پیر، 19 جون، 2017

ہندوستانی مسلمان اور مساجد ہند

محمد آصف ریاض

ہندوستان میں بے شمارمساجد ہیں۔ بہت سی مسجدیں مسلم حکومت میں بنائی گئیں ، جیسے دہلی کی شاہجہانی مسجد، مسجد بیگم پور، مسجد قوت الاسلام ، کھڑ کی مسجد، مسجدہ کوہنہ پرانہ قلعہ، دہلی ،  ادینہ مسجد، بنگال، تاج المساجد بھوپال، مکہ مسجد حیدرآباد، نگینہ مسجد آگرہ،آدھے دن کا جھونپڑا مسجد, اجمیر، وغیرہ ۔ بہت سی مساجد انگریزحکومت میں تعمیرکی گئیں اوربہت سی مساجد آزادی کے بعد بنیں۔

ہندوستان میں کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کہیں کوئی مسجد تعمیرنہ ہو رہی ہو۔ رپورٹیں بتاتی  ہیں کہ ہندوستان میں تقریباٍ 3 سے 4 لاکھ چھوٹی بڑی مساجد ہیں۔ یہ مساجد ملک کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ان میں کچھ شہروں، کچھ گاؤں، کچھ مضافات تو کچھ پہاڑ کی وادیوں میں اورکچھ ندیوں کے کنارے اورساحل سمندرپررونق افروز ہیں ۔

نوے کی دہائی میں ہندوستان میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے پورے ملک کو ہلا کررکھ دیا ۔ وہ واقعہ بابری مسجد کی شہادت کا واقعہ تھا۔ اس واقعہ نے ملک میں خیرسگالی اورہم آہنگی کے ماحول کوزہرآلود بنا دیا ۔ لیکن حیرت انگیز طورپر یہی وہ دہائی ہے جب ملک کے ہرطول وعرض، شہر، قصبے اور گاؤں میں بے شمار مساجد تعمیر کی گئیں ۔ نوے کی دہائی میں اتنی زیادہ مساجد تعمیر ہوئیں کہ ہم اسے بجا طورپر'مسجد کی دہائی' کہہ سکتے ہیں۔

1990 سے 2010 کے درمیان اتنی زیادہ مسا جد تعمیر ہوئیں کہ لوگ چوک چوراہے پر یہ کہتے سنے گئے کہ اب بہت ہوگیا۔  اب ہندوستانی مسلمانوں کو مسجد کی نہیں اسکول ، کالج اورلائبریری کی ضرورت ہے۔

ان بے شمار مساجد کی تعمیر کے با وجود بہت سے قصبے ،گائوں اورمضافات آج بھی مساجد سے محروم ہیں۔ ان میں وہ گائوں قصبے ، مضافات یا  کالونیاں  شامل ہیں جہاں کی آبادی نئی ہے یا جہاں بہت غریب مسلمان بودو باش اختیار کرتے ہیں۔

مساجد کی ضرورت کیوں 

مسلمانوں کے لئے مساجد روحانی سینٹرکی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہاں سے مسلمان روحانی غذا حاصل کرتے ہیں۔ جس طرح کوئی مسلمان اپنے جسم کی پرورش کے لئے فوڈ سینٹرسے کھانا حاصل کرتا ہے اسی طرح وہ روحانی غذا کے حصول کے لئےمسجد کا رخ کرتا ہے۔ مسجد دراصل سجدہ گاہ ہے۔ مسلمان مسجد میں یکسو ہوکرخدا سے رازو نیازکی باتیں کرتے ہیں۔ مسلمانوں پر روزانہ پنجگانہ نماز فرض ہے۔ یہ گویا خدا کو پانچ مرتبہ تھینکیو کہنے کا عمل ہے۔  انسان کی پوری زندگی کا انحصار خدا کی رحمت پرہے۔ انسان کا پیدا ہونا اوراس کی پر ورش تمام چیزیں خدا کے زیرانتظام ہوتی ہیں۔ مثلاً انسان خدا کی زمین پرچلتا پھر تا اور بودوباش اختیارکرتا ہے ، اسی طرح وہ خدا کے پانی سے سیراب ہوتا ہے،  خدا کے سورج سے روشنی حاصل کرتا ہے،  خدا کے پیدا کئے ہوئے نباتات سے وہ آکسیجن حاصل کرتا ہے۔  انسان ہر روز ان چیزوں کو مصرف میں لیتا ہے تو فطری طور پر اس کا دل شکرخدا وندی سے بھر جا تا ہے۔  اسی شکرخدا وندی کے احساس کو خدا کے سامنے رکھنے کے لئے وہ پانچ وقت ہرروزمسجد کا رخ کرتا ہے۔

قرآن کا ارشاد ہے:’’اللہ کی مسجدوں کے آباد کار تو وہی لوگ ہوتے ہیں جو اللہ اور روز آخرت کو مانیں اور نماز قائم کریں ،زکوٰۃ  دیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈریں"۔ (سورۃ التوبہ(18) دوسر ی جگہ ارشاد فرما یا : ’’مسجدیں اللہ کیلئے ہیں لہٰذا ان میں اللہ کے سوا کسی اور کو مت پکارو۔‘‘(الجن 18 )

مسلمان مسجد میں جاکر خدا کی عبادت کرتے ہیں ۔ ایک حدیث رسول کا  ایک حصہ اس طرح ہے:  قرة  عيني في الصلاة یعنی فرمایا  اللہ کے رسول نے  کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔ حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن سب سے پہلا سوال نماز کے بارے میں کیا جائے گا۔

مسجدیں اسلامی مساوات ، بھائی چارہ ، اخوت  ایثارو رواداری کا عملی نمونہ ہیں  ۔ مسجد میں غریب ،امیر، گورے ،کالے عربی عجمی سب ایک ساتھ ہی صف میں کھڑے ہوکر خدا کے آگے سر بسجود ہوتے ہیں۔  یہ عمل  وہ  دن  بھر  میں  پانچ  مرتبہ  دہراتے  ہیں ۔ اس عمل کے ذریعہ وہ یہ عہد لیتے ہیں کہ وہ اپنی ذاتی زندگی میں کسی کے ساتھ تعصب پسندی کا رویہ اختیار نہیں کریں گے۔ وہ لوگوں کے ساتھ بھائی بھائی بن کر رہیں گے۔ وہ خدا کی زمین پر کبرو نخوت کی روش اختیار نہیں کریں گے۔

مسجد چونکہ عبادت کی جگہ ہے اس لئے مسلمان جہاں بھی ہوتے ہیں وہاں ایک  چھوٹی یا بڑی مسجد  ضرور تعمیر کرتے ہیں۔  ہندوستانی مسلمانوں کواب بھی ملک کے مختلف گوشے میں مسجد کی ضرورت ہے ۔ اور وہ اس ضروت کی تکمیل کے لئے کوشش بھی کررہے ہیں ۔ لیکن کچھ لوگ مسجد کی تعمیرپران دنوں اپنی ناراضگی ظاہرکرنے میں لگے ہیں ۔ ان میں آر ایس ایس اور بجرنگ دل جیسی تنظیمیں سر فہرست ہیں۔

مسجد پر تنازعہ

گزشتہ دنوں دہلی کے سونیا وہارکالونی کے آمبے انکلیو میں ایک واقعہ گزرا۔  یہاں مسلمان ایک مسجد تعمیر کر رہے تھے لیکن 7 جون 2017 کو کچھ شر پسند عناصر نے اس زیر تعمیر مسجد کی دیواریں گرا دیں ۔ اسی طرح کا ایک واقعہ ہریانہ کے بللبھ گڑھ میں 2015 میں پیش آچکا ہے ۔ یہاں بھی کچھ شرپسند عناصر نے زیرتعمیرمسجد کومسمارکرنے کی کوشش کی اورمسلمانوں سے بھڑ گئے۔

اس طرح کے واقعات ملک کے مختلف مقامات پر پیش آتے رہتے ہیں لیکن اس معاملہ میں مسلمانوں کو ہر گز مشتعل نہیں ہونا چاہئے۔ کیوں کہ جو لوگ مساجد پر حملہ بولتے ہیں ان کا اصل مقصد مسلمانوں کو مشتعل کرنا ہی ہوتا ہے۔ وہ کچھ دنوں کے لئے مساجد کی تعمیر روکنے میں بھلے ہی کامیاب ہوجائیں لیکن  وہ ایسا نہیں کر سکتے کہ وہ مسجد کی تعمیر ہمیشہ کے لئے روک دیں کیونکہ ملک کا  آئین انھیں اس بات کی اجا زت نہیں دیتا۔ مسلمانوں کو اس معاملہ میں سڑک پراتر نے کے بجائے قانونی کاروائی کرنی چاہئے۔

ہمیں یہ جاننا چاہئے کہ قوموں کی زندگی میں حالات بدلتے رہتے ہیں ۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ شاہ جہاں نے جس مسجد کو اپنے قلعہ کے سامنے تعمیر کرا یا تھا ۔ جو مسجد  بڑے بڑے علما اور امرا کی سجدہ گاہ بنی۔  وہ مسجد 1857 کی بغاوت کے بعد اصطبل بنا دی گئی تھی اور یہاں گھوڑے اور ہاتھی باندھے جاتے تھے اور یہ صورت حال تقریباً 30 سالوں تک باقی رہی پھر وقت نے پلٹہ کھا یا اور یہ مسجد ایک بار پھر فر زندان اسلام کے سجدوں سے روشن ہوگئی اور آج تک روشن ہے۔

چودہویں صدی کی مشہور فیروز شاہی جامع مسجد کوٹلہ برسوں نمازیوں سے خالی پڑی رہی۔ لیکن یہاں بھی وقت نے پلٹا کھا یا اور آزادی کے بعد غالباً وی پی سنگھ کے دورمیں اس مسجد کو نمازیوں کے لئے کھول دیا گیا۔ یہاں جمعہ اورعیدین کی نمازیں ہورہی ہیں۔ اور ساتھ ہی ظہر عصر اور مغرب کی نمازیں بھی یہاں ہوتی ہیں البتہ اب حکومت نے یہاں نماز پڑھنے پر پانچ روپے کا ٹکٹ لگا دیا ہے لیکن فرزندان توحید یہ قیمت بھی اللہ کی خوشنودی کے لئے چکا رہے ہیں۔

مسلمانوں کو مساجد کے معاملہ میں فراست ایمانی سے کام لینا چاہئے۔ انھیں اس معاملہ میں قبائلی جاہلیت سے بالکل دور رہنا چاہئے۔ ہمیں یہ جاننا چاہئے کہ مسجد ہمارے لئے عبادت کی جگہ ہے وہ ہمارے لئے جائے فخر نہیں ۔ مسجد کے معاملہ میں ہمارا کام نصف ہے اور نصف کام اللہ کا ہے۔ اگرکہیں کوئی شخص یا کمیونٹی مسجد کی تعمیر کو روک دے تو یہ سمجھنا چاہئے کہ شاید مسجد کی تعمیر کے بارے میں ابھی اللہ کا حتمی فیصلہ نہیں آیا ہے۔ کیونکہ جب اس کا فیصلہ آجائے گا تو کوئی اس کے فیصلہ کو بدلنے والا نہیں۔ 

جمعرات، 15 جون، 2017

بندہ بندہ ہے چاہے وہ کتناہی اوپرچڑھے اوررب رب ہے گرچہ وہ نیچے اترے

محمد آصف ریاض
محی الدین العربی عرب کا ایک نامورشاعرہے۔ وہ اہل علم کے درمیان العربی کے نام سے جاناجا تا ہے۔ اس کا ایک شعرہے۔ العبدعبد وان ترقی، والرب رب وان تتنزل: بندہ بندہ ہے چاہے وہ کتناہی اوپرچڑھے اوررب رب ہے گرچہ وہ نیچے اترے۔
قرآن میں اللہ پاک کی صفات کا ذکران الفاظ میں ہوا ہے: لیس کمثلہ شئی؛ یعنی اللہ کےمثل کوئی شئے نہیں۔ ( سورہ الشوریٰ 11 )
ایک مشہورحدیث کے الفاظ اس طرح ہیں:  وکلکم فقیرالا من اغنیت فسئلونی اررزقکم:
یعنی اے میرے بندو،" تم سب محتاج ہومگروہ جس کومیں عطا کروں، اس لئے تم مجھ سے مانگو میں تمہیں رزق عطا کروں گا۔"
یہ محتاجی اضافی معنی میں نہیں بلکہ حقیقی اور حتمی معنیٰ میں ہے۔ مثلاً انسان آکسیجن پرزندہ رہتا ہےاورآکسیجن کے لئے اسے پوری طرح خدا ئی نظام پرانحصارکرنا پڑتا ہے۔
آکسیجن درختوں سے حاصل ہوتا ہے اوردرختوں کی پیدا وارکے لئے پانی، روشنی اورہیٹ ضروری ہے۔ تو خدا نےسورج کا انتظام کیا۔ آسمان سے پانی برسایا۔ زمین نے اس پانی کواپنی گود میں سمیٹ لیا، پھرسورج نے اس پرروشنی برسا یا اس طرح زمین پرنباتات اگ آئے اورہم انھی نباتات سے آکسیجن حاصل کرتے ہیں۔
خدا اگراپنے اس اعلیٰ نظام کوچند منٹ کے لئے روک لے توانسان اسی طرح گھٹ گھٹ کردم توڑ دے گا جس طرح مچھلیاں پانی سے باہر تڑپ تڑپ کرجان دے دیتی ہیں۔ مچھلیاں پانی سے باہرکیوں مرجاتی ہیں؟ کیونکہ انھیں تحلیل شدہ آکسیجن چاہئےاوروہ صرف پانی میں ہی مل سکتا ہے۔ پانی کے باہران کے لئے آکسیجن نہیں اس لئے وہ مر جاتی ہیں۔
اسی طرح دیکھنے کا عمل ہے۔ انسان کے پاس دیکھنے کے لئے آنکھیں ہیں لیکن کیا وہ صرف اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے؟ نہیں۔ اگرچیزوں میں روشنی کوجذب کرنے کی صلاحیت نہ ہوتوچیزیں اتنی زیادہ  ڈارک  ہوجائیں گی کہ آدمی آنکھ رکھنے کے  با وجود کچھ دیکھ نہیں سکتا ۔ خدانے سورج کو بنا یا آدمی اس روشنی میں چیزوں کودیکھتا ہے۔ لیکن وہ صرف انھیں چیزوں کودیکھ سکتا ہےجوچیزیں اپنےاندرسورج کی روشنی کوجذب کررہی ہیں جوچیزیں روشنی کوجذب نہیں کرتیں انسان انھیں دیکھ بھی نہیں سکتا۔
اب ایک مثال الو کی لیجئے۔ الو دن میں نہیں دیکھ پاتا کیوں کہ اس کی آنکھیں ایسی جگہ واقع ہوئی ہیں کہ جب وہ اپنی آنکھیں کھولتا ہے تو سورج کی روشنی براہ راست ان پر پڑنے لگتی ہے جس کی وجہ سے اس کی آنکھیں چوندھیا جاتی ہیں اور وہ کچھ بھی دیکھ نہیں پا تا۔ ذرا سوچئے کہ اگر انسان کی آنکھوں کی بنا وٹ میں بھی اسی قسم کی ترمیم کردی جائے توکیا ہوگا ؟ وہ سورج کی روشنی سے بھا گے گا اور آنکھ رکھنے کے با وجود کچھ دیکھ نہیں سکے گا۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان ایک ایسی دنیا میں ہے جہاں ہرچیزکے لئے وہ اپنے رب کا محتاج ہے۔ اس کا رب اگراسے نہ کھلائے تووہ کھا نہیں سکتا، وہ اگرنہ پلائے تو وہ پی نہیں سکتا۔ وہ نہ دکھائے توانسان دیکھ نہیں سکتا۔ یعنی انسان اورخدا کے درمیان جورشتہ ہے وہ 'مین' اور'سپر مین' کا نہیں ہے بلکہ بندہ اوررب کا ہے۔ ایک غنی ہے اور دوسرا محتاج ۔ ایک کچھ نہیں ہے اوردوسرا سب کچھ ۔ ایک پیدا کرنے والا ہے اور دوسرا وہ جسے پیدا کیا گیا۔ یہی وہ واقعہ ہے جسے العربی نے اپنے شعرمیں ان الفاظ میں سمجھا نے کی کوشش کی ہے:
"العبدعبد وان ترقی، والرب رب وان تتنزل: بندہ بندہ ہے چاہے وہ کتناہی اوپرچڑھے اوررب رب ہے گرچہ وہ نیچے اترے۔"
x