ہفتہ، 24 ستمبر، 2016

Why these walls are? What the Europe is afraid of?

یہ دیواریں کیوں ہیں؟ اہل یوروپ کس چیز سےخوف زدہ ہیں؟
محمد آصف ریاض
آبنائے باسفورس پرترکی نے جب دنیا کا تیسرا سب سے بڑا پل تعمیرکیا اوراس پل کے ذریعہ ایشیا کو یوروپ سے جوڑدیا تواہل یوروپ نے ترکوں کے اس عمل کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا۔ انھوں نے ترکوں کی اس بے مثال کوشش کوسراہنے کے بجائےاسے اپنی تہذیب اورکلچرکے لئے خطرہ سے تعبیرکیا۔ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ جس وقت ترکی یہ پل تعمیرکررہا تھا ٹھیک اسی وقت یوروپ اپنےارد گرد دیواریں تعمیرکررہا تھا تاکہ کوئی باہری اس کے اندرداخل نہ ہوجائے۔ بلغاریہ میں دیواریں اٹھائی جا رہی تھیں، ہنگری، آسٹریا، سلووینیا، یونان، یوکرین اوراسٹونیا میں دیواریں تعمیر کی جا رہی تھیں، حد تو یہ ہے کہ برطانیہ اورفرانس میں بھی رفوجیوں کو روکنے کے لئے دیواریں کھڑی کی جا رہی تھیں۔
اپنےآپ کو دیواروں کے اندر محصور پاکرعیسائیوں کے مذہبی پیشوا پوپ فرانسس کو مداخلت کرنی پڑی۔ انھوں نے عیسائیوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا " دیوار اٹھا نا مسیح کی تعلیمات میں سے نہیں ہے۔" ایک اخبار نے ان کے اس قول کو اس طرح نقل کیا ہے۔:
Building walls 'is not Christian
واشنگٹن پوسٹ نے اس پرایک اسٹوری کی ہے۔ اس اسٹوری میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح یوروپ اپنےآپ کودیواروں کے درمیان محصورکررہاہے۔ اس اسٹوری کی سرخی یہ ہے۔ " یوروپ لوگوں کو باہر رکھنے کے لئے دیواریں تعمیر کر رہا ہے۔
 "Europe is building more fences to keep people out"
سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر یوروپ کس چیزسے ڈرتا ہے؟ وہ کیوں اپنےآپ کو دیواروں کےاندرمحصورکررہا ہے؟جواب بہت واضح ہے۔ وہ یہ کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ انٹریکشن سے ڈرتا ہے۔
سڑکیں، موٹرویز، ریلویز، ہوائیں پٹیاں، بندرگاہیں، یہ انسانی رشتوں کے استحکام کی علامت ہیں۔ یہ قوموں کے درمیان انٹریکشن کا دروازہ کھولتی ہیں۔ اوریوروپ کے لیڈران اسی انٹریکشن سے خوفزدہ ہیں۔ یوں تو ان کے خوف کی کئی وجوہات ہیں۔ تاہم میں یہاں چند وجوہات کا خصوصی ذکرکروں گا۔
(1) اسلام کا دین فطرت ہونا۔ اسلام دین فطرت ہےاس لئے یہ ہراس شخص کو پسند آتا ہے جواپنی فطرت پرجیتا ہے۔
(2) اسلام توریت انجیل، زبوریا یا کسی نبی اوررسول کو مسترد نہیں کرتاجیسا کہ دوسرے مذاہب میں ہے بلکہ اسلام ان پرایمان لانے کی تلقین کرتا ہے۔ چنانچہ ایک عیسائی جب دین اسلام میں داخل ہوتا ہے تونہ اسےاپنا رسول چھوڑنا پڑتا ہے،اورنہ ہی اسے اپنی کتاب کومسترد کرنا پڑتا ہے۔ ایک عیسائی مذہب اسلام میں داخل ہوکراپنے آپ کوکرسچن پلس مسلمان سمجھتا ہے۔اسلام میں ان کے لئےکچھ کھونا نہیں بلکہ پانا ہی پاناہے۔
(3) اسلامی سادگی۔ اسلامی تعلیمات میں سادگی کی بڑی اہمیت ہے۔ مسلمانوں میں تمام قسم کے بگاڑ کے باوجود سادگی اوراصول پسندی آج بھی باقی ہے۔ مثلاً مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ آج بھی شراب کاری ، بدکاری اور سود خوری سے نفرت کرتا ہے۔ وہ عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کے ساتھ آج بھی حسن سلوک کا رویہ اختیارکرتا ہے۔
(4) امن پسندی۔ مسلمانوں نے ہزارسالوں تک اس دنیا کو چلایا۔ مسلمانوں کی قیادت میں دنیا پرامن بنی رہی لیکن جیسے ہی یہ دنیا مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل کرعیسائیوں کے ہاتھوں میں آئی تو دنیا کو 2 جنگ عظیم کا سا منا کرنا پڑا جس میں تقریباً 85 کروڑ لوگ مارے گئے،اوریہ جنگیں آج بھی جاری ہیں۔ مغرب (عیسائی دنیا) جنگ بڑھکانے میں تو مہارت رکھتا ہے لیکن جنگ کی آگ بجھانے سے اسے کوئی دلچسپی نہیں ۔ عراق، افغانستان، سیریا، فلسطین، وغیرہ میں آپ اس کی مثالیں دیکھ سکتے ہیں۔
عیسائی لیڈران یہ جانتے ہیں کہ اگر مسلمانوں اورعیسائیوں کے درمیان انٹریکشن بڑھا اوران کے درمیان نفرت کی دیوارگرا دی گئی توان کے بچے بوڑھے، جوان ، مرد عورتیں سب اسلام کی آغوش میں ہوں گے۔ یہاں میں آپ کو ایک مثال دوں گا۔
سیمون کولیزسعودی عرب میں برطانیہ کے سفیرہیں۔ انھوں نے 30 سال کا عرصہ مسلما نوں کے ساتھ گزارا۔ ایک مدت تک مسلمانوں کے برتائو اوران کے حسن سلوک سے متاثر ہوکرانھوں نے اسلام میں داخل ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ ستمبر  2016 میں وہ اچانک اپنی اہلیہ کے ساتھ حج کے لئے نکل پڑے اور وہاں پہنچ کر حالت احرام میں انھوں نے ٹیوٹ سے یہ اطلاع دی کہ وہ مسلمان ہوچکے ہیں۔ انھوں نے لکھا؛
God bless you. In brief: I converted to Islam after 30 years of living in Muslim societies and before marrying Huda,” he wrote.         
 " اللہ پاک آپ پررحم فرمائے۔ مختصریہ کہ میں اسلام میں داخل ہوچکا ہوں۔ میں مسلمانوں کے درمیان 30 سال رہا اس درمیان میں ان سے اس قدر متاثر ہواکہ ھدیٰ سے شادی سے قبل ہی اسلام میں داخل ہوگیا ۔"
یہ ہے انٹریکشن کی طاقت ۔ انٹریکشن قوموں کے درمیان نفرت کی دیواروں کو گرا دیتی ہے۔ اور یوروپی لیڈران انٹریکشن کی اسی طاقت سے خوفزدہ ہیں ۔اسی لئے وہ ہر طرف نفرت کی دیوارکھڑی کر رہے ہیں۔ کہیں پتھر کی دیوار، کہیں مسلک کی دیوار، کہیں مذہب کی دیوار، کہیں گورے کی دیوار کہیں کالے کی دیوار!
لیکن یہ دیواریں قدرتی نہی ہیں بلکہ مصنوعی ہیں۔ ان دیواروں کو خدا نے نہیں بنا یا بلکہ اسے خدا کی مرضی کے خلاف بنا یا گیا ہے اور جیسا کہ بائبل میں لکھا ہوا ہے؛ " جو پلانٹ میرے باپ نے نہیں لگا یا اسے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے گا۔"
Every plant that my heavenly Father has not planted will be rooted up."

جمعرات، 8 ستمبر، 2016


مسلمانان ہند یہ جاننے میں ناکام رہے کہ " کل کیا ہوگا، کل کے بعد کل کیا ہوگا، اگلے ہفتے کیا ہوگا ، اگلے مہینے کیا ہوگا اور اگلے سال کیا ہوگا۔"

محمد آصف ریاض
پچھلے دنوں مجھے ایک پروگرام میں بلا یا گیا۔ وہاں مجھ سے مسلم سیاست پربولنے کے لئے کہا گیا۔ ہم نے کہا کہ جمہوریت میں ہم مسلمان اورہندو سیاست کی بات نہیں کرسکتے، البتہ ہم سیاست کی بات کرسکتے ہیں۔ سب سے پہلے ہم نے سیاست کے بارے میں انھیں ونسٹن چرچل کا ایک قول سنایا ۔ چرچل نے کہا تھا :
 "سیاست اس اہلیت کا نام ہے کہ آدمی پیشگی طور پر یہ بتا سکے کہ کل کیا ہوگا، اگلے ہفتے اور اگلے مہینے اور اگلے سال کیا ہوگا، اور اگر کچھ نہ ہو تو آدمی میں یہ صلاحیت ہو کہ وہ یہ بتا سکے کہ کیوں نہیں ہوا۔"
Politics is the ability to foretell what is going what is going to happen tomorrow, next week next month and next year,and to have the ability to afterwards to explain why it did not happen”
Winston Curchill
کسی آدمی میں پیشگی طور پرچیزوں کو سمجھنے کی یہ صلاحیت کب پیدا ہوتی ہے؟ یہ صلاحیت اس وقت پیدا ہوتی ہے جبکہ اس کا مطالعہ بہت گہرا ہو، وہ چیزوں کوغیر جانبدار ہو کراعتدال پسندی کی نگاہ سے دیکھتا ہو، وہ ہر قسم کی کنڈیشننگ سے پاک ہو، وہ  اپنے ارد گرد کی دنیا کا گہرا ادراک رکھتا ہو، وہ انسانی نفسیات کو سمجھنے میں غلطی نہیں کرتا ہو، وہ تاریخی واقعات سے آشنا ہو، وہ جغرافیائی اور مذہبی حالات کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو، وہ لائن سے نکل کر بٹوین دی لائن، اور بیائونڈ دی لائن کا مفہوم سمجھتا ہو، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کے اندر 'جاگتے رہو' کی اسپرٹ موجود ہو۔
سیاست میں دوراندیشی کی بڑی اہمیت ہے۔ اسی سیاسی اہلیت کی کمی نے ملک میں مغل سلطنت کا خاتمہ کردیا، اسی سیاسی اہلیت کی کمی نے مسلمانوں کو اس ملک میں ایک ناچیز شئے بنا دیا ۔
مسلمانان ہند نے اپنی ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے تین ایسی غلطیاں کیں جس نے تاریخ کا رخ موڑ دیا۔ (1) پہلی غلطی انگریزوں کو کاروبارکرنے کی اجازت کی شکل میں۔ (2) دوسری غلطی 1857 کی بغاوت کی شکل میں۔(3) تیسری غلطی ملک کی تقسیم کی شکل میں۔
یہ تینوں غلطیاں مسلمانوں نے اس لئے کیں کیونکہ ان کے اندر یہ سمجھنے کی صلاحیت ختم ہوچکی تھی کہ" کل کیا ہوگا، کل کے بعد کل کیا ہوگا ، اگلے ہفتے کیا ہو گا ، اگلے مہینے کیا ہوگا، اور اگلے سال کیا ہوگا اور اس کے بعد کیا ہوگا۔"
انگریز ہندوستان میں
انگریزجب ہندوستان میں آئے تووہ فاتح کی شکل میں نہیں آئے تھے۔ وہ کاروباری کی شکل میں آئے تھے۔ انھوں نے یہاں مسلم حکمرانوں کی خوشامد کی اوراپنے لئے تجارت کے مواقع حاصل کئے، پھرانھوں نے مغل حکمرانوں سے اپنے لئے ٹیکس فری تجارت کا پروانہ حاصل کیا اوراس کے بعد انھوں نے رشوت کے ذریعہ گورنراورعلاقائی حکمرانوں کو خریدنا شروع کر دیا جو بعد میں مغل سلطنت کی تباہی کا سبب بنا۔ مغل حکمراں انگریز بیوپاریوں کی خوشامد سے اس طرح متاثرہوئے کہ وہ یہ جان نہ سکے کہ ان کے عزائم کیا ہیں، اورکل کیا ہونے والا ہے، اور جب جاگے تو وقت نکل چکا تھا۔
ایسٹ انڈیا کمپنی
ایسٹ انڈیا کمپنی نے 1623 تک سورت، احمد آباد، بھروچ، آگرہ اورموسولیپٹم میں اپنی فیکٹریاں قائم کرلیں تھیں۔ 1625 میں انھوں نے سورت میں واقع اپنی کمپنی کو قلعہ بند کرنا شروع کردیا جس پر مغل حکمراں بگڑ گئے اور فیکٹری کے چیف کو گرفتار کرلیا ۔  1639 میں کمپنی نے مدراس کے مقامی لیڈر کی ا جازت سے اپنی فیکٹری قائم کی اوراسے قلعہ میں تبدیل کرلیا۔ سترہویں صدی تک مدراس میں کمپنی پوری طرح آزاد ہوگئی ۔ 1633 میں ایسٹ انڈیا نے اڑیسہ میں پہلی فیکٹری قائم کی، انگلش کمپنی کو بعد میں بنگال کےھگلی میں فیکٹری کھولنے کا پروانہ ملا، پھر پٹنہ ، ڈھاکہ اور بنگال کے دوسرے علاقوں میں فیکٹریاں کھولی گیں۔ ملکی معیشت پرقبضہ کرنے کے بعد انگریزوں نے ملک پرحکومت کرنے کا عزم ظاہرکردیا تب مغل حکمراں اورنگ زیب سے ان کا ٹکرائو ہوا۔
اورنگ زیب نے  1686 میں انگریزوں سے لوہا لیا اورانھیں زبردست شکست دی۔ ان کی فیکٹریاں ضبط کرلیں اورانھیں مار کردوردرازکےعلاقوں میں بھگا دیا۔ سورت ، وشاکھا پٹنم ، مسولیپٹم میں ان کی فیکٹریاں ضبط کر لی گئیں اور ممبئی کے قلعہ کو ان سے چھین لیا گیا۔ مورخین لکھتے ہیں کہ انگریزوں نے مغل حکومت کی طاقت کا غلط اندازہ کر لیا تھا جب انھیں مغل حکومت کی اصل طاقت کا اندازہ ہوا تو انھوں نے ایک بار پھر "خوشامد اور خوش الفاظی" سے کام لینا شروع کرد یا اور معافی تلافی کے ساتھ کئی سالوں کے بعد پھر سے تجارت کا پروانہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اورنگ زیب  نے 150,000 کا معاوضہ وصول کرکےانھیں ایک بار پھر تجارت شروع کرنے کی اجازت دے دی۔
1691 میں انگریزوں کو   3000 روپے سالانہ کےعوض بنگال میں فیکٹری کھولنے کی اجازت دے دی گئی۔ مغلوں کی اس نااہلی کی قیمت نواب سراج الدولہ کو پلاسی کی جنگ 23 جون 1757میں چکانی پڑی جب وہ انگریزوں کے ہاتھوں بری طرح مار کھا گئے اوران کی شکست نے انگریزوں کے لئے پورے ملک کا دروازہ کھول دیا اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے اس ملک کےحکراں بن بیٹھے۔ ایک مورخ نے انگریزوں کی چالبازی اور مغلوں کی نا اہلی کا ذکران الفاظ میں کیا ہے۔:
"جب انگریزوں کو یہ ادارک ہوگیا کہ وہ فی الحال مغل امپائر سے ٹکر لینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں تو انھوں نے اپنا طرزعمل بدل لیا اوراب  خوشامد اور خوش الفاظی سےکام لینے لگے ۔ انھوں نے مغل حکمراںوں کے سامنے یہ عرضی داخل کی کہ "ان کے جرائم معاف کرد ئے جائیں"۔ مغل حکمراں نے انھیں معاف کردیا کیونکہ ان کے پاس یہ جاننے کی اہلیت نہ تھی کہ معصوم دکھائی دینے والے یہ کاروباری ایک دن ان کی حکومت کے لئے خطرہ بن جائیں گے۔"
 Having  discovered that they were not yet strong enough to fight with the Mughal power, the English once again became humble petitioners and submitted "that the ill crimes they have done may be pardoned."
Once again they relied on flattery and humble entreaties to get trading concessions from the Mughal Emperor. The Mughal authorities readily pardoned the English folly as they had no means of knowing that these harmless-looking foreign traders would one day pose a serious threat to the country.
1857 کی بغاوت
اب جبکہ مغل حکمرانوں کو شکست دے کر انگریزاس ملک کے حکمراں بن چکے تھے مسلمانوں نے نا حق اور نا عاقبت اندیشی کے طور پر ان نئے حکمرانوں کے خلاف بغاوت کر دی۔ ایک بار پھر مسلمان یہ جاننے میں ناکام رہے کہ جہاں ان کے حکمراں اورلائو لشکر ہارگئے، وہاں وہ محض عوامی بھیڑ کےبل پرکس طرح جیت سکتے ہیں۔ نتیجہ کے طور پر انگریزوں نے انھیں بری طرح کچل دیا، ان کی جاگیریں چھین لی گئیں ، ان کی جائدادیں ضبط کر لی گئیں ، انھیں نوکری سے نکال دیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کے بہترین دماغ قتل کردئے گئے۔ کہا جا تا ہے کہ اس بغاوت میں 70 ہزار سے زیادہ علما قتل کر دئے گئے تھے۔ بغاوت سے پہلے مسلمان یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ ان کی یہ بغاوت کیا نتیجہ لائے گی۔ 1857 کی اس شکست نے مسلمانوں کو معاشی ، سیاسی ، سماجی اور تعلیمی ، ہر لحاظ  سے توڑ کر رکھ دیا۔ اب وہ اس پوزیشن میں بھی نہیں رہے کہ وہ انگریزوں کے ساتھ کوئی بارگنینگ کرسکیں۔ اپنی ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے اپنی بارگیننگ کی طاقت بھی کھو دی اور انگریزوں پر ان کا جو رعب طاری تھا وہ بھی ختم ہوگیا۔ اس سلسلے میں مزید جانکاری کے لئے پڑھئے سرسید احمد خان کی کتاب "اسباب بغاوت ہند" ۔
آزادی ہند
1947 میں جبکہ انگریزوں کا ملک سے جانا طے ہوگیا تو مسلمانوں نے ایک بار پھرتاریخی غلطی دہرائی ۔ وہ غلطی ملک کی تقسیم کی غلطی تھی۔ مسلمانوں کے سچے لیڈرمولانا ابوالکلام نےانھیں خبردارکیا کہ اگرملک بٹ گیا تو ہندوستانی مسلمان ایک ناچیز اقلیت بن کررہ جائیں گے۔ لیکن لوگوں نے آزاد کی جگہ جناح کو ترجیح دی اورنتیجہ سب کے سامنے ہے۔ مزید جانکاری کے لئے پڑھئے مولانا آزاد کی سوانح  India Wins Freedom ))
مسلمانوں کو یہ جاننا چاہئے کہ تاریخی غلطیوں کا حل سیاسی شور و غاغا میں نہیں ہے۔ تاریخی غلطیوں کا حل اس فراست میں ہے جس کے ذریعہ آدمی یہ جان سکے کہ " کل کیا ہوگا ، کل کے بعد کل کیا ہوگا، اگلے ہفتے کیا ہوگا، اگلے مہینے کیا ہوگا، اگلے سال کیا ہوگا اور اس کے بعد کیا ہوگا۔"
یہ فراست کسی انسان یا قوم میں اس وقت پیدا ہوتی ہے جبکہ اس کے اندرعلم کا غلغلہ ہو ۔ اگر مسلمان یہ چاہتے ہیں کہ وہ ایک بار پھر سر بلند ہوں، تو انھیں سر سید احمد خان کے لفظوں میں  سب سے پہلے " علم کے خزانوں " پر قبضہ کرنا چاہئے۔ 

پیر، 5 ستمبر، 2016

پوپ فرانسس نے دیوار پر لکھی تحریر کو پڑھنے میں غلطی نہیں کی ہے

پوپ فرانسس نے دیوار پر لکھی تحریر کو پڑھنے میں غلطی نہیں کی ہے!

محمد آصف ریاض

ترکی کے صدر رجب طیب اردوگان نے جب 26 اگست 2016 کو یاووزسلطان سلیمان پل  Yavuz Sultan Selim Bridge  کا افتاح کیا تو وہ منظردیکھنے کے لائق تھا۔ وہ اپنے قافلہ کے ساتھ ایشیا سے یوروپ کےاندراس انداز میں داخل ہوئے جیسے کوئی فاتح اپنے مفتوحہ علاقے میں داخل ہوتا ہے۔
آبنائے باسفورس پرتعمیر ہونے والا یہ پل دنیا کا سب سے بڑا پل مانا جا رہاہے۔ 29 مئی 2013 کو اس پل کی تعمیرکا کام شروع ہوا تھا جسے 26 اگست 2016 کو مکمل کر لیا گیا۔
سلیمان یاووز پل دنیا کا  سب سے زیادہ چوڑا اور اونچا پل ہے، اس میں آٹھ ہائی ویز اور دو ریلوے لائنس ہیں۔ 3 بلین ڈالر سے تعمیر کیا گیا یہ  پل صرف ایک پل نہیں ہے بلکہ یہ دو براعظموں ایشا اور یوروپ کا ملن ہے۔ اور یوروپ اس پل کی تعمیر سے قطعی خوش نہیں ہے۔ وہ اسے اپنے لئے ایک خطرہ محسوس کررہا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ اگراسی طرح پل اور سڑکیں تعمیر کرکے ایشیا کو یوروپ سے جوڑ دیا گیا تو ان کا اپنا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ چنانچہ اہل یوروپ ان دنوں اپنے ارد گرد دیوارکھڑی کر کے اپنے آپ کو محصور کرنے میں مصروف ہیں۔  یوروپ میں ان دنوں کوئی پل یا کوئی سڑک تعمیر نہیں کی جا رہی ہے وہاں صرف دیواریں کھڑی کی جا رہی ہیں۔
حال ہی میں واشنگٹن پوسٹ نے ایک اسٹوری کی ہے۔ اس اسٹوری میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح یوروپ اپنےآپ کودیواروں کے درمیان محصورکررہاہے۔ اس اسٹوری کی سرخی یہ ہے۔
Europe is building more fences to keep people out
اسٹوری میں بتایا گیا ہے کہ ہنگری، آسٹریا، سلووینیا،  بلغاریہ ، یونان، یوکرین اور اسٹونیا میں باہر سے آنے والوں کو روکنے کے لئے دیواریں کھڑی کی جا رہی ہے۔ یہاں تک کہ فرانس اوربرطانیہ میں بھی دیواریں کھڑی کی جا رہی ہیں اور حد تو یہ ہے کہ ایک جرمن پولیس آفیسر نے جرمنی میں بھی دیوار تعمیر کرنے کی تجویز پیش کی تھی جسے مارکل نے مسترد کردیا ۔  مضمون نگار نے اس بات پر اپنی گہری تشویش کا ظاہر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ  1989 میں جب برلن کی دیوار گرا دی گئی تھی توایسا محسوس کیا گیا تھا کہ یوروپ اب کوئی دیوارتعمیر نہیں کرے گا۔ تاہم چیزیں اس کے برعکس ہوتی نظر آرہی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ امریکہ بھی اپنے یوروپی برادران کے نقش قدم پر چل پڑا ہے۔ امریکہ کے صدارتی امیدوار ٹرمپ نے ایک انتخابی جلسہ میں یہ کہہ کردنیا کو چونکا دیا کہ اگروہ صدرمنتخب ہوئے تو میکسیکو اور امریکہ کے درمیان دیوارکھڑی کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں کریں گے۔  
یہ بھی ایک عجیب بات ہے کہ ایک طرف اہل مغرب اپنے ارد گرد دیوارتعمیر کرنے اوراپنے آپ کو دیواروں کے اندر محصور کرنے میں مصروف ہیں، وہیں دوسری طرف عالم اسلام میں ایک اورقسم کی سرگرمی جا ری ہے۔ وہاں بڑے بڑے پل ، کشادہ  سڑکیں، ہائی ویز، ہوائی اڈے ، اسکول ، کالج ، اسپتال اورشاپنگ مالز تعمیر کئے جا رہے ہیں۔
مثلاً ترکی استنبول میں دنیا کا سب سے بڑا ہوائی اڈہ تعمیر کررہا ہے، اسی کے ساتھ وہ ترکش اسٹریم پائپ لائن پروجکٹ پربھی کام کررہاہے، جس کے ذریعہ روس سے بذریعہ ترکی  یوروپ کو گیس اورتیل فراہم کرایا جائے گا۔ دبئی دنیا کا عظیم تجارتی مرکزبن چکا ہے۔ پاکستان پاک چین اقتصادی راہداری کی تعمیر میں مصروف ہے۔ اس راہداری کے ذریعہ کاشغر (چین) کو گوداور( پاکستان) سے ریلوے اور موٹر ویز کے ذریعہ جوڑ دیا جائے گا۔ واضح ہوکہ گوداورسے کاشغرتک کی دوری تقریباً 2442 کلومیٹرہے۔ اس منصوبہ پرکل 46 بلین ڈالرلاگت کا اندازہ ہے۔ اس راہداری کو  CPEC یعنی چین پاک اکانومک کاریڈوربھی کہا جا تا ہے۔ اس منصوبہ کے ذریعہ چین 'ون بلٹ ون روڈ' کے اپنے منصوبہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتا ہے۔
ترکی اور پاکستان کی طرح سعودی عرب میں بھی معاشی اور تجارتی سرگرمیاں تیزترہوگئی ہیں ۔ اسی سال اپریل 2016 میں سعودی عرب کے شاہ سلمان بن عبد العزیز نے قاہرہ مصرکا دورہ کیا اوراپنے اس دورے میں انھوں نے سعودی عرب اور مصر کے درمیان بحیرہ احمرRed See  پر ایک پل تعمیر کر نے کا اعلان کیا۔ اپنے اعلان میں انھوں نے کہا  : "
"دوبرے اعظموں، ایشیا اورافریقہ کو جوڑنے کا یہ تاریخی قدم ہے، سعودی عرب اور مصر کے اس تاریخی قدم سے دونوں براعظموں کے درمیان تجارتی سر گرمیاں تیز تر ہوجائیں گی۔"
۔"This historic step to connect the two continents, Africa and Asia, is a qualitative transformation that will increase trade between the two continents to unprecedented levels."  
مغرب کے برعکس عالم اسلام میں جس قسم کی سرگرمیاں جاری ہیں اس کا عیسائیوں کے مذہبی پیشوا پوپ فرانسس نے بر وقت نوٹس لیا ہے۔  اپنے ایک بیان میں انھوں نے عیسائی دنیا کو خبردارکرتے ہوئےکہا ہے " دیواریں کھڑی کرنا انجیل کی تعلیمات میں سے نہیں ہے۔"
ایک انگریزی اخبارنے پوپ کے اس بیان کوان الفاظ میں نقل کیا ہے۔:
Pope Francis questions Donald Trump's Christianity, says border wall not from Gospel"
ایسا لگتا ہے کہ پوپ فرانسس عیسائی دنیا میں پہلے اورآخری انسان ہیں جنھوں نے دیوار پرلکھی تحریر کو پڑھنے اور سمجھنے میں کوئی غلطی نہیں کی ہے اورصورت حال کا بروقت نوٹس لیا ہے، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ عیسائیوں کے سیاسی لیڈران دیوار پرلکھی اس تحریر کو پڑھنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں یا نہیں!