جمعہ، 26 اکتوبر، 2012

Blame thyself


یہ اپنے گناہ کو دوسروں کے سر ڈالنا ہے


محمد آصف ریاض

ایرانی لیڈر آیت اللہ سیدعلی خامنئی نے یوروپ، امریکہ اور اسرائیل پر الزام لگا یا ہے کہ وہ مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے لفظوں میں:

Ayatollah Khamenei warned that the enemy seeks “to rock these foundations,” and noted, “By exploiting inattention and shallow-mindedness on behalf of some, corrupt American, NATO and Zionist agents are trying to divert the deluge-like movement of the Muslim youth and bring them into confrontation with one another in the name of Islam.”

{Press Tv 25,2012}

خامنئی کا بیان ایک سیاسی بیان ہے۔ اس میں سچائی کم اور جھوٹ زیادہ ہے۔

بات یہ نہیں ہے کہ امریکہ اسرائیل اور یوروپی دنیا مسلمانوں کے ساتھ کیا کر رہی ہے۔ بات یہ ہے کہ خود خامنئی کی حکومت کیا کر رہی ہے۔


 ایران نے عرب اپرائزنگ کو اسلامک اویکنگ {اسلامی بیداری} کا نام دیا۔ لیکن جب تک یہ بیداری دوسرے دوسرے ممالک میں تھی تو ایران پر جوش انداز میں اس کی حمایت کر رہا تھا۔ لیکن جیسے ہی اس بیداری کی زد میں سیریا کی علوی {شیعہ} حکومت آئی تو ایران نے فوراً یہ ہنگامہ شروع کردیا کہ یہاں بیداری نہیں آئی بلکہ یہاں کی حکومت کو دہشت گرد جماعتوں کا سامنا ہے۔ دوسروں کی قیمت پر انقلاب برپا ہو تو وہ اسلامی بیداری ہے اور جب اپنے مفادات زد پر ہوں تو وہ دہشت گردی ہوجاتی ہے۔

ایران نے سیریا کی حکومت کو بچانے کے لئے روس چین عراق لبنان کو سر گرم کردیا۔ میڈیا میں کئی رپورٹیں ایسی آچکی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ خود ایرانی فوج وہاں جمہوریت پسندوں کے خلاف لڑ رہی ہے۔

ایران نے ترکی کو دھمکی دی کہ اگر وہ سیریا کے معاملہ میں مداخلت کرے گا تو اسے پچتا نا پڑے گا۔ ایران پوری دنیا کے مسلمانوں کو شیعہ سنی کے گروہ میں بانٹ چکا ہے۔ جو کام اہل یوروپ، امریکہ یا اسرائیل کو کرنا تھا وہ کام تو خود ایرانی حکومت کر چکی ہے۔ پھر یہ کہنا کہ یوروپ امریکہ اور اسرائیل مسلمانوں کو لڑانےکی کوشش کرر ہے ہیں۔ یہ اپنے کئے ہوئے گناہ کو دوسروں کے سرڈالنا ہے۔

آدمی اگر گناہ کرے اور پھر اعتراف گناہ کے ساتھ توبہ کر لے تو خدا وند کے یہاں اس کے لئے معافی ہے، اور اگر وہ گناہ کرے اور اس کا الزام دوسروں کے سر ڈالے تو یہ گناہ پر سر کشی کا اضافہ ہے اور بلا شبہ اللہ پاک سرکشوں کو پسند نہیں کرتا.

1 تبصرہ: