ہفتہ، 28 مارچ، 2015

ہندو تاریخ سے ایک سبق

ہندو تاریخ سے ایک سبق

محمد آصف ریاض
ہندوستان جب 1947 میں آزاد ہوا تو فطری طورپریہ ملک ان لوگوں کے ہاتھوں میں آیا جو یہاں کےقدیم باشندے تھے۔ یہ لوگ ہندو تھے اورمختلف قبائل اورگروہوں میں منقسم تھے۔
محمد غوری نے 1192 میں ہندوستان پرحملہ کیا اورترائن کی جنگ میں ہندو راجا پرتھوی راج چوہان کوشکست د ینے میں کامیابی حآصل کی۔ پنجاب اورموجودہ ہریانہ کوجیتنے کے بعد 1193 میں غوری بڑی تیزی سے صوبہ بہارکی طرف بڑھا، یہاں اس کا سامنا بودھ راجائوں سے ہوا تاہم یہاں بھی وہ کامیابی کا پرچم لہرانے میں کامیاب ہوگیا۔ اب وہ صوبہ بنگال کی طرف بڑھا اوربہت جلد بنگال کو بھی اس نے زیر کر لیا، اس طرح ہندوستان میں غوری سلطنت کا قیام عمل میں آیا۔
1192 میں ہندوستان میں مسلمانوں کی جوتاریخ شروع ہوئی تھی وہ 1857 میں آخری مغل بادشاہ بہادرشاہ ظفرکی انگریزوں کے ہاتھوں شکست کے ساتھ ختم ہوگئی۔ اس دوران ملک کے ہندوں کو مسلسل 8 سوسالوں تک مختلف قسم کی تبدیلیوں سے گزرنا پڑا۔ مثلاً مغل دوریعنی سولہویں صدی میں ہندوئوں کواچانک ایک نئی زبان سیکھنی پڑی۔ یہ زبان فارسی تھی۔ زبان کی تبدیلی کا واقعہ قوموں کی زندگی میں کوئی سادہ واقعہ نہیں ہوتا۔ یہ بہت بڑا واقعہ ہوتا ہے۔ زبان کی تبدیلی قوموں کی زندگی کا نقشہ بگاڑ دیتی ہے۔
اس بات کو سمجھے کے لئے آپ اتنا سمجھ لیں کہ جب 1857 میں انگریزاس ملک کے حکمراں ہوئے تو انھوں نے فارسی کو دفتری زبان سے معزول کردیا ۔ انگریزوں کے اس عمل سےاچانک سارے مسلم انٹیلیکچوئلس بے زبان ہو کر رہ گئے۔ تمام امرا، شرفا، اورفقہا اچانک بے روزگارہوگئے۔ زبان کی تبدیلی نے پوری قوم کوایک ایسی گھاٹی میں اتار دیا جہاں وہ صرف اپنے آپ کو جانتے تھے، وہ باہری دنیا سے واقف نہیں تھے۔ وہ دوسروں سے انٹریکشن نہیں کر سکتے تھے۔ وہ دوسری دنیا سے پوری طرح کٹ گئے تھے۔ اب وہ جدید افکارکو پڑھ نہیں سکتے تھے کیوں کہ جدید افکارکو نئی زبان میں پیش کیا جا رہا تھا اورمسلمان اس نئی زبان سے واقف نہیں تھے۔
زبان کی تبدیلی نے مسلمانوں کومعاشی، سماجی اورسیاسی طورپراپاہج بنا کررکھ دیا تھا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ابھی جو قوم ہیروبنی ہوئی تھی اچانک وہ زیرو بن گئی ۔ تب سرسید نے مسلمانوں کو نئی زبان یعنی انگریزی سکھانے کا بیڑا اٹھا یا۔ لیکن صورت حال کو دوبارہ  پٹری پر لانے میں کئی صدیاں لگ گئیں۔ صورت حال یہ ہے کہ مسلمان آج بھی اس رولنگ زبان میں پچھڑے ہوئے ہیں، نتیجہ کار دنیا کے دوسرے میدان میں بھی پچھڑ گئے ہیں، مثلا معاشی ، تعلیمی ، سماجی اور سیاسی میدان میں وہ ایک پسماندہ قوم بنے ہوئے ہیں۔
مسلمانوں کے بر عکس ہندوئوں کی زندگی میں بارباربھونچال آیا۔ پہلے ان کی زبان سنسکرت تھی، پھرانھوں نے بہت جلد فارسی سیکھ لی اوراپنے آپ کو سماجی ، معاشی ، تعلیمی اور سیاسی طورپر(Irrelevant )  ہونے سے بچالیا۔ اسی طرح انگریزوں کے دورمیں جب فارسی کوختم کیا گیا توانھوں نے فوراً انگریزی زبان کوسیکھنا شروع کردیا اوربہت جلد وہ اس نئی زبان کو سیکھنے میں کامیاب ہوگئے۔
انگریزی سیکھ کرہندوئوں نے انگریزحکومت میں بڑے بڑے عہدے حاصل کئے۔ پڑھئے رفیق زکرکیا کی کتاب؛ (ہندوستانی سیاست میں مسلمانوں کا عروج؛ یا مولانا آزاد کی سوانح India wins freedom)
مختصریہ کہ ملک کے ہندئوں کوباربارہلا دینے والے حالات کا تجربہ ہوا، بارباران کی قومی زندگی تہہ وبالا ہوئی تاہم باربارانھوں نے حالات پرکنٹرول حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ باربارحالات نےانھیں بے معنی بنانے کی کوشش کی اورباربارانھوں نے حالات کے رخ کوموڑدیا۔ انھوں نے ایک زندہ قوم ہونے کا ثبوت دیا اورفطری طورپر وہ مسلمانوں سے آگے نکل گئے۔
ہرکامیابی کا رازصبراورجہد مسلسل میں چھپا ہے،اسی راستے سے ملک کے ہندو کامیاب ہوئے ہیں اوراسی راستے سے ملک کے مسلمان کامیاب ہوں گے۔

بدھ، 25 مارچ، 2015

کوئی رات اتنی طاقتور نہیں کہ وہ صبح کے امکان کو تباہ کردے

کوئی رات اتنی طاقتور نہیں کہ وہ صبح کے امکان کو تباہ کردے

محمد آصف ریاض
احمد فراز( وفات 2008 ) ایک پاکستانی شاعرہیں۔ ان کی نظم کا ایک مشہورشعریہ ہے۔
کہ رات جب کسی خورشید کوشہید کرے
توصبح اک نیا سورج تلاش لاتی ہے
ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ رات صبح پراپنی تاریکی اڑھا دیتی ہے، بظاہرایسا معلوم پڑتا ہے کہ اب یہ تاریکی جانے والی نہیں ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا کہ تاریکی صبح کے امکان کو ہمیشہ کے لئے ختم کردے، صبح کا حال یہ ہےکہ وہ دوسرے ہی دن اپنے لئے ایک نیا سورج تلاش لیتی ہے اورپھر ایک نئی آب و تاب کے ساتھ نمودارہوجاتی ہے۔
یہی حال انسانی زندگی کا ہے۔ انسانی زندگی میں ہمیشہ اتارچڑھائو آتا رہتا ہے، اوریہ اتارچڑھائو کبھی ابدی نہیں ہو تا، یہ وقتی ہوتا ہے۔ یہ اتارچڑھائواہل علم کے لئے ایک چیلنج ہوتا ہے، وہ جیسے ہی یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے ہاتھ سے ایک موقع نکل گیا، وہ فوراً اپنے لئے ایک دوسراموقع پیدا کرلیتے ہیں، جیسے ہی انھیں یہ لگتا ہے کہ ایک امکان استعمال ہونے سے رہ گیا، وہ اپنے لئے ایک دوسرا امکان تلاش لیتے ہیں، جیسے ہی انھیں لگتا ہے کہ ان کے لئے ایک راستہ بند ہوگیا ، وہ اپنے لئے ایک دوسرا راستہ پیدا کرلیتے ہیں۔
امیتابھ بچن بالی ووڈ کے معروف اداکار ہیں۔ انھوں نے اپنی اداکاری سے خوب شہرت پائی اورخوب پیسہ کمایا۔ لیکن عمرکے تقریباً آخری حصہ میں پہنچ کر وہ دیوالیہ ہوگئے، لیکن انھوں نے اپنا عزم نہیں کھویا، اور کون بنے گا کروڑ پتی میں اپنی ایکٹنگ کی مہارت دکھا کر انھوں نے اپنی کھوئی ہوئی دولت اور شہرت کو پھر سے حاصل کرلیا۔  
معروف برٹش فلاسفربرنارڈ ولیم (وفات 2003) کا ایک قول ہے: " کوئی رات یا کوئی مشکل ایسی نہیں جوصبح کی روشنی یا امید کو شکست دے دے۔"
 There was never a night or a problem that could defeat sunrise or hope
قرآن میں رات اوردن کو ایک نشانی بتا یا گیا ہے۔ رات کی آمد یہ بتا تی ہے کہ انسانی زندگی حسرت و یاس سے خالی نہیں، اور دن یہ بتا تا ہےکہ بہت جلد زندگی کی صبح نمودارہونے والی ہے۔

لوگ سجدوں میں بھی لوگوں کا برا چاہتے ہیں

لوگ سجدوں میں بھی لوگوں کا برا چاہتے ہیں
محمد آصف ریاض
علامہ اقبال (9 November 1877 – 21 April 1938) اردو کے بہت مشہورشاعرہیں۔ تحریک پاکستان کے بانیوں میں شمارکئے جاتے ہیں۔ ہندوستان کے بارے میں ان کا خیال بہت جارحانہ تھا ۔ اقبال کا ایک شعر ہندوستان کے بارے میں ان کی سوچ کواجا گرکرتا ہے۔
ملا کوجو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
یعنی یہ کہ ہندوستان میں لوگوں کو نماز کی اجازت ہے تو یہ نادان لوگ سمجھتے ہیں کہ اسلام آزاد ہے۔ اقبال کی نظر میں ہندوستان دارالحرب تھا۔ ان کے ذہن میں جونمازتھی وہ سادہ معنوں میں نماز نہ تھی بلکہ وہ اپنے ذہن میں نماز پلس قتال کا خاکہ رکھتے تھے۔ اس لئے اس بات پر مطمئن نہ تھے کہ انھیں سادہ طور پرنمازکی اجازت حاصل ہو۔ وہ ہندوستان میں قتال اورخوں ریزی کی آزادی چاہتے تھے اوراسی لئے پاکستان کی تحریک میں شامل ہوگئے کیوں کہ یہاں انھیں اپنی خود ساختہ نماز کی آزادی ملتی ہوئی نظرآرہی تھی۔
بہرحال اقبال وہ آزادی دیکھنے کے لئے زندہ نہ رہے، اور1938 میں یعنی قیام پاکستان سے ٹھیک 9 سال پہلے وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اس کے بعد پاکستان بن گیا اوراسلام آباد وجود میں آگیا۔
اقبال کی موت سے 7 سال قبل یعنی 1931 میں پاکستان میں ایک اورشاعر پیدا ہوا۔ اس کانام احمد فراز تھا۔ احمد فراز 2008 میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ انھوں نے پاکستان کے بارے میں اپنا دل دہلا دینے والا تجربہ پیش کیا۔ وہ لکھتے ہیں:
میرا اس شہرعداوت میں بسیرا ہے جہاں
لوگ سجدوں میں بھی لوگوں کا برا چاہتے ہیں
کاش اقبال اپنے پاکستان کو دیکھنے کے لئے زندہ ہوتے؛ جہاں قتال تو موجود ہے لیکن نماز کا کہیں وجود نہیں۔

منگل، 24 مارچ، 2015

خدایا، اس بندہ عاجز کا مواخذہ مت کرنا

خدایا، اس بندہ عاجز کا مواخذہ مت کرنا

محمد آصف ریاض
 کل مارچ 2015 کی 23 تاریخ تھی۔ رات دیرسے بسترپرگیا توایک خیال دل میں گزرا۔ میں سوچنے لگا کہ جب میں دنیا میں آیا تھا تواپنی خوشی سے نہیں آیا تھا۔ یہاں روتے ہوئے بہت ہی بے بسی کےعالم میں آیا تھا، اوراب زندگی کا ایک حصہ گزارلیا تو جانے کی تیاری ہے۔
میں اس دنیا سے جانا نہیں چاہتا، یہاں کی رونقیں، بچوں کی سرگوشیاں، رشتہ داروں کا پیار، احباب کی بھیگی آنکھیں مجھے جانے سے روک رہی ہیں، لیکن جانا تو بہرحال پڑے گا۔ جب میں یہاں آیا تھا تب بھی میرے بس میں کچھ نہیں تھا اوراب جبکہ جانے کی تیاری ہے تب بھی میرے بس میں کچھ نہیں ہے۔ پہلا حکم بھی خدا کا تھا اورآخری حکم بھی خدا کا ہے۔
میں اپنی اس عجزکو سوچ کررونے لگا۔ اسی درمیان میرے منھ سے ایک چیخ نکلی؛ خدایا، تواپنے بندہ عاجزکا مواخذہ مت کرنا۔ یہ تیرا بندہ بے بسی کےعالم میں یہاں آیا اوراسی بے بسی کے عالم میں یہاں سے جا رہا ہے۔ خدا یا، اس بندہ کے بس میں پہلے بھی کچھ نہیں تھا اوراب بھی کچھ بھی نہیں ہے، پہلا حکم بھی آپ ہی کا تھا اورآخری حکم بھی آپ ہی کا ہے۔ خدایا تو اپنے اس بندہ عاجز کو بھلا دے، معاف فرما۔
اوراس کے بعد مجھے ابراہیم کی یہ دعا یاد آگئی: خدایا، "مجھے اس دن رسوانہ کرجبکہ سب لوگ زندہ کرکے اٹھائےجائیں گے، جبکہ نہ مال کوئی فائدہ دے گا اورنہ اولاد، بجزاس کے کہ کوئی شخص قلب سلیم لئے ہوئے اللہ کے حضورحاضر ہوا ہو۔"   (سورہ الشعرا 26:87-89 )

پیر، 23 مارچ، 2015

گھوڑے کے آگے گاڑی مت باندھئے

گھوڑے کے آگے گاڑی مت باندھئے

محمد آصف ریاض
آج مارچ 2015 کی 22 تاریخ ہے۔ ایک نوجوان ملنے کے لئے آئے ہیں ۔ ان کا نام ندیم ہے ۔ وہ بہارکے رہنے والے ہیں لیکن ان کی تعلیم مغربی بنگال میں ہوئی ہے،اوروہ وہیں بس گئے ہیں۔ ان دنوں وہ جاب کی تلاش میں دہلی آئے ہوئے ہیں۔ بات چیت کے دوران انھوں نے مغربی بنگال کے بارے میں بہت سی باتیں بتائیں۔ میں نے ان سے وہاں کے مسلمانوں کے بارے میں پوچھا توان کا جواب بہت ہی مایوس کن تھا۔
انھوں نے بتا یا کہ وہاں مسلمانوں میں تعلیم کی بہت کمی ہے اوروہ اخلاقی طورپربہت ہی زیادہ بگڑے ہوئے لوگ ہیں۔ اپنا ایک تجربہ بیان کرتے ہوئے انھوں نےکہا کہ ایک مرتبہ انھیں ایک بزنس کے سلسلے میں بنگلہ دیش سے ملحق ایک مسلم بنگالی علاقہ میں جانےکا اتفاق ہوا۔ یہاں ایک کمپنی اپنا اسکریپ فروخت کر رہی تھی ۔ ایک بنگالی مسلمان نذورل نے مجھےاس کی اطلاع دی۔ ایک ہندومارواڑی دوست کولے کر میں وہاں گیا۔ نذرول نے ہم لوگوں کی بڑی آئو بھگت کی۔ اس نے بڑا لمبا سلام کیا اوربولا کہ ندیم بھائی تم تواپنے ہو، تم تو مسلمان ہو۔ اس دوران ان میں کا کوئی آدمی آتا اورہمارا منھ دیکھ کرسلام کرتا۔ وہ کہتا سلام وعلیکم ورحمۃ اللہ، بھالو باچی، آمی بھالو باچی ۔ پھردوسرا بھی اسی طرح اپنے کلمات دہراتا۔  
ایسے ہی کئی لوگ سامنے آئے سبھوں نے لمبےاندازمیں سلام کیا۔ ہمیں مچھلی بھات کھلا یا گیا۔ اس کے بعد ہم نے کہا کہ اب کام کی بات کی جائے،اسی درمیان نذورل نے میرے ہم سفرمارواڑی دوست کا موبائل اپنے ہاتھ میں لے لیا اوراسے چھو کرکہنے لگا کتنا بھالو باچی یعنی کتنا اچھا لگ رہا ہے۔ میں نے مذاق کے اندازمیں کہا کہ آپ ہی کا ہے۔ اس کے بعد اس نے اس موبائل کو اپنے پاس رکھ لیا پھراپنے بیٹے شفیقول کو بلا یا ۔ شفیقول یہ موبائل لے جا۔ ہم لوگ تھوڑی دیرخاموش رہے پھرکہا کہ بھیا مذاق ہوگیا اب موبائل واپس کر دو۔ وہ موبائل 30 ہزار کا تھا۔ اس نے جواب دیا ہمیں 'بوکا' سمجھا ہے۔ ہم نے تم کوکھلا یا پلا یا اوراپنا تین گھنٹہ دیا اورتو موبائل مانگتا ہے! تمہیں یہاں سے زندہ جا نا ہے کہ نہیں؟ ہم نے اسے یاد دلا یا کہ بھائی میں مسلمان ہوں تم بھی مسلمان ہو۔ ہمیں ہمارا موبائل دے دو اس نے کہا ، مسلمان ! مسلمان ہے تو کیا؟ گلہ کاٹ دوں گا۔ یہاں سے نکل جا۔ میرا ہندو دوست بہت ڈر گیا اوراس نے اشارہ کیا کہ موبائل چھوڑ دو یہ لوگ گاڑی بھی چھین سکتے ہیں۔ ہمیں بھی حالات کا اندازہ ہوگیا اورہم لوگ کسی طرح وہاں سے جان بچاکر بھاگے۔
پولیس اسٹیش میں معاملہ درج کرانا چاہا توانسپکٹر نے یہ کہہ کر معاملہ درج کرنے سے انکار کردیا کہ اس طرح کے معاملات یہاں ہر روز ہوتے رہتے ہیں۔ ہم رپورٹ درج نہیں کر سکتے۔ ندیم صاحب نے بتا یا کہ اگرآپ کی جیب میں 100 روپے ہوں اور بنگالی خاص کرسرحدی بنگالیوں کو پتہ چل جائے تو وہ آپ کو بغیر لوٹے نہیں چھوڑیں گے، یہاں تک کہ وہ آپ کے قتل سے بھی باز نہیں آئیں گے۔ یہ سن میں مبہوت رہ گیا۔
بنگال میں مسلمانوں کی آبادی 30 فیصد ہے ۔ لیکن ریاست کی ترقی میں مسلمانوں کا رول صفر ہے۔ بہت سی مسلم سیاسی پارٹیاں بنگال کو اپنا سیاسی امپائر بنانا چاہتی ہیں لیکن انھیں کوئی کامیابی نہیں مل رہی ہے اور نہ ہی انھیں کوئی کامیابی ملنے والی ہے۔ کیونکہ ان کا نقطہ آغاز ہی غلط ہے۔ جو قوم اتنی بگڑی ہوئی ہو کہ سوروپے کے لئے لوگوں کی جان لینے سے بھی باز نہ آئے وہ قوم حکمرانی کس طرح کر سکتی ہے، خدا ایسا تو نہیں کہ وہ اس طرح کے لوگوں کو حکمراں بنا کر اہل زمین پر ظلم کرے۔

سماجی اوراخلاقی ایمپائربنانے سے پہلے سیاسی ایمپائرکی تعمیرکا خواب دیکھنا دیوانگی کی حد تک غلط ہے۔ یہ گھوڑے کے آگے گاڑی باندھنے کے مترادف ہے، اورکوئی بھی شخص گھوڑے کےآگے گاڑی باندھ کراپنا سفرمکمل تو دور شروع بھی نہیں کر سکتا۔

جمعرات، 19 مارچ، 2015

دیکھئے کہ آپ کس کو رد کر رہے ہیں

دیکھئے کہ آپ کس کو رد کر رہے ہیں

محمد آصف ریاض
عبد الغفارصدیقی صاحب جماعت اسلامی کے ایک سینئررکن ہیں۔ وہ دہلی میں رہتے ہیں اورشعبہ دعوت سے منسلک ہیں۔ مارچ 2015 کوان سے ان کے دفترمیں ملاقات ہوئی۔ وہ بہت سادہ انسان ہیں اورنہایت سادگی کے ساتھ اپنی زندگی گزارتے ہیں۔ جس وقت میں ان سے مل رہا تھا وہ کسی اہم کام میں کمپیوٹرپرمصروف تھے۔ انھوں نے مجھے دیکھتے ہی کمپیوٹرآف کردیا اورکہنے لگے کہ اب کام بعد میں کریں گے۔ خلیفۃ الارض سے ملاقات ہو تو اس پرکسی دوسری چیزکوترجیح نہیں دی جا سکتی۔ یہ کہہ کر وہ مجھ سے دعوت کے موضوع پرگفتگو شنید کرنے لگے۔
مجھے ان کی بات پسند آئی ۔ ایک ایسے بھاری دورمیں جہاں ہرطرف انسانیت کراہ رہی ہو وہاں احترام انسانیت کی بات کرنا بلا شبہ گھپ اندھرے میں روشنی کا چراغ جلا نا ہے۔ بقول احمد فراز"ہم ایک ایسے دورمیں رہتے ہیں جہاں لوگ سجدوں میں بھی لوگوں کا برا چاہتے ہیں"۔
میرا اس شہر عداوت میں بسیرا ہے جہاں
لوگ سجدوں میں بھی لوگوں کا برا چاہتے ہیں
اصل بات احترام انسانیت کی ہے۔ آدمی خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، اگراس کے اندراحترام انسانیت نہیں تو وہ خدا کے یہاں پسندیدہ بھی نہیں ۔ وہ درحقیقت شیطان کا بھائی ہے۔ کیونکہ یہ شیطان ہے جس نے سب سے پہلےاحترام انسانیت کورد کیا تھا۔
قرآن میں احترام انسانیت کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: " جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اوروجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا اورجس نے کسی کی جان بچائی اس نےگویا تمام انسانوں کوزندگی بخش دی"۔ 5: 32))
حضرت عبد اللہ ابن عمرو سے روایت ہے کہ روسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے افضل درجہ انسان کا ہوگا ، کہا گیا کہ اے اللہ کے رسول کیا فرشتوں سے بھی ؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں، فرشتوں سے بھی۔ (المعجم الکبیر للطبرانی ، رقم الحدیث: 14509)
بائبل میں احترام انسانیت کے بارے میں یہ الفاظ آئے ہیں :"پھرخُدا نے کہا کہ ہم اِنسان کواپنی صُورت پراپنی شبیہ کی مانند بنائیں اوروہ سمندر کی مچھلیوں اورآسمان کے پرندوں اور چوپایوں اور تمام زمین اورسب جانداروں پرجو زمین پر رینگتے ہیں اِختیاررکھیں۔"
Then God said, "Let us make mankind in our image, in our likeness, so that they may rule over the fish in the sea and the birds in the sky, over the livestock and all the wild animals, and over all the creatures that move along the ground."

Genesis 1:26
قرآن میں ہے: اور یقیناً ہم نے اولاد آدم کو بڑی عزت دی اورانھیں خشکی اور تری کی سواریاں دیں اورانھیں پاکیزہ چیزوں کی روزیاں دیں اوراپنی بہت سی مخلوق پرانھیں فضیلت عطا فرمائی" 17: 70) (
احترام انسانیت کورد کرنا ایسا ہے جیسے کسی نے خدا کو رد کردیا، اورشیطان نے یہی کیا تھا۔ اس نے انسان کے معاملہ میں تکبر سے کام لیا۔ اس نے کہا ہم آگ سے پیدا کئے گئے ہیں اورانسان خاک سے، ہم اس کے سامنے کیوں جھکیں؟ آج کے لوگوں کا حال بھی یہی ہے۔ وہ کسی نہ کسی صورت احترام انسانیت کو رد کرتے رہتے ہیں۔ کبھی کسی کو نادان قرار دے کر، کبھی کسی کوحقیر بتا کر، کبھی کسی کو غیرمہذب بتا کر، کبھی کسی کو مفلس اور نادار قرار دے کر، کبھی کسی کو مجنون اوردیوانہ بتاکر۔
ہردورمیں انسان نے انسانیت کی تحقیرکی اوراس کے لئے اسی طرح کے جواز پیش کئے جس طرح کا جواز شیطان نے پیش کیا تھا۔ آدمی احترام انسانیت کو رد کردیتا ہے، حالانکہ احترام انسانیت کو ردکرنا خود خدا کو رد کرنا ہے۔ کاش انسان کو یہ سمجھ ہوتی!

پیر، 16 مارچ، 2015

جہالت کے ساتھ ذلت لگی رہتی ہے

جہالت کے ساتھ ذلت لگی رہتی ہے

محمد آصف ریاض
کل اتوارکا دن تھا اورمارچ 2015 کی 15 تاریخ تھی۔ میں معروف اسلامی اسکالر مولانا وحید الدین خان کا لکچر سننے کے لئے ویسٹ نظام الدین دہلی گیا ہوا تھا۔ وہاں مولانا کی تقریرکے بعد گڈ ورڈس سے کچھ کتابیں خریدنے لگا۔ یہاں گڈ ورڈس میں کچھ بہترین اورمعیاری کتابیں بہت کم قیمت پرمل جاتی ہیں۔ تویہاں میں نے تین چارکتابیں خریدیں۔
کائونٹرپرسلیم احمد صاحب (تاجر) سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے مسلمانوں کی حالت پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ افسوس ہے کہ مسلمان علم کے خریدار نہیں بن رہے ہیں ۔ اتنی اچھی اچھی کتابیں بازاروں میں آتی ہیں لیکن میں مسلمانوں کو بہت کم کتاب خریدتے ہوئے دیکھتا ہوں ۔ وہ کتابوں پر پیسہ خرچ کرنا نہیں چاہتے۔
میں نے کہا کہ آپ صحیح فرما رہے ہیں۔ لیکن اگر یہی بات آپ مسلمانوں یا ان کے لیڈران سے کہیں تو وہ کہیں گے کہ غربت کی وجہ سے ایسا ہے۔ حالانکہ جس وقت وہ یہ بات کہہ رہے ہوں گے ان کے پان کی لالی ان کی غربت کو جھٹلا رہی ہوگی۔ اصل بات غربت کی نہیں ہے ۔ اصل بات کنسرن کی ہے۔ مسلمانوں کا کنسرن زیادہ کما نا اورزیادہ کھانا بن چکا ہے۔ چنانچہ وہ گدھے کی طرح کماتے ہیں اورگدھے کی طرح کھالیتے ہیں۔
میں نے انھیں بیربل کا ایک واقعہ سنایا۔ کہا جا تا ہے کہ ایک بار کسی وجہ سے ناراض ہوکراکبر نے بیربل کو ملازمت سے نکال دیا۔ بیربل بے روزگارہو گیا تو روزگار کی تلاش میں شہر میں نکل پڑا۔ اسی دوران اس کی ملاقات ایک نواب سے ہوئی۔ اس نے نواب کے یہاں ملازمت کی درخواست دی۔ نواب نے کہا کہ بربل آپ تو بہت پڑھے لکھے اور ہوشیار آدمی ہیں آپ میرے بچے کو پڑھا ئیے! بیربل نے کہا ٹھیک ہے لیکن یہ تو بتائے کہ میری تنخواہ کتنی ہوگی؟ نواب نے جواب دیا 20 درہم ۔ بیربل نے نہایت سادگی سے پوچھا کہ یہ بتائیں کہ آپ اپنے کوچوان کوکیا دیتے ہیں۔ نواب نے جواب دیا 100 درہم۔ اس پربیربل نے کہا کہ آپ اپنے بچے کو پڑھا کیوں رہے ہیں اسے کوچوان بنائیے۔
یہی حال مسلمانوں کا ہے۔ مسلمان اپنے بچوں کو پڑھانا چاہتے ہیں لیکن وہ اس کی قیمت (price)  چکانے کے لئے تیار نہی ہیں۔ وہ عملاً اپنے بچوں کوکوچوان بنا نے پر راضی ہیں، اور اسی لئے ذلت کی زندگی گزارتے ہیں۔

ہفتہ، 14 مارچ، 2015

دیکھئے کہ آپ کا عمل کیا کہہ رہا ہے

دیکھئے کہ آپ کا عمل کیا کہہ رہا ہے
محمد آصف ریاض
7 فروری 1015 کو دہلی اسمبلی کا انتخاب ہوا۔ اس انتخاب میں وزیراعظم مودی نے بلند و بانگ نعرے لگائے۔ انھوں نے ان تمام نعروں کو دہرایا جو وہ 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں کامیابی کے ساتھ لگا چکے تھے۔ چونکہ دہلی میں بڑے پیمانے پر لوگ جھگی جھونپڑی میں رہتے ہیں اور15 سے 20 سیٹوں پروہ  فیصلہ کن رول ادا کرتے ہیں اس لئے جناب مودی نے ایک نیا نعرہ دیا ۔ وہ نعرہ تھا "جہاں جھگی وہیں مکان"۔
مانا یہ جا رہا تھا کہ مودی صاحب  کے اس نعرہ کا بڑا فائدہ ہوگا۔ لیکن انتخاب کا نتیجہ بہت الٹا نکلا ۔ مودی صاحب کی پارٹی 70 میں صرف 3 سیٹیں ہی حاصل کر سکی۔
اہل دہلی نے مسٹرمودی کو بری طرح مسترد کردیا۔ کیوں ؟ اس لئے کہ جناب مودی کا قول کچھ اورتھا اوران کا عمل کچھ اور۔ ان کا عمل  ان کے قول کی تائید نہیں کر رہا تھا۔ مثلاً جب دہلی میں صدارتی حکومت قائم تھی توکئی جھگی جھونپڑیوں کو بلڈوز کردیا گیا تھا۔ دہلی میں قانون انتظامیہ کی حالت خستہ تھی۔ کلیسائوں پرمسلسل حملے ہو رہے تھے۔ فرقہ پرست طاقتیں آزادانہ گھوم رہی تھیں۔ اور یہ سب اس وقت ہورہا تھا جبکہ وزیراعظم خود دہلی میں موجود تھے اوران کی عظیم الشان حکومت نہایت آن بان کے ساتھ قائم تھی۔ الغرض یہ کہ تمام خوشنما وعدوں کے با وجود وزیراعظم مودی دہلی نہ جیت سکے اور وجہ صرف ایک تھی وہ یہ کہ ان کا عمل ان کے قول کو سپورٹ نہیں کر رہا تھا۔
یہی حال مسلمانوں کا ہے۔ مسلمان لوگوں کو قرآن و حدیث کی باتیں بتا تے ہیں لیکن کوئی بھی ان کی خوبصورت بولی کا خریدار نہیں بنتا۔ کیوں؟ اس لئے کہ وہ جو کچھ بولتے ہیں ان کا عمل اس کی نفی کرتا ہے۔ مثلاً مسلمان امن کی بات کرتے ہیں اورعملاً بد امنی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان کے علما عجز کی بات کرتے ہیں اورعملاً سرکش بنے رہتے ہیں۔
مسلمان ہوں یا مودی اگروہ صرف لوگوں کواپنا قول دیتے رہیں توانھیں ہر گز کامیابی ملنے والی نہیں ہے ۔ انسان بہرحال عمل کا خریدارہوتا ہے وہ قول کا خریدار نہیں ہوتا ۔ وہ درخت سے زیادہ اس کے پھولوں اور پھلوں کا طالب ہوتا ہے۔ آدمی کا ایک عمل اس کے بلین قول پر بھاری ہے۔
ایک مثال
اب میں یہاں قول و عمل کے بارے میں پیغمبراسلام کی زندگی سے ایک نمونہ پیش کروں گا۔ مکہ میں ایک بڑھیا رہتی تھی ۔ وہ اکثر پیغمبراسلام پر اپنی چھت سے کوڑا ڈال دیتی تھی ۔ پیغمبر اسلام اسے در گزر فرماتے ہوئے لوگوں کو نصیحت کرتے رہتے تھے۔
ایک دن ایسا ہواکہ بڑھیانےحسب معمول آپ پرکوڑا نہیں ڈالا ۔ آپ اس کے گھر گئے تو پتہ چلا کہ وہ بیمار ہے۔ آپ نے اس کی عیادت کی۔ بڑھیا کے سر پر ہاتھ رکھ کر پوچھا کہ ماں تمہارا کیا حال ہے۔ بڑھیا آپ کو دیکھ کرحیران رہ گئی۔ اس نے پوچھا تم یہاں کیوں آئے ہو؟ آپ نے فرمایا کہ معلوم ہوا ہے کہ آپ بیمار ہیں تو آپ کی عیادت کے لئے آگیا۔ یہ سن کر بڑھیا رونے لگی۔ اس نے کہا دنیا تم کو مذمم (جس کی مذمت کی جائے)کہتی ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ تو محمد  (جس کی تعریف کی جائے) ہے۔  یہ کہہ کر وہ مسلمان ہو گئی۔ 

جمعہ، 13 مارچ، 2015

متقیوں کا سردار

متقیوں کا سردار
محمد آصف ریاض
آج صبح قرآن کی تلاوت کے بعد دوسری کتابوں کا مطالعہ کررہا تھا تبھی بچوں نے 'کرکرے' کا مطالبہ کردیا۔ تینوں بچے یحییٰ، مدیحہ اورانیقہ نےاسرارکیا کہ ابوآج بلکہ ابھی ہم لوگوں کو 'کرکرے' دلائیے۔ میں انھیں لے کر قریب کی ایک دکان میں گیا اور تین پیکٹ کرکرے لے کرسبھی کو ایک ایک پیکٹ دے دیا۔ تینوں بچے بہت خوش ہوئے ۔ میں بستر پرتکیہ لگاکر بیٹھ گیا اوردوبارہ پڑھنے میں مصروف ہوگیا۔
میرے بچے بھی میرے قریب ہی بیٹھ  گئے اورکرکرے کھانے لگے۔ میں نے اپنا ایک ہاتھ ان کی طرف بڑھا دیا۔ بیٹی نے اس میں کچھ کرکرے رکھ دیا پھربیٹے نے اپنے پیکٹ سے کر کرے نکال کرمیرے ہاتھوں میں رکھ دیا، پھر چھوٹی بیٹی نے بھی ایسا ہی کیا۔ میں نے اپنا ہاتھ واپس نہیں کھینچا۔ بچوں نے دوبارہ میرے ہاتھوں میں کرکرے رکھنا شروع کردیا یہاں تک کہ میرا ہاتھ بھرگیا۔ اب بچوں نے کہا کہ ابواسے کھالیں۔ میں نے اس میں سے تھوڑا لیا اورپھرانھیں واپس کردیا۔
بچوں کے اس عمل کو دیکھ کرمیرے دل سے یہ دعا نکلی کہ خدایا تو میرے بچوں کو دنیا داری سے بچا اورانھیں ان کی فطرت پرقائم رکھ ۔ کیونکہ آدمی جب تک اپنی فطرت پرقائم رہتا ہے وہ لوگوں کے لئے اورخود اپنے ماں باپ کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک بنا رہتا ہے لیکن جیسے ہی وہ دنیا داری کی زد میں آتا ہے اس میں بھی وہی خرابی پیدا ہوجاتی ہے جو برو بحرمیں پھیلی ہوئی ہے اورجسے قرآن میں فساد فی البروالبحر کہا گیا ہے۔ یہ سوچتے ہوئے میری زبان پرقرآن کی یہ آیت آگئی :" اے ہمارے رب ہمیں اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اورہمیں متقیوں کا سرداربنا" 25: 72) (
بات یہ ہے کہ اس دنیا میں ہرصاحب اولاد سردارہے۔ اب اگراس کی اولاد ناخلف ہے تو وہ زمین پرنا خلفوں کا سردار ہوگا اوراگر اس کی اولاد متقی ہے تو وہ زمین پر متقیوں کا سردار کہلائے گا۔

جمعرات، 5 مارچ، 2015

آدمی پتھر پر پتھر جمع کر کے خوش ہوتا ہے

آدمی پتھر پر پتھر جمع کر کے خوش ہوتا ہے

محمد آصف ریاض
تاریخ  کی کتابوں میں درج ہے کہ اسپین کے سلطان عبد الرحمٰن الناصرنے جب قرطبہ میں الزہرا نامی محل تعمیرکرلیا توایک دن وہ نہایت پرشکوہ اندازمیں سونے کے تخت پر بیٹھا۔ وہاں اس کے امرا اور درباری موجود تھے۔ سلطان نے پوچھا کہ کیا تم نے کبھی سنا ہے کہ کسی نے ایسا عالی شان محل تعمیر کیا ہو۔ درباریوں نے خوب تعریف کی۔ لیکن قاضی منذر وہاں سرجھکائے بیٹھے رہے۔ آخرمیں بادشاہ قاضی منذرکی طرف مخاطب ہوا اوران سے ان کی رائے مانگی۔
قاضی منذرروپڑے اورکہا کہ خدا کی قسم مجھے یہ گمان نہیں تھا کہ شیطان تمہارے اوپراتنا زیادہ قابو پالے گا کہ وہ تم کو کافروں کے درجہ تک پہنچا دے۔ سلطان نےعاجزی کے ساتھ کہا کہ دیکھئے آپ کیا کہہ رہے ہیں اورکس طرح آپ مجھے کافروں کے درجہ تک پہنچا رہے ہیں۔ اس کے بعد قاضی منذرنے قرآن کی سورہ الزخرف کی تلاوت کی۔
"اوراگریہ بات نہ ہوتی کہ تمام لوگ ایک ہی طریقہ پرہوجائیں تورحمٰن کے ساتھ کفرکرنے والوں کے گھروں کی چھتوں کو ہم چاندی کی بنادیتے۔ اورزینوں کو بھی جن پر وہ چڑھا کرتے ہیں، اوران کے گھروں کے دروازے اور تخت کو بھی جن پر وہ تکیہ لگا کر بیٹھتے ہیں اور سونے کے بھی، اوریہ سب یوں ہی دنیا کی زندگی کا فائدہ ہے اور آخرت تو آپ کے رب کے نزدیک صرف پرہیزگاروں کے لئے ہے۔" قرآن  43:33-35
یہ واقعہ پڑھ کر مجھے ایک اور واقعہ یاد آگیا ۔ یہ واقعہ انجیل میں اس طرح درج ہے۔ انجیل میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت مسیح علیہ السلام اپنے اصحاب کے ساتھ  کسی شہر سے گزر رہے تھے۔ شہر کی پر شکوہ عمارتوں کو دیکھ کر آپ کے اصحاب احساس عجب کے شکار ہوگئے اور کہنے لگے" استاذ دیکھ کیسی کیسی عمارتیں ہیں اور کیسے کیسے محل! حضرت مسیح نے جواب دیا تو ان عمارتوں پرمرتا ہے، سن! خدا کی قسم کوئی پتھر پر پتھر باقی نہ رہے گا جو گرا نہ دیا جائے گا۔"
As Jesus was leaving the temple, one of his disciples said to him, “Look, Teacher! What massive stones! What magnificent buildings!”
Do you see all these great buildings?” replied Jesus. “Not one stone here will be left on another; everyone will be thrown down.”
آدمی پتھر پر پتھر جمع کرکے خوش ہوتا ہے کہ اس نے زمین پر بڑا کارنامہ انجام دے دیا ہے۔ لیکن اس دن انسان کا کیا حال ہوگا جب کہ وہ پہاڑوں کو روئی کا گالہ بن کر اڑتے ہوئے دیکھے گا اورجب آسمان کو اس طرح دیکھے گا کہ وہ ڈگمگا رہا ہوگا.