہے:
" کمترانسان قانون کے ذریعہ قابو میں کیا جا تا ہے، جبکہ برتر لوگ حسن سلوک سے جیتے جاتے ہیں" مارک ٹیون
Laws control the lesser man... Right conduct controls the greater one.”

ہفتہ، 13 اگست، 2016

آخر کار خدائی عذاب کا کوڑا برسا

آخر کار خدائی عذاب کا کوڑا برسا

محمد آصف ریاض

تیرہویں صدی میں جب مسلمان ان عیسائی ممالک میں داخل ہوئے جنھیں آج یوروپ کہاجا تا ہے تو اس وقت وہاں کے حالات کیا تھے؟ یوروپ میں اس وقت کے حالات کو جاننے کے لئے ایک روسی مبصر کا تبصرہ پڑھئے۔
 اس تبصرہ کو پروفیسرتھامس آرنالڈ نےاپنی کتاب دی اسپریڈ آف اسلام (Spread of Islam in the world) میں ان الفاظ میں نقل کیا ہے۔
" قانون کے خوف کے بغیر کسی سلطنت کی حالت اس گھوڑے کی طرح ہے جو بے لگام ہو۔ قسطنطین اوراس کےاسلاف نے اپنے امرا اور رئوسا کو اس بات کی کھلی چھوٹ دے رکھی تھی کہ وہ رعایا کو دبائیں اور ان کا استحصال کریں، ان کی عدالت میں انصاف نام کی کوئی چیزنہیں تھی۔ ان کے قلوب عزم اور حوصلے سے خالی تھے۔ ان کے ججوں کا حال یہ تھا کہ وہ بے گناہوں کے خون پسینہ کی کمائی پراپنا خزانہ بھرتے تھے۔ یونانی فوج صرف اپنی پوشاک میں عظیم الشان نظرآتی تھی۔ عوام اپنی حکومت سے بغاوت کرنے میں ذرا بھی شرم محسوس نہیں کرتےتھے۔ فوجیوں کا حال یہ تھا کہ وہ میدان جنگ سے بھاگنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتے تھے۔ آخرکاران نا اہل حکمرانوں پرخدانےعذاب کا کوڑا برسایا اور محمد کواٹھا جن کے سپاہ  میدان جنگ میں مسکراتے تھےاور جن کی عدالت میں انصاف کا خون نہیں بہا یا جا تا تھا۔      
   “ Without the fear of the law an empire is like a steed without reins. Constantine and his ancestors allowed their grandees oppress the people, there was no more justice in their law courts, no more courage in their hearts,  the judges amassed treasures from the tears and blood of the innocent,  the Greek soldiers   were proud only of the magnificent of their dresses. The citizens did not blushed of being traitors , the soldiers were not ashamed to fly.
At length  the Lord poured out  his thunder on these unworthy rulers, and raised up Mohammad whose warriors delight in battle, and whose judges do not betray  their trust.”
Spread of Islam in the world : page No 148   

اب جبکہ یوروپی طاقتیں مسلم دنیا میں داخل ہوچکی ہیں تو وہاں کے حالات جاننے کے لئے روسی وزیر اعظم دیمتری میدودیوکا یہ تبصرہ پڑھیں۔
روسی وزیراعظم دیمتری میدودیو نے 12 فروری 2016 کو ایک اخبار کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہا: " اس طرح کی جنگ میں فوری کامیابی ناممکن ہے۔ خاص طور سےعرب دنیا میں جہاں ہر شخص ہر شخص کے خلاف لڑ رہا ہے۔"


“It would be impossible to win such a war quickly, especially in the Arab world, where everybody is fighting against everybody."

تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ جب مسلمان اچھے تھے تو ان کے حالات بھی اچھے تھے، جب وہ یہود اور نصاریٰ کی طرح بگڑ گئے تو ان کے حالات بھی بگڑ گئے۔ روسی مبصر کے الفاظ میں " آخر کار ان نا اہل حکمرانوں پرخدائی عذاب کا کوڑا برسا"۔ حقیقت ہے کہ آدمی ہمیشہ اپنے اعمال کا ہی نتیجہ پاتا ہے جب مسلمانوں کے اعمال بھلے تھے تو اس کے نتائج بھی بھلے تھے جب ان کے اعمال بگڑ ے تو نتائج بھی بگڑ گئے۔ ٹھیک کہا گیا ہے جیسا عمل ویسا نتیجہ!  

جمعرات، 11 اگست، 2016

یہ پتھر کے ہاتھی ہیں جو بیٹھ جاتے ہیں تو کبھی اٹھتے نہیں

یہ پتھر کے ہاتھی ہیں جو بیٹھ جاتے ہیں تو کبھی اٹھتے نہیں
محمد آصف ریاض
دسمبر2015 کو ہندوستان ٹائمزلیڈرشپ سمٹ میں این ڈی ٹیوی کی صحافیہ برکھا دت نے ملائم سنگھ یادوکے بیٹے اوراتر پردیش کے وزیراعلیٰ جناب اکھلیش یادوکا انٹرویولیا۔ انھوں نے مسٹریادو سے پوچھا کہ کیا آپ بھی بہارکی طرح مایا وتی کے ساتھ کوئی اتحاد قائم کرسکتے ہیں؟
جناب اکھلیش یادو نے برکھا دت کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ " مایا وتی کے ساتھ کوئی سمجھوتہ کس طرح ہو سکتا ہے؟ ان کی پسند یہ ہے کہ شہرمیں ہر طرف پتھرکے ہاتھی لگ جائیں۔ وہ ہر طرف ہاتھی لگا رہی ہیں۔ ان ہاتھیوں کا حال یہ ہے کہ " جوکھڑے ہیں وہ کبھی بیٹھے نہیں، اورجو بیٹھے ہیں وہ کبھی کھڑے نہیں ہوئے۔"
ہاتھیوں سے متعلق اکھلیش یادو کا جواب سن کرسا معین ہنسنے لگے اورانھوں نے خوب تالیاں بجائیں۔ درحقیقت اکھلیش یادو یہ کہنا چاہ رہے تھےکہ مایاوتی کوریاست کی ترقی سے کوئی مطلب نہیں ہے،انھیں صرف ہاتھی لگانے سے مطلب ہے اوروہ بھی پتھر کے ہاتھی، جو کسی کام کے نہیں ہوتے۔
یہ تو ہوا یوپی کے اکھلیش یادوکا بیان، اب ذرا گجرات کے ہاردیک پٹیل کا بیان لیجئے۔ ہاردک پٹیل نے اپنے ایک بیان میں  وزیراعظم مودی پرنشانہ سادھتے ہوئے کہا کہ " پھترکے پٹیل بناتے ہو، ذرا دیکھو کہ پٹیل دل میں بھی کہیں بستا ہے؟"
اکھلیش یادواورہاردیک پٹیل کا بیان سن کرمیں سوچنے لگا کہ آدمی سیاسی باتوں کی وضاحت میں کتنا ہوشیارہے۔ وہ اپنی بات کہنے کےلئے ٹھیک وہی الفاظ چن لیتا ہے جوحقائق سے بالکل قریب ہوں۔ لیکن وہی آدمی الہامی سچایوں کے ادراک میں ایسا بودا بن جاتا ہے جیسے اسے کوئی سمجھ ہی نہ ہو۔
مثلا اگرآپ ان سے پوچھیں کہ یہ بت جنھیں آپ پوجتے ہیں ان کا معاملہ بھی تو پھتر کے ہاتھیوں جیسا ہے، جھنیں ایک بار بیٹھا دیا جائے تو وہ کبھی کھڑے نہیں ہوتے، اورجنھیں کھڑا کردیا جائے تو وہ کبھی بیٹھتے نہیں تو پھر وہ دیوتا کس طرح ہوسکتے ہیں؟ وہ پھتر کی مورتیں قابل پرستش کس طرح ہو سکتی ہیں؟
اس قسم کے سوال پرآپ بہت ہوشیارآدمی کو بھی بہت بودا پائیں گے۔ کیوں ؟ اس لئے کہ آدمی وہی سمجھتا ہے جو اس کا کنسرن ہو، چونکہ انسان کا کنسرن دنیا ہے اس لئے وہ دنیا کی باتوں کو خوب سمجھ لیتا ہے، وہ آخرت کی باتوں کو نہیں سمجھ پاتا کیونکہ وہ اس کا کنسرن نہیں ہے۔
آدمی کا حال یہ ہے کہ وہ آسمان دیکھ کربتا دیتا ہے کہ آج بارش ہوگی، اوربارش ہوتی ہے، وہ ہوائوں کے رخ کو دیکھ کربتا دیتا ہے کہ آج گرمی پڑے گی، اورگرمی پڑتی ہے۔ آدمی اپنی سمجھ کےاعتبارسے اتنا ہوشیارہے کہ وہ آسمان و زمین میں چھپی سچائیوں کوسمجھنے میں ذرا بھی دیرنہیں کرتا، لیکن وہی آدمی آخرت کی کھلی نشانیوں کوسمجھنے میں ایسا بودا بن جا تا ہے، جیسے اسے کوئی سمجھ ہی نہ ہو۔       
کاش انسان جانتا کہ فیصلے کے دن انسان اپنے علم کی کمی کے لئے خدا کے آگے جواب دہ نہیں ہوگا، بلکہ وہ خدائی معاملات میں اپنی غیرسنجیدگی کے لئے پکڑا جائے گا۔ 

بدھ، 22 جون، 2016

خدایا، مجھے ناخلف جانشینوں میں سے نہ بنانا اور مجھے شہوات دنیا سے بچانا


خدایا،  مجھے ناخلف جانشینوں میں سے نہ بنانا اورمجھے شہوات دنیا سے بچانا
محمد آصف ریاض
آج 21 جون 2016 ہے، اوررمضان کی 15 ویں تاریخ ۔ آج رات 3 بجے نیند ٹوٹی تو صوم کی نیت سے سحری کھالی۔ سحری کے بعد بسترپرلیٹ گیا۔ نیند آرہی تھی چنانچہ بسترپرلیٹا رہا۔ اسی درمیان قریب کی ایک مسجد سے اذان کی آوازآئی۔ موذن پکار رہا تھا حی علی الصلواۃ، آئو نماز کی طرف ، حی علی الفلاح آئو کامیابی کی طرف، الصلات خیرمن النوم، یعنی نمازنیند سے بہتر ہے۔
موذن کی پکار مسلسل کانوں میں گونج رہی تھی لیکن میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں بسترسے نہ اٹھو ں اور نماز کو جانے دوں۔ مجھے نیند آرہی تھی اور دل سونا چاہ رہا تھا۔
میں بستر پربدستورپڑارہا، اسی درمیان قرآن کی سورہ مریم کی ایک آیت یاد آگئی۔ اس آیت میں حضرت اسماعیل اورحضرت ادریس کا ذکرہوا ہے اورانھیں نبی اور رسول بتا یا گیا ہے اوربتا یا گیا ہے کہ وہ اپنے گھروالوں سے کہتے تھے کہ " نماز پڑھو اورزکاۃ دو۔"
"اورکتاب میں اسماعیل کا ذکرکرو، وہ وعدے کا سچا تھا اوررسول نبی تھا۔ وہ اپنے گھر والو سے کہتا تھا نماز پڑھو اور زکاۃ دو،وہ اپنے رب کے نزدیک پسندیدہ انسان تھا، اور کتاب میں ادریس کا ذکر کرو وہ ایک سچا انسان اورنبی تھا اوراسے ہم نے بلند مقام پراٹھا یا تھا۔" 19: 55 – 1957))
قرآن میں ان معززانبیا کی تعریف کے بعد بتا یا گیا ہے کہ " پھران کے بعد نا خلف لوگ ان کے جانشین ہوئے جنھوں نے نمازوں کو ضائع کیا اور خواہش نفس کی پیروی کی؛ توعنقریب وہ اپنے کئے کا مزا چکھیں گے۔" (19:59)
فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ ۖ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا
قرآن کی یہ آیت کہ " پھران کے بعد نا خلف لوگ ان کے جانشین ہوئے جنھوں نے نمازوں کو ضائع کیا اور خواہش نفس کی پیروی کی؛ توعنقریب وہ اپنے کئے کا مزا چکھیں گے "۔  جب میرے ذہن میں یہ آیت آئی  تو میری آنکھیں کھل گئیں اورمیں اندر سے سہم گیا۔ یہ آیت ایک قسم کی خدائی وارننگ تھی۔ اس واضح خدائی وارننگ کے بعد میں نماز چھوڑنے کا تحمل نہیں کرسکا۔ میں سوچنے لگا کہ نماز نہ پڑھنا بلا شبہ ایک گناہ ہے لیکن نماز سے متعلق واضح خدائی احکام کے با وجود نماز کو ترک کردینا گویا گناہ کے اوپرسرکشی کا اضافہ ہے اورخدا گناہ کومعاف کردیتا ہے لیکن وہ سر کشی کو کبھی معاف نہیں کرتا۔
میں خاموشی سے بستر سے اٹھا اورمسجد کے لئے روانہ ہوگیا۔ نماز پڑھی اورنمازکے بعد خدا سے یہ دعا کی : خدایا، مجھے نا خلف جا نشینوں میں سے نہ بنا نا، اورمجھے شہوا ت دنیا سے بچانا۔