جمعہ، 29 مارچ، 2013

And benevolence will get entry into God’s Paradise


اور خیر خواہی کرنے والے خدا وند کی جنت میں داخل ہوں گے

محمد آصف ریاض
میزائل مین کےنام سےمعروف عظیم ہندوستانی سائنسداں،اورسابق صدرجمہوریہ اے پی جےعبد الکلام نےکئی کتابیں لکھی ہیں۔ مثلاً (India 2020 a vision)، اور(Wing of fire)  وغیرہ۔
اسی طرح ان کی ایک کتاب کانام ہے (Ignited minds)۔ اگراس کااردوترجمہ کریں تواس کا نام ہوگا "ولولہ انگیزدماغ"
اس کتاب میں مسٹرکلام نےایک نظم تحریرکی ہے۔ یہ نظم ایک ہزارسال پرانی بتائی جاتی ہے۔ کہاجاتاہےکہ اس نظم کوتمل کی اوئییار(awaiyar) نےتحریرکیاتھا۔

اوئییارتمل کالفظ ہے(ஔவையார் )۔ اوییارکے معنی ہوتاہے "respectable womenیعنی قابل احترام خواتین۔

کہاجا تا ہے کہ پہلی اوردوسری صدی میں کچھ خواتین شاعرہ ہواکرتی تھیں جونصیحت آمیزکلام پیش کیاکرتی تھیں۔ یہی خواتین شاعرہ اوییارکےلقب سےمعروف ہوئیں۔ وہ نظم اس طرح ہے۔

"انسان کاانسان پیداہونااس زمین پرایک انوکھاواقعہ ہے۔
تاہم اس سے بھی زیادہ انوکھاواقعہ یہ ہےکہ انسان پاکیزگی اختیارکرے اوربےعیب ہو۔
انسان کاپاکیزہ اوربےعیب ہونا اس زمین پرایک انوکھاواقعہ ہے
تاہم اس سےبھی زیادہ انوکھا واقعہ یہ ہے کہ انسان علم کادلدادہ ہو
علم کادلدادہ ہوناایک انوکھا واقعہ ہے
تاہم اس سے بھی زیادہ انوکھاواقعہ یہ ہےکہ انسان خیرخواہی کرے۔
اورسنو،خیرخواہی offerings) ( کرنےوالے ہی خداوندکی جنت داخل ہوں گے"

It is rare to be born as a human being
It is still rarer to be born without any deformity
Even if you are born without any deformity
It is rare to acquire knowledge and education
Even if one could acquire knowledge and education
It is still rare to do offerings and tapas
But for one who does offerings and tapas
The doors of heaven open to greet him

اوییار awaiyar کی اس نظم کو پڑھ کرمجھے انجیل کی ایک لائن یادآگئی۔ انجیل میں ہے۔
مسیح نے جواب دیا" اگرتم کامل انسان بنناچاہتےہوتوجائواپنی جائیدادکوفروخت کرکے اسےغربامیں تقسیم کردو۔ اگرتم نےایسا کیا توخدا وند جنت میں تمہیں خزانہ سے نوازے گا۔ اورسنومیری پیروی کرو۔ نوجوان شخص مسیح کی بات سن کر اداس ہوا،اوروہاں سے روانہ ہوگیا۔ کیونکہ اس کے پاس بہت سامال تھا۔
تب مسیح نےاپنے شاگردوں سے کہا:
" میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ مالدارلوگ خدا وند کی جنت میں بہت کم داخل ہوں گے"۔
سنو،میں تم سے پھرکہتاہوں کہ سوئی کے ناکےسےاونٹ کا گزرجانا توآسان ہےلیکن امراکاخداوند کی جنت میں داخل ہونا بہت مشکل"۔  
Matthew 19: New International Version

Jesus answered, “If you want to be perfect, go, sell your possessions and give to the poor, and you will have treasure in heaven. Then come, follow me.”
When the young man heard this, he went away sad, because he had great wealth.
Then Jesus said to his disciples, “Truly I tell you, it is hard for someone who is rich to enter the kingdom of heaven.
 Again I tell you, it is easier for a camel to go through the eye of a needle than for someone who is rich to enter the kingdom of God.”
Matthew 19: New International Version

قرآن میں اسی بات کو اس طرح سمجھا یا گیا ہے:
"تم نیکی یعنی 'جنت' کونہیں پہنچ سکتے جب تک کہ اپنی وہ چیزیں خدا کی راہ میں خرچ نہ کروجنھیں تم عزیزرکھتے ہواورجوکچھ تم خرچ کروگے اللہ اس سے بےخبرنہیں ہوگا۔" (3:92)
تفسیر ابن کثیر میں اس آیت سے متعلق کئی روایات نقل ہوئی ہیں۔ ان میں ایک یہ ہے:
جب یہ آیت حضرت ابوطلحہ کو پہنچی تو آپ پیغمبراسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اورکہنے لگے اے اللہ کے رسول میرے پاس ایک باغ ہے جو مجھے ہرچیز سے زیادہ عزیز ہے۔ میں اسے اللہ کی راہ میں صدقہ کرناچاہتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوئے اورفرمایا تواسے اپنے رشتہ داروں اورچچازاد بھائیوں کے درمیان تقسیم کردے۔
{تفسیرابن کثیر، سورہ آل عمران، صفحہ ۲، مسند احمد بخاری ومسلم}

جمعہ، 22 مارچ، 2013

Hard Work is the Solution

جانفشانی مسئلہ کا حل ہے

محمد آصف ریاض


کل 21 مارچ  2013کو جب میں اپنے آفس نوئیڈا سیکٹر 15 سے دہلی کے لئے روانہ ہواتودیکھا کہ آٹوکا ڈرائیوراپنے پاس ایک موٹی سی لاٹھی رکھے ہوئے ہے۔
میں نےاس سے پوچھا کہ تم نے یہ لاٹھی کیوں لے رکھی ہے؟ وہ تھوڑی دیرخاموش رہا۔ پھرقدرےغمگین ہوکربولا"سرمیں ایک پائوں سے معذور ہوں۔"  میں نے اس کی طرف حیرت سے دیکھا۔ وہ شخص واقعتاً معذورتھا لیکن بہت ہی مہارت کے ساتھ گاڑی چلارہا تھا۔ وہ اترپردیش کے ایک شہرآگرہ کارہنے والا تھا اوراپنا نام دیویندربتارہاتھا۔
میں نےاس سے کہا کہ یہ کام اس کے لئے بہت رسکی ہے۔ وہ کچھ پیسہ جمع کرکےاس کام کوچھوڑ دےاورکوئی دوسراکام شروع کردے۔

 
اب میں سوچنے لگا کہ جہاں میں رہتا ہوں وہاں بہت سارے لوگ بھیک مانگنے آتے ہیں۔ صرف جمعہ کے دن نہیں،تقریباًہرروز۔ اوران میں اکثریت مسلمانوں کی ہوتی ہےاورزیادہ ترہاتھ پائوں والے ہوتے ہیں۔ ان میں بعض توبہت تندرست ہوتے ہیں۔

کتنا فرق ہے ایک آدمی اوردوسرے آدمی کے درمیان۔ ایک کے پاس پائوں نہیں تھا پھربھی وہ اپنی اوردوسروں کی کفالت کررہا تھا،اوردوسرے کے پاس ہاتھ پائوں، دل دماغ سب کچھ تھا لیکن وہ ہر دوسرے شخص کے سامنے ہاتھ پھیلا کراپنے آپ کوذلیل کررہا تھا۔
یہ سوچتے ہوئے مجھے اگریزی کا ایک قول یاد آگیا:

(Thinking is the capital, Enteprise is the way, Hard Work is the solution)

"یعنی انسان کی صحیح سوچ اس کا سرمایہ ہے، تجارت ترقی کا راستہ ہے، اورجانفشانی مسئلہ کاحل ہے"
لوگ جانفشانی یعنی "ہارڈ ورک " کے وزڈم کونہیں جانتےاورتمام قیمتی سرمایہ کے باوجود ذلیل خوارپھرتے ہیں۔ انسان کے پاس ہاتھ پائوں، آنکھ کان ناک، دل اور دماغ کی شکل میں بےانتہا قیمتی ربانی سرمایہ موجود ہےخداوند چاہتا ہے کہ انسان اس "ربانی سرمایہ" کا استعمال کرکے زمین پر باعزت زندگی گزارے اور اپنے رب کا شکرادا کرتارہے۔  
ایک حدیث میں اسی وزڈم کو ان الفاظ میں سمجھایا گیا ہے:
اَللّٰهُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِكَ مِنَ الْهَمِّ، وَالْحَزَنِ وَالْعَجْزِ وَالْکَسَلِ وَالْجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَضَلَعِ الدَّيْنِ وَغَلَبَةِ الرِّجَالِ.
اے اللہ، میں حسرتوں اورپچھتاووں سے،عجز اورکسل مندی سے، بزدلی اور بخل سے، قرض کے بوجھ سے اورغلبہ رجال سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔

بدھ، 20 مارچ، 2013

Interest based system and its impact on entire humanity

 
عالم انسانیت پرسود کے اثرات: ایک جائزہ

محمد آصف ریاض

خداوندچاہتا ہےکہ انسان کےاندرگیونگ اورشیئرنگ ( Giving and Sharing)کی نفسیات پیداہو۔ وہ چاہتاہےکہ زمین پراس کا بندہ دینےوالابن کررہے۔ وہ اپنےبندوں کوگیونگ اورشیئرنگ پرابھارتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

"جولوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اورہربالی میں سو دانے ہوں،اوراللہ تعالی جسے چاہے بڑھاچڑھا کردے اوراللہ تعالی کشادگی والااورعلم والا ہے"(2:261)

خداوندچاہتا ہےکہ انسان کے پاس مال رہے تاکہ وہ کسی کوکچھ دے سکے۔ دینے کے لئےضروری ہےکہ انسان کے پاس دینےکے لئےکچھ ہو۔ گیونگ اور شیئرنگ کا مزاج پیدا کر کے خداوندانسان کےاندربچت (Saving)کامزاج پیداکرتاہے۔ وہ چاہتا ہےکہ انسان کے پاس کچھ بچےتاکہ وہ لوگوں کی مدد کرنے کی پوزیش میں رہے۔ قرآن کا ارشاد ہے:

"اوررشتہ داروں،مسکینوں اورمسافروں کوان کاحق دواورفضول خرچی سے بچو،بلاشبہ فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں۔" (17:26- 27) 
 




شیطان کاطریقہ


شیطان انسان کادشمن ہے۔ وہ انسان کوبخیلی اورطمع پرابھارتاہے۔ وہ انسان کوفاقہ سےڈراتاہے۔ وہ انسان کوفردکی سطح پرجینےکے لئےمجبورکرتاہے۔ وہ انسان کےاندرسلف کی نفسیات بھڑکاتا ہے۔ وہ انسان کوبتاتاہےکہ وہ صرف اپنےاوراپنےبچوں کے لئےجئے۔ وہ انسان کو اندیشہ ہائے دوردرازسے ڈراتا ہے۔ وہ انسان کوابھارتا ہے کہ وہ بچہ پیدا ہونےسے پہلےہی اس کے نام سے مال فکس کردیے، وہ لوگوں کوڈراکربیماری سے پہلے ہی بیماری کے لئےمال جمع کرادیتاہے۔ وہ چاہتا ہےکہ لوگوں کے پاس کچھ نہ بچےتاکہ لوگ کسی کوکچھ دینےکی پوزیش میں بھی نہ رہیں۔ وہ لوگوں کا مال فضول خرچی میں ضائع کرادیتا ہے۔


ویلنٹائن ڈے: ایک مثال


معروف انگریزی اخباردی ہندو نے ویلنٹائن ڈے پررہورٹنگ کرتے ہوئے لکھا ہے:" لوگ ہرسال ویلنٹائن ڈے پرصرف ایک دن میں 13.19 بلین ڈالرکارڈکے تبادلہ پرخرچ کردیتے ہیں اوریہ سب کچھ ایک ایسی دنیا میں ہورہا ہے جہاں 1.7 بلین لوگ نہایت غربت میں زندگی گزارنے پرمجبورہیں۔"


About 180 million cards are exchanged on Valentine’s Day and the average revenue generated by the industry is a whopping $13.19 billion. Can you just imagine $13.19 billion on a single day in a world where 1.7 billion people live in absolute poverty!

March 17, 2013 ،The Hindu

اخبارمزید لکھتا ہے: " ویلنٹائن ڈے چودہ فروی کوہرسال منا یاجا تاہے لیکن یہی کافی نہیں ہے۔ اس کے پہلے کئی دوسرے ڈیزبھی منا ئےجاتے ہیں۔ مثلا روز ڈے، پرپوزڈے، کس ڈے، ہگ ڈے، چاکلیٹ ڈے، وغیر۔ دی ہندوکےلفظوں میں:


As if making business on February 14 alone was not enough, they added preceding celebrations such as Rose Day, Propose Day, Chocolate Day, Hug Day, Kiss Day, and what not?

 سودی ایجنسیاں {بینک}


فرض کیجئے کہ آپ کے پاس ایک لاکھ روپیہ ہواورآپ کا بھائی اچانک کسی مصیبت میں گرفتار ہوجائے توآپ کیاکریں گے؟ بلاشبہ اگرآپ اپنا پورامال اپنے بھائی کو نہیں دے سکتے توکچھ نہ کچھ اسے ضروردیں گے۔

تاہم اگرمعاملہ الٹا ہویعنی آپ نےاپناسارامال فکس کردیا ہو، یااپنے بچوں اوراپنی بیوی کےلئے کئی قسم کی پالیسیاں لےرکھی ہوں، یاسود پرقرض لےرکھاہوتوایسی صورت میں آپ کیا کریں گے؟ آپ کے پاس اپنے بھائی کودینےکےلئےکچھ بھی نہیں ہوگا۔ زیادہ سے زیادہ آپ یہ کریں گے کہ آپ اپنی گارنٹی پراپنے بھائی کوبینک سےسود پرقرض دلادیں۔ ایسی حالت میں آپ بھائی کم اورسودی ایجنٹ ذیادہ ہوں گے۔

شیطان کی یہ سودی ایجنسیاں اپنےبزنس کوچمکانےکے لئےاس بات کویقینی بناتی ہیں کہ کسی انسان کے پاس کوئی پیسہ نہ رہے۔ وہ ہرانسان کی جیب سے پیسہ نکال لیتی ہیں۔ کیونکہ جب انسان کے پاس پیسہ ہوگااورجب وہ اپنی اوراپنے گھروالوں کی مدد خود کرنے کی پوزیشن میں ہوگا توپھران سےسودپرقرض مانگنے کون جائےگا؟


سودی ایجنسیوں کاطریقہ کار

سودی کاروبارکے لئے ضروری ہے کہ سماج کنگال رہے۔اس بات کو یقینی بنانے کے لئے سودی ایجنسیاں تین طریقہ کاراپناتی ہیں۔ خوف ودہشت، طمع ولالچ، اورنمائش۔

انسان میں خوف اوراندیشہ ہائے دوردرازپیدا کرکے سودی ایجنسیاں انسان کے مال کواپنے پاس جمع کرالیتی ہیں۔ مثلا وہ بیماری کاخوف پیدا کرکے ہیلتھ انشورینس کے نام سےانسان کا مال اپنے پاس جمع کرالیتی ہیں۔ اسی طرح موت کا خوف پیدا کراکرلائف انشورینس کرادیتی ہیں، بچے کی پڑھائی کے لئے ایجوکیشن ڈیپوزٹ کےنام پرانسان کےمال پرقبضہ جما لیتی ہیں۔ وہ کئی قسم کی پرفریب پالیسیوں کےساتھ انسان پرحملہ آورہوتی ہیں۔ مثلا ہیلتھ انشورنس،لائف انشورینس، فکس ڈیپوزٹ، ایجوکیشن ڈیپوزٹ، ہوم لون، پنشن پالیسی وغیرہ۔

خوف کے راستے سے لوٹنےکے بعد بھی اگرانسان کے پاس کچھ بچ جاتا ہےتواسے طمع اورلالچ کے راستےسے لوٹا جاتاہے۔ مثلاً انسان کوبتا یا جا تا ہے کہ تم اپنے پاس پیسہ رکھوگے توختم ہوجائےگا اوراس کا فائدہ بھی نہیں ہوگا۔ تم اپنا مال مجھے دے دواوربیٹھ کرسود کھائو۔ اس طرح وہ انسان کےاندرکاہلی پیدا کرتی ہیں۔ کیوں کہ اگرانسان اپنا پیسہ سود کے لئے جمع نہیں کرتا تووہ اسے بازارمیں اتارتا اوراس پیسہ کو بڑھا نےکے لئے محنت کرتا۔ وہ اس سرمایہ سے جاب کے مواقع بھی پیدا کرتااورکاہلی سے بھی بچ جاتا۔ لیکن سودی ایجنسیاں اسے ایسا کرنے سے روک دیتی ہیں۔

شیطان کاتیسراطریقہ نمائش کاطریقہ ہے۔ شیطان انسان کےاندرنمائش کی نفسیات کوبھڑکاتا ہے اورانسان سے سارامال خرچ کرادیاتا ہے، یہاں تک کہ شیطان کی سودی ایجنسیاں انسان کواپنا مقروض بنا لیتی ہیں۔ مثلا انسان کی حیثیت موٹرسائکل کی ہےتواسے سود پرقرض دے کرکارخریدوادیا جاتا ہے۔ اسی طرح اگرانسان کی حیثیت چھوٹےگھرکی ہے تواسے سودپربڑاگھرخریدوا دیا جا تا ہے۔ اور یہ سب زیادہ سے زیادہ سود کمانے کے لئے کیا جا تاہے۔

ہم نناوے فیصد ہیں اور وہ صرف ایک فیصد


شیطان کی یہ سودی ایجنسیاں صرف افراد کونہیں لوٹتیں بلکہ یہ ملکوں کوبھی لوٹ لیتی ہیں۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ امریکہ چودہ ٹرلین ڈالرکامقروض کیوں ہے؟ اورکیوں امریکہ میں جب مالی بحران آیا اورلوگوں نے اپنا گھرنیلامی پررکھا توکوئی خریدار نہیں نکلا؟ کیوں؟ اس لئے کہ سارے لوگ مقروض تھے۔ وہ کون لوگ ہیں جنھوں نے امریکہ کا سارا مال صرف ایک فیصد لوگوں کی مٹھی میں ڈال دیا ہے؟ کیوں اکیوپائی وال اسٹریٹ کی مہم کےساتھ لوگ سڑکوں پراس نعرہ کے ساتھ نکل آئے" ہم نناوے فیصد ہیں اور وہ صرف ایک فیصد۔"

ویکی پیڈیا میں اس اکیو پائی وال اسٹریٹ مہم کے بارے میں یہ الفاظ درج ہیں۔

The main issues raised by Occupy Wall Street were social and economic inequality, greed, corruption and the perceived undue influence of corporations on government—particularly from the financial services sector. The OWS slogan, We are the 99%, refers to income inequality and wealth distribution in the U.S. between the wealthiest 1% and the rest of the population.


یہ سودی ایجنسیاں ہرحال میں اس بات کو یقینی بناناچاہتی ہیں کہ کسی کے پاس مال نہ رہے۔ کیونکہ کوئی بھی سودی ایجنسی اسی وقت چمکتی ہے جب کہ کسی کے پاس مال نہ ہو۔ وہ اس کام میں اس قدرتیزی دکھا تی ہیں کہ ایک سبزی فروش جب دن بھرسبزی بیچ کررات میں فارغ ہوتا ہے تو بینک کے سودی ایجنٹ اس کے پاس آجاتے ہیں اوراس سےاس کی کمائی اڑاکرلے جاتے ہیں۔ اب اگروہ سبزی فروش خودکسی مصیبت میں پڑجائےتواس کے پاس اس کےعلاوہ کوئی راستہ نہیں بچتا کہ وہ دوبارہ اسی سودی ایجنسی کے پاس جائےاورسود پرقرض لے۔ توجوخود اپنی مدد نہیں کرسکتےاورہربارسودی ایجنسی کی مدد کےطالب ہوں، وہ دوسروں کی مدد کس طرح کرسکتے ہیں؟

غورسے دیکھئے توایسا معلوم پڑتا ہے کہ ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں ہرشخص مال صرف اس لئے کما رہا ہے تاکہ وہ سودی خزانے یعنی بینکوں کےخزانوں کوزیادہ سے زیادہ بھرسکے۔ آج انسانیت کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ہم بینکوں اور سودی ایجنسیوں کی کمائی مشین ہیں؟؟؟


اندھے لوگ:

شیطان کی سودی ایجنسیاں لوگوں کوخوف وطمع اورنمائش میں مبتلا کرکےاس قدراندھابنا دیتی ہیں کہ لوگ اتنی سادہ بات بھی بھول جاتے ہیں کہ منی ازپاور؛( Money is power) یعنی پیسہ طاقت ہے۔ جب انسان کے پاس پیسہ ہوتا ہےتووہ اپنےاندرایک قسم کااعتماد پاتا ہے۔ اسی لئے قرآن میں مال کو انسانی بقاکا سامان بتا یا گیا ہے۔ لوگ بھول جاتے ہیں کہ جب ان کا پیسہ ان کی جیب سے نکل کرکسی پالیسی کے تحت بینکوں میں چلاجا تا ہے تواب وہ ان کا پیسہ نہیں رہتا۔ وہ بینک کا پیسہ ہوجا تا ہے۔ پیسہ طاقت ہے لیکن یہ اسی کے لئے طاقت ہے جس کہ پاس وہ ہو۔ اگر آپ کا پیسہ آپ کے پاس ہے تو وہ آپ کی طاقت ہے اورجیسے ہی یہ پیسہ کسی پالیسی یا کسی بینک میں چلا گیا تواب وہ اس بینک یا اس پالیسی ساز کمپنی کی طاقت ہے،اب وہ آپ کی طاقت نہیں رہی۔

سودی ایجنسیوں کا انسا نیت کے خلاف اعلان جنگ

بغوردیکھیں تو پتہ چلے گا کہ یہ سودی ایجنسیاں ہرگھرسےمال اس طرح نکالتی ہیں جیسے کوئی کرپٹ شخص زیرزمین نہرکھود کرتمام نہروں اورتالابوں کاپانی اپنےتالاب میں کرلے،اورپھرلوگوں کو مجبورکرے کہ جس کوپانی پیناہےوہ اس کےتالاب پرآئےاورمنھ مانگی قیمت چکاکرپانی حاصل کرے، بصورت دیگرزمین پرایڑیاں رگڑ کرمرنے کے لئےتیارہوجائے۔ اب آپ تصورکر سکتے ہیں کہ کیوں ہرسال لاکھوں لوگ سود کی وجہ سے خودکشی کرنے پرمجبورہوتے ہیں۔

ہندوستان میں کاٹن کے کسانوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والا ایک شخص ' لیہ برومیو' Leah Borromeo اپنےایک مضمون میں لکھتا ہےکہ 1995 سے2011 کے درمیان ہندوستان میں300,000 لاکھ لوگوں نے سود کی وجہ سے خود کشی کرلی۔


This has become a familiar story in India where nearly 300,000 farmers killed themselves to get out of debt between 1995 and 2011.
Suicide – the only way out of debt? -- New Internationalist

سود کے خلاف اسلام کااعلان جنگ





سودی ایجنسیوں کے جرائم کودیکھتے ہوئےاسلام نےاسے حرام قراردے دیا ہے۔ اسلام میں سود لینا دینا دونوں حرام ہے۔اسلام سودی کاروبارکرنےوالوں کوانسانیت کادشمن قراردیتا ہے اورسود کے خلاف خدا اور اس کے رسول کی طرف سےاعلان جنگ کرتا ہے۔ درحقیقت اسلام کی یہ جنگ ایک دفاعی جنگ ہےکیوں کہ سودی ایجنسیاں سود کے راستہ سے انسانیت پرپہلے ہی حملہ کرچکی ہوتی ہیں توایسے میں لازم ہوجاتا ہے کہ کوئی اٹھے اوران کا مقابلہ کرے۔ چونکہ اسلام فلاح انسانیت کے لئے آیا ہے،اس لئے وہ اس چیلنج کو قبول کرتا ہے۔

"اے ایمان والواللہ تعالی سے ڈرو اورجو سود باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑدو؛ اگر تم سچے ایمان والے ہو؛ اور اگرتم نے ایسا نہیں کیا تو آگاہ ہوجائو کہ اللہ اوراس کے رسول کی طرف سے تمہارے خلاف اعلان جنگ ہے"(2: 278-79)

مسلمانوں کے لئے لمحہ فکریہ

مسلمانوں کو یہ شکایت ہے کہ وہ اس دنیا میں بے وزن ہوکررہ گئے ہیں۔ لیکن وہ یہ نہیں سوچتے کہ اس بے وزنی اور محرومی کے اسباب انھوں نے خود اپنے ہاتھوں سےجمع کئے ہیں۔ وہ سود کھاتے ہیں حالانکہ اسے خدا وند نے حرام قراردیا ہے۔

 سائنسی تحقیق بتاتی ہے کہ انسان وہی ہےجو وہ کھاتا ہے۔ ہیلتھ فوڈ کے لئے کام کرنے والا ایک امریکی ویکٹرہاگولینڈلر Dr. Victor Hugo Lindlahr اپنی کتاب (You are what you eat) میں لکھتا ہے کہ انسان وہی بن جاتا ہے جو وہ کھاتا ہے۔ وہ لکھتا ہے:

“Ninety percent of the diseases known to man are caused by cheap foodstuffs. You are what you eat!


قرآن میں بتا یا گیا ہے کہ اللہ سود کو گھٹا دیتا ہے۔ یعنی وہ سود خوروں کا شعور ان کا وزڈم ان کی دانائی اوران کی سمجھ کم کردیتا ہے۔ وہ ان کے رعب کو ختم کردیتا ہے۔ ان کے اتحاد کو پارہ پارہ کردیتا ہے،اور یہی وہ چیزیں ہیں جن کے ذریعہ خدا وند کسی قوم کوعروج کے مقام پرفائز کرتا ہے اور کسی کوزوال کی تاریک گھاٹی میں اتاردیتا ہے۔

رہی یہ بات کہ یہود ونصاری توسود کھا کرترقی کر رہے ہیں ؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر وہ ترقی یافتہ ہوتے تو سب سے زیادہ معاشی مارکیوں جھیل رہے ہیں؟ بے پناہ ٹکنالوجی کے باوجود کیوں ایسا ہورہا ہے کہ 1930 سے مسلسل گریٹ ڈپریشن کے شکار ہیں۔ اور تب سے اج تک استحکام کے لئے ترس رہے ہیں۔

ہفتہ، 9 مارچ، 2013

Mensa, IQ test, family planning and Islam


مینزا آئی کیوٹسٹ، فیملی پلاننگ اوراسلام


محمد آصف ریاض


مینزا (Mensa) دنیا میں ذہنی طورپراونچے درجے کے لوگوں کی ایک انجمن ہے۔ مینزامیں صرف انہی لوگوں کورکنیت ملتی ہے جن کے ذہنی درجے کو کسی معیاری ذہنی امتحان میں ناپاجا چکا ہو۔

مینزالاطینی زبان کے لفظ Mensa ) ) سے بنا ہے جس کا مطلب ہے میز۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ مینزا ایک میزکے گردبیٹھے ارکان کی انجمن ہے۔

رولینڈ بیریل اورلانسلیٹ ویئرنے 1946 میں انگلینڈ میں مینزا کی بنیاد رکھی تھی۔ وہ ذہین لوگوں کوایک جگہ لانا چاہتے تھے اوراونچا ذہنی درجہ ہی اس کا معیارتھا۔ مینزا کے مقاصد درج ذیل بتائےجاتے ہیں:


انسانی ذہانت کو ڈھونڈنا اوراسے انسانیت کی فلاح کے ليے کام میں لانا۔

ذہانت کی فطرت، خصوصیات اوراسکے استعمال کے بارے میں تحقیق کرنا۔

اسکے ارکان کی ذہنی اورسماجی سرگرمیوں کے مواقع کوبڑھانا.




مینزا کا آئی کیو ٹسٹ !

مینزاکاآئی کیو ٹسٹ (صلاحیت ٹسٹ) ان دنوں پوری دنیا میں بحث کاموضوع بنا ہواہے۔ ایک ہند نژاد 12 سالہ طالبہ "نہا رامو" نےآئی کیوٹسٹ میں 162اسکورحاصل کرکے ساری دنیا کوحیرت میں ڈال دیا ہے۔ لڑکی نے آئی کیو ٹسٹ میں 162 اسکورحاصل کئے ہیں جبکہ اندازہ لگا یا جاتا ہے کہ اٹھارہ سال کی عمرمیں آئنسٹائن کاآئی کیو160. رہا ہوگا۔


بزنس لائن نیوزپیپرکے مطابق: "نہا رامو" آئی کیو ٹسٹ میں 162 کے اسکور کےساتھ برطانیہ کےایک فیصد ممتازلوگوں میں شامل ہوگئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہواکہ وہ علم طبعیات کےماہراسٹیفن ہاکنگ،مائیکروسافٹ فائونڈر،بلگیٹس اورمعروف سائنسداں آئنسٹائن سے زیادہ انٹیلیجنٹ ہے۔ واضح ہوکہ کہ بلگیٹس، اسٹیف ہاکنگ، اورآئنسٹائن کے آئی کیو کا اندازہ 160 تک لگا یا گیا ہے۔"

The score puts the girl in the top one per cent of brightest people in the UK and means she is more intelligent than physicist Hawking, Microsoft founder Bill Gates and scientist Albert Einstein, who are all thought to have an IQ of 160.

بزنس لائن لندن، 5 مارچ


فیملی پلاننگ کیوں؟



فیملی پلاننگ کی بنیاد کیاہے؟حقیقت کےاعتبارسے اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ تاہم اس کے وکلا چند فرضی بنیاد فراہم کراتے ہیں۔ مثلاً صحت، آبادی اورغربت کی روک تھام غیرہ ۔ فیملی پلا ننگ کے وکلا کے نزدیک دنیا کےمسائل آبادی کی وجہ سے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اگرآبادی کم کردی جائےتوسارےمسائل خودبخودحل ہوجائیں گےاوریہ دنیا انسان کے رہنےکے لئےایک بہترین جگہ بن جائے گی۔


This will help ensure that they have a healthy, stable, and happy family life. More than that, if all couples practice family planning, the world will be in a much better place

کرپٹ منصوبہ


فیملی پلاننگ کامنصوبہ سب سےپہلےیوروپ کےکرپٹ لوگوں نےشروع کیا۔ بعد میں پورے یورپ میں اسےقبولیت حاصل ہوگئی۔ پھراسےدنیا پرتھوپنےکی کوشش کی گئی۔ یہ وہ لوگ تھے جوشادی نہیں کرتےتھےاوربدکاری کرتے تھے۔ اوراگرشادی کرلیتے، توبچہ پیدا نہیں کرتے تھے۔ کیوں؟ شادی اس لئے نہیں کرتے تھے کیونکہ شادی آدمی کواکائونٹیبل ( accountable) بناتی ہےاوربچہ اس لئے پیدا نہیں کرتے تھے کیوں کہ بچےانسان کومزید اکائونٹیبل بناتے ہیں۔ اوروہ کسی طرح کی اکائونٹیبلیٹی ( accountability) کے لئے تیارنہ تھے۔ بچوں کی پیدائش کامطلب ہوتا ہے کہ آپ جیسےچل رہے تھےاب ویسے نہیں چل سکتے۔ یہی وہ بات ہے جوانھیں شادی اوربچوں سے روکتی تھی۔ اس کے ساتھ ہی وہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ بچے بھی ان کے ساتھ کچھ شیئرکریں۔ اس لئے انھوں نے یہ چوائس لیا کہ دنیا میں ان کی مرضی کے خلاف بچے نہ آئیں۔

پستی کے نقیب

فیملی پلاننگ کے وکلا نےدنیا بھرمیں مہم چلاکرلوگوں کوبتا یا کر تے تھے کہ بڑھتی ہوئی انسانی آبادی دنیا کیلئےخطرہ ہے۔ اس مہم کی کامیابی کے لئے انھوں نے کئی قسم کے ہتکنڈے استعمال کئے۔ مثلاً لوگوں کو یہ بتا یا گیا کہ پیدا ئش کے دوران زچہ بچہ کی موت ہوجاتی ہے۔ غربت کی وجہ سے بچےمرجاتے ہیں۔ بڑھتی آبادی انسانیت کے لئے خطرہ ہےوغیرہ!

یہ سمجھا گیا کہ بچےبوجھ ہوتے ہیں۔ اول تویہ کوشش کی گئی کہ بوجھ نہ اٹھایاجائےاوراگراٹھانےکی نوبت آجائے توبہت کم اٹھا یا جائے۔ فیملی پلاننگ کے وکلا ایک ایسی دنیا دیکھنا چاہتےتھےجو اسٹیگنینٹ ( stagnant) یعنی تھمی ہوئی ہو، جس میں کوئی جوش، کوئی ولولہ، کوئی امنگ، اورکوئی بہائو نہ ہو۔ وہ دنیا کوبہترین دماغ سےمحروم کردینا چاہتے تھے۔ وہ پستی کے نقیب harbinger of backwardness)) تھے۔ وہ انسانیت کے دشمن تھے اورہرآنےوالے بچے کو کومسٹرپروبلم سمجھتے تھے۔ وہ ایک ایسی دنیابنانا چاہتے تھےجوان کی اپنی مرضی سے چلے۔


خداوند کامنصوبہ


خداوند نےانسان کی تخلیق کی۔ لیکن اس کی تخلیق اچانک نہیں ہوئی۔ خدا وند نےانسان کی تخلیق سے پہلے اس کی ضرورت کا ساراسامان پیدا کیا۔ مثلاً زمین کی تخلیق کی آسمان کوبنا یا، ندیاں بہائیں ، سمندرکوبنایا،جنگلات اگائے، آکسیجن کا انتظام کیا،سورج،چاند ستارے بنائے،پھرانسان کے لئے لائف سپورٹ سسٹم تیارکیا، تب جاکرانسان کی تخلیق کی۔ تخلیق کے بعد اس نے تخلیقی بہائوں کوقائم رکھا۔ مثلاً اس نے پانی کورواں رکھا تاکہ وہ سڑنہ جائے۔ سمندرمیں نمک رکھا تاکہ اس کا پانی خراب نہ ہوجائے، ہواکوآلودگی سے پاک رکھنے کے لئےدرختوں کا انتظام کیا۔ اسی طرح وہ انسانی تخلیق کوبھی نئی پیدائش کےذریعہ طاقت فراہم کررہا ہے۔ ایک امریکی سینسس بیوروکے مطابق ہرروزاس دنیا میں 137 ملین لوگ پیدا ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہرروز 137 ملین نئے لوگوں کو بھیج کرخدا وند اس دنیا کو نیا بنارہا ہے اگرخدا وند ایسا نہ کرے تودنیا امنگوں سے خالی ہوجائے۔اوراپنے وقت سے پہلے مرجائے۔


آبادی اگربوجھ ہے


آبادی اگربوجھ ہےتوسوال پیداہوتا ہے کہ دنیا کی سب سےبڑی آبادی چین کیوں تیزی سے ترقی کررہا ہے؟ کیوں دوسری سب سے بڑی آبادی ہندوستان کواپنے انسانی وسائل پرنازہے؟ کیوں برازیل، ترکی اورانڈونیشیا ترقی کی راہ پرنہایت سرعت کے ساتھ گامزن ہیں؟ حالانکہ یہ وہ ممالک ہیں کہ جہاں دنیا کی نصف آبادی رہتی ہے اورکیوں یوروپ اورامریکہ ڈوب رہا ہے؟

اس سوال کا جواب آپ کوہندوستان کے کامرس اورانڈسٹری منسٹرکے ان الفاظ میں مل جائے گا:


"ہندوستان کے لئےاس وقت ترقی کی راہ میں کئی آسانیاں ہیں ان میں ایک یہ ہے کہ جہاں ایک طرف یوروپ میں ایجنگ پپولیشن ایک مسئلہ بنا ہوا ہے وہیں دوسری طرف چین پڑی تیزی کے ساتھ ایجنگ پپولیشن کی طرف بڑھ رہا ہے،ایسے میں ینگ ہندوستان کے پاس وہ موقع ہے کہ وہ دنیا میں اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کرے کیونکہ ہندوستان کے پاس 57 ملین سرپلس باصلاحیت ورکرموجود ہیں۔ فرانس کے صدرفرانکوئس ہالند اوربرطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی آمد بتا رہی ہے کہ اب دنیا ہندوستان کی طرف دیکھ رہی اورہندوستان کواکیسویں صدی میں گلوبل لیڈرکی حیثیت سے ابھرنا ہے۔ "


Predicting immense opportunities for the India in the years ahead, Sharma said that with the ageing west and with China too faced with an ageing population, India, with a large young population, would have 57 million surplus skilled workers ready to absorb job opportunities around the world.

Referring to last week's visit by French President Francoise Hollande and the ongoing trip by British Prime Minister David Cameron to Mumbai and Delhi, Sharma said: "The world is looking at us. India must capitalize on its strengths to assume global leadership in the 21st century.

Daily News, Feb 20, 2013


قرآن کا موقف


قرآن کا ارشاد ہے:


لوگو،اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کروہم انھیں بھی رزق دیں گے اورتمہیں بھی، در حقیقت ان کا قتل ایک بہت بڑی خطا ہے۔17: 31) )


اے محمد ان سے کہو کہ آ ئو میں تمہیں سنائوں کہ تمہارے رب نے تم پرکیا پابندیاں عا ئد کی ہیں یہ کہ: اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اوروالدین کے ساتھ نیک سلوک کرواور' اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈرسے قتل نہ کرو' ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اوران کو بھی دیں گے"6:151))


"ہم تمہیں بھی رزق دے رہے ہیں اورتمہارے بچوں کو بھی دیں گے۔" یعنی دیکھتے نہیں ہو کہ ہم نے زمین و آسمان کو پھیلا یااوراس کے اندر بے پناہ امکانات رکھ دئے ہیں۔ اس کے ساتھ تمہیں آنکھ کان دل اور دماغ دیا ہے تاکہ تم دیکھو،سوچو،غوروفکرکرو، اورپھر اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرکے زمین وآسمان میں اپنی زیست کا سامان تلاش کرو۔ تو جس طرح تم اپنے دل اور دماغ کو کام میں لاکراپنی زیست کا سامان حاصل کررہے ہواسی طرح تمہاری اولاد بھی اپنے دل دماغ کا استعمال کرکے اپنی زیست کا سامان حاصل کرے گی۔ تم انھیں مفلسی کے خوف سے قتل مت کرووہ تم سے کچھ لینے نہیں تمہیں کچھ دینے آئے ہیں۔


قرآن ایک خدائی کتاب


مینزاکےآئی کیوٹسٹ میں بارہ سالہ ہند نژاد بچی 'نہا' کی کامیابی قرآن کے بیان کاعملی ثبوت ہے۔ مینزا کا واقعہ بتارہا ہے کہ خدا وند بچوں کو انسانیت کے لئے رحمت بنا کر بھیج رہا ہے۔ نہا کا امکانی صلاحیت میں اسٹیفن، آئنسٹائن، اوربلگیٹس سے آگے نکل جانا بتا رہا ہے کہ یہاں آنے والا ہربچہ اسپیشل ہےاوراپنے ساتھ اپنا رزق لے کرآرہا ہے، وہ کسی پر بوجھ بننے نہیں بلکہ لوگوں کا بوجھ اٹھانے آرہا ہے۔ ان کا قتل خود اپنا قتل ہے۔ قرآن کے بیان کو سائنس کا سپورٹ ملنا بتا رہا ہے کہ قرآن ایک خدائی کتاب۔

جمعہ، 1 مارچ، 2013

Economic success and Dawah success


 
معاشی سکسزاوردعوہ سکسز  
 
محمد آ صف ریاض
 
ترکی کے محمد آگوتکو Mehmet Öğütcü انرجی کی دنیا میں عالمی شناخت رکھتے ہیں۔ وہ انرجی اورانوسٹمنٹ معاملات کےماہرہیں۔ انھیں حال ہی میں ترکی کی طرف سے میناخطہ( MENA region) کا سفیر مقررکیا گیا ہے۔ 

ترکی کے معروف اخبارحریت ڈیلی میں 25 فروری 2013 کوان کا ایک انٹرویوشائع ہواہے۔ اس انٹرویومیں انھوں نے بتا یا ہے کہ توانائی اورانرجی کی دنیاکس طرح سرعت کے ساتھ تبدیل ہورہی ہے۔ ان کے مطابق تیل کے نئے ذخائراورتوانائی کے دوسرے وسائل کی دریافت کی وجہ سے  2017 تک امریکہ نیچورل گیس سپلائی کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک بن جائے گا اور 2020 تک تیل کی سپلائی میں یہ سعودی عرب کو پیچھے چھوڑسکتا ہے۔

امریکی تیل کی وجہ سے روس کی اہمیت کافی گھٹ جائے گی۔ توانائی کی دنیا میں مشرق وسطیٰ کا غلبہ بہت حد تک کم ہوجائے گا۔ چین ہندوستان اورترکی تیل کے بڑے صارف ہوں گے۔ مشرق وسطیٰ کی سپلائی کا رخ مشرق سےمغرب کی طرف ہوجائے گا۔

امریکہ رفتہ رفتہ مشرق وسطیٰ سے نکل جائے گا۔ ایسی حالت میں ترکی کا کردارپورے خطہ میں بہت زیادہ بڑھ جائے گا، کیونکہ ترکی انرجی سے مالامال پڑوسیوں سے گھرا ہوا ملک ہے۔

محمد آ گوتکوکے مطابق ترکی اگرخطہ میں انرجی کا ہب بننا چاہتا ہے توسب سے پہلے اسے اس بات کویقینی بنانا ہوگا کہ وہ ہرحال میں تیل اورگیس کے فلوکوبرقراررکھے۔ وہ انرکی کی پالیسی کو کبھی بھی سیاسی مفاد کے لئے استعمال نہیں کرے گا۔ ترکی کوہرحال میں ریلائبل پارٹنریعنی قابل اعتماد دوست بننا پڑےگا۔ان کے لفظوں میں:

Turkey needs to give the message that it will not use its energy policies for political purposes.


داعی کے لئے سبق

اس دنیا میں جواصول اکونامک سکسز(economic success)  کا ہے وہی اصول دعوہ سکسز Dawah success)  (کاہے۔ داعی کوہرحال میں معاشی اورسیاسی مفادات سےاوپراٹھ کرکام کرنا ہے۔

داعی کے لئے کسی بھی حال میں یہ جائزنہیں کہ جب اس کا کوئی گروہ تیار ہوجائے تووہ اس کا سیاسی اورمعاشی فائدہ اٹھانا شروع کردے۔ داعی کوہرحال میں اس بات کویقینی بنا ہے کہ وہ اس سے کوئی ذاتی منفعت حاصل نہیں کرے گا۔

داعی کواپنے عمل کے فطری آئوٹ پٹ کا انتظارکرنا ہے اسے نیچورل آئوٹ پٹ پرنگاہ رکھناہے۔ قرآن میں اس اصول کو ایک نبی کی زبان سے اس طرح اعلان کرا یا گیا ہے:
"اے برادران قوم اس کام پرمیں تم سے کوئی اجرنہیں چاہتا، میرااجر تواس کے ذمہ ہے جس نے مجھے پیدا کیا" (11:51)

"میں اس کام پرتم سے کسی اجرکا طالب نہیں ہوں میرا اجرتو رب العالمین کے ذمہ ہے" (26: 180)