ہفتہ، 26 اکتوبر، 2013

Muslims awaiting a turning point




مسلمان خواب سے جاگ کر کھائی میں چھلانگ لگارہے ہیں

محمد آصف ریاض
وسعت اللہ خان ایک پاکستانی صحافی اورادیب ہیں۔ العربیہ نے 22 اکتوبر 2013 کو ان کا ایک مضمون روزنامہ ایکسپریس سے لے کرشائع کیا ہے۔ اس مضمون کا عنوان ہے: یہ ترک اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہیں؟ اس مضمون میں مصنف نے ایک بوڑھے ترک کے حوالے سے لکھا ہے کہ "غلاموں کو بات بات پرغصہ آتا ہے کیوں کہ یہی ان کی واحد ملکیت ہوتی ہے۔" مضمون نگار کے لفظوں میں:
"یہ بات فروری دو ہزارتین کی ہے۔ میں پرانے استنبول میں گھومتے گھومتے نیلی مسجد کے سائے میں ایک چھوٹے سے باغ کی بنچ پر تھک ہار کے بیٹھ گیا۔ میرے برابر میں ایک ترک بزرگ بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے۔ کچھ دیربعد انھوں نے رسمی مسکراہٹ کے ساتھ مجھ پر نگاہ ڈالتے ہوئے پوچھا کہ کیسے ہو؟ میں نے کہا تھک گیا ہوں مگر مزہ آرہا ہے۔ پھر گفتگو شروع ہوگئی۔ یہ بزرگ کسی مقامی کالج میں تاریخ پڑھاتے پڑھاتے حال ہی میں ریٹائر ہوئے تھے۔ پوچھنے لگے ہمارا شہر کیسا لگا ؟ میں نے کہا کہ پچھلے تین روز سے گھوم رہا ہوں لیکن اب تک سڑک پر کوئی ایسا راہگیر نہیں دیکھا جس کا منہ لٹکا ہوا ہو یا کوئی کسی سے دست و گریباں ہوگیا ہو یا کم ازکم گالم گلوچ پر ہی اتر آیا ہو۔ کیا آپ کے ہاں لوگوں کو غصہ نہیں آتا حالانکہ اس شہر میں لاکھوں لوگ رہتے ہیں۔
بڑے میاں نے عینک کے پیچھے سے مجھے بغور دیکھا اور پھر مسکرا دئیے۔ کہنے لگے تم کہاں کے ہو ؟ میں نے کہا پاکستان سے۔ پھر پوچھا پاکستان میں پیدا ہوئے یا انڈیا میں ؟ میں نے کہا والدین انڈیا میں پیدا ہوئے اور میں پاکستان میں۔ بڑے میاں نے کہا کہ تمہارا سوال بہت مزے کا ہے کہ ترکوں کو بات بے بات غصہ کیوں نہیں آتا ؟ ایسا نہیں کہ ہمیں غصہ نہیں آتا لیکن ہر وقت نہیں آتا۔ اس کی ایک وجہ شائد یہ ہو کہ ہم کبھی من حیث القوم غلام نہیں رہے۔غلاموں کو بات بات پر غصہ آتا ہے کیونکہ غصہ ہی ان کی واحد ملکیت ہے اور اس غصے کا ہدف بھی وہ خود ہی ہوتے ہیں۔ پتہ نہیں میں اپنی بات کہہ پایا یا نہیں۔۔۔۔۔۔۔
بڑے میاں کی بات سن کے مجھے سکون سا آ گیا اور یوں لگا جیسے کوئی برسوں کی پھانس دل سے نکل گئی۔ لیکن ان کے جاتے ہی مجھے یہ سوچ کرغصہ آ گیا کہ یہ ترک آخر اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہیں۔۔۔"

بوڑھے ترک نے جس چیزکوغلامی کا معاملہ قراردیا ہے درحقیقت وہ ڈی جنریشنdegeneration) ) کامعاملہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زمین پرکوئی قوم ایسی نہیں جوڈی جنریشن کےعمل سے نہ گزری ہو۔ اور جب بھی کوئی قوم ڈی جنریشن کے عمل سے گزرتی ہے تو اس کے اندر فطری طور پر بے صبری، بےعملی، بے عزمی اورغصہ کی نفسیات کا پیدا ہوجاتی ہے۔ خدا وند کے اس آفاقی قانون کو قرآن میں احسن تقویم اوراسفل سافلین یعنی "ہم نے انسان کو بہترین ساخت میں پیدا کیا پھرہم نے اس کو پست ترین حالت کی طرف پلٹا دیا۔" (سورہ التین) کی اصطلاح میں بیان کیا گیا ہے۔
یہ ایک واقعہ ہے کہ زمین پرکسی قوم کی پہلی نسل عزم و حوصلہ ، صبر و استقامت اورجہد مسلسل کی بنیاد پراٹھتی ہے۔ پھراس کے بعد دوسری نسل آتی ہے جو اپنے آبا کی عظمت کی بحالی کو یقینی بناتی ہے۔ پھرتیسری اورچوتھی نسلیں اٹھتی ہیں جواپنے آبا کی قربانیوں پربڑے بڑے پرفخرمحلات تعمیرکرتی ہیں۔ وہ جہد مسلسل کی جگہ عیش وعشرت کی زندگی کوترجیح دیتی ہیں۔ وہ پدرم سلطان بود کی نفسیات میں جیتی ہیں۔ ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ سنجیدہ گفتگو کی جگہ انھیں ہو ہلہ کی باتیں زیادہ پسند آتی ہیں۔ پھریہ ہوتا ہے کہ رفتہ رفتہ ان کےاندرسے قوت فکروعمل اٹھ جاتی ہے اور وہ زمین پرایک بے وزن قوم بن کررہ جاتی ہیں، جسے بوڑھے ترک نے 'غلامی' سے تعبیر کیا ہے۔
اس معاملہ کی زندہ مثال آج کے مسلمان ہیں۔ ڈی جنریشن degeneration) ) کا مرحلہ دراصل پستی کا مرحلہ ہے اورآج کے مسلمان اسی پستی کے مر حلے سے گزررہے ہیں۔ اسی لئے ان کے یہاں بات بات میں غصہ پھوٹتا ہوا نظر آتا ہے۔ ان کے بولنے والے جوشیلی تقریریں کرتے ہیں اورلکھنے والے الفاظ کا جنگل اگاتے ہیں۔ ان کے یہاں تاریخ سے زیادہ کہانیوں پر یقین کیا جا تا ہے۔ ڈی جنریشن کا عمل ایک فطری امرہے جو سب کے ساتھ پیش آتا ہےاس سے کوئی قوم مستثنی نہیں یہاں تک کہ ترک بھی نہیں۔ یہود کے ساتھ بھی یہ ہوا ہے عیسائی بھی اس عمل سے گزرے ہیں اورآج امت مسلمہ بھی اس عمل سے گزر رہی ہے۔
علاج
ڈی جنریشن کے اس عمل سے (جسے ترک بوڑھے نے غلامی کا نام دیا ہے) پوری امت کو باہرنکالنے کے لئے سنجیدہ اورعملی جد جہد کی ضرورت ہے۔ ابھی تک یہ ہورہا ہے کہ پوری قوم کو ماضی کی داستانیں سنا کر جگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن خوبصورت ماضی اورحال کی پستی کے درمیان جو وسیع خلا ہے اسے پاٹنے کی کوشش نہیں کی جا رہی ہے نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ پوری قوم حال سے نکلنے کی جد جہد میں عظیم الشان ماضی کی طرف چھلانگ لگا دیتی ہے اورخلا طویل ہونے کی وجہ سے وہ بیچ کی کھائی میں گرجاتی ہے۔ یعنی وہ خواب سےجاگ کر کھائی میں چھلانگ لگا رہے ہیں۔ ہمیں حال اور ماضی کے درمیان اسی کھائی کو پاٹنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو ہم بار بار اپنی قوم کوعظیم الشان ماضی کی طرف بلائیں گے اور وہ بار بار ماضی اور حال کے درمیان واقع کھائی میں چھلانگ لگا دے گی۔ یہی افغانستان میں ہوا، یہی الجیریا میں ہوااور یہی غلطی  فلسطین اور دوسرے اسلامی ممالک میں دہرائی جا رہی ہے۔
صبرکا فارمولہ
مسلمانوں کی شاندارماضی اورمکروہ حال کے درمیان جوکھائی ہے اسے پاٹنے کے لئے جس چیزکی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ صبر ہے۔ صبر کرنا گویا کسی حساس معاملہ میں عمل کے مواقع کو پالینا ہے۔ اگرقوم صبرکی طاقت سے واقف ہوگئی تو پھر وہ خواب سے اٹھ کر شاندار ماضی کی طرف چھلانگ لگا کرکھائی میں گرنے کی غلطی نہیں کرے گی بلکہ وہ اس کھائی کو پاٹنے کی کوشش کرے گی جس میں اب تک پوری قوم گرتی رہی ہے۔ اور بلا شبہ اس کھائی کے پٹتے ہی پوری قوم اپنی عظمت رفتہ کو پانے میں کامیاب ہوجائے گی۔
 قران میں صبر کے اس آفاقی فارمولہ کو اس طرح واضح کیا گیا ہے: " زمانے کی قسم، انسان بے شک خسارے میں ہے سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے ، اور نیک عمل کرتے رہے،اور ایک دوسرے کو حق اور صبر کی نصیحت کرتے رہے۔"103: 1-3) )
ایک اور جگہ فرمایا " ولربک فصبر اوراپنے رب کے لئے صبرکرو"
اور جگہ فرمایا :" اے ایمان والو نماز اور صبر کے ذریعہ  مدد طلب کرو، اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے"(2:153)


مسلمانو نےاگرصبرکرنا سیکھ لیا تو وہ کھائی میں گرنے سے بچ جائیں گے اورصبر کی وجہ سے انھیں کھائی کو پاٹنے کی مہلت بھی مل جائے گی۔ میرے خیال میں مسلمانوں کے لئے عظمت رفتہ کو پانے کا یہی واحد راستہ ہے، اس کے علاوہ ان کے لئے اورکوئی راستہ نہیں۔ اب تک یہ ہو رہا ہے کہ مسلمان خواب سے جاگ کر کھائی میں چھلانگ لگا رہے ہیں کیوں کہ ان کے اندر منزل کو پانے کی جلدی ہے۔ وہ حب عاجلہ میں پڑے ہیں۔ اگر وہ صبر کریں تو خواب سے جاگ کر کھائی میں کودنے کے بجائے وہ کھائی کو پاٹنے کے عمل میں لگ جائیں گے اور یہی عمل ان کے لئے ٹرننگ پوائنٹ (turning point) ہوگا۔ تاریخ داں جانتے ہیں کہ عیسائیوں اور دوسری قوموں کی عظمت کا راز بھی یہی ہے۔ اس فرق کے ساتھ کہ انھوں نے جبری صبرکے اصول کو اپنا یا اورمسلمانوں کو اصولی طور پرصبرکےاس فارمولہ کواپنانا ہے۔ 

منگل، 8 اکتوبر، 2013

Learning from leaves

درخت پر پھیلے پتوں کا سبق
محمد آصف ریاض

پتے جب درخت پر ہوتے ہیں تو وہ درخت کے لئے زندگی کا سامان تیار کرتے ہیں۔ وہ سورج کی شعائوں کوجذ ب کر کے درخت کے لئے کھا نا پکاتے ہیں۔ درختوں کے اس عمل کو ضیائی تالیف (Photosynthesis) کہا جا تا ہے۔ درخت کے پتے کاربن ڈائی ایکسا ئیڈ کو جذب کر کے اسے آکسیجن میں تبد یل کرتے ہیں، وہ درخت کو طاقتور بنانے میں اہم کردارادا کرتے ہیں۔
Capture the sunlight from the Sun in order for the plant to make food. The process for the plant to make food is called Photosynthesis.
The leaves allow carbon dioxide to pass into it and oxygen and water vapours to pass out from the leaves. Which makes the food for the plant, then makes the plant healthy and stronger۔
پتے در خت کے لئے زندگی کا سامان تیار کرتے ہیں اورجب وہ اپنا کام کرچکے ہوتے ہیں تو نہایت خاموشی کے ساتھ زمین پر گرجاتے ہیں۔
تاہم یہ پتے زمین پرگرنے کے بعد اپنی سرگرمیاں ترک نہیں کردیتے بلکہ یہاں بھی درخت کے لئے وہ اپنی قربانیاں جاری رکھتے ہیں۔ مثلاً وہ درخت کے لئے کھاد بن جاتے ہیں اور زمین کی زرخیزی کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو مٹا کراپنی جان کی قیمت پردرخت کو تناور اورعظیم الشان بناتے ہیں۔

قوم اگر درخت ہے تو افراد اس کے پتے
یہی کام کسی انسان کو اپنی قوم کے ساتھ کرنا ہے۔ 'قوم اگر درخت ہے تو افراد اس کے پتے'۔ قوم کے تمام افراد پر یہ لازم ہے کہ وہ قوم کوعظیم الشان بنانے کے لئے اپنا سرگرم کردار ادا کریں اورجب ان کا کردار ختم ہوجائے تو خاموشی کے ساتھ پتوں کی طرح پیچھے ہٹ کراپنی گمنامی کی قیمت پرقوم کوطاقت پہنچا ئیں۔
کوئی درخت اپنے پتوں کے بل پرتناور اورعظیم الشان بنتا ہے، اسی طرح  کوئی قوم اپنے افراد کے بل اور ان کی قربانیوں پر طاقتور اور عظیم الشان بنتی ہے۔ یہی پتوں کا سبق ہے۔
افراد کو قوم کی سرفرازی کے لئے ہمہ وقت سرگرم عمل رہنا ہے اور جب انھیں لگے کہ ان کا رول اب ختم ہو چکا ہے تو نہایت خاموشی کے ساتھ انھیں پیچھے ہٹ جانا ہے۔ فوج جب مورچے پر ہوتی ہے تو نہایت سر گرم کردار ادا کرتی ہے اور جب مورچہ پر اس کا کردار ختم ہوجا تا ہے تو وہ خاموشی کے ساتھ بیریک میں واپس آجاتی ہے۔
یہ درحقیقت قربانی اورڈسپلین کا معاملہ ہے۔ کوئی قوم اپنے افراد سے عظیم الشان بنتی ہے۔ اگرکسی قوم کے افراد قربانی کے جذبہ اور ڈسپلین سے خالی ہوں تووہ قوم پودا ہی رہے گی وہ کبھی بھی عظیم الشان درخت نہیں بن سکتی۔ مسلمان آج ایک عظیم الشان قوم نہی ہیں کیوں کہ ان کے اندر نہ ڈسپلین ہے اور نہ ہی قربانی کا وہ جذبہ جو درخت کے تئیں پتوں کے اندر پا یا جا تا ہے۔
خدا وند درختوں پرپتوں کو اگا رہا ہے اور پھر وہ انھیں  نیچے گرا دیتا ہے تاکہ انسان انھیں دیکھ کرسبق حاصل کرے۔ لیکن یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ انسان کتابوں میں لکھی تحریروں کو توجانتا ہے،وہ کائنات میں پھیلی آفاقی تحریروں کو نہیں جانتا۔