بدھ، 26 جون، 2013

Seeing God with Bird’s- eye view


برڈس آئی یو اوروارمس آئی ویو کے بعد اب کوئی عذر باقی نہ رہا

 محمد آصف ریاض
سولہ جون 013 2  کو دہلی میں بہت بارش ہوئی۔ رات دن بارش ہوتی رہی۔ میں اپنے گھر کے ونڈوپربیٹھا بارش کی بوندوں کوآسمان سے اترتا ہوا دیکھ رہا تھا۔ رات کے دس بج رہے تھے۔ اسٹریٹ لائٹ روشن تھی۔ لائٹ پربارش کی بوندیں موتی کی طرح ٹپک رہی تھیں۔ اس درمیان ہم نے دیکھا کہ بہت سے پتنگے دیوانہ وار روشنی پر لپک رہے تھےاورطوفانی بارش انھیں اٹھا کردور پھینک رہی تھی۔ بارش کے بہاﺅمیں وہ ادھرادھربہہ جاتے اورتھوڑی دیرکےبعد روشنی پرجان نچھاور کرنے کے لئے پہنچ جاتے تھے۔ یہ سلسلہ مسلسل جاری تھا۔
پتنگے روشنی کو وارمس آئی ویو (worm's-eye view) سے دیکھتے ہیں۔ وہ برڈس آئی ویو(Bird's-eye view) سے نہیں دیکھتے کیونکہ ان کے پاس برڈس آئی ویوکی صلاحیت نہی ہوتی۔
وارمس آئی ویو کیا ہے اور برڈس آئی ویو کیا ہے؟
وارمس آئی ویو کسی چیز کوبہت قریب سے یا نیچے سے دیکھنے کا نام ہے۔
A worm's-eye view is a view of an object from below, as though the observer were a worm
اس کے برعکس’ برڈس آئی ویو‘ کسی چیزکواوپر سے دیکھنے یا تصورکرنے کا نام ہے۔ اسی لئے اسے ایریئل ویو بھی کہتے ہیں۔ برڈس آئی ویو کے تحت ہروہ چیزآتی ہے جسے ہم تخیلات کے ذریعہ محسوس کرتے ہیں۔
A bird's-eye view is an elevated view of an object from above
میں سوچ رہا تھا کہ پتنگے"برڈس آئی ویو" یعنی تخیل کی صلاحیت نہیں رکھتے، وہ کسی چیزکے بارے میں تصورنہیں کرسکتے، اس لئے ہرچیزکو نزدیک سے یعنی وارمس آئی ویوسے دیکھتے ہیں۔
اس کے برعکس انسان کو لیجئے۔ انسان وارمس آئی ویو سے بھی دیکھتا ہے اور برڈس آئی ویو سے بھی ۔ وہ کسی چیز کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے اورجن چیزوں کو وہ اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ پاتا وہ ان کے بارے میں تصورکرسکتا ہے۔
انسان کے اندر یہ دونوں صلاحیتیں کیوں ہیں؟
انسان کو وارمس آئی ویودیا گیا ہے تاکہ انسان کسی چیزکوتجربے میں لاکر دیکھے۔ لیکن انسان ہرچیزکوتجربے میں نہیں لاسکتا اس لئے اسے برڈس آئی ویو یعنی تخیل کی صلاحیت بھی دی گئی ہے تاکہ جس چیزکو وہ تجربہ کے ذریعہ دیکھ نہیں سکتا وہ اس کے بارے میں تخیل سے کام لے۔
ایک مثال
سائنسدانوں کاماننا ہے کہ بلین سال قبل مارس پرپانی تھا توکیاانھوں نے پانی کو دیکھ لیا؟ نہیں،انھوں نے پانی کونہیں دیکھا۔ جوکچھ دیکھا گیا ہے وہ ریگزار (pebbles ) ہیں۔ سائنس دانوں کومارس پرریگزارنظرآئے۔انھوں نے ان ریگزاروں کاموازنہ زمین پرندیوں کے کنارے پائے گئے ریگزاروں سے کیاتو معلوم ہواکہ یہ پتھرایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔ وہ اس طرح رونڈ کٹے ہوئے تھے کہ سائنسداں اس نتیجہ پرپہنچے کہ اس طرح کے پتھرصرف پانی میں ہی کٹ سکتے ہیں۔ چنانچہ تخیل یعنی برڈس آئی ویو کے ذریعہ سائنسداں اس نتیجہ پر پہنچے کہ مارس پرپانی تھا اوروہ پانی رواں تھا۔
From finding a trail of evidence supporting the presence of water on Mars a few billion years ago, Curiosity’s discovery of sub-rounded or rounded pebbles provides definitive proof that the red planet once had a river.
( دی ہندو 6جو ن 2013)
مزیدجاننےکےلئے پڑھئے:
http://www.thehindu.com/opinion/editorial/a-river-ran-through-it/article4785198.ece
مارس پرپائے گئے ریگزاروں کودیکھ کرسائنسدانوں نے اپنے برڈس آئی ویو یعنی قوت تخیل کوکام میں لایا اور وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ مارس پرکبھی پانی تھا۔حالانکہ انھوں نے پانی کونہیں دیکھا تھا۔
خدا وند انسان سے یہی چاہتا ہے
خداوند نےانسان کی تخلیق کی اوراس کی زندگی کودوحصوں میں منقسم کردیا۔ پری ڈیتھ پریڈ اورپوسٹ ڈیتھ پیریڈ۔ یعنی موت سے پہلے کی زندگی اورموت کے بعد کی زندگی۔
موت سے پہلے کی زندگی کوآدمی وارمس آئی ویوکے ذریعہ سمجھتا ہے یعنی وہ اس کو تجربہ کی سطح پرجانتا ہے۔ اورموت کے بعد کی زندگی کوانسان برڈس آئی ویو کے ذریعہ سمجھتا ہے، یعنی قوت تخیل کے ذریعہ۔ خدا وند نے جانا کہ جوآنکھ وہ اپنے بندہ کودے رہا ہے اس آنکھ  سے اسکے لئے ممکن نہیں کہ وہ اپنے خدا وند کوپہچان لےاس لئے اس نےبرڈس آئی ویو کی شکل میں ایک دوسری آنکھ دی یعنی سوچنے اورتخیل کرنے کی صلاحیت دی۔ انسان سے مطلوب ہے وہ اس صلاحیت کو کام میں لاکراپنے رب کو پہچانے۔
جس طرح سائنسدانوں نےریگزاروں کودیکھ کرمارس پرپانی کے ہونے کو سمجھ کراسے تسلیم کرلیا،اسی طرح انسان کویہ کرنا ہے کہ وہ مردہ زمین پر زندہ سبزوں کواگتا ہوا دیکھ کر یہ سمجھ لے کہ مرنے کے بعد اسی طرح انسان کا جینا ہوگا۔ جس طرح انسان کا جسم کیلشیم، نمکیات اورآیرن جیسے کمپوننٹس سے مل کرتیارہوا ہے اور سب جانتے ہیں کہ اپنی ابتدائی حالت میں یہ اجزا بے جان تھے ،پھر خدا وند نے ان بے جان اجزاکو جمع کرکے انسان کی تخلیق کی توجوخدا وندغیرجاندارکوجانداروجود میں تبدیل کررہا ہے کیا وہ انسان کومرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنے پرقادرنہ رہا؟
 اسی طرح سبزہ کودیکھئے ۔ سبزہ پانی ، مٹی اوردوسرے اجزا سے وجود میں آتے ہیں۔ اپنی ابتدائی حالت میں سبزہ سبزہ نہیں ہوتا۔ خدا وند غیر سبزہ کو سبزہ بنا تا ہے تو جوخدا غیر سبزہ کوسبزہ بنا رہا ہے کیا وہ انسان کو دوبارہ زندہ کرنے پر قادر نہیں رہا؟
حقیقت یہ ہے کہ موت کے بعد حیات کو جاننے کے لئے برڈس آئی ویودرکار ہے اور یہ صلاحیت خدا وند نے ہرانسان کودیا ہے تاکہ انسان کواپنے خداوند اورموت کے بعد حیات پریقین آجائے۔
قرآن میں اسی بات کو اس طرح سمجھا یا گیا ہے:
جواللہ تعالیٰ کا ذکرکھڑے اوربیٹھے اوراپنی کروٹوں پر لیٹے ہوئے کرتے ہیں اورآسمان وزمین کی پیدائش میں غوروفکرکرتے ہیں اورکہتے ہیں اے ہمارے پروردگار تو نے یہ سب بے فائدہ نہیں بنایاتوپاک ہے، پس توہمیں آگ کےعذاب سے بچالے"(3:191(

خدا وند چاہتا ہے کہ انسان زمین وآسمان کی تخلیق پرغورکرے اوراپنے خدا وند کوپہچانے ۔ لیکن یہ کام وارمس آئی ویو سے ممکن نہیں تھا،اسی لئے خدا وند نے انسان کوسوچنے اورتخیل کرنے کی انوکھی صلاحیت دی یعنی اسے برڈ س آئی ویودیا۔ آدمی پرلازم ہے کہ وہ اپنی اس صلاحیت کوکام میں لاکراپنے خدا وند کوپہچانے اورموت کے بعد حیات پرایمان لائے کیونکہ اب اس کے پاس کوئی عذرباقی نہیں رہا۔ اب وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے خدا وند کو پہچاننے کی صلاحیت نہیں دی گئی تھی۔

جمعہ، 7 جون، 2013

Hero generation and zero generation

پیسہ سے پہلے ہیروجنریشن پیدا ہوتی ہےاورپیسہ کے بعد زیرو
محمد آصف ریاض
میری پیدائش پٹنہ ایک گاﺅں حضرت سائیں میں ایک متوسط گھرانے میں ہوئی۔ میرے والد ایک کسان آدمی تھے اورعملی طورپرکاشت پرہی زندگی کا انحصارتھا۔ انھوں نے ہم لوگوں کی پڑھائی پردھیان دیا، لیکن پڑھائی کے معاملہ میں جبرسے کام نہیں لیا۔ ہم لوگ چھہ بھائی اورتین بہنیں ہیں۔
میں نے پٹنہ یونیورسٹی سے ایم اے کیا، اور پٹنہ میں ہی ڈاکٹرریحان غنی کی ادارت میں نکلنے والے روزنامہ پندارمیں صحافت کے پیشہ سےوابستہ ہوگیا۔ بعد میں دہلی سے نکلنے والے سنڈے انڈین میگزین کا اسسٹنٹ ایڈیٹربنا۔
میرا، ایک بھائی گورمنٹ اسکول میں ٹیچرہوگیا۔ بڑے بھائی نے اپنا بزنس شروع کردیا۔ ایک چھوٹے بھائی نائب ریاض نے ایروناٹکیل انجینئرنگ کی اوراندراگاندھی انٹرنیشنل ایئرپورٹ دہلی میں جیٹ ایئرویزکا ملازم ہوگیا۔ سب سے چھوٹا بھائی رہبرمیرے ساتھ دہلی میں رہتاہے اوروہ میڈیکل کی تیاری کررہاہے۔
پچھلے دنوں انجینئرنائب ریاض کی جاب دبئی کی امارات ایئرلائن میں ہوگئی۔ امارات مشرق وسطی کی سب سے بڑی ایئرلائن ہے۔ اس کی تین ہزارفلائٹ ہرہفتہ دنیا بھر کے77 ممالک کے لئے اڑان بھرتی ہے۔ امارات درحقیقت امارات گروپ کا ہی ایک حصہ ہے۔ اس گروپ میں 68,000 ملازمین کام کرتے ہیں۔ یہ کمپنی دبئی حکومت کی ملکیت ہے۔ امارات میں جاب ہونے کے بعد نائب ریاض کی تنخواہ کافی بڑھ گئی۔ اب تک وہ کچھ والے نہیں تھے اوراچانک سب کچھ والے ہوگئے۔ ابھی وہ محض چھبیس سال کے ہیں۔
سب سے چھوٹے بھائی رہبرنے اسی سال انٹرمیڈیٹ کا امتحان دیا ہے، وہ امتحان میں امتیازی نمبرسے کامیاب ہواہے۔ وہ پٹنہ گیا ہوا تھا۔ وہاں سے فون کرکے اس نے بتا یا کہ وہ میڈیکل کی تیاری کرنا چاہتاہے۔ اس کے لئے دہلی میں کوئی کوچنگ سینٹر تلاش کردیاجائے۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے۔
تھوڑی توقف کے بعد وہ کہنے لگا کہ اگرکمپٹیشن نہیں نکلا توہم " ڈونیشن پرداخلہ لے لیں گے۔
ابھی تک وہ اپنی محنت پرمیڈیکل نکالنا چاہ رہے تھے، وہ کمپٹیشن فائٹ کرناچاہتے تھے، لیکن پیسہ آتے ہی وہ اچانک ہمت ہارگئے،اورکمپٹیشن کی جگہ ڈونیشن کی بات کرنےلگے۔
ڈونیشن کی بات سن کرمیں سوچنے لگا کہ پیسہ آدمی کوایک دم سے کتنا نیچے گرادیتا ہے۔ وہ آدمی کو کسی لائق نہیں رہنے دیتا۔ وہ انسان سے اس کی قوت مزاحمت چھین لیتا ہے۔ وہ آدمی کواس لائق نہیں رہنے دیتا کہ وہ میدان میں اترکرکسی کامقابلہ کرے اوراپنے بل پرکامیاب ہو۔ میرے تجربہ نے مجھے بتایا:
" پیسہ سے پہلے ہیروجنریشن پیداہوتی ہے اورپیسہ کے بعد زیرو۔

Make yourself a machine where waste is converted into energy

زندگی کاعمل صعوبت پرردعمل کا نام ہے


محمد آصف ریاض

 2جون 2013 کو پٹنہ کے ایک نوجوان ملنے کے لئے آئے۔ ان کا نام احمد ہے۔ وہ دہلی کے جامعہ نگرعلاقہ شاہین باغ میں رہتے ہیں۔ انھوں نے ابھی حال ہی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ سے بی ایڈ کیا ہے۔ وہ فیزکس کے طالبعلم ہیں اورفزکس میں ایم ایس سی کرنے کاارادہ رکھتے ہیں۔

ملاقات کے دوران انھوں نے بتایا کہ وہ ان دنوں کا فی دبائو میں ہیں۔ ان پرگھر کی ذمہ داریاں آ گئی ہیں اور وہ پیسہ نہیں کما پارہے ہیں۔ وہ اپنی ذمہ داریوں سے گھبرائےہوئے تھے۔

میں نے انھیں بتا یا کہ ایسا نہی ہے کہ آپ پرزیادہ ذمہ داریاں ڈال دی گئی ہیں۔ یہ ذمہ داریاں آپ کواس لئے زیادہ لگ رہی ہیں کیونکہ آپ ابھی اپنے اندرچھپی امکانی صلاحیت کونہیں جانتے۔ ابھی آپ نے اپنے آپ کو دریافت نہیں کیا ہے۔ جس دن آپ اپنی امکانی صلاحیت کوجان لیں گےاسی دن سے آپ کویہ ساری ذمہ داریاں کم نظر آنے لگیں گی۔

میں نے انھیں بتا یا کہ آپ پیسہ نہیں کماپارہے ہیں تو بہت زیادہ فکرکی بات نہیں ہے کیوں کہ آپ اس کی جگہ علم کما رہے ہیں۔ البتہ اگرآپ دونوں نہیں کما رہے ہیں تویہ فکرکی بات ہے۔

میں نے انھیں بتایا کہ کسی کے لئے یہ ممکن نہیں کہ ایک ہی وقت میں وہ علم بھی
 کما ئے اور پیسہ بھی۔ ایک وقت میں آدمی ایک ہی چیزکما سکتا ہے، یاتو وہ پیسہ کمائے گا یاعلم۔

ایک مثال

میں نے انھیں بائبل کی ایک مثال دی۔ بائبل میں ہے۔
" کوئی بھی شخص ایک ہی وقت میں دومالکان کوخوش نہیں رکھ سکتا۔ چاہے تووہ ایک سے محبت کرے گا،اوردوسرے سے نفرت۔ سنو، تم ایک ہی وقت میں مال اورخداوند دونوں کوحاصل نہیں کرسکتے"

New International Version (©2011)
"No one can serve two masters. Either you will hate the one and love the other, or you will be devoted to the one and despise the other. You cannot serve both God and money.
Matthew 6:24

آدمی کے لئے بہت مشکل ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں دونوں چیزوں کوحاصل کر لے۔ وہ مال والا بھی ہوجائے اورعلم والا بھی۔ آدمی کوایک چیز کے لئے ایک چیز کی قربانی بہرحال دینی پڑتی ہے۔
دبائو ایک فطری امرہے۔ ہرآدمی پردبائوآتا ہے۔ اگرآدمی پردبائونہ آئے تواس کی چھپی ہوئی صلاحتیں ظاہر نہیں ہوں گی۔ آدمی کی خوابیدہ صلاحتیں اسی وقت جاگتی ہیں جب کہ اس پردبائوہو۔
میں نے انھیں بتا یا کہ آپ اپنے آپ کو وہ مشین بنائے جہاں فضلات آکر انرجی میں تبدیل ہوجاتےہیں۔

{Make yourself a machine where waste is converted into energy}

نادان آدمی دبائوکو دبائوسمجھتا ہے۔ وہ اسے چیلینج کے طور پرنہیں لیتا اورتباہ ہوجا تا ہے۔ اس کے برعکس ہوشیار آدمی ہردبائوں کوچیلینج کے طورپرلیتا ہےاوراسے کامیابی کی طرف بڑھنے کا ایک زینہ بنا لیتاہے۔

کسی دانشور نے اسی بات کواس طرح سمجھا یا ہے۔

"صعوبت کی ایک مناسب مقدارزندگی کے لئے ضروری ہے۔ زندگی کا عمل در اصل صعو بت پر ردعمل کا نام ہے"

The optimum amount of stress was necessary for life. The process of living is a process of reacting to stress.

اسی بات کو قرآن میں اس طرح سمجھا یا گیا ہے۔

لقد خلقنا الانسان فی کبد
یعنی ہم نے انسان کومشکل میں پیدا کیا۔ انسان کی تشکیل اس اندازمیں ہوئی ہے کہ اسے صعوبتوں کا تجربہ گزرتا رہتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو توانسان مردہ ہوجائے۔ وہ دنیا میں کوئی قابل قدرکارنامہ انجام نہ دے سکے۔

منگل، 4 جون، 2013

Believing in man and not believing in God

آدمی اپنے جیسے انسان پریقین کرتا ہے،اوروہ خداوند پریقین نہیں کرتا

محمد آصف ریاض
ایک آدمی زمین پرپتھرکے بڑے بڑے ستون بناتاہے۔ پھروہ ان پرلوہے کی بڑی بڑی پٹریاں بچھاتاہےاوران پر(میٹرو)کودوڑادیتاہے۔ ٹرین لوگوں کواٹھائے ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچاتی رہتی ہے۔ اب سے لوگوں کی سیکورٹی کاخیال آتاہے۔ وہ ایک پوری فوج تیارکرتا ہے اوراسے لوگوں کے تحفظ پرمعمورکردیتا ہے۔ پھراسے لوگوں کی نگرانی کاخیال آتا ہے اوروہ اسٹیشن اورٹرین پرخفیہ کیمرے نصب کردیتا ہےتاکہ ہرچیزاس کی نگرانی میں رہے۔
اب اگرکسی شخص کوبتایاجائے کہ اسٹیشن پرخفیہ کیمرہ نصب ہے توکوئی اس سے انکارنہیں کرتاہرآدمی سمجھتاہے کہ ٹرین یااسٹیشن پروہ جوکچھ بھی کررہا ہے، اسے دیکھا جارہاہے۔ اس کی نگرانی کی جارہی ہے۔ اس کا کوئی عمل انتظامیہ سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ٹرین پرنصب کیمرہ کی خبرپرہرشخص یقین کرتاہے سوائےجنگلی اوربدولوگوں کے،جواپنی جہالت کی وجہ سےنہیں سمجھ پاتے کہ اتنا بڑاکام کس طرح ہوسکتاہے؟
خدا وند کا منصوبہ
اسی طرح خداوند نے زمین کی تخلیق کی۔ اس پرانسان کوبسایا۔ اس کے اندرسے اس کے کھانے پینے کاساراسامان نکالا۔ اس نے اونچے اونچے پہاڑبنائے، اورآسمان کواونچا اٹھایا۔ اس پرسورچ اورچاند کورکھ دیا۔
 اب اس نے انسان کی نگرانی کے لئے ایک اورکام کیا،وہ یہ کہ فرشتوں کوہرانسان کے ساتھ لگا دیا تاکہ وہ اس کارپورٹ کارڈتیارکریں،اوراس کی نگرانی کرتے رہیں۔ پھر اس نے آگے بڑھ کرکائنات میں ہرطرف ربانی کیمرہ نصب کرادیا اوربراہ راست ہرچیزکی نگرانی کرنے لگا۔
تاہم، جب یہ بات لوگوں کو بتائی جاتی ہے تولوگ اسے ماننے کے لئے تیارنہیں ہوتے۔ وہ پہلی خبر کو مانتے ہیں اوردوسری خبرکوجھٹلادیتےہیں۔ وہ انسان کے اختیارات کوجانتے ہیں اورخداوندکے اختیارات کو نہیں جانتے۔
بڑے بڑے ستون اوران پردوڑتی ہوئی بڑی بڑی ٹرینیں انسان کے اندراحساس عجب پیداکرتی ہیں۔ انسان انھیں دیکھ کراس قدرمتاثرہوتا ہے کہ جب اسے بتایاجاتاہے کہ ٹرین چلانے والے نے مسافرین کی نگرانی کے لئے خفیہ کیمرہ لگارکھا ہے اورسب کی نگرانی کررہاہے توکسی کواس خبرپرشک نہیں ہوتا۔ ہرشخص اس خبرکومان لیتا ہے کیوں کہ اسے لگتا ہے جوشخص اتنی بڑی چیزکومینیج کررہا ہے وہ ایک کیمرہ کو بھی مینیج کرسکتاہے۔
لیکن جب یہی بات خداوند کے بارے میں انسان کوبتا ئی جاتی ہے تووہ اس پریقین نہیں کرتا۔ حالانہ وہ دیکھتا ہے کہ وہ ایک ایسی زمین پررہ رہا ہے جواس کی اپنی بنائی ہوئی نہیں ہے،اوروہ اس کی مٹی سے کرشماتی طورپرکھانے پینے کے سامان بھی نکالتاہے۔وہ اپنےاوپربہت اونچا عظیم الشان آسمان کودیکھتاہے۔ وہ اس پرروشن سورج اورچاندستاروں کو دیکھتا ہے، وہ پہاڑوں، صحرا، اورسمندرکو دیکھتا ہے،لیکن یہ چیزیں اسے متاثرنہیں کرتیں۔ وہ خدا وند کے اس عظیم الشان انفراسٹرکچرکوفارگرانٹیڈ لیتا ہے۔اسی لئے اسے ربانی کیمرہ پریقین نہیں آتا۔
ربانی کیمرہ
حالانکہ اس کائنات میں ربانی کیمرہ کا ہونا اتنا ہی یقینی ہے جتنا کہ کسی میٹرواسٹیشن پرکسی انسانی کیمرہ کانصب ہونا۔ اور انسانی کیمرہ کبھی چوک بھی سکتا ہے اور ربانی کیمرہ کبھی چوک بھی نہیں سکتا۔
جس طرح سورج اپنے وقت پر نکلتا اور ڈوبتا ہے، جس طرح رات اپنے وقت پر آتی ہے اور دن اپنے وقت پر نکلتا ہے اوراپنے کام میں وہ نہیں چوکتا،اسی طرح ربانی کیمرہ بھی آن ڈیوٹی ہے، اور وہ اپنے کام میں نہیں چوکتا۔
آسمان پرسورج، چاند، اورستاروں کا ہونا تمثیل کی زبان میں اس بات کا اعلان ہے کہ اسی طرح انسان کے اوپر خدائی کیمرہ بھی کام کررہا ہے اورایک دن آئے گاجب انسان کے سامنے اس کا ریکارڈ کھول کررکھ دیا جائے گا۔ تب وہ کہے گا ہائے یہ کیسی کتاب ہے کہ اس میں توکوئی بات ایسی نہیں جو درج ہونے سے رہ گئی ہو (18:49)
قرآن میں بتا یا گیا ہے:
"ہم نے ہرچیزکولکھ کرشمارکررکھا ہے" (78:29)
But we have recorded everything in a Book
بائبل میں ہے:
"کوئی پوشیدہ چیزایسی نہیں جوکھول نہ دی جائے گی اورکوئی چھپی ہوئی چیزایسی نہیں جسے منکشف نہ کردیا جائے گا"
For there is nothing covered, that shall not be revealed; neither hid, that shall not be known
 Luke12:2))
 آہ،کیا حال ہوگا انسان کا، جب وہ ربانی کیمرہ میں خود اپنی تصویر کو دیکھے گا اور اس دن حسرت و یاس کے سوا،اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہوگا۔