جمعہ، 3 اکتوبر، 2014

فتنہ اور علما



فتنہ اور علما
محمد آصف ریاض
یہود سے کہا گیا تھا کہ وہ لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کریں۔ وہ لوگوں کا مال ناحق نہ کھا ئیں ۔ نیز یہ کہ وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ اچھا برتائو کریں۔ ان سے کہا گیا تھا:
اگرتو، میرے لوگوں میں سے کسی محتاج کوجو تیرے پاس رہتا ہو کچھ قرض دے تواس سے قرض خواہ کی طرح سلوک نہ کرنا، اورنہ ان سے سود لینا" (کتاب خروج باب 22)
" اوراگرتیرا کوئی بھائی مفلس ہوجائے اوروہ تیرے سامنے تنگ دست ہو تو اسے سنبھالنا۔ وہ پرد یسی اورمسافر کی طرح تیرے ساتھ رہے۔ تواس سے سود یا نفع مت لینا بلکہ اپنےخدا کا خوف رکھنا تاکہ تیرا بھائی تیرے ساتھ زندگی بسر کرسکے، تو اپنا روپیہ اسے سود پرمت دینا اوراپنا کھانا بھی اسے نفع کے خیال سے مت کھلانا "
(احبار باب 25 )
شروع میں یہود نے پیغمبروں کی تعلیم پرعمل کیا لیکن بعد میں ان کے یہاں بہت سے ناخلف لوگ پیدا ہوئے جنھوں نے پیغمروں کی تعلیم کو پس پشت ڈال دیا ۔ لیکن ابھی وہ اتنے جری نہیں ہوئے تھے کہ علی اعلان پیغمبروں کے احکام کو توڑ تے پھرتے، البتہ جب انھیں اس کام میں اپنے بگڑے ہوئے فقہا کی مدد حاصل ہو گئی تو وہ بہت جری اور سر کش ہوگئے۔ یہود کے بگڑے ہوئے فقہا نے انھیں بتایا کہ خیر کے جو بھی احکام ہیں وہ سب یہود سے متعلق ہیں اورجو خدائی غصہ ہے وہ سب امیوں یعنی غیر یہود کے لئے ہے۔ اپنے فقیہوں کی اس نئی توضیح کو سن کر یہود اس طرح خوش ہوئے جیسے نعوذ با اللہ خدا کی طرف سے انھیں زمین پر لوٹ مار کی کھلی چھوٹ مل گئی ہو۔ اب وہ اخلاقی طور پر اس قدر گر گئے کہ اگر کوئی ایک دینار بھی ان کے پاس رکھتا تو وہ اسے لوٹا نے کے لئے تیار نہ ہوتے۔ قرآن میں ان کی اس حالت کا ذکراس طرح ہوا ہے۔:
"اہل کتاب میں سے کسی کا حال یہ ہے کہ اگر تم ایک دینارکے معاملہ میں بھی اس پربھروسہ کرو تو وہ ادا نہ کرے گا، الا یہ کہ تم اس پر سوار ہوجائو۔ ان کی اس اخلاقی حالت کا سبب یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ امیوں کے معاملہ میں ہم پر کوئی مواخذہ نہیں ہے" (آل عمرا ، آیت 75)
یہود میں جب خرابی پیدا ہوئی تو وہ ایک دم سے اتنے خراب نہ ہوئے کہ خدا ئی احکام کو صریحاً توڑ دیتے ۔ ابھی ان میں اتنی جسارت پیدا نہیں ہوئی تھی لیکن جب انھیں اپنے بگڑے ہوئے فقہا کا سہارا مل گیا تو وہ نڈر ہوگئے ۔ فقہا کی طرف سے شہہ پاکر ان کی سر کشی اتنی بڑھی کہ غیر تو غیر اپنے بھی ان کی بد سلوکی سے محفوظ نہ رہہ سکے۔
قرآن میں ان کی اس حالت کا ذکر اس طرح ہوا ہے:
کیا خدائی حکومت میں ان کا کوئی حصہ ہے، اگر ایسا ہوتا تو یہ دوسروں کو ایک پھوٹی کوڑی تک نہ دیتے"
(سورہ النساء، آیت 53 )
مذاہب کا مطالعہ بتاتا ہے کہ دورزوال میں مسلم فقہا بھی اپنی قوم کے ساتھ وہی کررہے ہیں جویہود و نصاریٰ کے فقہا اپنی قوم کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ مثلا آپ  انذار کے بارے میں کوئی قرآنی آیت مسلمانوں کو سنا ئیں تو ان کے علما کہیں گے کہ یہ حکم یہود کے بارے میں ہے، اور اگر آپ کوئی دوسری آیت پیش کریں تو وہ کہیں گے کہ اس کا رخ نصاریٰ کی طرف ہے، یعنی وہ اپنے آپ کو صرف تبشیرکے خانے میں رکھیں گے، وہ اپنے آپ کو انذار کے خانے میں رکھنے کے لئے ہر گزتیار نہ ہوں گے۔ 
 حدیث میں آیا ہے کہ فتنہ علما کی طرف سے آئے گا اور انھیں کی طرف لوٹے گا۔ 
حضرت علی کرم اللہ وجہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عنقریب ایک زمانہ آئیگا جس میں اسلام کا صر ف نام باقی رہ جائیگا اور قرآن کے صرف الفاظ باقی رہ جائیں گے ان کی مسجدیں بڑی بارونق ہوں گی مگر رشد وہدایت سے خالی اورویران ان کے (نام نہاد) علماء آسمان کی نیلی چھت کے نیچے بسنے والی تمام مخلوق سے بد تر ہوں گے ،فتنہ ان ہی کے ہاں سے نکلےگا اوران ہی میں لوٹے گا (یعنی وہی فتنہ کے بانی بھی ہوں گے اوروہی مرکزومحوربھی (بیہقی فی شعب الایمان ،مشکوۃ شریف ۳۸)