جمعرات، 29 مئی، 2014

دو وزرا (نجمہ ہپت اللہ اور جوال اورم ) کی کہانی


محمد آصف ریاض

نجمہ ہپت اللہ کومودی سرکارمیں اقلیتی امورکا وزیربنا یا گیا ہے۔ انھوں نے 26 مئی 2014 کوعہدے اوررازداری کا حلف اٹھا یا۔ 28 مئی کوانھوں نے میڈیا سے بات چیت کی ۔ بات چیت کے دوران انھوں نے کہا کہ" مسلمان اقلیت نہیں ہیں۔ اصل اقلیت  تو پارسی ہیں۔ انھوں نے واضح کیا کہ "میری وزارت مسلم وزارت نہیں ہے بلکہ اقلیتی وزارت ہے۔"

اپنی ترجیحات کا ذکرکرتے ہوئے انھوں نے کہا:

"اگرآپ کے پاس چھہ بچے ہوں توآپ ہمیشہ یہی دیکھیں گے کہ آپ سب سے کمزوربچے کے لئے کیا کرسکتے ہیں۔ جہاں تک میری وزارت کا تعلق ہے تو میں دیکھتی ہوں کہ پارسی سب سے کمزور ہیں۔ اس لئے ان پر زیادہ دھیان دینے کی ضرورت ہے۔

If you have six children it is always important to see what you can do “If you have six children it is always important to see what you can do for the weakest of them. So far as my ministry is concerned, of the six minority communities the weakest is clearly the Parsis. They are a minuscule minority that is so  ‘ Muslims too many to be called minority, it’s Parsis who need special attention’ precariously placed that one needs to take care of their survival. Muslims really are too large in number to be called a inority community,” the minister told The Indian Express.
May 28, 2014

مسلمانوں کو ریزر ویشن دینے سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا:
 “There is no provision in the Constitution for religion-based reservation”.
" آئین میں مذہب کی بنیاد پر ریزر ویشن دینے کا کوئی بندو بست نہیں ہے۔"

ملک کے مسلمان آئینی طورپراقلیت تسلیم کئے جاتے ہیں۔ 23 اکتو بر1993  کو مسلم کرسچن، سکھ اوربودھسٹوں کو آئینی طور پراقلیت تسلیم کر لیا گیا ہے۔ لیکن اقلیتی وزیرجو کہ خود مسلم اقلیت  ہیں ان کے بیان سے ایسا لگتا ہے کہ وہ مسلمانوں کو اقلیت ہونے کی بنیاد پرمراعات فراہم کرا نے کے بجائے الٹے ان سے اقلیت ہونے کا حق بھی چھین لیں گی۔

اب ایک اور وزارت کا ذکر سنئے۔

جوال اورم کو نجمہ ہپت اللہ ہی کی طرح مودی سرکارمیں قبائلی امورکا وزیربنایا گیا ہے۔ انھوں نے چارج سنبھالنے کے بعد ٹائمز آف انڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وہ نکسلزم کے خاتمہ کے لئے طاقت کے استعمال کے خلاف ہیں۔ انھوں نے کہا کہ"نکسلزم ایک سوشل پروبلم ہے اوراس کے خاتمہ کے لئے ضروری ہے کہ قبائلوں کے دل ودماغ جیتے جائیں۔"

"The tribals have been cheated, oppressed by police, forest department, excise department, by the administration. They have lost faith. That is helping the Naxalites. We have to woo them back,"

یہ دو وزرا جوال اورم اور نجمہ ہپت اللہ کے دو مختلف بیانات ہیں۔ جوال اورم چونکہ قبائل کے وزیر ہیں اس لئے وہ قبائل کے موقف کو بہت ہی زور دار انداز میں پیش کر رہے ہیں۔ وہ اپنی کمیو نٹی کے تئیں اپنی خیرخواہی اور وفاداری کا  برملا اظہار کر رہے ہیں کیونکہ اسی کمیونٹی کے نام پرانھیں وزیر بنا یا گیا ہے۔ اس سچائی کے با جود کہ نکسلواد ملک کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ ہے اوراب تک ملک کو جتنا جانی و مالی نقصان نکسلواد سے ہوا ہے اتنا کسی اورواقعہ سے نہیں ہوا پھربھی قبائل وزیرکا عزم اورحوصلہ دیکھئے کہ وہ ان کا  دفاع کر رہے ہیں کیونکہ انھیں  قبائلیوں کی نمائندگی کے لئے وزیر بنایا گیا ہے۔

اب اقلیتی امورکے وزیرکا حال دیکھئے کہ جس مسلم اقلیت کے نام پرانھیں اقلیتی وزارت ملی ہے وہ اس کا پاس و لحاظ رکھنے کے بجائے ان کے خلاف کی موقف اختیار کر رہی ہیں۔ انھیں یہ بھی یاد نہیں کہ اگرمسلمان اقلیت نہ ہوتے توانھیں کبھی اقلیتی وزارت بھی نہیں ملتی۔ وہ اس حقیقت کو بھول رہی ہیں کہ مسلمان ہونے کے ناطے ہی انھیں اقلیتی وزیربنایا گیا ہے۔

یہ زندہ قوم اورمردہ قوموں کا فرق ہے۔ صحیح بات یہ ہےکہ دوسری قومیں زندہ ہیں اس لئے وہ زندہ دلی کے ساتھ  کسی معاملہ میں اپنا موقف رکھتی ہیں اور بہت ہی نازک مسائل کو بھی بحسن و خوبی حل کرلیتی۔ وہ نازک مواقع پر بھی اپنی قوم کا دفاع کرتی ہیں جب کہ مسلمانوں کا حال یہ ہے وہ بحیثت قوم مردہ ہوچکے ہیں اس لئے وہاں بھی اپنا دفاع نہیں کر پاتے جہاں اپنا دفاع کرنا ان کا اخلاقی فرض بن جاتا ہے۔ نجمہ ہپت اللہ اس کی ایک زندہ مثال ہیں اور ایسی مثالیں پچھلی حکومت میں بھی موجود تھیں۔

نجمہ ہپت اللہ کا بیان پڑھ کرمجھے قارون کی یاد آگئی ہے۔ قارون یہود میں سے تھا اورفرعون کی مصاحبت کی وجہ سے اسے بہت سے خزانے ملے ہوئے تھے لیکن وہ انھیں اپنی قوم یہود پرخرچ نہیں کرتا تھا اس لئے وہ اپنے آپ کوموسیٰ کی قوم کے بجائے فرعون کی قوم سے سمجھتا تھا۔ اس کی موجود گی میں یہود پرمظالم  ڈھا ئے جاتے تھے اور وہ ان سے غیر متعلق

 ( indifferent)  بنا رہتا تھا۔ مسلم لیڈران کا بھی کم و بیش یہی حال ہے۔  

بدھ، 28 مئی، 2014

"Power tends to corrupt, and absolute power corrupts absolutely

 پاور انسان کو خراب کردیتا ہے

محمد آصف ریاض
کل آفس سے گھرجاتے ہوئے ہم نے ای رکشہ لیا۔ یہ رکشہ دہلی میں ابھی حال ہی میں شروع ہوا ہے۔ پہلے جو لوگ عام قسم کا رکشہ چلاتے تھے اب وہی لوگ  ای رکشہ  چلانے لگے ہیں۔ ڈرائیور رکشہ کو بہت اسپیڈ میں چلا رہا تھا۔ وہ ایک کار سے آگے آگے اپنے رکشہ کو بھگا رہا تھا ۔ میں نے اسے رفتار کم کرنے کے لئے کہا اور اسے یاد دلا یا کہ وہ رکشہ چلا رہا ہے وہ کار نہیں چلا رہا ہے۔ یہ سن کر اس نے رکشہ کی رفتار سست کردی ۔
میں سوچ رہا تھا کہ آدمی کے پاس جب پاورآتا ہے تو وہ کتنا بدل جا تا ہے۔ وہی آدمی  جو کل تک  مشکل سے رکشہ کھینچ پا رہا تھا آج ای رکشہ کو کارکی اسپیڈ میں بھگا رہا تھا۔ کیوں؟ اس لئے کہ اب پاور اس کی مٹھی میں آگیا تھا۔ اب رکشہ کی اسپیڈ بڑھانے کے لئے اسے پورے جسم کو متحرک کرنے کی ضرورت نہیں تھی صرف مٹھی کی تحریک سے ہی کام چل تھا۔ یعنی اب پاور اس کی مٹھی میں آگیا تھا۔ اپنی مٹھی کی حرکت سے وہ رکشہ کی اسپیڈ کو گھٹا اور بڑھا سکتا تھا اور اسی پاور نے اسے خراب کر دیا تھا۔
یہی ہرشخص کا حال ہے۔ جب تک آدمی کے پاس پاورنہیں ہوتا وہ معمول کی حیثیت میں رہتا ہے۔ وہ سادہ اور متواضع بنا رہتا ہے لیکن جیسے ہی اس کے ہاتھ میں پاورآتا ہے وہ ایک بدلا ہوا انسان بن جاتا ۔ اب اس کے اندر کا کبر بھڑک اٹھتا ہے۔ اب سادگی کی جگہ تکلفات لے لیتی ہیں اورعجز کی جگہ تکبر کام کرنے لگتا ہے۔ وہ اپنی اسپیڈ کو اتنا زیادہ بڑھا لیتا ہے کہ وہ بھول جا تا ہے کہ  چاہے وہ اپنی اسپیڈ کو کتنا ہی کیوں نہ بڑھا لے پھر بھی کچھ گاڑیاں ہوں گی جو اس کے آگے چل رہی ہوں گی۔
مجھے اس رکشہ والے کو دیکھ کر کسی دانشور کا یہ قول یاد آگیا:
"Power tends to corrupt, and absolute power corrupts absolutely

" پاور انسان کو خراب کردیتا ہے اور پاورجتنا زیادہ ہوگا انسان کی خرابی کا امکان بھی اتنا ہی زیادہ ہوگا۔"  

منگل، 27 مئی، 2014

Knowledge and wealth

آدمی کا مال اور اس کا علم

محمد آصف ریاض
زمین پربارش ہوتی ہے اوربارش کا پا نی سمندرمیں جاکرجمع ہوجا تا ہے۔ اب سمندر کے سامنے دوآ پشن ہوتے ہیں۔ پہلا یہ کہ وہ سارے پانی کوپی جائے، دوسرا یہ کہ وہ پانی کو پھرواپس زمین کی طرف لوٹا دے۔
سمندراس دوسرے آپشن کولیتا ہے، وہ پانی کو بھاپ بنا کرآسمان کی طرف اڑا دیتا ہے تاکہ بادل اسے خشک زمین کی طرف لے جا کر برسا دے ۔
یہ اس شخص کی مثال ہے جس کے پاس مال آئے تو وہ اس پرقبضہ جما کر بیٹھ نہ جائے بلکہ وہ اسے ان لوگوں کی طرف لوٹانا شروع کردے جن کے حصے میں ابھی مال نہیں آیا ہے۔ ایسے آدمی کی مثال اس سمندر کی طرح ہے جس کے حصے میں بہت پانی آیا تھا لیکن اس نے اس پانی کو واپس زمین کی طرف لوٹا دیا۔
دوسرا شخص وہ ہے کہ اگراس کے حصے میں مال آئے تو وہ اس پرقبضہ جما کر بیٹھ جائے۔ وہ اس میں سے کسی کو بھی کچھ دینے کے لئے تیار نہ ہو۔ وہ گھر پرگھربنائے اور زمین پر زمین خریدے تاکہ دوسروں کو بے گھر کر دے اورجب اس سے کہا جائے کہ ان پر خرچ کرو جن کے حصہ میں ابھی مال نہیں آیا ہے تو منھ پھیرکرکہے کہ یہ مال ہم نے اپنے علم کے ذریعہ حاصل کیا ہے اورمیں اپنے علم کی کمائی کو دوسروں میں تقسیم نہیں کر سکتا۔
آدمی کا علم اسے یہ تو بتاتا ہے کہ جومال اسے حاصل ہے وہ اس کےعلم کا نتیجہ ہے۔ لیکن وہی علم اسے یہ نہیں بتا تا کہ دنیا میں کتنے علم والے آئے جنھوں نے بہت مال بنا یا لیکن کسی کا علم اس کے مال کوبچانے والا ثابت نہ ہو سکا۔ آج نہ وہ ہیں، نہ ان کا مال ہے اور نہ ان کا علم ہے۔
افسوس ہے آدمی پرکہ اس کا علم اسے ایک چیز تو بتا تا ہے اور دوسری چیز نہیں بتاتا۔ اس کا علم اسے قساوت تو سکھا تا ہے لیکن وہ اسے سخاوت سکھا نے والا نہیں بنتا۔
اس دن انسان کا کیا حا ل ہوگا جب کہ وہ اپنے علم کی ساری کمائی چھوڑ کر تنہا اس دنیا سے رخصت ہوگا ۔ وہاں اس کے ساتھ سوائے حسرت و یاس کے کچھ بھی نہیں جائے گی ۔
بائبل میں ہے: " افسوس ہے تم پرکہ تم کھاچکے، اب فاقہ کروگے۔ افسوس ہے تم پرکہ تم ہنس رہے ہو اب روئو گے اورماتم کروگے۔" ( لقا کی انجیل 6:25)    
  Woe to you who are well-fed now, for you shall be hungry. Woe [to you] who laugh now, for you shall mourn and weep.
Luke 6:25

جمعہ، 23 مئی، 2014

سب نشے میں نماز پڑھ رہے ہیں

سب نشے میں نماز پڑھ رہے ہیں

محمد آ صف ریاض
قرآن کی سورہ النساء میں بتا یا گیا ہے کہ " اے لوگوجو ایمان لائے ہو، جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب مت جائو حتی کہ تم جانو کہ تم کیا کہہ رہے ہو۔" )سورہ النسا 4:43ء)
نشے کی حالت میں انسان اپنےآپ میں نہیں رہتا، وہ نہیں جانتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے، اس لئے ایسی حالت میں اسے نماز کے قریب جا نے سے منع کیا گیا ہے۔ اب ذرا دنیا بھر کے مسلمانوں کی حالت پرغور کیجئے۔ مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ نماز پڑھتے ہیں لیکن وہ نہیں جانتے کہ وہ کیا پڑھ رہے ہیں۔ ان کی نماز نشے کی نماز معلوم پڑتی ہے۔ اب میں آپ کو یہاں چند مثالیں دوں گا۔
مثلاً ہم نے ایک امام صاحب کو خطبہ دیتے ہوئے سنا۔ وہ اکابرین اور بزرگان دین کو مولیٰ اور مشکل کشا بتا رہے تھے لیکن جب نماز پڑھانے کے لئے کھڑے ہوئے توانھوں نے قرآن کی یہ آیت تلاوت کی "اللہ مولاکم نعم المولیٰ ونعم النصیر" یعنی اللہ ہی تمہارا مولیٰ ہے اور وہ کیسا اچھا مولیٰ ہے اورکیسا اچھا مدد گار۔
نماز میں مولانا کی زبان سے یہ آیت سن کر مجھے ایسا لگا کہ وہ نشے میں ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ وہ کیا پڑھ رہے ہیں، کیوں کہ نماز سے جسٹ قبل وہ اکابرین اوربزرگان دین کو مولیٰ اورمشکل کشا بتا رہے تھے اور نماز میں جس آیت کی تلاوت کر رہے تھے اس میں بتا یا گیا تھا کہ اللہ مولیٰ اور مددگار ہے۔
اسی طرح ہم نے ایک صاحب کودیکھا کہ وہ جمعہ کی نماز کے بعد چندہ کرنے کے لئے کھڑے ہو گئے حالانکہ نماز میں امام نے یہ آیت تلاوت کی تھی: "فنتشرو وبتغو من فضل اللہ" یعنی نماز سے فارغ ہوجائو تو زمین پراللہ کا فضل تلاش کرنے کے لئے پھیل جائو۔
ایک صاحب نماز پڑھ کر نکلے اورزیادہ سے زیادہ مال بنانے پرچرچا کر نے لگے۔ ہم نے انھیں یاد دلا یا کہ امام نے نمازمیں یہ آیت تلاوت کی تھی: زیادتی کی چاہت نے تمہیں غافل کردیا، یہاں تک کہ تم قبرستان جا پہنچے"
( سورہ التکاثر 1-2
ایک باردہلی کی مسجد میں ہم نے دیکھا کہ نمازکے بعد اچانک لوگ آپس میں لڑنے لگےحالانکہ نمازمیں امام نے جس آیت کی تلاوت کی تھی وہ یہ تھی:
"جب تمہارا دوسروں کے ساتھ کچھ معاملہ پیش آجا ئے توتم اسے اللہ اوراس کے رسول کی طرف لوٹا دو"
مسلمانوں کی نماز کو دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ ان میں کا ہرایک نشے میں نمازپڑھ رہا۔ کوئی نہیں جانتا کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے، نہ ان کے مرد اور نہ ان کی عورتیں، نہ مدرسہ کے فارغ التحصیل اورنہ اسکول کے پڑھے لکھے۔ سب کی نماز نشے کی نماز معلوم پڑتی ہے عرب کی بھی اورغیرعرب کی بھی۔
حالانکہ قرآن پکار پکارکرکہہ رہا ہے کہ اے لوگو" نمازکے قریب مت جائو یہاں تک کہ تم جانوکہ تم کیا پڑھ رہے ہو۔"
)سورہ النسا 4:43ء)

بدھ، 21 مئی، 2014

Though you offers many prayers , i will not listen

 تم دعائوں کے لئےاپنے ہاتھ اٹھائوگے اورہم تمہاری طرف نہیں دیکھیں گے
محمد آصف ریاض
بائبل کی کتاب یسیعاہ میں بیان کیا گیا ہے:
تم دعائوں کے لئے اپنے ہاتھ اٹھا ئو گے اور ہم تمہاری طرف نہیں دیکھیں گے
تم بہت زیادہ گریہ و زاری کروگے اورہم تمہاری گریہ و زاری کو نہیں سنیں گے
کیونکہ تمہارے ہاتھ معصوموں کے خون میں ڈوبے ہیں
سو، پاکیزگی اختیارکرواپنے گناہوں کو دھؤ، اورمیری نظروں سے انھیں دورکرو
بدکاری کوچھوڑو
نیک اعمال کرنا سیکھو
انصاف کرو
مظلوموں کی مدد کرو
یتیموں کے کاز کا دفاع کرو
بیوائوں کے حقوق کی بازیابی کے لئے جدوجہد کرو(یسیعا ہ 15-17 )

When you lift up your hands in prayer,i will not look.
Though you offers many prayers , i will not listen
For your hands are covered with the blood of innocent victims.
Wash yourselves and be clean
Get your sins out of my sight.
Give up your evil ways
Learn to do good
Seek justice
Help the oppressed
Defend the cause of orphans.
Fight for right of widows.
ISAIAH- 15-17
بائبل کے یہ الفاظ بتا رہے ہیں کہ زمین پربہت سے لوگ ایسے ہوں گے جوبظا ہرخدا کی طرف اپنے ہاتھ اٹھا ئے ہوئے ہوں گے لیکن خدا ان کے ہاتھوں کی طرف نہیں دیکھے گا۔ وہ بظاہرخدا کے سامنے گریہ و زاری کررہے ہوں گے اور خدا ان کی چیخ و پکارکو نہیں سنےگا، کیونکہ یہ گریہ و زاری ان کے منھ سے نکلی ہوگی۔ یہ ان کے دل کی آوازنہیں ہوگی۔
بائبل کےالفاظ سے پتہ چلتا ہے کہ خدا زمین پرایک بدلا ہوا انسان دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ انسان پاکیزگی اختیارکرے، وہ اس کے سامنے قلب سلیم کے ساتھ آئے۔ وہ یتیموں اور مسکینوں کی فریاد رسی کرنے والا ہو، وہ بیوائوں کے حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والا ہواورسب سے بڑھ کریہ کہ وہ انصاف پسند ہو۔ بائبل کے بیان کو پڑھ کرمجھے قرآن کے یہ الفاظ یاد آگئے:
"اورتم سب اللہ کی بندگی کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائو، ماں باپ کے ساتھ نیک برتائو کرو، قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ  حسن سلوک سے پیش آئو، اور پڑوسی رشتہ دارسے، اجنبی ہمسایہ سے، پہلو کے ساتھی اورمسافرسے،اوران لونڈی غلاموں سے جو تمہارے قبضہ میں ہوں، احسان کا معاملہ رکھو۔ یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اوراپنی بڑائی پر فخر کرے۔" )سورہ النسا 4- 36)

منگل، 13 مئی، 2014

The more they insult, more is my determination to fight back

مجھے جتنا ذلیل کیا جائے گا میرا عزم اتنا ہی جوان ہو کر ابھرے گا

محمد آصف ریاض
ہندوستان کی تاریخ میں 2014 کے لوک سبھا انتخاب کو یاد رکھا جائے گا۔ یہ انتخاب بہت ہی ہنگامہ آرائی اور شوروغوغا کے درمیان 12 مئی کو ختم ہوا۔ ملک کی تاریخ میں پہلی بارایسا ہوا تھا جب  پورے انتخاب کو ایک آدمی کے ارد گرد گھومتے ہوئے دیکھا گیا۔ یہ انتخاب مودی ورسس آل ہوگیا تھا۔ مودی کی تلخ کلامی سے ملک کا ہر لیڈر پریشان تھا۔
مودی نے خاص طورسے گاندھی گھرانے کو نشانہ بنا یا۔ انھوں نے سونیا  گاندھی راہل گاندھی ، پرینکا گاندھی یہاں تک کے آنجہانی راجیو گاندھی کے لئے بھی نازیبا الفاظ استعمال کئے۔
مودی کے جواب میں پرینکا گاندھی میدان میں ا تریں اوررائے بریلی میں انھوں نے مودی اور ان کی پارٹی بی جے پی کوآڑے ہاتھوں لیتے ہوئے بہت ہی سادہ جواب دیا۔ انھوں نے کہا:
" ہماری فیملی کو رسوا کیا جا رہا ہے ۔  ہمیں گرانے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن میں انھیں بتا دینا چاہتی ہوں کہ مجھے جس قدر گرانے اور میرے عزم کو جس قدر توڑنے کی کوشش کی جائے گی، میں اسی قدر عزم کے ساتھ  حالات کا سامنا کروں گی۔ وہ لوگ ہمیں جتنا گرانے کی کوشش کریں گے ہم اتنی ہی مضبوطی کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوں گے۔ یہی میں نے اپنی دادی اندرا گاندھی سے سیکھا ہے۔"
 (They humiliate my family, they humiliate my husband. I feel sad… I have learnt from Indiraji… The more they insult, more is my determination to fight back… The truth will come out),” she said.
اگرآپ تاریخ کا مطالعہ کریں تومعلوم ہوگا کہ تاریخ میں اس قسم کے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔ تاریخ کا ریکارڈ بتاتا ہے جب بھی کسی قوم یا فرد کواس قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے تواس کی طرف سے دو قسم کا رسپانس سامنے آیا ہے۔ ایک یہ کہ وہ مشتعل ہوکراپنے حریف کو مٹانے کے لئے اٹھ کھڑا ہو۔ دوسرا یہ کہ وہ سادہ الفاظ میں اپنے حریف کوآگاہ کردے کہ وہ مجھے گرانے کی کوشش نہ کرے کیونکہ وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ وہ کہے کہ تم مجھے گرا نہیں سکتے اوراگرکسی طرح مجھے گرانے میں کامیاب ہوبھی گئے تب بھی تم مطلوبہ نتیجہ حاصل نہیں کر سکتے کیونکہ ہم گرنے کے بعد مزید طاقتور ہوکراٹھ کھڑے ہوں گے۔ یہ ایک سادہ جواب ہے جو مشکل حالات میں کسی دانا قوم یا فرد کی طرف سے آتا ہے۔
1947 میں جب ہندوستانی مسلمانوں پربرا دن آیا ۔ جب انھیں  ہر طرف سے  ذلیل و رسوا کر نے کی کوشش کی گئی،تواس وقت ان کےدرمیان مولانا ابولکلام آزاد اٹھےاورانھوں نے جامع مسجد دہلی سے مسلمانان ہند کو خطاب کرتے ہوئے کہا: 
"اپنے دلوں کو مضبوط بنائو اوراپنے دماغوں کو سوچنے کی عادت ڈالو۔عزیزو تبدیلی  کے ساتھ چلو، یہ نہ کہو کہ ہم اس کے لئے تیار نہیں تھے بلکہ اب تیار ہو جائو۔ ستارے ٹوٹ گئے لیکن سورج تو چمک رہا ہے۔ اس سے کرنیں مانگ لو اور ان کو اندھیری راہوں میں بچھا دو، جہاں اجالے کی سخت ضرورت ہے۔"
یہ واقعہ بتا رہا ہے کہ بہت زیادہ خراب حالات میں بھی بہت زیادہ چیخ و پکار کی ضرورت نہیں ہوتی،وہاں مولانا ابولکلام آزاد یا پرینکا گاندھی جیسے کسی دانا آدمی کا سادہ کلام بھی پورے ماحول کو بدلنے کے لئے کافی ہوجاتا ہے۔  

ہفتہ، 10 مئی، 2014

On top of the Mount Tai , the world seems so small


مائونٹ تائی سے دنیا چھوٹی نظر آتی ہے


کنفیوشس (Confucius) چین کا معروف فلسفی، حکیم اورعالم گزرا ہے۔ اخلاقیات اورسیاسیات پرمبنی اس کی تعلیم نے نہ صرف چین بلکہ جاپان، کوریا اور مشرق بعید میں زبردست پزیرائی حاصل کی ہے۔


کنفیوشس کا خاندانی نام کونگ (K'ung-fu-tzu) تھا۔ وہ 551 قبل مسیح چین کے صوبے شانتونگ (Shandong) میں پیدا ہوا ۔ اور 479 قبل مسیح میں اس معلم اخلاقیات کا انتقال ہوگیا۔


کنفیوشس جب محض تین سال کا تھا تو اس کے والد شولیانگ Shuliang کی موت ہوگئی ۔ اور جب سترہ سال کا ہوا تو اس کی ماں yan zhengzai مر گئی ۔ اس کی ماں پڑھی لکھی تھی اور اس نے اپنی موت سے قبل اپنے بیٹے کو پڑھنا لکھنا سکھا دیا تھا۔ والد کے انتقال کے بعد کنفیوشس کی مالی حالت کافی خراب ہوگئی تھی۔ چنانچہ اپنی پڑھائی کو جاری رکھنے کے لئے اس نے Shusun Family کے یہاں اس شرط پر نوکری حاصل کر لی کہ وہ اس کی گائیں چرائے گا اور بدلے میں اسے کتابیں پڑھنے کو دی جائیں گے۔ وہ پڑھ لکھ کر چین کا بہت بڑا آدمی بنا۔ وہ کئی بادشاہوں کا مشیر خاص مقرر ہوا۔ اس نے دانائی اور دانشوری میں بڑا نام کمایا ۔ چین کی پالیسی میں آج بھی کنفیوشس ازم کو عظیم مقام حاصل ہے۔


کہا جا تا ہے کہ کنفیوشس ایک بارکہیں جا رہا تھا ۔ اس نے دو بچوں کو جھگڑتے ہوئے دیکھا۔ پوچھا کہ بچوں آپ کیوں جھگڑ رہے ہو؟ بچوں نے بتا یا کہ ہم لوگوں کے درمیان اس بات پر بحث چل رہی ہے کہ سورج زمین سے کب قریب ہوتا ہے؟ میرا ماننا ہے کہ صبح میں چونکہ سورج نزدیک دکھائی دیتا ہےاس لئے صبح ہی وہ وقت ہے جب سورج زمین سے زیادہ قریب ہوتا ہے اور میرا رفیق کہتا ہے دوپہر کے وقت چونکہ گرمی بہت زیادہ ہوتی ہے اس لئے سورج دوپہرکے وقت زمین سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ بچوں نے کنفیوشس سے پوچھا کہ اب آپ ہی ہم دونوں کے درمیان فیصلہ کر دیجئےکہ سورج زمین سے کب قریب ہوتا ہے؟
کنفیوشش نے جواب دیا میں نہیں جانتا۔ کنفیوشش کا ماننا تھا کہ "اگر تم جانو تو کہو کہ میں جانتا ہوں اور اگر نہیں جانتے تو کہو کہ میں نہیں جانتا، یہی علم ہے۔"


ایک بار وہ اپنے شاگردوں کے ساتھ -  Mount Tai پر چڑھ گیا ۔ اور اس نے اپنے شاگردوں کو بتا یا کہ" اگرتم مائونٹ ڈانگ پر چڑھو تو وہاں سے لو Lu -  (وہ ریاست جہاں کنفیوشس رہتا تھا) بہت چھوٹا نظر آئے گا اور اگر مائونٹ تائی پر چڑھو تو یہاں سے دنیا بہت چھوٹی نظر آئے گی۔"


Standing on top of the mountain, confucious said On top of the Mount Dong thw state of Lu seems so small; on top of the Mount Tai , the world seems so small.


وہ اپنے شاگردوں کو کیا بتا نا چاہ رہا تھا۔ وہ یہ بتانا چاہ رہا تھا کہ اگر آدمی خود چھوٹا ہو تو ہر شخص اسے مائونٹ تائی نظر آئے گا اور اگر وہ اپنے آپ کو مائونٹ تائی کی طرح بڑا بنائے تو ہرشخص اسے مائونٹ ڈانگ Mount Dong کی طرح چھوٹا نظر آئے گا۔ 

کنفیوشس کو علم و حکمت کا سمند ر مانا جا تا ہے۔ اس کے بارے میں مزید جاننے کے لئے آپ اس کے بارے میں لکھی گئی کتاب  The life and wisdom of confucious  کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔