جمعرات، 20 فروری، 2014

For Your Tomorrow, We Gave Our Today


انھیں بتانا کہ ہم نے ان کے کل کے لئے اپنے آج کو قربان کردیا ہے

محمد آصف ریاض
ہندوستان کی شمال مشرقی ریاستوں میں ایک ریاست کا نام ناگا لینڈ ہے۔ ناگا لینڈ کی سرحد آسام اروناچل پردیش، میانماراور منی پورسے ملتی ہے۔ یہ ریاست ناگا قبائل کے نام سے مشہورہے۔ ناگا لینڈ کی راجدھانی کوہیما ہے۔ کوہیما ایک عظیم الشان شہرہے۔ یہ شہرپہاڑیوں کے سلسلوں پربسا ہوا ہے۔ ناگا قوم اپنی بہادری کے لئے جانی جاتی ہے۔
 دوسری جنگ عظیم )1944( کے دوران جاپانیوں نے ناگا لینڈ پر حملہ کردیاتھا۔ کوہیما میں زبردست جنگ ہوئی اورناگا قوم نے جاپانیوں کو آگے بڑھنے سے روک دیا۔ یہاں ایک بہت بڑا قبرستان ہے، جس میں کوہیما کی لڑائی میں مارے جانے والے جانبازوں اور سورماﺅں کو دفنایا گیا ہے۔ ناگا یہاں آتے ہیں اورانھیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ یہاں قبروں کے پاس ایک ستون پر ایک یادگار تحریرکندہ ہے:
When You Go Home, Tell Them of Us and Say,
For Your Tomorrow, We Gave Our Today
جب تم گھرجا نا تو انھیں ہمارے بارے میں بتا نا اور کہنا کے ہم نے ان کے کل کے لئے اپنے آج کو قربان کردیا۔"
 اپنےعظیم الشان 'کل' کے لئے آدمی کو اپنے خوبصورت 'آج' کو قربان کرنا پڑتا ہے، یہ بات جتنی قوموں کے لئے صحیح ہے اتنی ہی افراد کےلئے بھی صحیح ہے۔

بدھ، 19 فروری، 2014

Power of knowledge

علم کی طاقت

محمد آصف ریاض
پندرہ فروری 2014 سے دہلی کے پرگتی میدان میں عالمی کتاب میلہ کا آغاز ہوا۔ اس کتاب میلہ میں دنیا بھرکے پچیس ممالک حصہ لے رہے ہیں۔ مجھے پہلے ہی دن اس کتاب میلہ میں جانے کا موقع ملا ۔ یہاں ہال نمبر14 میں میری دو کتابیں ”امکانات کی دنیا“ اورمظفر نگر کیمپ میں" دستیاب ہیں۔
میں یہاں گھومتا ہوا ایک کرسچن اسٹال پر پہنچ گیا۔ یہاں میں نے دیکھا کہ مشنری ورک کرنے والے کچھ نوجوان بہت کم قیمت پر توریت انجیل اورزبورفراہم کرارہے ہیں۔ مجھے ایک نوجوان نےانجیل کی ایک کاپی دی۔ اس کی قیمت صرف 10روپے تھی۔ ہرچند کہ ہمارے پاس اردو اور انگریزی میں پہلے سے ہی انجیل کی ایک کاپی موجود تھی پھر بھی ہم نے اس نوجوان کے ہاتھوں سے انجیل کولے لیا پھراسے بتا یا کہ انجیل میں لکھا ہے
“Plants no planted by my father will be rooted up”
Matthew 15:13
یعنی وہ درخت جسے میرے باپ نے نہیں لگایا اسے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے گا۔
دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ ہر وہ درخت جسے خدا وند نے نہیں لگایا وہ نقلی ہے اور اسے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے گا۔ میں نے اس نوجوان کو بتا یا کہ قرآن میں اسی بات کو ایک دوسرے انداز میں سمجھایا گیا ہے " حق آیا اور باطل مٹ گیا اور باطل تو مٹنے ہی والا ہے۔" (سورہ الاسراء 17:81)
 یعنی جس طرح نقلی درخت زمین پر نہیں جم سکتا اسی طرح جھوٹ بھی زمین پر قائم نہیں رہ سکتا۔
میری یہ بات سن کر وہ نوجوان بہت خوش ہوا۔ وہ بہت دیرتک مجھے دیکھ کر مسکراتا رہا اور کہنے لگا انجیل کی باتیں قرآن میں بھی موجود ہیں۔
مجھےاس کی مسکراہٹ دیکھ کرسیرت نبوی سے ایک واقعہ یادآگیا۔ حضرت ابو طالب کے انتقال کے بعد جب مکہ والوں نے آپ کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لیا تو پیغمبر اسلام کسی سرپرست کی تلاش میں طائف کی طرف روانہ ہو ئے لیکن وہاں کے لوگوں نے آپ پر ظلم وزیادتی کی یہاں تک کہ آپ کو لہولہان کردیا۔ آپ یہاں سے تھکے ہوئے، نڈھال لوٹے اور تھوڑا آرام کرنے کے لئے قریب کے ایک باغ میں بیٹھ گئے۔ باغ کا مالی آیا تو آپ نے اس سے پانی مانگا۔ اس نے آپ کو پانی پلا یا تو آپ نے خدا وند کا شکراداکیا اوراس سے پوچھا کہ کیا آپ اسی شہر کے رہنے والے ہیں؟ اس نے جواب دیا نہیں ، میرا اصل وطن موصل ہے۔ میں تجارت کرتا تھا، تجارت میں زبردست نقصان ہوا تو نوکری کے لئے یہاں آگیا ہوں۔
یہ سن کرنبی کریم نے جواب دیاکہ اچھا تو آپ موصل کے رہنے والے ہیں؛ وہ تو میرے بھائی ' یونس بن متی کا شہر ہے'۔ یہ سن کر مالی بہت خوش ہوا اور کہنے لگا کہ آپ یونس بن متی سے بھی واقف ہیں؟ یہ کہہ کر وہ آپ کے ہاتھوں کو چومنے لگا۔ یہ دیکھ کر باغ کے مالک نے مالی کو بلا یا اور اس سے پوچھا کہ وہ کون ہیں۔ اس نے جواب دیا یہ پیغمبر ہیں اور ہمارے یہاں کے پیغمبریونس بن متی کو بھی جانتے ہیں۔

علم اپنے آپ میں ایک طاقت ہے۔ یہ علم کی طاقت تھی جس نے مالی کو پیغمبراسلام کا گروویدہ بنا دیا تھا۔ علم کسی انسان کے لئے پاور ہے۔ اس کے ذریعہ آدمی ایک ہی جست میں کسی کے دل میں اپنے لئے جگہ بنا سکتا ہے۔

منگل، 18 فروری، 2014

Wisely, and slow. they stumble that run fast

جو تیزی سے آگے بڑھتا ہے اس کے گرنے کا اندیشہ زیادہ ہوتا ہے

محمد آصف ریاض
پندرہ فروری کو دہلی کے پرگتی میدان کتاب میلہ میں جانے کا اتفاق ہوا۔ میلہ سے ہم نے چند کتابیں خرید یں۔ گھر واپسی میں دیرہوگئی۔ رات نو بجے گھر واپس آیا۔ رات بھر بیٹھ کر کتابوں کو پڑھتارہا۔ صبح کے وقت نیند آگئی۔ دوسرے روز اٹھا تو آفس جاناتھا چنانچہ نہادھوکرآفس کے لئے روانہ ہوگیا۔ صبح سرمیں درد شروع ہوا اور شام تک درد کے ساتھ بخار آگیا۔ آفس سے لوٹ کر دوائیں لیں اور پھر بستر پر آرام کر نے کے لئے چلا گیا۔ سر میں درد بہت شدید تھا اور بخار بھی آگیا تھا چنانچہ اس رات میں کچھ پڑھ نہیں سکا۔ صبح جب سوکر اٹھا تو کچھ افاقہ ہوا لیکن پھربھی کمزوری اتنی تھی کہ جسم پڑھنے کی اجازت نہیں دے رہا تھا چنانچہ صبح میں بھی کچھ نہیں پڑھ سکا۔ اسی طرح ہم نے ایک رات کی محنت کی وجہ سے کئی رات کی پڑھائی کو کھو دیا۔
اس تجربے سے گزر کر مجھے کسی دانشور کا یہ قول یاد آگیا یہ ممکن ہے کہ آپ ایک گھنٹہ بہت تیزی سے اپنی زندگی کا سفر طے کرلیں لیکن اس کے ساتھ اس بات کا خدشہ لگا رہتا ہے کہ آپ اپنے ایک گھنٹے کی رفتار اور تیزی کی وجہ سے اپنا ایک ہفتہ کھودیں"۔
میں نے تجربے کی بنیاد پرجانا کہ آدمی کو کسی قسم کا فیصلہ لینے سے پہلے اپنی توانائی کاجائزہ لے لینا چاہئے۔ اگرآدمی ایسا نہ کرے تو اس کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ ایک دن بہت تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھے اور دوسرے دن کسی کام کے لائق نہ رہے۔ ولیم شیکسپیئر نے اس بات کو ان الفاظ میں سمجھانے کی کوشش کی تھی:
  Wisely, and slow. they stumble that run fast
"دانائی کے ساتھ رفتہ رفتہ آگے بڑھو، جان لو کہ جو تیزی سے آگے بڑھتا ہے اس کے گرنے کا اندیشہ زیادہ ہوتا ہے۔"
بچے رفتہ رفتہ بولنا سیکھتے ہیں ، پرندے رفتہ رفتہ اڑنا سیکھتے ہیں، پودے رفتہ رفتہ تناور درخت میں تبدیل ہوتے ہیں، یہ نیچر کا سبق ہے اور کوئی بھی شخص نیچر کے خلاف جاکر کامیاب نہیں ہو سکتا.

World of opportunities

امکانات کی دنیا

محمد آصف ریاض
دورجہالت کے ایک عرب شاعر نے اپنے بیٹے کی تعریف کر تے ہو ئے لکھا ہے کہ ’ میرا بیٹا کو ئی جا دو ئی طاقت لے کر پیدا نہیں ہوا، پھر بھی وہ لو گوں کے بیچ ہیرو بنا رہتا ہے ۔ وہ کوئی فو جی کمانڈر نہیں ہے، پھر بھی لو گ اس سے خوف کھا تے ہیں۔ وہ کوئی معجزہ لے کر پیدا نہیں ہوا، پھر بھی لوگ اسے پیغمبر سمجھتے ہیں ۔ میرے بیٹے میں سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ابھی اس پر ایک دروازہ بند نہیں ہو تا کہ وہ اپنے لئے دوسرا دروازہ کھول لیتا ہے، ابھی اس کا ایک راستہ بند نہیں ہو تا کہ وہ اپنے لئے دوسرا راستہ تلاش کرلیتا ہے، ابھی اس پر ایک ندی بند نہیں ہو تی کہ وہ اپنے لئے ایک دوسرا سمندرتلاش کر لیتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ یہ دنیا امکا نات کی دنیا ہے۔ خدا کی اس زمین پر بے پناہ امکانات پا ئے جا تے ہیں ۔ خدا کے تخلیقی نقشے کے مطابق یہاں ہرعسرکے ساتھ یسر پا یا جا تا ہے، یہاں ہر مشکل کے ساتھ آسانی پائی جا تی ہے ۔ یہاں ہر ناکا می کے ساتھ کامیابی پائی جاتی ہے، یہاں ہر شر کے ساتھ خیر پا یا جا تا ہے۔ یہاں ایک راستہ بند نہیں ہو تا کہ دوسراراستہ کھل جا تا ہے، یہاں ایک دروازہ بند نہیں ہو تا کہ دوسرا دروازہ کھل جا تا ہے ۔ یہاں ایک چیز ہاتھ سے نکلتی نہیں کہ دوسری چیز ہاتھوں میں چلی آ تی ہے ۔
لیکن یہ کن لو گوں کے ساتھ ہو تا ہے؟ یہ صرف ان لو گوں کے ساتھ ہو تا ہے جو خدا کے تخلیقی نقشے کو جانتے ہیں۔ جو خدا کی زمین پر پھیلے امکانات کا ادراک کر لیتے ہیں ،جوعسرمیں چھپے یسر کو پا لیتے ہیں ۔قران میں کہا گیا ہے:
 فان مع العسر یسراً ان مع العسر یسرا‘ ( پس ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے ، پس ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے)
قران کی اس آیت میں امکا نات کو بتا یا گیا ہے ۔ یعنی ہر مشکل کے ساتھ آسانی کا امکان ہے ۔ ہر لڑائی کے ساتھ صلح کا امکان ہے ۔ ہر دشمنی کے ساتھ دوستی کا امکان ہے۔ ہر ہنگامہ آرائی کے ساتھ امن کا امکان ہے۔ ہر کھونے کے ساتھ پا نے کا امکان ہے۔ ہرشر کے ساتھ خیر کا امکان ہے۔ یہاں ہر دشمن میں دوستی کی صلاحیت امکانی طورپرموجود رہتی ہے۔
مطلب یہ ہے کہ یہاں ہرمشکل اپنے ساتھ آسانی لے کر آتی ہے ۔ یہاں ہرنا کامی اپنے ساتھ کا میابی لے کرآتی ہے ۔ لیکن اس کا ادراک صرف ان لو گوں کو ہو تا ہے جو چیزوں کو امکانات کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ جو چیزوں کے خارجی امور پر نگاہ رکھنے کے بجائے چیزوں کے باطنی امور پر نگاہ رکھتے ہیں ۔ جو باہردیکھنے کے بجائے اندر دیکھنا پسند کر تے ہیں۔
 آج سے ہزاروں سال قبل۔ خدا کے پیغمبر حضرت یوسف کے ساتھ ایک افسوسناک واقعہ ہوا۔ زلیخا کے ساتھ مبینہ رشتے کے الزام میں آپ کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل دیا گیا۔ یو سف کے لئے بظاہر یہ ایک مشکل گھڑی تھی لیکن اسی مشکل سے ان کے لئے وہ آسانیاں نکل آئیں جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا ۔ ہوا یوں کہ اللہ کے پیغمبرنے جیل میں بند قیدیوں کو خواب کی تعبیر بتا ئی ان قیدیوں میں ایک بادشاہ کا بہت قریبی تھا، اس نے جیل سے نکلنے کے بعد بادشاہ سے یو سف کا ذکر کیا۔ بادشاہ نے یو سف کو اپنے دربار میں طلب کیا ۔ وہ یو سف کی صلاحیت سے اس قدر متا ثر ہو ا کہ اس نے یو سف کو اپنا قائم مقام مقرر کر دیا۔
 کتنی حیران کن بات ہے کہ ایک واقعہ جو اپنے آغاز کے لحاظ سے زحمت تھا، اپنے انجام پر پہنچ کر سراپا رحمت بن گیا۔ یو سف کے لئے ، جیل خانہ مصر کی بادشاہت تک پہنچنے کا سبب بن گیا۔ آدمی کو چاہئے کہ وہ مشکلات سے گھبرائے نہیں بلکہ وہ مشکلات کے ساتھ نباہ کر نا سیکھے۔ آدمی یہ جانے کہ ایک واقعہ ابتدا کے لحاظ سے مشکل اور تکلیف دہ ہو سکتا ہے، تا ہم اس کا امکان ہمیشہ با قی رہتا ہے کہ وہ واقعہ اپنے اختتام پر پہنچ کر آسانیوں میں تبدیل ہو جائے۔ تاریخ اس قسم کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔
ہندوستان میں جب انگریز آئے تو انھوں نے سفر کو آسان بنا نے کے لئے ریل کی پٹریاں بچھائیں ۔ گور جنرل آف انڈیا لارڈ ہارڈینج نے ہندوستان میں ریلوے کی منصوبہ بندی کی۔ ہندوستان میں سب سے پہلی پسنجر ٹرین 16اپریل 1853 میں ممبئی اورتھانے کے درمیان چلائی گئی ۔ یہ واقع ہندوستانیوں کے لئے کا فی تکلیف دہ تھا۔ انگریز ٹرین کے ذریعہ ایسٹ انڈیا کمپنی کو تقویت پہنچا رہے تھے۔ وہ ہندوستان کے خام مواد کو برطانیہ بھیج رہے تھے ۔ وہ ملک کے قدرتی وسائل کو لوٹ رہے تھے ۔ ملک کے با شندوں کے لئے یہ ایک مشکل گھڑی تھی لیکن اسی مشکل سے وہ آسانیاں نکل آئیں جھنوں نے ہندوستانی ریلوے میں انقلاب برپا کر دیا۔
اسی طرح جب انگریز ہندوستان آئے تو انھوں یہاں اپنی زبان انگریزی کو فروغ دی۔ یہ بات ملک کے باشندوں کے لئے نہایت افسوسناک تھی۔انگریزوں کے اس عمل کو ملک کی زبان اور تہذیب ثقافت پر حملہ قرار دیا گیا۔ لیکن دنیا نے دیکھا کہ اسی مشکل سے وہ آسانیاں نکل آئیں جھنوں نے ہندوستان میں انقلاب برپا کر دیا۔ آج دنیا بھر میں ہندوستانی انگریزی کو برٹش انگریزی کا درجہ دیا جا تا ہے۔ آج اسی انگلش کی وجہ سے ملک کے نو جوان پو ری دنیا میں کا رہا ئے نما یاں انجام دے رہے ہیں۔ ملک کی جو قومیں اس زبان میں پچھڑ گئیں وہ زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی پچھڑ گئیں۔ اس سلسلے میں مسلمانوں کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں نے انگریزوں کے اس عمل میں صرف شر کو دیکھا۔ انھوں نے اس شرمیں چھپے خیر کے پہلوﺅں کو نظر انداز کر دیا۔ جس کا خمیازہ آج پو ری قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ 

مضمون نگار " امکانات کی دنیا" مظفرنگرکیمپ میں" اور 'موت کے اس پار' نامی کتابوں کے مصنف ہیں

جمعرات، 13 فروری، 2014

Wisdom plus


وزڈم پلس

محمد آصف ریاض
 حامد محسن نے اپنی کتاب 'غلط فہمیاں'   (Islam: facts vs. fiction)میں ایک واقعہ نقل کیا ہے۔ یہ واقعہ معروف بوکسر محمد علی کا ہے۔ لکھا ہے کہ محمد علی جب اسلام میں داخل ہوئے تو ایک کرسچن جرنلسٹ نے ان سے پوچھا کہ مسٹرعلی آپ کو اس مذہب میں داخل ہوکرکیسا محسوس ہو رہا ہے جس میں اسامہ بن لادن بھی موجود ہیں۔ محمد علی نے تھوڑا توقف کے بعد جواب دیا نوجوان آپ کو اس مذہب میں رہ کر کیسا محسوس ہورہا ہے جس میں ہٹلر بھی ہے۔ محمد علی کا جواب سن کر وہ شخص چپ ہو گیا پھر اس نے مزید سوال نہیں کیا۔
 یہ پڑھ کر مجھے ایک عرب کی یاد آگئی ۔ مولانا وحید الدین خان نے اپنی ڈائری میں ایک عرب کا ذکر کیا ہے۔ وہ ایک عالم تھا۔ وہ یوروپ کے سفر پر تھا۔ یوروپ میں ٹرین پرکسی کرسچن نے اس سے سوال کیا کہ مسلمانوں کے نزدیک ایک عورت بہت مقدس ہے حالانکہ اس پر بدکاری کا الزام لگا یا جا تا ہے۔ مولانا نے اس شخص سے پوچھا کہ آپ کس عورت کی بات کررہے ہیں؟ بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے نزدیک دو عورتیں بہت مقدس ہیں اور کچھ بد بخت دونوں پر بدکاری کا الزام لگاتے ہیں۔ ایک کا نام ہے مریم اوردوسرے کا نام ہے عائشہ۔ آپ ان میں سے کس کی بات کر رہے ہیں؟ یہ سن کر وہ شخص خاموش ہوگیا اور پھر پورے سفر میں خاموش رہا۔
مجھے اپنا ایک واقعہ یاد آرہا ہے ۔ نئی دہلی میں سفر کے دوران میٹرو پر ایک ہندو ملا۔ بات چیت میں وہ کہنے لگا کہ مسلمان عورتوں کو بہت دباتے ہیں، وہ عورتوں کا احترام نہیں کرتے۔ میں نے کہا کہ آپ لوگ مسلمانوں پر "لو جہاد"  کا الزام لگاتے ہیں اوراسی وقت یہ بھی کہتے ہیں کہ مسلمان عورتوں کا احترام نہیں کرتے تو یہ دونوں باتیں ایک ہی وقت میں کس طرح سچ ہو سکتی ہیں؟ یا تو آپ کی پہلی بات صحیح ہے یا دوسری بات۔ دونوں باتیں ایک ہی وقت میں صحیح نہیں ہو سکتیں۔ وہ شرمسار ہوئے اور خاموش ہوگئے۔
ایک سفر کے دوران میں نے ایک ہندو سے پوچھا کہ وہ مرنے کے بعد اپنے مردوں کو بڑی بے دردی کے ساتھ  کیوں جلا دیتے ہیں؟ اس سوال کے لئے ان کے پاس کوئی معقول جواب نہیں تھا تو کہنے لگے کہ انھیں پیوریفائی کیا جا تا ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ اس سے پہلے ہندووں میں "ستی پرتھا" کا رواج تھا ۔ اگر کوئی شوہرمرجا تا تو اس کے ساتھ اس کی بیوی کو بھی زندہ جلا دیا جا تا تھا تو وہ کس قسم کا پیوری فیکیشن تھا؟ یہ سن کر وہ خاموش ہوگئے۔
حالیہ دنوں سنگھ کے لیڈر نریندرمودی نے ایک انتخابی جلسے میں کانگریس کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ جب کانگریس کو نشانہ بنا یا جا تا ہے تو وہ اپنے آپ کو سیکولرزم کے برقع میں چھپا لیتی ہے۔ اس کے جواب میں کانگریس کے ایک لیڈر اجئے ماکن نے جواب دیا کہ سیکولرزم کا برقع کمیونلزم کی برہنگی سے بہتر ہے۔
{The Burqa of secularism is much better than naked communalism}
کانگریس کے اس جواب کے بعد بی جے پی سمیت پورا سنگھ پریوارخاموش ہوگیا۔ اس ایشو پر انھوں نے پھر کچھ نہیں کہا۔
کبھی کسی معاملہ پر طویل گفتگو کی ضرورت ہوتی ہے اور کبھی کسی معاملہ پر سیدھی بات ہی کافی ہوجاتی ہے۔ دانا آدمی کو حالات کے حساب سے فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ کہاں اسے تفصیلی گفتگو کرنی ہے اور کہاں اسے سیدھی بات کہہ کر بات کو ختم کر دینا ہے۔ یہ کام صرف علم سے نہیں ہو سکتا اس کام کے لئے وزڈم پلس (wisdom plus) کی ضرورت ہوتی ہے۔
مضمون نگار"امکانات کی دنیا" 'مظفرنگر کیمپ میں' اور 'موت کے اس پار' کے مصنف ہیں
ان کی کتابوں کو پڑھنے کے لئے رابطہ کریں
9990431086

منگل، 11 فروری، 2014

Worshiping God

پرستش اورموت

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال 632ء میں مدینہ میں ہوا۔ آپ کے انتقال سے اصحاب میں اضطراب پھیل گیا۔ حضرت عمرکاحال یہ تھا کہ آپ عالم وارفتگی میں فرماتے تھے کہ پیغمبراسلام کوموت نہیں آسکتی ۔ حضرت ابو بکرنے جب اس صورت حال کو دیکھا تو فرما یا عمر تم بیٹھ جاﺅ۔ لیکن جب عمر نے کچھ خیال نہیں کیا تو آپ الگ کھڑے ہوکرخود ہی تقریرکرنے لگے۔ جیسے ہی آپ نے اپنی تقریرشروع کی سارا مجمع آپ کی طرف ہمہ تن گوش ہوگیا اور حضرت عمر تنہا رہ گئے۔
آپ نے فرمایا”اگر لوگ محمد کی پرستش کرتے تھے تو بے شک وہ مر گئے اوراگر خدا کو پوجتے تھے تو بلا شبہ خدا وند زندہ ہے اوراسے کبھی موت نہیں آئے گی۔ پھرآپ نے قرآن کی یہ آیت تلاوت کی محمد صرف ایک رسول ہیں جن سے پہلے بہت سے رسول گزرچکے ہیں۔
یہ تقریراتنی موثرتھی کہ ہرایک کا دل مطمئن ہوگیا،خصوصاً جو آیت آپ نے تلاوت کی وہ ایسی با موقع تھی کہ اسی وقت زبان زدخاص وعام ہوگئی۔ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم ہم لوگوں کوایسا معلوم ہوا کہ گویا یہ آیت پہلے نازل ہی نہیں ہو ئی تھی۔
دیکھئے( بخاری باب مرض النبوی ووفاتہ)حضرت ابو بکر کے الفاظ یہ تھے: فمن کان یعبد محمدا فان محمدا قدمات
یعنی جو محمد کی پرستش کرتے تھے وہ جان لیں کہ محمد مر گئے۔ حضرت ابو بکر نے اس نازک موقع پرصحابہ کرام کے سامنے دو نہایت سخت قسم کے الفاظ استعمال کئے۔ پہلا لفظ تھا ”پرستش“ دوسرا لفظ ”موت"۔ آپ نے فرما یا جو لوگ محمد کی پرستش کرتے تھے تو جان لیں کہ محمد مر گئے۔ حالانکہ اس وقت صحابہ کی جماعت میں کوئی ایسا نہیں تھا جو کہ محمد کی پرستش کرتا ہو جیسا کہ آج کل دیکھنے کو ملتا ہے۔
حضرت ابو بکر کے یہ سخت الفاظ بتاتے ہیں کہ جب صورت حال نازک ہوجائے تو ضروری ہوجا تا ہے کہ لوگوں کے درمیان سے کوئی صالح اوردانا شخص اٹھے اوروہ لوگوں کے ساتھ اسٹوننگ کا معاملہ کرے۔ وہ ایسے سخت الفاظ استعمال کرے جو ایک ہی بار میں سب کی توجہ اپنی طرف مرکوز کرلے۔ وہ حق کو اس انداز میں پیش کرے کہ اس کے بعد حق کے بارے میں کوئی شبہ باقی نہ رہے۔
صحابہ کرام کے سامنے یہودونصاریٰ کے تجربات تھے۔ انھوں نے انھیں گمراہ ہوتے ہوئے دیکھا تھا ، جیسے ہی حضرت ابوبکر نے لوگوں کی توجہ اس جانب مبذول کرائی، صحابہ کرام کو بات فوراً سمجھ میں آگئی اور وہ اس طرح سرد ہوگئے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔
یہ صحابہ کا گروہ تھا؛ اب آپ آج کے مسلمانوں کو دیکھئے۔ ایک صاحب حضرت علی کو مشکل کشا بتا رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ وہ زندہ ہیں اور لوگوں کی پکار پر مشکل کشائی کے لئے آتے ہیں ۔ میں نے ان سے کہا کہ وہ تو چودہ سو سال پہلے کی بات ہے جب وہ زندہ تھے اب تو وہ مر گئے ہیں۔
لفظ "مرنا " ان پربہت شاک گزرا۔ وہ ایک دم سے بھڑ ک اٹھے اور لڑنے بھڑنے پرتیارہوگئے۔ وہ اس طرح پیش آئے جیسے ہم نے لفظ موت کا استعمال نہ کیا بلکہ واقعتاً ان کے کسی زندہ کو مار دیا۔ عجیب بات ہے کہ صحابہ جس لفظ پرسرد پڑجاتے تھے آج عین اسی لفظ پرمسلمان بھڑک اٹھتے ہیں.

بدھ، 5 فروری، 2014

Sacrifices of Salma Umm-ul-Khair


سلمیٰ ام الخیر کی قربانیاں اور انعام

اسلام سےپہلےحضرت ابوبکرصدیق ایک متمول تاجرتھے اورمکہ میں ان کی دیانت داری راستبازی اورامانت داری کاخاص شہرہ تھا۔ اہل مکہ ان کوعلم، تجربہ اورحسن خلق کی وجہ سے بہت احترام کی نگاہ سے دیکھتےتھے۔ ایام جہالت میں خوں بہا کا مال آپ ہی کے یہاں جمع ہوتا تھا اوراگرکسی دوسرے کے یہاں جمع ہوجا تا تو قریش اس کو نہیں مانتے تھے۔
حضرت ابو بکرجب ایمان لائے،اس وقت مسلمان مکہ میں بہت کم تھے اورکمزورتھےاس لئےبہت ڈرڈرکررہتے تھے۔ لیکن حضرت ابوبکرجب ایمان لائےتوان سے رہا نہ گیا اورانھوں نے پیغمبراسلام صل اللہ علیہ وسلم سے اجازت لےکرکھلےعام قریش کودین اسلام کی دعوت دینی شروع کردی۔ آپ نے قریش سے مطالبہ کیا کہ وہ بتوں کوچھوڑکرخدا وند کی بادشاہت میں آجائیں۔ کفارومشرکین آپ کےاس مطالبہ پربہت برہم ہوئے اورانھوں نےآپ کو بہت مارا پیٹا۔ انھوں نے آپ کو اس قدرزخمی کردیا کہ با وجود مشرک ہونے کے آپ کے قبیلہ تیم کے ایک شخص کوآپ پررحم آگیا اوراس نے آپ کو ظالموں کے ہاتھوں سےچھڑاکرگھرپہنچایا۔ تاہم آپ گھرپربھی خاموش نہیں بیٹھے۔ رات بھراپنے گھروالوں کو دین کی دعوت دیتے رہے۔ صبح ہوئی تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کا پتہ لے کراپنی والدہ حضرت ام الخیرسلمیٰ بنت صخرا کے ساتھ ارقم بن رقم کے مکان میں آئےاورپیغمبراسلام سے فرمایا کہ یہ میری ماں ہیں انھیں راہ حق کی ھدایت کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اسلام کی دعوت دی اوروہ اسلام میں داخل ہوگئیں۔
حضرت ابو بکرایک ایسے وقت میں اسلام میں داخل ہوئے جب کہ اسلام ایک اجنبی مذہب بنا ہوا تھا۔ ایسے وقت میں ایمان لانے کا مطلب تھا اپنا سب کچھ برباد کرلینا۔ اپنے دوستوں کو دشمن بنالینا، اپنے کاروبارکو تباہ کرلینا، اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کوکھودینا۔ لیکن اللہ کے دین کے لئے ابو بکرنے یہ قربانی دی اورایسے نازک وقت میں آپ نے اپنی ماں کو اپنے ساتھ پایا جب کہ دنیا آپ کی دشمنی پرتلی ہوئی تھی۔ یہ کسی عورت کی طرف سے ایک اجنبی مذہب کے لئے بہت بڑی قربانی تھی۔
اللہ پاک نے آپ کو اس قربانی کا بدلہ اس طرح دیا کہ آپ نے بہت طویل عمر پائی ۔ آپ کی زندگی میں ہی دین غالب ہوگیا اورآپ نے اپنے بیٹے ابو بکرکو خلیفہ کے مقام پر فائز ہوتا ہوا دیکھا۔ یہ درحقیقت دنیا میں ہی ایک انعام تھا جواس خاتون کو دیا گیا تھا، جس نے اسلام کے لئے بہت بڑا رسک مول لیا تھا۔ ام سلمیٰ نے اپنے بیٹے کی مدد اس وقت کی تھی جبکہ وہ ایک اجنبی مذہب پرایمان لےآیا تھا۔ اللہ پاک نے آپ کو زندہ رکھ کردکھا یا کہ ان کا اوران کے بیٹے کا فیصلہ صحیح تھا اورانھوں نے ایک صحیح چیزکے لئے قربانیاں دی تھیں۔
اس امرکا ایک واضح اشارہ ہمیں حضرت موسیٰ کی ماں کے اس واقعہ میں ملتا ہے جب کہ خدا وند نے موسیٰ کو ان کی ماں کی طرف پلٹا دیا تاکہ اس خاتون کو معلوم ہوجائے کہ خدا وند کا وعدہ سچا تھا اوراس کے دل کو سکون حاصل ہو۔
قرآن میں ہے: " اوراس طرح  ہم موسیٰ کواس کی ماں کے پاس پلٹا لائے تاکہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور وہ غمگین نہ ہو اورجان لے کہ اللہ کا وعدہ سچا تھا۔ مگراکثر لوگ اس بات کو نہیں جانتے۔" سورہ القصص(28:13)
یہ ایک واقعہ ہے جو بتارہا ہے کہ اگر کوئی بندہ خدا صدق دل سے خدا وند کے لئے اپنی قربانیاں پیش کرے تو وہ پائے گا کہ خدا وند نے اسےاس سے زیادہ لوٹا دیا جتنا کہ اس نے خدا وند کی راہ میں لگایا تھا۔