بدھ، 31 اکتوبر، 2012

The conductor who impressed me a lot


Mohammad Asif Reyaz
On 25th October, 2012, I was traveling to Noida in a bus. The conductor of the bus was sitting next to me. On the way to Noida, I asked him about his experiences in life. He seemed 45 plus.  Bringing a broad smile on his face he said, I do not remember any experience to share with you.
Why I asked?
He explained that almost every day, he had to face some troubled situations. Every day he had bitter experiences. If he remembered all those experiences, he would go mad. So, he erases every negative thought from the mind. “I do not allow those bitter experiences to overcome my emotions and feelings. I always keep my mind devoid of those negative thoughts.”
This idea of the conductor impressed me a lot. Thereafter, I discovered a great message for those who do Dawah (Making people aware from the creation plan of God) work and strive hard for peace and spirituality to prevail in this world?
It often happens that when a man stands with the message of truth, people start laughing at him. They mock him and try to belittle him in the eyes of others.
A Dai (The man who makes people aware from the creation plan of God) always faces adverse situations. He has to go through bitter and harsh experiences almost every day.  
In such a situation if a Dai remembers all the bitter experience he will be filled with negativity. If he is not able to remove the bitter experiences from his mind he will go astray and become the messenger of hatred rather than a messenger of peace and tolerance. 
Every Dai should know that when one is faced with bitter experiences, one has to remove those experiences from his mind instantly. One must know the art of converting negative thoughts into positive ones.

منگل، 30 اکتوبر، 2012

Secret of success


کامیابی کا راز

محمد آصف ریاض
اسٹیفن ہاکنگ پیدائش }  8 January 1942 { موجودہ دور کے مایہ ناز سائنسداں ہیں۔ ہاکنگ کو آئن سٹائن کے بعد گزشتہ صدی کا سب سے بڑا سائنسداں سمجھا جا تا ہے۔ وہ 30 سالوں تک کیمبرج یونیور سٹی میں علم حساب کے "لوکیسین پرو فیسر" رہے۔
 یہ وہی عہدہ ہے، جس پر کبھی معروف سائنسداں سر اسحاق نیوٹن فائزتھے۔ اسٹیفن ایک خطرناک قسم کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ وہ نہ ہاتھ پاﺅں ہلا سکتے ہیں اور نہ بو ل سکتے ہیں۔ لیکن وہ دماغی طور پر صحت مند ہیں اور اپنا کام مسلسل جاری رکھے ہوئے ہیں۔
 ہاکنگ کا زیادہ تر کام بلیک ہولز اور تھیو ریٹیکل کاسمو لوجی کے میدان میں ہے۔ ان کی ایک کتاب" وقت کی مختصر تاریخ"
{{A brief history of time کے نام سےدنیا بھر میں مشہور ہے۔ سائنس کی دنیا میں یہ ایک انقلابی کتاب سمجھی جاتی ہے۔ یہ آسان الفاظ میں لکھی گئی ایک اعلیٰ کتاب ہے جس سے طلبا اساتذہ اور محققین بیک وقت فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اسٹیفن نے اپنی اس کتاب کے اعتراف  cknowledgments} } میں اپنی پہلی کتاب ( The Large Scale Structure of Space-time ) "شائع 1973" کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:
"میں قارئین کو اس بات کا مشورہ نہیں دوں گا کہ وہ میری پہلی کتاب کوپڑھیں۔ یہ بہت زیادہ ٹیکنیکل کتاب ہےاور ایسی ہے جسے سمجھا نہیں جا سکتا۔ مجھے لگتا ہے کہ میں نے اس عرصے میں یہ جانا ہے کہ چیزوں کو آسان اور قابل فہم بنا کر کس طرح پیش کیا جا تا ہے"۔


ہاکنگ کی کتاب دی لارج اسکیل اسٹرکچرآف اسپیس ٹائم اور وقت کی مختصر تاریخ کے درمیان تقریباً 16سال کا وقفہ ہے۔ اس سولہ سال کے وقفہ میں ہاکنگ نے جا نا کہ لکھا کس طرح جا تا ہے۔
یہی کسی کامیابی کا راز ہے ۔ کوئی کامیابی پہاڑ کی شکل میں آسمان سے نہیں اتر تی ہے۔ ہر کامیابی کی جڑ کسی چھوٹی کامیابی کے اندر پیوستہ ہوتی ہے،جس طرح کوئی تناور درخت کسی گمنام دانے سے نکلتاہے، اسی طرح کوئی بڑی کامیابی کسی نامعلوم چھوٹی کامیابی سے پھوٹتی ہے۔ آدمی کو کامیابی کے اسی راز کو جاننا ہے۔
آدمی لکھتے لکھتے،لکھنا جانتا ہے،اور پڑھتے پڑھتے پڑھنا۔ وہ بولتے بولتے بولنا جانتا ہے، اور چلتے چلتے چلنا۔ اس معاملہ میں کسی کا کوئی استثنا نہیں۔
کڑی کڑی ملتی ہےتب زنجیر بنتی ہے، لفظ لفظ ملتے ہیں، تب جملہ بنتا ہے، قطرہ قطرہ ملتا ہے، تب دریا بنتا ہے۔ قدم قدم بڑھتے ہیں، تب کوئی منزل طے پاتی ہے، اینٹ اینٹ ملتی ہے، تب کوئی عالیشان قلعہ وجود میں آتا ہے۔
 لیکن لوگوں کا حال یہ ہے کہ لوگ اس وزڈم سے بے خبر ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ ہر بڑی کامیابی کی جڑ چھوٹی کامیابی کے اندر ہوتی ہے،جیسے کوئی درخت بیج کے اندر ہوتاہے۔
لوگوں کا حال یہ ہے کہ ان میں کا ہرشخص لمبی چھلانگ لگانے کی فکر میں ہے، ہر شخص ایک ایسی اڑان بھر رہا ہے جس کے لئے ابھی اس کے اعضا تیار نہیں ہیں۔

There you will weep and mourn


وہاں آل اولاد کی یادیں آپ کو رلائیں گی

محمد آصف ریاض
ایک ایسی وادی کا تصور کیجئے، جہاں آبشار ہوں، پھول کھلے ہوں، جھیلیں اور نہریں ہوں، جہاں مچھلیاں ہوں، جہاں پرندے آسمان کی رونق بڑھا رہے ہوں، جہاں ہرنیں ادھر سے ادھر بھاگ دوڑ کر رہی ہوں، جہاں مور ناچتے ہوں اور جہاں کی فضائوں میں ہر طرف پھولوں کی خوشبو بکھری ہوئی ہو۔ لیکن یہاں آپ تنہا رہنا ہو، تو کیا دلبستگی کے تمام سامان کے باوجود آپ یہاں خوش رہ پائیں گے؟
نہیں، آپ اپنے آپ کو یہاں ایک کھو یا ہوا انسان پائیں گے۔ یہاں آپ کو اپنی بیوی اپنے بچوں کی یاد آئے گی۔ آپ اپنی ماں اور اپنے باپ کے ساتھ اہل خانہ کو یاد کر کے مایوس ہو جائیں گے۔ وادی کی خوبصورتی آپ کو متاثر نہیں کر پائے گی۔
یہی حال جنت کا ہے
جنت ایک حسین وادی ہے۔ یہاں انسان کے لئے ہر طرح کی آرائشیں موجود ہیں۔ یہاں انسان کی دلبستگی کا سارا سامان ہے۔ یہاں پھول کھلے ہیں۔ نہریں بہہ رہی ہیں۔ خوبصورت پرندے فضائوں میں تیر رہے ہیں۔  ہر طرف زندگی رواں دواں ہے۔ لیکن آپ یہاں تنہا ہیں۔ اس ابدی باغ کا دروازہ آپ کی بیوی اور کے بچوں پر بند ہے۔ یہاں آپ کے والدین نہیں آسکتے، یہاں آپ کا کنبہ اور قبیلہ داخل نہیں ہوسکتا۔
کیا ایسی جنت میں آپ کی طبیعت لگے گی؟ نہیں، آپ اپنے گھر والوں کی غیر موجود گی میں مایوس ہوجائیں گے۔ آل اولاد کی یادیں آپ کو رلا ئیں گی۔
آدمی پرلازم ہے وہ اپنے ساتھ اپنے گھر والوں کو بھی جنت کا طلبگار بنائے۔ وہ ایسا نہ کرے کہ وہ خود تو جنت کا طلبگار ہو اور گھر والوں کو بھول جائے۔ وہ خود تو جنت کی تیاری کرے اور گھر والوں کو خواب غفلت میں پڑا رہنے دے۔ اگر ایسا ہوا تو انسان کو جنت میں تنہا رہنا پڑے گا ۔ وہاں وہ اپنی بیوی اپنے بچوں اور آپنے والدین کے لئے تڑپے گا۔
یہی وہ وزڈم ہے جسے قرآن میں اس طرح سمجھا یا گیا ہے:
" پس تو اللہ کے ساتھ  کسی اور معبود کو نہ پکار کہ تو بھی سزا پانے والوں میں سے ہوجائے، اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرا دے"{ 26: 213-14}

And when your number will be deleted


اور جب آپ کا نمبر بھی ڈلیٹ کر دیا جائے گا
محمد آصف ریاض
27اکتوبر2012 کو ہندوستان میں عید الاضحی کا تہوار منا یا گیا۔ اس سے قبل والی شام میں نے اپنے گھروالوں کو فون کیا اور انھیں عید کی مبارک باد پیش کی۔ میری پیدائش پٹنہ کے ایک گاﺅں حضرت سائیں میں ہوئی۔ میرے خاندان کے لوگ آج بھی اسی گاﺅں میں رہتے ہیں۔ میری ماں،میرے بھا ئی، میری بہنیں، میرے چچا اور دوسرے سب لوگ اسی گاﺅں میں رہتے ہیں۔ میں 2006 میں جاب کی تلاش میں دہلی آگیا اور آج تک دہلی میں ہوں۔ میں نے گھر سے یہاں تک دعوہ مشن کو باقی رکھا۔ دعوہ مشن میری زندگی کا حصہ ہے اگر مجھے جنگل میں بھی رہنا پڑے تو میں وہاں بھی اپنے دعوہ مشن کو نہیں چھوڑ سکتا۔
گھر والوں کو فون کرتے ہوئے میں ایک ایسے نمبر پر پہنچا جو" زین العابدین " کے نام سے میرے موبائل پر محفوظ تھا۔ جب یہ نام میری نگاہوں میں آیا تو میں اچانک رک گیا اس کے بعد پھر میں نے کسی کو فون نہیں کیا۔
زین العابدین میرے چچا تھے اور میرے ساتھی بھی۔ میں جب گھر جاتا تھاتو گھنٹوں ان کے پاس بیٹھا رہتا تھا۔ یہاں تک کہ جب گھر میں لوگ مجھے ڈھونڈتے تھے تو لوگ کہہ دیتے تھے کہ وہ اپنے دوست کے پاس بیٹھے ہوں گے۔ انھیں مطالعہ کا بہت شوق تھا ساتھ ہی وہ قومی اور بین القوامی معاملات پر اچھی گرفت رکھتے تھے۔ وہ تین ملکوں میں رہ چکے تھے،یعنی پاکستان، بنگلہ دیش اور ہندوستان میں۔
گزشہ سال عید کے دن میں نے ان سے بہت سی باتیں کی تھیں۔ لیکن اس بار وہ مجھ سے بات کر نے کے لئے اس دنیا میں موجود نہیں تھے۔ وہ کینسر کے مریض ہوگئے تھے اور اسی بیماری میں ان کی موت ہوئی۔ میں ان کی عیادت کے لئے گیا تھا لیکن میں ان کی نماز جنازہ میں شریک نہیں ہوسکا۔ موبائل پر ان کا نمبر دیکھ کر میں بے اختیار رونے لگا۔ ان کی موت میں میرے لئے اپنی موت کی یاد دہانی تھی۔

ہر بار انسان کو کسی نہ کسی کی موت کی خبر ملتی ہے لیکن انسان اسے دوسروں کی موت سمجھ کر فراموش کر دیتا ہے، وہ دوسروں کی موت میں اپنی موت کی وارننگ کو نہیں پڑھتا۔ اس لئے ایسا ہوتا ہے کہ دوسروں کی موت ہمیشہ اس کے لئے دوسروں کی موت ثابت ہوتی ہے۔ دوسروں کی موت میں اسے اپنی موت نظر نہیں آتی۔
 چچا کی موت کے ساتھ مجھے اپنے پھوپھازاد بھائی کی یاد آگئی۔ ان کا نام حمد مشتاق تھا۔ وہ نہایت سادہ انسان تھے، اور نماز کو بہت مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھے۔ وہ محض پچاس سال کی عمر میں اپنے چھوٹے بچوں کو چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ گزشتہ عید میں ان سے بھی میری بات ہوئی تھی ۔ پھر وہ کڈنی کے مریض ہوگئے تھے۔ میں ان کی عیادت کے لئے پٹنہ گیا تھا لیکن ان کے جنازہ میں شریک نہیں ہوسکا۔
اپنےخاندان والوں کے ساتھ مجھے اپنے والد کی یاد آگئی۔ تقریباً سترہ اٹھارہ سال قبل جب میں محض سترہ اٹھا رہ سال کا تھا تو میرے والد کا انتقال ہوگیا تھا۔
میں اپنے خاندان والوں کی موت کو یاد کر کے سوچنے لگاکہ انسان کتنی بڑی حقیقت کو نظر انداز کرتا ہے۔ وہ واقعہ جسے ہر حال میں ہوکر رہنا ہے،انسان اسے اس طرح بھلائے رہتا ہے گویا اسے کبھی واقعہ ہی نہیں بننا ہے۔
انسان موت کو ’نا‘ کہہ کر ٹال دیتا ہے۔ لیکن کیا صرف اس کے "نا" کہہ دینے سے موت اس سے ٹل جائے گی؟ انسان ہر وقت اپنی موت کو بھلائے رہتا ہے لیکن کیا اس کے بھلا دینے سے موت بھی اس کو بھلا دے گی؟ نہیں، ہر گز نہیں۔
ہر بار انسان جب اپنے ماحول میں نگاہ ڈالتا ہے تو اس پر یہ سچائی کھلتی ہے کہ اس کا کوئی عزیز کھو گیا ہے، لیکن اس کھونے میں ہمیشہ وہ دوسروں کے کھونے کو پا تا ہے وہ یہ نہیں سمجھتا کہ ایک دن وہ بھی انہی کھوئے ہوئے لوگوں کی فہرست میں شامل ہونے والا ہے۔ایک دن آنے والا ہے جب لوگ اپنے موبائل سے اس کے نمبر کو بھی اسی طرح ڈلیٹ کریں گے جس طرح وہ دوسروں کے نمبر کو ڈلیٹ کر دیتا ہے۔ اس دن وہ بھی زمین پر ایک بھلا یا ہوا انسان بن کر رہ جائے گا۔
اطالوی سائنسداں گلیلیو نے جیو سنٹرکGeocentric}} نظریہ کی جگہ ہیلی یو سنٹرک {Heliocentric} نظریہ پیش کیاتھا۔ اس نے بتا یا کہ سورج زمین کے گرد چکر نہیں کاٹتا بلکہ زمین سورج کے گرد چکر کاٹتی ہے۔ گلیلیو کا یہ نظریہ چرچ کے نظریہ سے ٹکرا رہا تھا کیوں کہ زبور میں لکھا تھا:
He set the earth on its foundations; it can never be moved.
{Psalm104:5}
"خدا نے زمین کی تخلیق اس کی بنیاد پرکی اوروہ کبھی حرکت نہیں کرسکتی"
گلیلیو کے نظریہ کے مطابق زمین سورج کے گرد چکر کاٹ رہی تھی۔ چرچ نے کہا کہ گلیلیو تم اپنے نظریہ کو واپس لے لو یا مرنے کے لئے تیار ہوجاﺅ۔ گلیلیو نے کہا میں اپنے نظریہ کو واپس لیتا ہوں میں اعلان کرتا ہوں کہ زمین سورج کے گرد چکر نہیں کاٹ رہی ہے۔ گلیلیو کےاس اعلان کے بعد اس کے ساتھیوں نے اس سے کہا کہ تم نے موت کے ڈر سے ایک بڑی حقیقت کا انکار کردیا۔
گلیلیو نے جواب دیا میرے دوست، میرے انکار کرنے اور نہ کرنے سے حقیقت نہیں بد لتی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ زمین کل بھی گردش کر رہی تھی اور وہ آج بھی گردش کر رہی ہے، ہر چند کہ میں اس کا انکار کر رہا ہوں۔ گلیلیو کہ" نا" کہہ دینے سے زمین نے گرش کر نا نہیں چھوڑ دیا۔
یہی حال موت کا ہے، چاہے انسان اسے کتنا ہی نظر انداز کر دے لیکن وہ بہر حال انسا پرآکر رہنے والی ہے۔ اسے کسی صورت بھی ٹا لا نہیں جا سکتا۔

پیر، 29 اکتوبر، 2012

A word of wisdom


اس کنڈکٹر کی بات مجھے پسند آئی

محمد آصف ریاض
 25اکتوبر 2012 کو میں دہلی سے نوئیڈاجا رہا تھا۔ میں بس پر سوار تھا۔ میری بغل والی سیٹ پر کنڈکٹر بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے راستے میں کنڈکٹر سے اس کا تجربہ پوچھا۔ وہ جالیس پینتالیس سال سے اسی پروفیشن سے وابستہ تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ وہ مجھے اپناکوئی انوکھا تجربہ بتائے۔
اس نے مسکرا کر کہا،اجی میں کیا بتائوں، مجھے کچھ یاد نہیں۔ میرے زور دینے پر اس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ دیکھو جی مجھے ہر روز طرح طرح کے لوگوں کو جھیلنا پڑتا ہے۔ کئی لوگوں سے ہر روز ٹکرائو کی صورت پیدا ہوجاتی ہے اگر میں سارے واقعات کو یاد رکھو تو میں پاگل ہوجائّں گا۔ میں ایسا کرتا ہوں کہ ہر روز گھر جاکر تمام تلخ تجربات کو بھولا دیتا ہوں۔ کوئی بھی تلخ یاد میرے دماغ میں محفوظ نہیں ہے۔
مجھے اس کنڈ کٹر کی بات بہت پسند آئی۔  میں سوچنے لگا کہ اس میں تو داعیوں کے لئے بہت بڑا سبق ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب کوئی خدا کا بندہ خدا کا پیغام لے کر اٹھتا ہے تو وہ اپنے ماحول میں حقیر ہو کر رہ جا تا ہے۔ لوگ اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ کوئی اس کی بات کو بیوقوفوں کی بات کہہ کر ٹال دیتا ہے۔ کوئی اسے سماج کا حقیر آدمی سمجھ کر نظر انداز کر دیتا ہے۔ کوئی اس پرطنز کے نشتر چلا تا ہے۔ کوئی اس کی عیب جوئی کرتا ہے۔
گویا داعی کو ہرروز مختلف قسم کے تلخ تجربات سے گزرنا پڑتا ہے۔ اب اگر داعی یہ کرے کہ وہ ان سارے تجربات کو اپنے ذہن و دماغ میں محفوظ کر لے وہ انھیں اپنے دماغ سے نکالنے کے لئے تیار نہ ہوتو کیا ہوگا؟ وہ ایک نیگیٹو انسان بن کر رہ جائے گا۔ اس کے دل میں لوگوں کے لئے نفرت بھر جائے گی۔ وہ احساس نفرت میں جینے لگے گا۔ اس سے وہ چیز چھن جائے گی جسے خیرخواہی اور بردباری کہا جا تا ہے۔ اب اس کی زبان سے جو کلمہ نکلے گا وہ نفرت میں بھرا ہوا کلمہ ہوگا۔
ہرداعی کویہ کرنا ہےکہ جب اسے کسی ناخوشگوار واقعہ کا تجربہ ہو تو وہ اسے اپنے ذہن سےنکال دے۔ وہ ہر نیگیٹیو تجربہ کو پوزیٹیو تجربہ میں تبدیل کرے یا پھر اسے بھلا دے۔
مائنڈ کی ایک فیکلٹی وہ ہے جو صرف بھلانےکا کام انجام دیتی ہے، داعی کو چاہئے کہ وہ اپنی اس فیکلٹی کے استعمال کو بھی جانے۔

And when man will stay alone


اور جب انسان تنہا ہوگا

محمد آصف ریاض
انسان پیدائشی طورپر کمزورواقع ہواہے۔ وہ اپنی ماں کے پیٹ سے ایسا کمزورآتا ہے کہ اگر کوئی شخص اسے تکلیف پہنچائے تو وہ اپنا بچائوبھی نہیں کرسکتا۔ نہ وہ بول سکتا ہے نہ سمجھ سکتا ہے اور نہ اپنے خیالات کا اظہار کرسکتا ہے۔ پھرخدا اسے زمین پر طاقت دیتا ہے۔ اب وہ بولنے لگتا ہے۔ اب اس کے اندر چیزوں کی فہم آجاتی ہے۔ وہ زمین پراپنا خاندان اور قبیلہ بنا تا ہے۔ یہ قبیلہ اسے ماحول میں پروٹکشن {Protection} فراہم کرتا ہے۔
اس پروٹکشن کو پاکرانسان کو یہ زعم ہوجاتا ہے کہ اب اسے کوئی گزند نہیں پہنچا سکتا،اب وہ ہر خطرہ سے باہر ہے۔ انسان رفتہ رفتہ کمزری کی نفسیات سے نکل کرطاقت کی نفسیات میں جینے لگتا ہے۔
طاقت کی یہ نفسیات انسان کے اندر سرکشی اور انا کی نفسیات پیدا کرتی ہے۔ انسان اپنے آگے کسی کو قابل اعتنا نہیں سمجھتا، یہاں تک کہ جب کوئی ڈرا نے والا اس کے پاس آتا ہے تووہ اسے یہ کہہ کرچپ کرا دیتا ہے کہ سچائی اس کے ساتھ ہے اور اسی لئے اسے زمین پر طاقت ملی ہوئی ہے۔
وہ زمین پراپنا ایک اپمائر بنا تا ہے اور لوگ اس اپمائر کو دیکھ کراس کے ارد گرد جمع ہوجاتے ہیں۔ وہ ماحول میں اونچا مقام پا لیتا ہے۔
لیکن بہت جلد اسے ایک اور تجربہ ہوتاہے۔ وہ تجربہ ہے کمزوری کا تجربہ۔ خدا وند اسے بیماری میں مبتلا کرتا ہے تاکہ وہ اپنی اصل کی طرف لوٹے۔ وہ اپنےاندر سیکنڈ تھاٹ پیدا کرے، یعنی وہ یہ جانے کہ جس طرح وہ اپنی پیدائش کے وقت کمزورتھا اسی طرح  وہ آج بھی کمزور ہے۔
خداانسان کو بیماری میں مبتلا کرتا ہے تاکہ وہ بیماری کے دسترخوان سےاپنے لئےعجز،انکساری،رحمدلی،اخوت اور بردباری کی غذا لے کر اٹھے، لیکن عجیب بات ہے کہ انسان اس دسترخوان سے بھی سر کشی، ناشکری اورنافرمانی کی غذا لے کر اٹھتا ہے۔
ایسا کیوں ہے؟ ایسا اس لئےہے کیوں کہ انسان جب بیمار پڑتا ہے تووہ اپنےآپ کو اپنے قبیلہ کے پروٹکشن میں پاتا ہے۔ اب جب کہ وہ بیماری سے صحت مند ہوکر نکلتا ہے تو اسے ایسا لگتا ہے کہ اس کے قبیلہ نے اسے بچا لیا۔ وہ بیماری کے بعد اپنی تندرستی پر اس طرح تبصرہ کرتا ہے۔
" اس کے عزم {Will power} اور اس کے مضبوط قبیلہ نے اسے بچالیا۔"
انسان عجز کے دسترخوان پر بٹھا یا جا تا ہے تاکہ وہ اپنے اندرعجز پیدا کرے، وہ اپنی ناطاقتی کو جانے لیکن انسان اس دسترخوان سے بھی سرکشی کی غذا لے کر اٹھتا ہے، وہ یہاں بھی اپنی طاقت کو جانتاہے۔
اب انسان اپنے خاندان، قبیلہ اور آل اولاد کے پروٹکشن کو دائمی سمجھ لیتا ہے۔ وہ خدا کو چھوڑ کراپنی آل اولاد اور قبیلہ میں جینے لگتا ہے۔
پھراس پر موت کا حملہ ہوتا ہے۔ اس کا سارا قبیلہ ایک بار پھر اسے بچانے کے لئے ایکٹو ہوجا تا ہے۔ قبیلہ کا ہر فرداسے پروٹکشن دیتا ہےلیکن تمام پروٹکشن کے باوجود خدا کا فرشتہ اسےاٹھا کر لےجاتا ہےاور کوئی اسے بچا نہیں پاتا۔
اب انسان پرکھلتا ہے کہ وہ جن طاقتوں پر بھروسہ کئے ہوئے تھا وہ سرے سے کوئی طاقت ہی نہیں تھی۔ وہ اپنے آپ کو ایک اور دنیا میں پاتا ہے، جہاں اس کے ساتھ کوئی نہیں ہوتا،جہاں وہ اپنے آپ کو تنہا پاتا ہے۔
کتنی عجیب بات ہے کہ انسان آل اولاد مِں پڑارہتا ہے اور بھول جاتا ہے کہ آخر کار اسے آخری سفرپر تنہا نکلنا ہے۔
قرآن کا ارشاد ہے:
"اورسب قیامت کے دن اس کے سامنے اکیلے اکیلے حاضر ہوں گے۔" {19:95}
"اورجو چیزیں یہ بتاتا ہے سب ہمارے پاس رہ جائیں گی اور یہ اکیلا ہمارے سامنےآئے گا۔" {19:80}
 مضمون نگار"امکانات کی دنیا" کے مصنف ہیں

جمعہ، 26 اکتوبر، 2012

Blame thyself


یہ اپنے گناہ کو دوسروں کے سر ڈالنا ہے


محمد آصف ریاض

ایرانی لیڈر آیت اللہ سیدعلی خامنئی نے یوروپ، امریکہ اور اسرائیل پر الزام لگا یا ہے کہ وہ مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے لفظوں میں:

Ayatollah Khamenei warned that the enemy seeks “to rock these foundations,” and noted, “By exploiting inattention and shallow-mindedness on behalf of some, corrupt American, NATO and Zionist agents are trying to divert the deluge-like movement of the Muslim youth and bring them into confrontation with one another in the name of Islam.”

{Press Tv 25,2012}

خامنئی کا بیان ایک سیاسی بیان ہے۔ اس میں سچائی کم اور جھوٹ زیادہ ہے۔

بات یہ نہیں ہے کہ امریکہ اسرائیل اور یوروپی دنیا مسلمانوں کے ساتھ کیا کر رہی ہے۔ بات یہ ہے کہ خود خامنئی کی حکومت کیا کر رہی ہے۔


 ایران نے عرب اپرائزنگ کو اسلامک اویکنگ {اسلامی بیداری} کا نام دیا۔ لیکن جب تک یہ بیداری دوسرے دوسرے ممالک میں تھی تو ایران پر جوش انداز میں اس کی حمایت کر رہا تھا۔ لیکن جیسے ہی اس بیداری کی زد میں سیریا کی علوی {شیعہ} حکومت آئی تو ایران نے فوراً یہ ہنگامہ شروع کردیا کہ یہاں بیداری نہیں آئی بلکہ یہاں کی حکومت کو دہشت گرد جماعتوں کا سامنا ہے۔ دوسروں کی قیمت پر انقلاب برپا ہو تو وہ اسلامی بیداری ہے اور جب اپنے مفادات زد پر ہوں تو وہ دہشت گردی ہوجاتی ہے۔

ایران نے سیریا کی حکومت کو بچانے کے لئے روس چین عراق لبنان کو سر گرم کردیا۔ میڈیا میں کئی رپورٹیں ایسی آچکی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ خود ایرانی فوج وہاں جمہوریت پسندوں کے خلاف لڑ رہی ہے۔

ایران نے ترکی کو دھمکی دی کہ اگر وہ سیریا کے معاملہ میں مداخلت کرے گا تو اسے پچتا نا پڑے گا۔ ایران پوری دنیا کے مسلمانوں کو شیعہ سنی کے گروہ میں بانٹ چکا ہے۔ جو کام اہل یوروپ، امریکہ یا اسرائیل کو کرنا تھا وہ کام تو خود ایرانی حکومت کر چکی ہے۔ پھر یہ کہنا کہ یوروپ امریکہ اور اسرائیل مسلمانوں کو لڑانےکی کوشش کرر ہے ہیں۔ یہ اپنے کئے ہوئے گناہ کو دوسروں کے سرڈالنا ہے۔

آدمی اگر گناہ کرے اور پھر اعتراف گناہ کے ساتھ توبہ کر لے تو خدا وند کے یہاں اس کے لئے معافی ہے، اور اگر وہ گناہ کرے اور اس کا الزام دوسروں کے سر ڈالے تو یہ گناہ پر سر کشی کا اضافہ ہے اور بلا شبہ اللہ پاک سرکشوں کو پسند نہیں کرتا.

جمعرات، 25 اکتوبر، 2012

And we have set therein a glowing lamp


لوگو،آنکھیں کھولو، دیکھو خدا وند نے زمین وآسمان کو روشن کردیا ہے

 9اکتوبر 2012 کو طالبان کے مبینہ انتہا پسندوں نے 14سالہ ملالہ یوسف زئی کو گولی مارکر زخمی کردیا۔ ملالہ پاکستان کے سوات ضلع میں واقع قصبہ منگورہ کی رہنے والی ہیں۔ ملالہ کی پیدائش 12 جولائی 1997 کو ہوئی۔ ان کا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے11 سال کی عمر میں بی بی سی کے ڈیمانڈ پراسٹّو ری کے لئے "گل مکئی" کے فرضی نام پر بی بی سی کو کچھ خام مٹیریل دستیاب کرایاتھا۔
ملالہ پرحملہ بلاشبہ انسانی حقوق سے بڑھ کر بچوں کے حقوق پرحملہ تھا کیوں کہ جس وقت انھیں گولی ماری گئی اس وقت ان کی عمر محض چودہ سال تھی۔ اس لحاظ سے پوری دنیا میں ان پر ہونے والے حملہ کی مذمت ہوئی، یہاں تک کہ امریکی صدر نے بھی اس واقعہ کی مذمت کی اور پھر ملالہ کو لندن لے جا یا گیا جہاں وہ زیرعلاج ہیں۔
ملا لہ پر رپورٹنگ کرتے ہوئے ایک ہندوستانی اخبار نے اس طرح کی سرخی لگائی۔
"ملالہ آںکھیں کھولو، دیکھو تمہاری جلائی ہوئی قندیل سے ساری دنیا میں چراغ چلنے شروع ہوگئے ہیں"۔
بر صغیر کے مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ شاعری ہے
پتہ نہیں وہ قندیل کہاں ہے اورکوئی نہیں جانتا کہ وہ چراغ جلانے والے کہاں ہیں۔ "ملالہ آنکھیں کھولو،تمہاری جلائی ہوئی قندیل ساری دنیا میں جراغ جلنے شروع ہوگئے ہیں۔"
یہ سرخی حقیقت واقعہ سے زیادہ شاعری ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ شاعری ہے۔ یہاں کے پڑھے لکھے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد شاعر ہے اور جو اپنے آپ کو نثر نگار کہتے ہیں وہ بھی درحقیقت شاعرہیں، ان کی شاعری کوآپ "نثری شاعری" کہہ سکتے ہیں۔ میں یہاں آپ کو ایک مثال دوں گا۔
ملالہ کے ہی واقعہ پر ایک ہندوستانی مضمون نگار سہیل انجم کی تحریر شائع ہوئی ہے۔ "وہ اپنی تحریر کی ابتدا ان الفاظ سے کرتے ہیں۔
 "ملالہ یوسف زئی – یہ نام آج پوری دنیا میں امن کی علامت بن گیا ہے۔ کوئی اسے ننھی کلی کہہ رہا ہے تو کوئی امن کا فرشتہ، کوئی انسانیت کا نقیب کہہ رہا ہے تو کوئی مظلوموں کے لئے امید کی کرن۔ لیکن یہ ننھی کلی اس وقت موت زیست کی کشمکش میں گرفتار ہے اور امن و انسانیت میں یقین رکھنے والوں کے لئے دعائوں کا طلبگار۔" }سیاسی تقدیر نئی دہلی13 اکتوبر  {2012
آج اگرہمارے ملک میں اردو زبان روبہ زوال ہے تو اس میں غیروں کی سازش سے زیادہ اردو کے ادیبوں کا ہاتھ ہے۔ ان کے پاس کہنے کے لئے کچھ نہیں ہوتا۔ ان کے یہاں شبدوں کے جنجال کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کا پڑھا لکھا طبقہ اپنے بچوں کو اردو نہیں پڑھاتا۔
"ملالہ آنکھیں کھولو، دیکھو، تمہاری جلائی ہوئی قندیل سے ساری دنیا میں چراغ جلنے شروع ہوگئے ہیں۔" یہ وہ بیان ہے جو کہیں واقعہ نہیں بنا۔ یہ صرف مضمون نگار کے ذہن میں واقعہ بناہے۔ یہ شاعری ہے اور شاعری کی بنیاد جھوٹ پر ہوتی ہے۔ اور جھوٹ گمراہی ہے۔
البتہ ایک اور واقعہ خدا کی اس زمین پر ہر روز ہورہا ہے۔ لیکن کہیں اس کی خبر نہیں بن رہی ہے۔اگر اس واقعہ کی خبر بنائی جائے تو اس کی سرخی اس طرح ہوگی۔
"لوگو،آنکھیں کھولو، دیکھو، خدا وند نے زمین وآسمان کو روشن کردیا ہے۔"
اگراس قسم کی سرخی کے ساتھ کوئی رپورٹ تیار ہو تو بلا شبہ یہ ایک حقیقت واقعہ کا بیان ہوگا کیوںکہ خداوند ہر روز سورج کے ذریعہ زمین وآسمان کو روشن کرتا ہے تاکہ  زمین پرانسانی سرگرمیاں باقی رہیں۔
قرآن کاارشاد ہے:
 "اور تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان قائم کئے۔ اور ایک نہایت روشن اور گرم چراغ پیدا کیا۔"{78: 12-13}
"بڑا متبرک ہے وہ جس نے آسمان میں برج بنائے اور اس میں ایک چراغ اور ایک چمکتا چاند روشن کیا۔" { 25: 61}
"کیا دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کس طرح سات آسمان تہہ بہ تہہ بنائےاور ان میں چاند کو نور اور سورج کو چراغ بنایا؟"
{71: 15-16}
خداوند نے زمین کو روشن کر نے کے لئے سورج بنایا۔ لیکن صرف سورج کو بنادینا ہی کافی نہیں تھا۔ سورج کو مینیج کرنا بہت بڑا کام تھا۔ خدا وند ہر روزسورج کو مینیج کررہا ہے۔ وہ زمین کو چوبیس گھنٹے میں اس کے محور پر ایک بار نچا دیتا ہے۔جس کی وجہ سے کہیں دن ہوتا ہے اور کہیں رات ہوتی ہے۔ اگر زمین کو خداوند اس کے محور پر نہ نچا تا توکہیں صرف رات ہوتی اور کہیں صرف دن ہوتا۔ کہیں صرف تاریکی ہوتی اور کہیں صرف روشنی ہوتی۔ ایسی حالت میں زمین پر انسانی زندگی خطرے میں پڑ جاتی کیوں کہ دونوں صورتوں میں زمین اپنی زرخیزی کو کھودیتی۔کہیں انسان روشنی میں مرتا اور کہیں تاریکی میں۔ خدا نے اس صورت حال سے بچائوکے لئے ایک الٹی میٹ انتظام کیا۔ وہ زمین کو اس کے محور پر ہر روز نچا رہا ہے تاکہ زمین پر زندگی باقی رہے۔
زمین پر اتنا بڑا واقعہ انسان کی نگاہ کے سامنے ہر روز ہورہا ہے اور اسی واقعہ کی وجہ سے زمین پر انسان کی زندگی باقی ہے لیکن کوئی نہیں جو اسے خبر بنائے۔ انسان ایک واقعہ کو بطور واقعہ پیش کرنے کے لئے تیار نہیں ہے البتہ وہ ہر اس چیز کو بیان کر رہا جو کہیں واقعہ نہیں بنا۔
انسان سچ کو چھوڑ کر جھوٹ کا طلبگار بن رہا ہے۔ وہ حق کو چھوڑ کر باطل کا طرفداربن رہاہے۔ وہ انسانی واقعات کی جھوٹی سچی تعبیر کے لئےالفاظ کے سمندر بہا رہا ہے لیکن خدا ئی واقعات کے بیان کے لئے اس کے پاس کوئی لفظ نہیں۔
انسان نے سب کی قدر جانی یہاں تک کہ پاکستانی گائوں کی رہنے والی اس لڑکی ملالہ کی بھی، لیکن وہ اپنے خدا وند کی قدر نہ جان سکا۔ وہ اس کے لئے ایک خبر نہیں بنا سکا۔
 اس دن انسان کا کیا حال ہوگا جب وہ اپنے خداوند کے سامنے حاضرکیا جائے گا اور جب اس سے پوچھا جائے گا کیا ہم نے تجھیں آنکھیں نہیں د یں تاکہ تم دیکھتے، اور کیا دل اور دماغ نہیں دیا تا کہ تم تفکر کرتے، اور کیا کان نہیں دیا تا کہ تم اچھی باتوں کے طلبگار بنتے اور کیا زبان نہیں دی تاکہ تو اپنے خداوند کی کبریائی بیان کرتا۔
 اس دن انسان سے خدا وند کے سوالوں کا جواب نہیں بن سکے گا۔ وہ کہے گا کہ کاش آج میں مٹی ہوجاتا۔  یا لیتنی کنت ترابا۔
لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے۔{ لوگ دیکھیں گےکہ} قیامت کے روز پوری زمین اس کی مٹھی میں ہوگی اور آسمان اس کے دست راست میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔ {36:67}

منگل، 23 اکتوبر، 2012

Living in the paradise of God


Mohammad Asif Reyaz

Suppose, a man has many gardens, he gives one of them to you to take care of it. You are supposed to cultivate it and make it more beautiful and more productive. But if you fail to do it, how the owner of the garden will take it?

Of course, he will take his garden back from you. He will punish you for the destruction of his Garden. He will write your name in the register of those who do not have ability to take care of the Garden, and hence have no right to live in the same.

Well, this world is a garden. The earth you are living in is a garden, though an incomplete one .God has sent you in this incomplete garden to promote good things and make this place good and beautiful to live in. You have to live and act here according to the guidance of God.

If you prove to live and act here, according to guidance of God, then he will bring you in another garden, which is more beautiful than this and also eternal in its nature. Never ending, everlasting .This garden has been described in the Qur’an as such. “Those mindful of God will be in safe place, among gardens and springs, dressed in a fine silk and in rich brocade .We shall wed them to maiden with large, dark eyes. They will call therein for every kind of fruit, in peace and security .They will not taste death therein, save the first death.” (The Smoke)

Sending to this world (an incomplete garden), God has given us a chance to prepare to live in a Supper garden, the eternal one, the everlasting.

In fact, this world in its nature is a breeding ground. Here man of Paradise was born, then from his and her doing he proves that, he deserves to live in God's Eternal garden that is Heaven, the paradise.

Failing to prove this ability of living in God's eternal Garden, one will be sent in another place to live in, that is Hell. This hell has been described in Qur'an as such.

“Truly The Day of Decision is appointed time for all of them, the Day when no friend shall be of the least avail to another, nor shall any be helped, save those whom God shows mercy. Surely, He is the Mighty, the Merciful.

Surely the fruit of the Zaqqum tree shall be food for the sinners, like the dregs of Oil; it shall boil in their bellies, like the boiling of hot water”.

(The Smoke)

Safeguard yurt spiritual pondering


مقدس کیفیات کی نگرانی کیجئے

محمد آصف ریاض
آدمی کا حال یہ ہے کہ وہ مستقل طور پر کسی ایک کیفیت کے ساتھ نہیں جیتا۔ اس کے اندرہر لمحہ مختلف قسم کی کیفیات پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ وہ کبھی ایک چیز کا طلب گار بنتا ہے تو کبھی دوسری چیزکا۔ وہ کبھی ایک دوڑ لگاتا ہے تو کبھی دوسری دوڑ۔ اس کے دل کی حالت کبھی یکساں نہیں رہتی۔
ایک آدمی مقدس راستے کا طلب گار بنتا ہے۔ وہ اس راستے پر چل پڑتا ہے لیکن بہت جلد اس کی زندگی میں وہ وقت آتا ہے جب کہ اس کے اندر وہ مقدس کیفیت باقی نہیں رہتیں اور وہ اس راہ کو چھوڑ کر ایک دوسری راہ کا مسافر بن جاتا ہے۔
یہ وقت کسی بندہ خدا کے لئے سخت آزمائش کا وقت ہوتاہے۔ ایسے وقت میں ایک ہی چیز کسی انسان کو گمراہی کے سمندر میں غرق ہونے سے بچا سکتی ہے، اور وہ چیز ہے دعا۔
18جولائی کی شام جب میں مغرب کی نماز کے لئے نوئیڈا کے ایک پارک میں کھڑا ہوا، تو میرا دل گناہوں کے بوجھ سے بھاری ہورہا تھا ۔ میں نے اپنے دل کی پرانی کیفیت کو یاد کرتے ہوئے خدا سے دعا کی کہ اے میرے رب، میرے دل اور میری جان کے مالک، میرے دل سے ان مقدس خیالات کو مت نکال جو تونے محض اپنے فضل سے مجھے عطا کیا ہے۔ اے خداوند تو اپنے بندے کو غیر مقدس چیزوں کا طلبگار مت بنا۔ میں نے اپنے رب کو پکارکر کہا،اے میرے رب، کوئی شریف آدمی جب کسی انسان کو کوئی چیز دیدیتا ہے تو پھر وہ اس سے واپس نہیں مانگتا۔ وہ اسے دے کر بھول جا تا ہے۔ اور تو تمام مقدس ہستیوں میں سب سے زیادہ مقدس ہے۔ تو پاکی اور بڑائی میں زمین وآسمان پر چھایا ہوا ہے، اے میرے رب تو اپنی ایک نعمت دے کر پھرمجھ سے واپس مت لے۔
یہ دعا کرتے ہوئے میری آنکھوں سے آنسو و کا سیلاب ابل پڑا۔ پھر ایسا لگا کہ میرے دل میں جو غیر مقدس کیفیات نے زور پکڑا تھا دعاﺅں کے سیلاب نے انھیں بہا دیا۔ خدا نے میرے قلب کی تطہیر کردی۔ میں نے خدا وند سے دعا کرتے ہوئے،اس آیت کریمہ کو پوائنٹ آف ریفرنس بنایا:
اور اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی کرنا ہی چاہو، اور ان میں سے کسی کو تم نے خزانہ کا خزانہ دے رکھا ہو، توبھی اس میں سے کچھ واپس نہ لو"{4:20{
میں نے اپنے رب کو پکار کر کہا،اے خدا وند ، تو اپنے بندوں سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ اپنے معاملات میں اعلیٰ اخلاقیات کا ثبوت دیں،کیونکہ تو نے انھیں احسن تقویم پر پیدا کیا ہے۔ پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ تو اپنے بندے کو ایک مقدس کیفیت سے سرشار کرے اور پھر اس سے وہ عظیم دولت چھین لے؟ حالانکہ تو سب سے زیادہ مقدس، سب سے زیادہ عظیم اور سب سے زیادہ علو و شان والا ہے۔ تیری بزرگی چھائی ہوئی ہے زمین و آسمان پر۔
قرآن میں تیری عظمت کا بیان ان الفاظ میں ہوا ہے:
جو بھی زمین پر ہے وہ فنا ہونے والا ہے۔ اور تیرے رب کی ذات باقی رہے گی عزت والی اور عظمت والی۔ پھر تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلائوگے۔ اسی سے مانگتے ہیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں۔ ہر روز وہ ایک شان میں ہے۔ پھر تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلائو گے۔{ 55:26-30}

پیر، 22 اکتوبر، 2012

God is fountain of Love


خدا محبت اور خیر خواہی کا سرچشمہ ہے
محمد آصف ریاض
قارئین میں نہیں جانتا کہ آپ کے پاس کتنے بچے ہیں اور آپ نے کتنے بچوں کی پرورش کی ہے۔اگر آپ نے کسی بچے کی پرورش کی ہوگی تو آپ کو یہ معلوم ہوگا کہ یہ بہت جوکھم بھرا کام ہے ،یہ کام ’ ماﺅنٹ ایورسٹ ‘کو فتح کرنے سے بھی بڑا کام ہے۔ اس کے لئے رات کی نیندیں حرام کرنی پڑتی ہیں اور دن کا سکون درہم برہم کرنا پڑتا ہے۔ یہ کام اتنا کٹھن ہے کہ آدمی اس کا تحمل نہیں کرسکتا جب تک کہ اس کام میں اسے خدائی مدد حاصل نہ ہو جائے ۔
آپ نے کسی ماں کو دیکھا ہے ؟ بیماری کی حالت میں ، بستر مرگ پر پڑی ہوئی مگر بچے سے لپٹی ہوئی۔ اس کے لئے سراپا رحمت اور شفقت بنی ہوئی ۔ یہ صرف انسان کا حال نہیں ہے یہی جانوروں کا حال ہے۔ کسی مرغی کو آپ نے دیکھا ہے ۔اپنے بچوں کو اپنے پنکھ میں سمیٹے ہوئے، اس کے لئے دانے چنتی ہوئی، اور اس کے لئے چیل اور کوے سے لڑتی ہوئی۔آپ نے سڑک پر کسی کتیا کو دیکھا ہے؟ کتنی دبلی پتلی ،کس قدر لاغر اور تب بھی وہ پانچ پانچ بچوں کو دودھ پلارہی ہے۔

یہ قوت محرکہ ان کے اندر کہاں سے آ جاتی ہے؟ یہ محبت اور شفقت کا جذبہ ان میں کہا ں سے آجا تا ہے؟ یہ سوال مجھے بے چین کر رہا تھا۔ میں نے اس سوال کا جواب قرآن میں ڈھونڈنا شروع کیا ۔قرآن میں مجھے اس کا کوئی براہ راست طور پر جواب نہیں ملا۔ البتہ مجھے غیر راست طور پر اس کا جواب مل گیا۔
 ارشاد باری تعالیٰ ہے: " اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں ،تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو، اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی رکھ دی ۔ یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو غورو فکر کرتے ہیں۔" }الروم-21 {
 خدائے پاک نے جب انسان کوپیدا کیا تو اسے باہمی محبت کے دھاگے میں باندھ دیاتاکہ انسان آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بندھا رہے ۔ خدائے پاک نے انسان کے دل میں ایک دوسرے کے لئے محبت اور خیر خواہی کا جذبہ پیدا کردیا۔ ذرا غور کیجئے ، کہ اگر انسان کے اندر محبت اور خیر خواہی کا جذبہ نہیں رکھا جا تا تو آج زمین پر کیا ہوتا؟
زمین فساد سے بھر جاتی ۔ بھائی اپنے بھائی کو قتل کرتا ۔ والدین اپنے بچوں کو بوجھ سمجھتے ،اور انھیں خود اپنے ہاتھوں سے قتل کرتے۔ اگر خدا محبت کا دریانہ بہا تا تو انسان زمین پر خون کا دریا بہا دیتا۔ اسی طرح اگر خدائے پاک حیوانات میں ایک دوسرے کے لئے محبت کا جذبہ نہیں ڈالتا تو وہ اپنے بچوں کو پیدا ہوتے ہی مار ڈالتے۔ لیکن خدا نے انھیں ظلم سے روکے رکھا ہے ۔
آج زمین پر جوظلم اور فساد نظر آتا ہے وہ اس لئے نہیں ہے کہ خدا چاہتا ہے کہ زمین پر ظلم اور فساد برپا ہو۔ نہیں ، وہ تو چاہتا ہے کہ زمین پر امن قائم رہے ۔ وہ اپنے بندوں کو حکم دیتا ہے کہ زمین کی اصلاح کے بعد اس پر فساد مت پھیلا ﺅ ۔ اس کے باوجود اگر لوگ زمین پر فساد پھیلا رہے ہیں تو وہ اس وجہ سے ہے کیوں کہ خدا نے انھیں آزادی دے رکھی ہے تا کہ وہ چانچ لے کہ اس کے بندوں میں کس نے آزادی کا صحیح استعمال کیا اور کس نے اس کا غلط استعمال کیا۔
قرآن کا ارشاد ہے:خدانے موت اور حیات پیدا کی تا کہ وہ چانچ لے کہ تم میں اعمال کے لحاظ سے کون بہتر ہے }سورہ الملک{

Mr. Assad Your wisdom is on test


مسٹر اسد یہ آپ کی حکمرانی کا امتحان نہیں ہے یہ آپ کی دانائی کا امتحان ہے
محمد آصف ریاض

مارچ 2011 کو سیریا میں اسد کی شاہی حکومت کے خلاف عوام نے صدائےاحتجاج بلند کیا۔ اسد کی علوی حکومت نے یہ سوچ کر کہ احتجاج کارسنی ہیں ان پر بمباری شروع کردی اور یہ بھول گئے کہ سیریا کی 74 فیصد آبادی سنیوں پر مشتمل ہے۔ جبکہ شیعہ {علوی، اسماعیلی اور فاطمی سمیت} محض 13 فیصد ہیں۔

Sunni account for 74% of the population, while 13% are Shia (Alawite, Twelvers, and Ismailis combined), 10% Christian۔

بشر الاسد نے سنیوں کی اتنی بڑی آبادی کو قابل اعتنا نہیں سمجھا۔ انھوں نے ان کے احتجاج کا جواب گولی اور بارود سے دیا۔ ان کے اس رویہ سے لوگوں کا غصہ بھڑک اٹھا۔

کہا جا تا ہےاسد نے ظلم کی یہ روش اپنے باپ سے سیکھی ہے کیوںکہ 1976 میں جب ان کے باپ کے خلاف اخوانیوں نےاحتجاج کیا تھا تواسد کے باپ حافظ الاسد نے بم اور بارود کا نشانہ بنا کر 25 ہزار احتجاج کاروں کوقتل کرا دیا تھا۔ اسد نے بھی یہی کیا۔ وہ مارج 2011 سے اب تک 19 ماہ میں 32000 لوگوں کو قتل کرا چکے ہیں۔

اسد یہ بھول گئے ہیں کہ ان کے باپ کا زمانہ کچھ اور تھا اور آج کا زمانہ کچھ اور ہے۔ وہ 1976 کا معاملہ تھا اور یہ 2012 کا معاملہ ہے۔ اس وقت یہی کافی تھاکہ ملک کے نام کے ساتھ { الجمہوریہ العربیہ السوریہ} کا اضافہ کردیا جائے۔ لیکن یہ 2012 ہے اب صرف جمہوری نام سے کام نہیں چلے گا اب لوگ جمہوریت کو عملاً نافذ ہوتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔

مصر میں جمہوریت آچکی ہے۔ تونیشیا میں جمہوری نظام قائم ہوچکا ہے۔ لیبیا کے قضافی جا چکے ہیں، یمن میں صالح دور کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ ایسے میں دانائی یہ تھی کہ اسد دیوار پر لکھی تحریر کو پڑھتے اور بم بارود استعمال کرنے کے بجائے بات چیت کا راستہ اختیار کرتے۔ وہ ملک میں جمہوری نظام کا راستہ ہموار کرتے۔ وہ اپنے آپ کو پچھلی سیٹ پر بٹھانے کے لئے راضا مند کرتے۔ لیکن کہا جا تا ہےکہ جب اللہ کسی کو تباہ کرنا چاہتا ہے تو سب سے پہلے اس کی عقل چھین لیتا ہے۔ اور یہی اسد کے ساتھ بھی ہوا۔

جنگ پر جنگ کا اضافہ
بجائے اس کے کہ اسد بات چیت کے ذریعہ معاملات کو سلجھاتے انھوں نے شیطان کے اشارے پر ایک اور نظریہ گڑھ لیا۔ وہ نظریہ ہے جنگ پر جنگ کا نظریہ۔

شیطان نےاسد کو یہ سمجھا یا کہ اگر وہ جنگ پر جنگ چھیڑ دیں گے تو اپنی حکومت بچانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ ان کی ایجنسی نے لبنان میں جنگ کی آگ بھڑکادی۔ابھی یہ آگ ٹھنڈی بھی نہیں ہوئی تھی کہ اسد نے اردن میں میزائل داغ دیا۔ ابھی وہ آگ پوری طرح ٹھنڈی نہیں ہوئی تھی کہ انھوں نے اپنے سب سے بڑے اور سب سے مضبوط پڑوسی ترکی پرحملہ بول دیا۔

جنگ پر جنگ بھڑکا نا اسد کے نزدیک ایک خوبصورت نظریہ ہوسکتا ہے لیکن یہ کوئی خوبصورت نظریہ نہیں ہے۔ یہ عذاب پر عذاب کو بڑھاناہے۔ یہ نادانی کے اوپر مزید نادانی کا بوجھ ڈالنا ہے۔

اسد کی واپسی ممکن نہیں
اسد اگر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ لبنانی حزب اللہ،ایران اورعراق کی مالکی حکومت اور روس کی مدد سے اپنی حکومت کو بچانے میں کامیاب ہو جائیں گے تو وہ ایک بار پھر نادانی کر رہے ہیں۔ روس اگر ان سے یہ کہتا ہے کہ جمے رہو توانھیں چاہئے کہ وہ روس سے پوچھیں کہ تم افغانستان میں کیوں نہیں جمے رہے اور کیوں اپنے ملک کو تیرہ ٹکڑے میں تقسیم کرنے پر رضا مند کر لیا۔ اور اگر امریکہ ان سے کہتا ہے کہ جمے رہو تو اسد کو چاہئے کہ وہ امریکہ سے پوچھیں کہ تم عراق سے کیوں بھاگ کھڑے ہوئے اور افغانستان سے بھاگ کھڑے ہونے کے لئے کیوں پر تول رہے ہو۔

رہی بات ایران کی تو ایران خود معاشی اور بے روزگاری کے پہاڑ کے نیچے دبا ہوا ہے۔ عالمی پابندیوں کی وجہ سے اسے ہر تین ماہ پر پانچ بلین پونڈ کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ ایران کبھی تیل کا نمبر ون ایکسپورٹر تھا اور اب اس کا شمارتیل ایکسپورٹ کرنے والے 20 بڑے ممالک میں ہوتا ہے۔

Iran was once the number-one oil exporter in the world. Today, as a consequence of sanctions, it barely makes it into the list of the top 20 oil-exporting countries. The boycott of Iranian oil from the EU this summer came as a particularly hard blow as this alone is costing Iran at least 5 billion pounds in lost revenue every three months. Indeed, Iran is suffering from an increasingly difficult situation with its oil export figures at their lowest levels in more than 23 years. Export figures show a cut of some 1 million barrels a day

تو جو خود کمزور ہیں وہ دوسروں کی مدد کس طرح کرسکتے ہیں۔ مدد مانگنے والے بھی کمزور جن سے مدد مانگی گئی وہ بھی کمزور۔
اور یہی حال حزب اللہ کا ہے۔ جزب اللہ پر ہر وقت اسرائیل کی تلوار لٹکی رہتی ہے اوروہ تمام لبنیانیوں کے جذبات کی نمائندگی نہیں کرتا۔ رہی بات مالکی کی تو مالکی ایک کمزور لیڈر ہیں اور اپنی حکومت بچانے کے لئے وہ مستقل کسی سہارےکی تلاش میں ہیں۔ مالکی سنیوں اور کردوں کی نمائندگی نہیں کرتے اور بہت سی شیعہ جماعتیں بھی انھیں پسند نہِں کرتیں۔

حکمراں کی ذمہ داری
کسی حکمراں کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنی رعایاکو تحفظ فراہم کرے ۔ وہ ان کے لئے کھانا پانی اور دوائوں کا انتظام کرے۔ وہ اپنے شہریوں کےلئے تعلیم کا بندو بست کرے۔

اس کے برعکس اسد کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے بہنوئی اور وزیر دفاع سمیت دوسرے کئی بڑے لیڈران کو کھو چکے ہیں۔ ایک خبر کے مطابق خودان کے بھائی زخمی ہوکر روس میں زیر علاج ہیں۔ اسد کی بہن بھاگ کر دبئی میں پناہ لے چکی ہیں۔ عام شہریوں کا حال یہ ہے کہ ملک کے 5 لاکھ سے زیادہ شہری دوسرے پڑوسی ممالک میں رفیوجی کیمپ میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو حکمراں خود اپنے گھر والوں کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتا وہ ملک کو کس طرح بچا سکتا ہے۔ خود اسد کا حال یہ ہے کہ وہ اپنا زیادہ تر وقت بنکر میں گزارتے ہیں، تو جو حکمراں خود اپنی جان بچانے کے لئے ادھر ادھر بھاگ دوڑ کر رہا ہو وہ اپنے ملک کو کس طرح بچا سکتاہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جس حکمراں کو خود اس کے اپنے لوگ ٹھکرادیں اسے کہیں بھی عزت نہیں مل سکتی۔

آخری موقع
مسٹر اسد کے لئے اب آخری وقت آگیا ہے کہ وہ علاقائی اور پڑوسی ممالک کو ایک ساتھ بٹھا کر ان سے کہیں کہ آپ حزب اختلاف کو متحد کریں اور میں انھیں حکومت کی باگ دور سونپنے کے لئے تیار ہوں۔ جو لوگ اسد کو یہ سمجھا رہے ہیں کہ جمے رہو وہ درحقیقت شیطان ہیں اور شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ اور شیطان آخری وقت میں انسان کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ قرآن میں شیطان کی روش کو اس طرح بیان کیا گیا ہے۔

"وہ ان لوگوں سے وعدہ کرتا ہے اور انھیں امیدیں دلا تا ہے، مگر شیطان کے سارے وعدے بجز بفریب کے اور کچھ بھی نہیں" {4:120 }

اسد کے لئے کرنے کا کام
اسد خدا کے یہاں سے حکمرانی لے کر نہیں آئے تھے۔ ان کی پیدائش بھی ایک عام بچے کی طرح ہوئی تھی۔ جو کچھ انھیں ملا اس دنیا میں ملا۔ اس دنیا میں کوئی چیز کسی شخص کو ابدی طور پر نہیں ملتی۔ اگر شک ہو تو دنیا کی تا ریخ پڑھ لیں۔

خدا کا کریشن پلان
خدانے یہ دنیا اس لئے نہیں بنائی ہے کہ وہ کسی کو ابدی سلطنت د یدے اور کسی کو ابد تک کے لئے محروم کردے۔ خدا کا کریشن پلان یہ ہے کہ وہ لوگوں کو مال دے کر اور کبھی ان سے مال چھیں کر آزمالے کہ ان میں کون خدا کی ابدی جنت میں بسائے جانے کا استحقاق رکھتا ہے۔ یہاں انسان کے لئے نہ پانا ہے اور نہ کچھ کھونا۔ یہاں صرف امتحان ہے،امتحان۔

اگر ایک شخص اس دنیا میں محروم ہے تو وہ اپنی محرومی کے ساتھ آزمایا جا رہا ہے اور اگر کوئی شخص حکومت اور سلطنت والا ہے تو وہ اپنی حکومت اور سلطنت کے ساتھ آزمایا جارہا ہے۔اسد ابھی تک حکومت کے ساتھ آزمائے جا رہے تھے اوراب خدا کا فیصلہ ہے کہ انھیں بغیر حکومت کے آزمایا جائے۔

حضرت آسیہ کا ماڈل
ایسی حالت میں اسد کو وہ کردار پیش کرنا ہے جو فرعون کی بیوی حضرت آسیہ نے پیش کیا تھا۔ جب فرعون نے انھیں خدا پر ایمان لانے کے جرم میں محل سے نکال دیا تو اس خدا ترس خاتون نے نہایت بے بسی کے عالم میں اپنے رب کو پکارا۔ میرے رب تیرے دشمنوں نے مجھے میرے محل سے نکال دیا آپ اپنے پڑوس میں میرے لئے ایک محل بنا دیجئے خدا نے فرمایا تیری دعا سنی گئی،اے آسیہ۔ چنانچہ قرآن نے اس دعا کو اس طرح نقل کیا:

"اور اہل ایمان کے معاملہ میں اللہ فرعون کی بیوی کی مثال پیش کرتا ہے جبکہ اس نے دعا کی " اے میرے رب میرے لئے اپنے یہاں جنت میں ایک گھر بنا دیجئے اور مجھے فرعون اور اس کے عمل سے بچا لیجئے اور ظالم قوم سے مجھکو نجات دیجئے"{66:11}

اسی طرح مسٹر اسد کو حضرت ایوب کا کردار پیش کرنا ہے۔ کہ جب ان سے ان کی پوری دنیا چھین لی گئی یہاں تک کہ ان سے ان کا جسم بھی چھین لیا گیا تو بائبل کے مطابق آپ نے خدا سے کوئی شکایت نہیں کی بلکہ آپ کہا کرتے تھے:

"خدا وند نے دیا تھا خدا وند نے چھین لیا خدا وند کا نام مبارک ہو"

and said: "Naked I came from my mother's womb, and naked I will depart. The LORD gave and the LORD has taken away; may the name of the LORD be praised."{Job-1:21}

حالات و قرائن بتاتے ہیں کہ یہ مسٹر اسد کی حکمرانی کا امتحان نہیں ہے یہ مسٹر اسد کی دانائی کا امتحان ہے۔