جمعہ، 31 اگست، 2012

Struggle against hopelessness



 
By Asif Reyaz
 
Just the other day an acquaintance came to meet me. He was young but appeared to be low in spirit.

The vagaries of time had made him look old and frail.

When I asked him about his well being , he told  me that he is jobless and hence disappointed.

I reminded  him that being jobless doesn't necessarily mean being hopeless.

I gave him a pep talk . I realized that it ignited hope in him.

 I told him that the hard times you are going through, is not destined. God does not want you to be in this state. He  is all helpful and all merciful.

 Over a cup of green tea, the animated conversation continued. I tried my level best to convince him that what he was enjoying earlier was a lower layer of success and  now God wants him to have the upper layer of success and hence the hard times.
 
I told him there is no need to lose sleep over such trivial issues. To get great success in life one has to leave behind small one.

You  can not go to greater success without leaving the smaller one. See, earlier  you were enjoying smaller ease and  now God  wants  you to enjoy the greater one. Saying so, I recited him a couplet of  Hafiz Shirazi , the great Persian poet.

Mush kile neest ke aasan na showad

            Mard bayad ke harasan na showad


Surely, no trouble is without ease, so man should never be disappointed.
 
My recitation brought him a great smile. Perhaps it was for the  first time he had smiled after being jobless. My recitation ignited him with life and energy. Now he was looking full of energy, talking entirely in a different ton.

As a matter of  fact , unemployment was not his problem. His problem was  hopelessness and  that had made him look  weak and frail.

I had provided him no job, no money, but only a few encouraging words and those were enough to change him.

 It reminds me a saying of Prophet Mohammad, __ Yesseroo  wala tu'assiroo __

Wa basheroo wala tu'nafferoo.

{Give ease and trouble not. Give good news and hate not not}

Qur'an says “indeed, there is ease with hardship. Most certainly, there is ease with hardship”.

 

جمعرات، 30 اگست، 2012

God, Narendra Modi and Muslims


خدا ،  نریندر مودی اور مسلمان

محمد آصف ریاض

 نریندرمودی گجرات کے وزیراعلی ہیں۔ وہ 7 اکتوبر   2001سے اس عہدے پر فائز ہیں۔ مودی 2002 میں ہونے والے گجرات فساد کے لئے ملک بھر میں بدنام ہیں۔ گجرات میں اسی سال سال 2012 میں اسمبلی انتخاب ہونے کو ہے۔ اس انتخاب سے قبل یہاں اسمبلی حلقوں کی از سر نو حد بندی ہوئی ہے۔ اس نئی حد بندی میں 9 سیٹیں مسلم اکثریت والی نکل کر آئی ہیں۔ ان نو سیٹوں کے ساتھ گجرات میں مسلم اکثریت والے اسمبلی حلقوں کی تعداد 19 سے بڑھ کر 28 ہوگئی ہے۔ مثلاً احمد آباد کے کھادیا اسمبلی  حلقہ میں نئی حد بندی کے تحت جمال پورکو شامل کردیا گیا ہے اور جمال پور کی شمیو لیت کی وجہ سے یہ حلقہ مسلم اکثریت والا حلقہ ہوگیا ہے ۔ اس نئی حد بندی کی وجہ سے یہ ممکن ہوسکا  ہے کہ کھادیا کی انتخابی تاریخ میں پہلی بار کوئی مسلمان ایم ایل ہو۔  

Ahmedabad’s Khadia is traditionally a BJP seat. One could not imagine that a Muslim can be the MLA of Khadia. But thanks to delimitation, Khadia is most probably going to have a Muslim MLA for the first time in its electoral history. That is because the Muslim dominated areas of Jamalpur constituency have been merged with Khadia in the final delimitation order. The seat, now Khadia-Jamalpur has a majority of Muslim voters.

اس نئی حد بندی کا کام مسلمانوں کے مطالبہ پر انجام نہیں پا یا ہے۔ بلکہ یہ کام انتخابی ضرورت کے تحت انجام پا یا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ کا م برارہ راست خداکی نگرنی میں ہوا ہے۔ خدا کا قانون یہ ہے کہ جب کوئی قوم سر کش ہوجا تی ہے تو وہ اس کو ایک  دوسری قوم سے بدل دیتا ہے تاکہ زمین پر توازن قائم رہے۔ اگر خدا ایسا نہ کرے تو زمین فساد سے بھر جائے۔ اور زمین پر انسان کا جینا محال ہوجائے۔ خدا بحرانی صورت حال میں آسمان سے اتر کر براہ راست مداخلت کرتا ہے۔ خدا کے اس قانون کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:

 " اگر اللہ تعالی بعض لوگوں کو بعض سے دفع نہیں کرتا تو زمین میں فساد پھیل جا تا ۔ لیکن اللہ تعالی زمین والوں پر فضل کرنے والا ہے۔"2-251}  (

خدا اپنے قانون کے مطابق زمین پر تبدیلی لاتا رہتا ہے، وہ ایک کو دوسرے سے بدلتا رہتا ہے  تاکہ زمین پر عدل، انصاف  اور توازن کا ماحول باقی رہے ۔ با شعور قومیں اس تبد یلی کا فائدہ اٹھا کر اپنے مستقبل کو بہتر بناتی ہیں اور نادان قومیں اس موقع کو گنوا کر روتی ہیں اور ماتم کرتی ہیں۔

  

بدھ، 29 اگست، 2012

Make Your Own World


Mohammad Asif Reyaz

Mohammad Arif came into this world on the 10th of December, 1981 and now lives in Jamia Nagar, New Delhi. He knows several languages including Urdu, English, and French.

Currently he is learning Arabic at Jamia Millia Islamia. Surprisingly, he is not even a graduate yet. When asked, why? He responded saying that “I am striving for knowledge and not for any degree. My aim is to gain more knowledge”. He adds that for him “time is life which he doesn’t want to waste chasing degrees.” For him time is one thing which life is made of.

Arif lives his life his way and is not influenced by the surroundings or environment.

As a matter of fact, there are two kinds of people living in this world. One, who are burdened by one’s environment or surroundings while the others who are self-made.

Men influenced by environment or environment-made

Self-Made Men

Environment-made man lives according to the environment. When one finds that there is a mad rush for degrees, the other also starts running along. When one comes to know that people are in queue for jobs, the other also joins in. He dances to the tunes of the environment. He cries under the compulsion of environment. Actually, these are the people who do not have any goal for their life. These are the people gone astray. These people have only one goal. That is to earn hard and enjoy hardly. In fact they are beasts of burden.

On the contrary self-made man has a clearly chalked out plan for his life. He dances when he wishes to, cries when he wants to. These are the people who make their own world. These are the people who are salt of the earth. As described in Bible.
"You are the salt of the earth; but if the salt has become tasteless, how can it be made salty again? It is no longer good for anything, except to be thrown out and trampled underfoot by men”.

There is a divine sign in your children

آپ کے بچوں میں آپ کے لئے نشانیاں ہیں
محمد آصف ریاض
16 اگست  2012 کی صبح جب میں آفس کے لئے نکل رہا تھا تو میرا بیٹا یحی دوڑا ہوا میرے پاس آیا اور بولنے لگا، ابو ٹوفی لے کر آئیے گا ، آم لے کر آ ئیے گا۔ ابھی اس کا مطالبہ ختم بھی نہیں ہوا تھا کہ بیٹی مد یحہ دوڑی ہوئی آئی اور اس نے بھی اپنی ٹوٹی پھوٹی زبان میں مطالبہ  شروع کر د یا۔
جب بیٹا بول رہا تھا تو وہ ایک اور ہی انداز میں بول رہا تھا اور جب بیٹی بول رہی تھی تو وہ ایک اور ہی انداز میں بول رہی تھی۔ یہ دیکھ کر مجھے قرآ ن کی یہ آیت یاد آگئی :” اور اس کی نشانیوں میں سے آسمان و زمین کی پیدائش، اور تمہاری زبا نوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف ہے ، یقینا اس میں بہت سی نشا نیاں ہیں عقلمندوں کے لئے۔“ {30:22}
میں سوچنے لگا کہ خدا نے انسان اول یعنی آدم کو مٹی سے بنا یا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ” جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہوں، پھر جب میں اسے پوری طرح بنا دو ں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم اس کے آگے سجدے میں گرجانا“-72}38:71{   دوسری جگہ ارشاد ہے: " وہی ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا"۔( 6—2)
بائبل میں ہے۔” خدا وند خدا نے زمین کی مٹی سے انسان کی تخلیق کی اور اس کے اندر زندگی کی روح پھونک دی اور انسان زندہ جاگتا ہوگیا"۔
The LORD God formed the man from the dust of the ground and breathed into his nostrils the breath of life, and the man became a living being.
 New International Version (1984)
انسان اول کو خدا نے مٹی سے بنایا پھر اس کے بعد اپنا طریقہ بدل دیا۔ اب انسان اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے ۔خداوند اس بات پر قادر تھا کہ وہ انسانوں کی تخلیق مٹی سے کرتا جیسا کہ اس نے انسان اول کے معاملہ میں کیا۔ لیکن ایسی صورت میں پوری انسانیت گھا ٹے میں پڑ جاتی ۔ خدا اگر اپنے پہلے طریقہ پر قائم رہتا تو جس طرح زندہ پودے زمین پھاڑ کر نکلتے ہیں ، جس طرح وہ کھاتے ہیں ،سانس لیتے ہیں ، سورج کی توانائی لیتے ہیں اور زمین پر اپنی زندگی کی مدت پو ری کرکے ختم ہوجاتے ہیں ، اسی طرح انسان بھی کھیتو ں میں زمین پھاڑ کر نکلتا، وہ کھانا کھا تا ، پانی پیتا، سورج کی توانا ئی لیتا اور اپنی زندگی کی مدت پوری کر کے مرجا تا۔
ذرا تصور کیجئے کہ اگر ایسا ہوتا تو کیا ہوتا؟
زمین پر انسان کی کوئی قدر نہ ہوتی ۔ انسان پیڑ اور پودوں کی طرح ہوکر رہ جاتا۔ جس طرح انسان درختوں کے ساتھ معاملہ کرتا ہے اسی طرح خود انسانوں کے ساتھ معاملہ کیا جا تا ۔ مثلاً جس طرح انسان کچھ درختوں کو کاٹ دیتا ہے اور کچھ کو جلا دیتا ہے اسی طرح انسان کو کاٹ دیا جا تا اور کچھ کو جلا دیا جا تا۔
 ایسی صورت میں انسان اس سے چیز سے محروم ہوجا تا جسے شفقت ، محبت ، ہمدردی ، بردباری اور پیار کہا جا تا ہے۔ ایسی صورت میں انسان اپنی ماں کو کھو دیتا۔ وہ اپنی بہن اور اپنے بھا ئی کو کھو دیتا ، وہ اپنے باپ اور دادا سے محروم ہوجا تا ۔ وہ اپنی آل اولاد اپنے کنبہ اور قبیلہ کو کھودیتا،جس پرآج وہ فخر کرتا ہے۔
خدا اگر اپنے پہلے طریقہ پر قائم رہتا تو زمین کا سارا نظام درہم برہم ہوکر رہ جا تا ۔ خدا چونکہ دانا و بینا ہے ۔ اس نے اپنے بندوں کے نقصان کو دیکھا اور اپنے طریقہ کو بد ل کر اسے ماں باپ ، بھائی بہن، بیوی بچہ، کنبہ اور قبیلہ والا بنا یا، تاکہ انسان خدا کا شکر ادا کرے۔ لیکن افسوس کہ انسان اپنی آل اولاد اور اپنے کنبہ اور قبیلہ پر فخر تو کرتا ہے لیکن خدا کا شکر نہیں کرتا۔ وہ اسی کو بھول گیا جس نے اسے کنبہ اور قبیلہ والا بنایا۔
انسان پر لازم ہے کہ جب وہ اپنی آل اولاد اور اپنے کنبہ اور قبیلہ کی طرف دیکھے تو وہ خدا کے شکر میں نہا جائے، اور پکار اٹھے ”اے ہمارے رب ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنا“ ۔}  {25-74

منگل، 28 اگست، 2012

Make your own world

اپنی دنیا خود تعمیر کیجئے
محمد آصف ریاض
محمدعارف پیدائش ﴿10-12- 81﴾ دہلی کے جامعہ نگر علاقہ میں رہتے ہیں۔ وہ اردو اور انگریزی کے علا وہ فرنچ بھی جانتے ہیں۔ ان دنوں وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ سے عربی کا کورس کر رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ابھی تک انھوں نے گریجو یشن نہیں کیا ہے۔ بات چیت کے دوران انھوں نے بتا یا کہ وہ ڈگری کے لئے نہیں پڑھتے، وہ علم کے لئے پڑھتے ہیں۔ ان کا کنسرن علم ہے نہ کہ ڈگری ۔ وہ ڈگری کی دوڑ میں پڑ کر اپنا وقت ضائع  کرنا نہیں چاہتے۔ کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ وقت ہی زندگی ہے۔ مسٹر عارف اپنے انداز میں جیتے ہیں۔ وہ ما حول کے اثر میں نہیں آتے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس د نیا میں دو قسم کے لوگ جیتے ہیں۔ اول قسم کے لوگ وہ ہیں جنھیں انوائرمنٹ میڈ مین (Environment Made Man) کہا جا تا ہے ۔ دوسرے قسم کے لوگ وہ ہیں جو اپنی زندگی کا فیصلہ خود لیتے ہیں ۔ وہ ماحول کے اثر میں نہیں آتے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں سلف میڈ مین __ Self-Made Man کہا جا تا ہے۔
ماحول کے زیر اثر تیار ہونے والے لوگ ماحول کے لحاظ سے جیتے ہیں۔ وہ دیکھتے ہیں کہ سب لوگ ڈگری کے لئے دوڑ رہے ہیں تو وہ بھی ڈگری کے لئے دوڑنے لگتے ہیں ۔ وہ دیکھتے ہیں کہ سب لوگ نوکری کے لئے قطار بند ہیں تو وہ بھی ان کے ساتھ قطار بند ہو جاتے ہیں۔ ماحول ان سے کہتا ہے کہ رقص کرو، تو وہ رقص کر تے ہیں، اور جب ماحول ان سے کہتا ہے کہ ماتم کرو تو وہ ماتم کرنے لگتے ہیں۔ ان کے پاس زندگی کا اپنا کوئی اپنا نقشہ نہیں ہوتا ۔ ان کی زندگی کا کنسرن صرف کھانا اور کمانا ہوتا ہے۔
اس کے برعکس سلف میڈ مین کے سامنے اپنی زندگی کا ایک واضح  نقشہ ہوتا ہے ۔ وہ اپنے اس نقشہ کے مطابق اپنی زندگی گزارتے ہیں۔ وہ اس وقت رقص کرتے ہیں جب کہ وہ رقص کرنا چاہتے ہیں اور اس وقت ماتم کرتے ہیں جب کہ ان کا دل اس کے لئے تیار ہوتا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اپنی دنیا خود تعمیر کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن سے اس دنیا کی رونق ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر پہلے تو دنیا ہنستی ہے اور بعد میں "مین آف ہسٹری" کہہ کر بلاتی ہے۔

پیر، 27 اگست، 2012

See the opportunities

دستیاب مواقع کو جانئے 

محمد آصف ریاض

25جولائی 2012 کی شام ایک مسلم نوجوان ملنے کے لئے آئے ۔ وہ کچھ مایوس نظر آرہے تھے ۔ بات چیت کے دوران انھوں نے بتا یا کہ وہ زندگی کی دوڑ میں دوسروں سے پچھڑ گئے ہیں۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ اس دنیا نے ان کو کم دیا ہے اور دوسروں کو زیادہ ۔

 میں نے انھیں بتا یا کہ آپ کی یہی سوچ آپ کی ناکامی کا سبب ہے ۔ آپ دوسروں کا بوجھ اپنے او پر اٹھائے پھر رہے ہیں۔ اور جب تک آپ کے او پر یہ بوجھ رہے گا، آپ اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر نہیں بنا سکتے۔  سب سے پہلے آپ اس بوجھ کو اپنے سر سے اتارئے۔ آپ کا  مسئلہ یہ نہیں ہے کہ دوسروں کو زیادہ ملا اور آپ کو کم ۔ آپ کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ آپ کی نگاہ ہمیشہ دوسروں پر لگی رہتی ہے۔

دوسروں کو کیا ملا ؟ آپ اسے بھول جائے ۔  آپ اپنےملے ہوئے مواقع کو استعمال کیجئے۔ دانا آدمی ہمیشہ دستیاب مواقع کے استعمال کو جانتا ہے اور نادان ہمیشہ غیر دستیاب مواقع کی فکر میں اپنے آپ کو بوڑھا کرتا ہے۔

میری اس بات پر انھوں نے کہا کہ اگر میں چیزوں کو اسی طرح لوں تو میرے بچوں کا کیا ہوگا ؟ وہ تو زندگی کی دوڑ میں دوسروں سے پچھڑ جائیں گے؟

میں نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں  کہ آپ اپنے بچوں کی زندگی خود  تعمیر کرتے ہیں ۔ اگر آپ ایسا سوچتے ہیں تو آپ دوہرے قسم کی نادانی میں مبتلا ہیں۔

اس زمین پر کوئی بچہ ایسا نہیں جو اپنے ساتھ  اپنی دنیا لے کر نہ آیا ہو ۔ خدا نے ہر بچہ کو مسٹر ڈفرنٹ بنا کر پیدا کیا ہے اور اس کی ترقی کے لئے داخلی اور خارجی دونوں سطح پر انتظام  فرمایا ہے۔

مثلاً ہر بچہ اپنے ساتھ  دل اور دماغ لے کر آتا ہے ۔ اس کے پاس ہاتھ اور پا وَ ں ہوتے ہیں ۔اس کے ساتھ ہی اس کے سر پر ایک کھلا آسمان ہوتا ہے اوراس کے قدموں کے نیچے ایک وسیع و عریض زمین ہوتی ہے ۔ اس کے سامنے موجیں مارتا ہوا سمند ر ہوتا ہے اور اونچے اونچے پہاڑ ہوتے ہیں جو اسے اس بات کی ترغیب دیتے ہیں کہ وہ سمندر کی موجوں سے ٹکرائے اور پہاڑ کی  بلنیدیوں پر اپنی کامیابی کا جھنڈا لہرا ئے۔

Discover the “Mahatma” in you


Mohammad AsifReyaz
My experiment with truth is an autobiography by Mahatma Gandhi. This autobiography was originallywritten inGujratiand translated into English by Mahadev Desai. The first edition of this autobiography was published in 1927.
In 1999, the book was designated as one of the "100 Best Spiritual Books of the 20th Century" by a committee of global spiritual and religious authorities.
In the chapter “Childhood” Gandhiji hasnarrated avery interesting story.This story goes like this.
“There is an incident which occurred at the examination during my first year at the high school and which is worth recording. Mr Giles, the educational inspector, had come on a visit of inspection. He had set us five words to write as spelling exercise. One of the words was “Kettle”. I had misspelt it. The teacher tried to prompt me with the point of his boot, but I would not be prompted. It was beyond me to see that he wanted me to copy the spelling from my neighbour’s slate, for I had thought that the teacher was there to supervise us against copying. The result was that all the boys, exceptmyself, were found to have spelt every word correctly. Only I had been stupid. I never could learn the art of copying”.
Gandhi ji was an innovative man. In every situation, good or bad,Gandhiji used to come up with his owninvented ideas and thoughts. In this context he was purely aleader by birth. His stupidity was in fact his power.
One who knows the art of copying never knows the art of living as a victor. Avictor is he who keeps his originality and avoids imitating.  A man is always great but his greatness falls when he starts imitating every Tom, Dick and Harry.
 An eagle never imitates. It comes with its own planning and ideas and always proved to be a victor. You have to create the spirit of eagle in you, so that you could do what you are supposed to do here. The great poet and philosopher Iqbal has described the characteristic of Eagle
(Shahin) in this way.
NahiTeraNashemanQasar-e-Sultani Kay Gumbad Par; TuShaheenHaiBasairaKarPaharonkiChaton Par (Allama M. Iqbal)
You will never see an eagle eating meat that it did not kill. An eagle is not a scavenger. It hunts for and kills its own food. It hunts for the prey while it's warm and alive. In other words Eagle never imitates. It saves its natural power.
GandhijiSaved his natural power and avoided copying, thus becoming Mahatma of the world.
What I want to say guy! I want to say that learn not to copy, try your own ideas, for a man can never become a supermanif he is merely a copycat. As it is said all the greats took chances and developed their  ownstyle. They didn’t copy.What is copying? Copying is killing. It is destroying self.
Save yourself, try your own original ways. There is a mahatma in you if youcoulddiscover.

Laziness_ a key to poverty

کا ہلی فقیری کی کنجی ہے

محمد آصف ریاض
عربی کا ایک قول ہے __ الکسل مفتاح الفقر__ کاہلی فقیری کی کنجی ہے۔ اس قول کو پڑھ کر میں سوچنے لگا کہ دنیا میں کتنے ہی لوگ ہیں جو اس قول کی تفسیر معلوم پڑتے ہیں۔ انھیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ وہ اسی قول کی تائید کے لئے پیدا کئے گئے  ہیں۔
 
بلاشبہ فقیری ایک بری چیز ہے ۔لیکن یہ بری چیزکسی انسان  پر تھوپی نہیں جاتی بلکہ انسان خود اس کا خریدار بنتا ہے۔
ہر فقیرکا معاملہ کہیں نہ کہیں کسل_ کاہلی کا معاملہ ہوتا ہے۔
 
پٹنہ کےایک گائوں میں ایک شخص رہا کرتا تھا، جس کا نام علا الدین تھا ۔
علا الدین کو وراثت میں اچھی خاصی زمین ملی تھی لیکن اس نے اس زمین کا استعمال اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے نہیں کیا ۔ وہ اس راز سے واقف نہ ہوسکا کہ زمین کوڑنے جوتنے اور کاشت کر نے کے لئے ہوتی ہے،وہ اس لئے نہیں ہوتی کہ آپ اسے بیچ کر کے کھاجا ئیں۔
علا الدین نے زمین کو کوڑنے جوتنے کے بجائے فروخت کرنا شروع کردیا یہاں تک کہ اس کی زندگی عسرت و فقر کی علامت بن گئی ۔
 
علا الدین کا معاملہ کسل _ کاہلی کا معاملہ تھا ۔ کاہلی نے اسے اس بات پر مجبور کیا کہ وہ عسرت و فقر کی زندگی گزار کر مر جائے۔
 
اسی طرح دہلی کے اوکھلا  میں میری ملاقات ایک شخص سے ہوئی ۔ وہ گفتار کے غازی تھے لیکن عملاً کاہل تھے ۔ وہ اپنی کاہلی کو گفتار کی خوبصورت چادر میں سمیٹے رہتے تھے تاکہ ان پر کاہلی کا الزام نہ آئے۔  لیکن ایسا کر کے وہ خود اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے تھے ۔ آخر کار کاہلی نےان کی زندگی تباہ کر دی۔
 
آسمان سے پانی برستا ہے تاکہ کسان اپنے گھروں سے نکل کر کھیتوں میں آجائیں ۔ وہ اسے کوڑیں ، جوتیں اور اسے تیار کر کے اس میں بیج گرائیں تاکہ وہ اس میں اپنے لئے اناج پیدا کر سکیں ۔ فصل وہی کاٹتا ہے جو کھیت کو جوتتا کوڑتا اور اس میں بیج گرا تا ہے، جو بیج نہیں گرا تا وہ فصل بھی نہیں کاٹتا۔
 
بنجامن فرنکلن کا قول ہے __" کاہلی اس قدر سست رفتاری میں چلتی ہے کہ بہت جلد غربت اس پر غالب آجاتی ہے۔"
 
{Laziness travels so slowly that poverty soon overtakes him}
Benjamin Franklin
 
 
آدمی کو چاہئے کہ وہ سب کچھ کرے، لیکن کاہلی نہ کرے۔ وہ اپنے اوپر فقر کا دروازہ نہ کھولے۔ وہ اس دروازہ کی کنجی__ مفتاح الا فقر _ کو کسی ایسے سمندر میں غرق کردے جس کا کوئی کنارہ نہ ہو۔