ہفتہ، 5 دسمبر، 2009

کاش ! میں پہلے ہی مر چکا ہوتا

محمد آصف ریاض
اموی خلیفہ ولید بن عبد الملک کا زمانہ دلیر اور بہادرسپہ سالاروں کا زمانہ رہا ہے۔ اسی زمانہ میں حجاج بن یوسف، موسیٰ بن نصیر(فاتح افریقہ)، طارق بن زیاد (فاتح اندلس )، محمد بن قاسم (فاتح سندھ) اور قتیبہ (فاتح ترکستان) جیسے دلیر سپہ سالار سامنے آئے جنھوں نے دیکھتے ہی دیکھتے مشرق سے مغرب تک کے ملکوں کو فتح کرلیا۔ تاریخ کی کتابوں میں آتا ہے کہ اگر ان بہادر سپہ سالاروں کو پوری آزادی ملتی تو خطہ زمین پر شاید ہی کوئی ملک ایسا بچتا جہاں اسلامی پرچم لہرا نے سے رہ جاتا۔

فاتح ترکستان قتیبہ کے بارے میں تاریخ کی کتابوں میں ایک عجیب واقعہ ملتا ہے۔ قتیبہ جب سمر قنداور بخارا کو فتح کرتے ہوئے کاشغر پہنچا تو یہاں سے اس نے چین پر چڑھائی کا قصد کیا۔

حملہ سے قبل اپنے ایک وفد کو چین روانہ کرکے اس نے بادشاہ چین کو کہلوا بھیجا کہ وہ یا تو مذہب اسلام قبول کرلے یا پھر جزیہ دے کر چھٹکا رہ پائے۔ قتیبہ کی اس تجویز پر پہلے تو بادشاہ ناراض ہوا لیکن پھر اس نے دوسری تجویز یعنی جزیہ دینا منظور کرلیا۔ قتیبہ کا وفد جب چین سے خراج وصول کرکے واپس لوٹا تو قتیبہ نے ان سے بتا یا کہ ”میں نے قسم کھائی تھی کہ میں اس وقت تک واپس نہ جاﺅں گا جب تک کہ چین کی مٹی کو اپنے پاﺅں سے نہ روندوں اوران کے امرا کی گردن نہ دباﺅں اوران سے خراج وصول نہ کروں۔“ پہلی شرط تو پو ری ہوئی، لیکن دوسری شرط ہنوز باقی ہے۔ چین کے باشاہ کو جب اس بات کا علم ہو ا تو وہ بہت گھبرا یا۔ اس نے ہنگامی میٹنگ طلب کی اور یہ طے کیا کہ قتیبہ کو چین کی مٹی بھیج دی جائے جسے وہ اپنے پاﺅں سے روندے اور چند شہزادوں کو اس کے سامنے پیش کیا جائے جن کی گردن دبا کر وہ اپنی قسم اتارلے۔

چنانچہ یہی ہوا۔ قتیبہ چینی بادشاہ کی اس تدبیر سے خوش ہوگیا۔ اور اس نے چین پر حملہ کرنے کا ارادہ ترک کردیا۔ چین کے بادشاہ نے تھوڑی سی دانشمندی کا مظاہرہ کر کے اپنے ملک کو حقیقتاً پامال ہونے سے بچا لیا۔ لیکن یہی کام مسلمان نہیں کرسکے۔

محمد خوارزم شاہ ﴿1227-1206﴾ کے زمانہ میں منگولیا سے چین تک ایک شخص چنگیز خان نے ایک زبردست حکومت قائم کر لی تھی اور چین بھی فتح کرلیا تھا۔ چنگیز خان اچھے کپڑوں کا بڑا شوقین تھا اور یہ کپڑے چونکہ اسلامی دنیا میں بنتے تھے اس لئے اس نے کچھ تاجروں کو خوارزم بھیجا۔

محمد خوارزم شاہ نے انھیں جاسوس سمجھ کر قتل کرا دیا۔ اس پر چنگیز کو بڑا غصہ آیا، اس نے خوارزم سے اس کا جواب طلب کیا لیکن خوارزم شاہ نے اس کے غصہ کو ٹھنڈا کرنے کے بجائے اس کے سفیر کو بھی قتل کرا دیا۔ اب کیا تھا چنگیز خاں وحشی منگولوں کی زبر دست فوج لے کر چڑ ھ آیا اور خوارزم شاہ کی سلطنت پر حملہ کردیا۔ خوارزم شاہ کی وجہ سے اسلامی دنیا کو تاریخ کا سب سے بڑا نقصان اٹھا نا پڑا۔ خوارزم چنگیز کے خوف سے ادھر ادھر بھاگتا پھرا، یہاں تک کہ بحر خضر کے ایک جزیرہ آبسکون میں پناہ لی اور یہیں 1220 میں انتقال کر گیا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا جلال الدین خوارزم شاہ تخت پر بیٹھا اس نے چنگیز کے مقابلہ کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔

منگولوں کا یہ حملہ بہت تباہ کن تھا۔ سمرقند، بخارا، خوارزم، بلخ، نیشا پور، رے اور اسلامی دنیا کے وہ تمام شہر جو وسط ایشیا اور ایران میں تھے انھوں نے برباد کردیے۔ لوگوں کا قتل عام کیا، شہروں میں آگ لگادی اور اسلامی دنیا کے ایک بڑے حصہ کو ویران کردیا۔ مسجدیں، کتب خانے اور مدرسے سبھی برباد کر دیے گئے۔ سمر قند و بخارا، جن کی آبادی کااندازہ دس دس لاکھ تک لگا یا جاتا ہے، پوری طرح ویران ہو گیا۔ سمرقند کے ساٹھ ہزار کاریگروں کو منگول بیگار بنا کر لے گئے اور شہر میں صرف پانچ ہزار آدمی زندہ بچے۔ خوارزم میں قتل عام کے بعد منگولوں نے دریائے جیحوں کا بند توڑ دیا جس سے پورا شہر پانی میں ڈوب گیا۔ صوبہ نیشا پور میں سترہ لاکھ اور صوبہ ہرات میں سولہ لاکھ لوگ مارے گئے۔ اس واقعہ کو اس زمانہ کے ایک مورخ ’ابن اثیر‘ نے، جو حملہ کے وقت موجود تھا، ان الفاظ میں بیان کیا ہے–یہ حادثہ اتناہولناک اور ناگوار ہے کہ میں کئی برس تک اس پس و پیش میں رہا کہ اس کا ذکر کروں یا نہ کروں۔ واقعہ یہ بھی ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کی موت کی خبر سنانا کس کے لئے آسان ہے اور کس کا دل ہے کہ ان کی ذلت اور رسوائی کی داستان سنائے ! کاش میں پیدا نہ ہوتا،کاش میں اس واقعہ سے پہلے ہی مرچکا ہوتا۔

خوارزم کی سلطنت کو تباہ کرکے اور ہمدان اور آذربائیجان تک تمام شہروں کو برباد کر کے چنگیز منگولیا واپس چلا گیا اور وہیں کچھ عرصہ بعد مر گیا۔ اس کے پچاس سال کے بعداس کا پوتا ہلاکوخان اٹھا جو اپنے دادا سے ایک قدم اور آگے بڑھ گیا۔ اس نے آگے بڑھ کر بغداد پر قبضہ جمانے کا ارادہ کرلیا جو اس وقت اسلامی دنیا کا سب سے بڑا شہر تھا۔ یہاں کا خلیفہ معتصم تھا، اس نے ہلاکو کے سامنے ہتھیار ڈال دیا۔ ہلاکو نے اسے پیروں سے روندوا کر مار ڈالا اور اس کی لاش کو پیروں سے مسل کر پھینک دیا۔ بغداد، جو اسلامی دنیا کا سب سے برا شہر تھا، دیکھتے ہی دیکھتے کھنڈر بن گیا۔ یہاں سولہ لاکھ مرد، خواتین اور بچے منگولوں کے ہاتھوں قتل کردیے گئے۔ اس کے بعد ہلاکو اور آگے بڑھا۔ اس نے شام اور حلب کو بھی تباہ کردیا۔

ان واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ کسی معاملہ میں دانشمندی کامظاہرہ کرکے آدمی اپنے ملک اور قوم کو ڈوبنے سے بچا لیتا ہے اور نادانی کا مظاہرہ کرکے انھیں ڈوبا دیتا ہے۔ جس دانشمندی کا مظاہرہ چین کے بادشاہ نے کیا، اگراسی قسم کی دانشمندی کا مظاہرہ مسلم حکمراں خوارزم شاہ بھی کرتا تو شاید مسلم دنیا پامال ہونے سے بچ جاتی اور مسلم تاریخ نویسوں کو یہ نہ کہنا پڑتا کہ ”کاش میں پیدا نہ ہوتا، اور کاش میں اس واقعہ سے پہلے مرچکا ہوتا“۔

اصل یہ ہے کہ دنیا کا ہر معاملہ اصولوں سے زیادہ ،انا کا معاملہ ہو تا ہے۔ اگر آدمی کسی معاملہ کی نوعیت کو سمجھنے میں کامیاب ہوجائے تو وہ فریق ثانی کی انا کو مطمئن کرکے حا لات پر قابو پا سکتا ہے۔ جیسا کہ چین کے بادشاہ نے کیا۔ اس نے قتیبہ کی بھڑکتی ہوئی انا کو مطمئن کرکے اپنے ملک و قوم کو تباہ ہونے سے بچا لیا۔یہی کام خوارزم شاہ نہیں کرسکا جس کی وجہ سے خود بھی ذلیل ہوا اور اسلامی دنیا کو بھی ذلیل کرایا۔ آدمی کو چاہئے کہ جب بھی اس کے سامنے کوئی معاملہ آئے تو وہ اس کی نوعیت کو سمجھے اور دیکھے کہ اس معاملہ سے فریق ثانی کی انا کا کیا تعلق ہے ،اور وہیں وار کرے، یعنی دانشمندی کا مظاہرہ کرکے اس کی بھڑکتی ہوئی انا کو مطمئن کردے۔ اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو گیا توپھر وہ دیکھے گا کہ اس نے بہت کم قیمت چکا کر بہت بڑا معرکہ سرکرلیا۔