جمعرات، 12 دسمبر، 2013

Maulana and Gandhi ji


مولانا آزاد اور گاندھی جی


محمد آصف ریاض
1942 میں جب کرپس مشن ناکام ہوگیا اور ملک پرجاپانی حملے کاخطرہ منڈلا نےلگا تو برٹش حکومت کو ہندوستانیوں کی طرف سے تشویش لاحق ہوئی۔ برٹش حکومت چاہتی تھی کہ ہندوستانی جاپان کے خلاف لڑیں۔
جاپان کے خلاف لڑائی میں برٹش حکومت ہندوستانیوں کی کھلی اورغیر مشروط حمایت چاہتی تھی۔ لیکن مولانا ابولکلام آزاد نے جواس وقت انڈین نیشنل کانگریس کے صدرتھے ہندوستان کی حمایت کوسوراج سے جوڑدیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ جب تک ہندوستان کو پوری آزادی نہیں مل جاتی تب تک ہندوستان اس جنگ میں برٹش حکومت کا ساتھ نہیں دے گا۔
اس معاملہ میں گاندھی جی کا نظریہ مولانا اورجواہرلال کے برخلاف تھا۔ گاندھی جی سرے سے جنگ کے مخالف تھے۔ گاندھی جی کے برعکس مولانا اورجواہر لال کا ماننا تھا کہ آزادی اورجمہوریت کے لئے کوئی بھی قیمت چکائی جا سکتی ہے یہاں تک کہ جنگ کی قیمت بھی۔
تاہم کرپس مشن کی ناکامی کے بعد جب برٹش حکومت اورکانگریس کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہوسکا تو مولانا ابولکلام آزاد کو یہ اندازہ ہوگیا کہ جنگ ناگزیر ہوچکی ہے اورجاپان کسی بھی وقت ہندوستان پرحملہ کرسکتا ہے، چنانچہ ہندوستان کو ایسی حالت میں ہاتھ پرہاتھ  دھر کر نہیں بیٹھنا چاہئے۔ ان کا ماننا تھا کہ جاپان چاہے گا کہ بنگال پر قبضہ کر لے اور اگر جاپان یہ کرنے میں کامیاب ہوگیا تو پھر صورت حال یہ ہوگی کہ ایک مالک کی رخصتی کے بعد ہندوستان کے سر پر دوسرا مالک مسلط ہوجائے گا جو پہلے سے زیادہ جریح طاقتور اور نقصاندہ ہوگا۔
"میں سمجھتا تھا کہ یہ بات ناقابل برداشت ہوگی کہ پرانے مالکوں کو نئے مالکوں سے بدل لیا جائے۔ در اصل یہ ہمارے مفادات کے لئے کہیں زیادہ نقصان دہ ہوگا اگر ایک نئے اور تازہ دم فاتح نے اس پرانی حکومت کی جگہ لے لی، جو وقت کے ساتھ ساتھ مضمحل ہوچکی تھی اور جس کی گرفت بتدریج کمزور پڑ رہی تھی ۔ مجھے یقین تھا کہ جاپانیوں کی جیسی ایک نئی شہنشایت (امپریلزم) کو نکال کر باکرنا کہیں زیادہ دشوار ہوگا۔" (آزادی ہند ، مولانا ابوالکلام، 97)
مولانا نےاس صورت حال سے نبرد آزما ہونے کے لئے ایک  منصوبہ بنا یا تھا۔ ان کا منصوبہ یہ تھا کہ اگر جاپانی فوج حملہ آور ہوتی ہے اور برٹش فوج پیچھے ہٹتی ہے تو کانگریس آگے بڑھ کر ملک کے کنٹرول پر قبضہ جمالے گی۔ مولانا کے لفظوں میں:
"میرے ذہن میں یہ اسکیم تھی کہ جیسے ہی جاپانی فوج بنگال پہنچے اور برطانوی فوج بہار کی طرف پیچھے ہٹے کانگریس کو آگے بڑھ کر ملک کے کنٹرول پر قبضہ جمالینا چاہئے۔ اپنے رضاکاروں کی مدد سے، اس سے پہلے کہ جاپانی اپنے قدم جما سکیں بیچ کے وقفے میں ہمیں اقتدار پر قابض ہوجانا چاہئے۔"
مولانا کے اس خیال سے گاندھی جی متفق نہیں ہوئے۔ گاندھی جی اس معاملہ کو ایک دوسرے ہی نظریہ سے دیکھ رہے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ "اگر جاپانی فوج ہندوستان آہی گئی تو وہ ہمارے دشمن کے طور پر نہیں انگریزوں کے دشمن کے طور پر آئے گی۔"  مزید جاننے کے لئے پڑھئے India wins freedom
اس معاملہ پر گاندھی جی اور مولانا کے درمیان اختلاف اتنا گہرا ہوگیا کہ 7 جولائی کو گاندھی جی نے مولانا کے پاس ایک خط بھیجا۔ اس خط میں گاندھی جی نے واضح کردیا کہ "ہمارا موقف اس قدر مختلف ہے کہ ہم ساتھ کام کر ہی نہیں سکتے۔ اگرکانگریس چاہتی ہے کہ گاندھی جی تحریک کی قیادت کریں تو مجھے صدارت سے مستعفی ہونا پڑے گا اور ورکنگ کمیٹی کے عہدے سے بھی مستعفی ہونا ہوگا اور جواہر لال کو بھی ایسا ہی کرنا ہوگا۔"
ابولکلام نے اس خط کو جواہر لال نہرو کو دکھا یا اسی دوران سردار پٹیل بھی پہنچ گئے، انھیں بھی خط دکھا یا گیا۔ پٹیل کو یہ خط پڑھ کر کافی صدمہ ہوا اور وہ فورا بھاگ کر گاندھی جی کے پاس پہنچے اور بتا یا کہ اگر مولانا ورکنگ کمیٹی اور کانگریس کی صدارت سے مستعفی  ہوگئے اور جواہر لال نے بھی یہی کیا تو "اس کے اثرات تباہ کن ہوں گے۔ نہ صرف یہ کہ عوام میں ابتری پیدا ہوگی بلکہ کانگریس کی بنیادیں کانپ اٹھیں گی۔"
گاندھی جی نے اسی دن مولانا کو بلوایا اور ایک ہنگامی میٹنگ طلب کی ۔ اس موقع پر گاندھی جی نے ایک تقریر کی۔ اس تقریر میں انھوں نے واضح کیا کہ  یہ خط انھوں نے جلد بازی میں لکھا تھا اور اب وہ اسے واپس لیتے ہیں۔ میٹنگ میں پہلی بات جو گاندھی جی نے کہی وہ یہ تھی " گناہ گارنادم ہوکر مولانا کے پاس آیا ہے۔"( آزادی ہند ، مولانا ابوالکلا، صفحہ 70(
یہ ایک  واقعہ  ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ آدمی اگر دانا اور ہوشیار ہو، وہ چیزوں کی پوری سمجھ رکھتا ہو اور صاحب بصیرت بھی ہو، نیز تمام تعصبات سے اوپراٹھ کراقدام کرتا ہو، تو دنیا میں کوئی بھی شخص اتنا مضبوط نہیں جو اسے اس کے عہدے سے ہٹا دے، یہاں تک کہ گاندھی بھی نہیں۔

پیر، 9 دسمبر، 2013

Will without wisdom


علمی استعداد کی کمی نا کہ عزم کی کمی

محمد آصف ریاض
اسرارعالم اردو کے مصنف ہیں ۔ 2013 میں ان کی ایک کتاب مسلم  یونیورسٹی ـ علی گڑھ تحریک  سے متعلق شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب کا نام " سرسید کی بصیرت " ہے۔ اپنی اس کتاب میں مصنف نے علی گڑھ مسلم  یونیورسٹی کے موجودہ نظام کوچیلنج کرتے ہوئے وہاں ریڈیکل چینج لانے کی تجویز پیش کی ہے۔
اس کتاب میں مصنف نے بہت سی ایسی باتیں لکھیں ہیں جن سے آپ اتفاق کر بھی سکتے ہیں اورنہیں بھی کر سکتے۔ یہاں میں ان کے اس خیال سے بحث کروں گا:
" ہندوستان میں عام  طور پر مسلمانوں کے مابین یہ شور سنائی دیتا ہے کہ مسلمانوں کے پاس علمی استعداد کی کمی ہے اس لئے انھیں مواقع Opportunities) ) میسر نہیں۔ اس کے برعکس تاریخ بالکل ہی مختلف بات کہتی ہے۔ مسلمان بے عزم ہیں اس لئے ان کے یہاں علمی استعداد پائی نہیں جاتی۔" (سر سید کی بصیرت؛ مصنف اسرار عالم؛ صفحہ 25)
مصنف نے بے عزمی کو علمی استعداد کے فقدان کا سبب بتا یا ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ اپنے اس ریمارک کے سپورٹ میں انھوں نے کوئی تاریخی ثبوت پیش نہیں کیا ہے۔ اگر تاریخ یہ بات کہتی ہے جیسا کہ اوپرکے اقتباس سے واضح ہے تو مصنف کو تاریخ سے شواہد پیش کرنا چاہئے تھا۔ لیکن وہ ایسا نہیں کر سکے ہیں۔ تاریخ کے حوالے سے مصنف نے جو بات کہی ہے اس کا ذکر تاریخ میں کہیں موجود نہیں البتہ ایک برعکس صورت نظر آتی ہے۔ یعنی یہ کہ "مسلمان علمی استعداد نہیں رکھتے اس لئے انھیں مواقع میسرنہیں۔"
صحیح بات یہ نہیں ہے کہ علمی استعداد عزم کا مرہون منت ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ عزم علمی استعداد کا مرہون منت ہے۔ آدمی کے اندر عزم اسی وقت پیدا ہوتا ہے جبکہ اس کے اندر علمی استعداد پیدا ہو۔ علمی استعداد سے خالی شخص عزم اور قوت ارادی سے خالی ہوگا۔ دوسرے لفظوں میں عزم علمی استعداد کا محتاج ہے نا کہ علمی استعداد عزم کا محتاج ۔ علمی استعداد کے ذریعہ آدمی اپنے ارد گرد کے ماحول کا جائزہ لے کرصحیح فیصلہ تک پہنچتا ہے۔ عزم کے ذریعہ آدمی بندروں کی طرح چھلانگ تو لگا سکتا ہے لیکن وہ کوئی بامعنی نتیجہ تک نہیں پہنچ سکتا۔ عزم کے ذریعہ صرف طوفان اٹھا یا جا سکتا ہے لیکن اس طوفان کو اپنے حق میں نہیں کیا جا سکتا۔ طوفان کو اپنے حق میں کرنے کے لئے علمی استعداد کی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ یہ کہنا غلط ہوگا کہ مسلمان بے عزم ہیں اسی لئے ان کے اندرعلمی استعداد پائی نہیں جاتی۔
اگرآپ تاریخ کا جائزہ لیں تو پائیں گے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ جوش و ولولہ اور عزائم سے بھری رہی ہے۔ پلاسی کی جنگ ((15 57   سے لے کر 57 18 کی بغاوت اور پھر 1947  تک کا زمانہ مسلمانوں کے عزم وہ حوصلہ کا واضح ثبوت ہے۔ مزید جاننے کے لئے پڑھئے تاریخ تحریک آزادی ہند، ڈاکٹرتارا چند۔
تاریخ کی روشنی میں ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ہندوستانی مسلمان کبھی بھی عزم سے خالی نہیں رہے، البتہ ان کے یہاں ہر دور میں علمی استعداد کی کمی پائی گئی ہے اور ہر دور میں مسلمان اس کمی کی قیمت چکا تے رہے ہیں۔

جمعرات، 5 دسمبر، 2013

They are even more misguided

یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں

محمد آصف ریاض
تین دسمبر 2013 کو رات گیارہ بجے میں اپنے بسترپر گیا۔ بسترپرجاتے ہی میں نے لائٹ آف کردی۔ پھردیکھتے ہی دیکھتے میرے جسم کےاعضا سلیپنگ موڈ میں چلے گئے اورکب میں نیند میں چلا گیا مجھے یاد نہیں۔ ساڑھے چار بجے صبح جب میری نیند ٹوٹی تودیکھا کہ صبح کی سفیدی آسمان پر نمودار ہورہی ہے۔
نیند پرآدمی کو قابو نہیں۔ نیند آتی ہے توجسم کے تمام اعضا سلیپنگ موڈ میں چلے جاتے ہیں۔ پھر جب آد می نیند سے بیدار ہوتا ہے تو اپنے آپ کو توانا اور پہلے سے زیادہ پر سکون اور قوی محسوس کرتا ہے۔
قرآن میں اس بات کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ وَجَعَلْنَا نَوْمَكُمْ سُبَاتًا "اورہم نے تمہارے لئے نیند کو باعث سکون بنایا۔"
صبح اٹھ کر میں سوچ رہا تھا کہ رات کی تاریکی سے نکل کرمیں دن کی روشنی میں کس طرح آگیا؟ کون تھا جو مجھے نہایت سبک رفتاری کے ساتھ رات کی تاریکی سے اٹھا کردن کی روشنی میں لے آیا ؟ کیا میں خود بخود یہاں پہنچ گیا؟ یا حالات نے مجھے یہاں پہنچا دیا؟
نہیں؛ میں یہاں از خود نہیں پہنچا تھا بلکہ ایک مستحکم نظام کے تحت مجھے یہاں پہنچا یا گیا تھا۔ رات کی تاریکی سے دن کے اجالے تک پہنچنے میں زمین و آسمان نے اپنا کردارادا کیا تھا۔
جب میں رات میں نیند کی آغوش میں گیا تواس وقت زمین تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی پھراس نے سورج کی روشنی کی جانب سفر کیا اور یہ سفر مسلسل کئی گھنٹوں تک جاری رہا یہاں تک کہ زمین نامی گاڑی نے مجھے اندھیرے اسے اٹھا کر روشنی میں پہنچا دیا۔ اسی بات کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے: توہی رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں (تُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَتُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ
آدمی سونے کو اور جاگ اٹھنے کو فار گرانٹیڈ لیتا ہے۔ نیند اور بیداری ، دن اور رات کی شکل میں انسان کے سامنے ہر روز ایک ہیبتناک قسم کا معجزہ ہوتا رہتا ہے تاکہ انسان اس سے عبرت حاصل کرے لیکن انسان ہے کہ وہ اس پرغور نہیں کرتا وہ اسے فار گرانٹیڈ لیتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ وہ اسی طرح ہمیشہ سوتا اور جاگتا رہے گا۔ حلانکہ انسان پرایک دن آنے والا ہے جبکہ وہ سوئے گا توپھرجاگ نہ سکے گا اور یہ وقت اس کے باپ دادائوں پر پہلے ہی آچکا ہے۔ تو کیا وہ انھیں اپنے ارد گرد پاتے ہیں؟ اسی طرح ایک دن وہ بھی اس دنیا میں نہیں پائے جائیں گے۔
خدا وند انسان کو ہرروزنیند کی حالت میں لے جاتا ہے تاکہ نیند کا تجربہ کر کے انسان کو اپنی موت پر یقین آجائے۔ اسی طرح خدا وند ہر روز انسان کو نیند سے جگا رہا ہے تاکہ انسان کو معلوم ہوجائے کہ اسی طرح موت کے بعد وہ زندہ کیا جائے گا۔ لیکن یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ نہ تو انسان نیند سے کچھ سیکھ رہا ہے اور نہ نیند سے جاگ اٹھنے سے وہ  کوئی سبق حاصل کر رہا ہے۔
انسان کو دل اور دماغ دیا گیا ہے تاکہ خدائی واقعات کے رسپانس میں وہ ان کا استعمال کرے لیکن انسان کا حال یہ ہے کہ وہ خدائی نشانیوں کے معاملہ میں اندھا اور بہرہ بنا ہوا ہے۔ اور بلا شبہ انسان کو ایک دن اپنے اندھے اور بہرے پن کی سزا کاٹنی ہوگی۔ قرآن کا ارشاد ہے:
"ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں،ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں، ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں، وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں۔" 7:179))