ہفتہ، 6 دسمبر، 2014

Jews exodus from Europe and opportunities for Muslims

یہود کا اسرائیل سے انخلا اور مسلمانوں کے لئے مواقع


محمد آصف ریاض

دوسری جنگ عظیم کے دوران یہود یوں کوعیسائیوں کے ہاتھوں زبردست اذیت کا شکارہونا پڑا تھا۔ اعداد و شمارکے مطابق نازیوں نےساٹھ لاکھ یہود یوں کو قتل کیا تھا۔ اس قتل عام کے بعد فطری طورپرجنگ تھم گئی تھی اورعیسائیوں میں یہود کے تئیں سیکنڈ تھاٹ پیدا ہوا تھا۔
جنگ عظیم دوئم کے خاتمہ پرعیسائیوں نے بہترسمجھا کہ یہود کوایک بارپھرکہیں بسایا جائے چونکہ یوروپ میں ہرطرف یہود مخالف ماحول قائم تھا اس لئےاس وقت کی عیسائی طاقتوں برطانیہ ، جرمنی اور فرانس وغیرہ نے یہ بہترسمجھا کہ یہود کو یوروپ سے نکال کر فلسطین میں بسا دیا جائے ۔ چنانچہ 1948 میں یہود کو یوروپ سے نکال کر فلسطین میں یعنی عالم اسلام کے قلب میں بسا دیا گیا۔
فلسطین میں یہود کی آبادکاری سے پوری دنیا کے مسلمان بھڑک اٹھے۔ انھوں نے یہود کے وجود کوعالم اسلام  کے لئے خطرہ قراردیا۔ انھوں نے یوم اسرائیل کو یوم نکبہ یعنی (Day of the Catastrophe)  کا نام دیا۔ آج بھی ساری دنیا کے مسلمان یوم اسرائیل کو یوم نکبہ ( بڑا المیہ) قرار دیتے ہیں۔
مسلمانوں نے یہود کی آباد کاری کے معاملہ کو صرف ایک پہلو سے دیکھا اورافسوسناک بات یہ ہے کہ وہ آج تک فلسطین میں یہود کی آباد کاری کواسی پہلوسے دیکھتے ہیں۔ اسرائیل کے قیام میں مسلمانوں نے صرف اپنے نقصان کو دیکھا۔ وہ اس معاملہ میں اپنے فائدے کو نہ دیکھ سکے۔
مسلمانوں نےاسرائیل کے وجود کوعالم عرب کے قلب میں دیکھ کر یہ گمان کرلیا کہ ان کا محاصر ہوچکا ہے۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصررہے کہ خود یہود مسلمانوں کے محاصرے میں آ گئے ہیں ۔ اب وہ چاروں طرف سے مسلم ممالک کے نرغے میں ہیں۔ اب وہ جہاں جو جی میں آئے کرنے کے لئے آزاد نہیں ہیں۔ اب عملاً ان کے ہاتھ پائوں بندھے ہوئےہیں۔
مثلاً اسرائیل کے شمال میں لبنان اور اردن، شمال مشرق میں سیریا، مغربی کنارہ اورغازہ پٹی واقع ہے۔ اسی طرح مشرق اور جنوب مشرق میں مصراورخلیج العقبہ واقع ہے۔ یعنی اسرائیل چاروں طرف سے مسلم ممالک سے گھرا ہوا ہے۔ یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہود مسلمانوں کے نرغے میں ہیں ناکہ مسلمان  یہود کے نرغے میں ۔ اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک یہودی مفکر  Sebastian Vilar Rodrigez نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے :


The Jews are leaving Europe not because the Jihadists are coming, but because they are here, dwelling among us. They hate Israel and they loathe Jews, but we say almost nothing and do very little. Instead, we let the Jews emigrate to Israel, and they are doing so in their thousands every year. They may be surrounded there on all sides by the enemies of Zionism. But at least they have a government which will not hesitate to protect and defend them۔


" یہودی یوروپ سے نقل مکانی کر رہے ہیں ، اس لئے نہیں کہ یہاں جہادی (مسلمان ) آرہے ہیں بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ وہ یوروپ میں آکر ہمارے درمیان رہ رہے ہیں۔ وہ اسرائیل سے نا پسندیدگی کی حد تک نفرت کرتے ہیں ۔ لیکن ہم ہیں کہ ان کےخلاف کچھ بھی نہیں کر پاتے اور اگر کچھ کرتے بھی ہیں تو وہ بہت کم  ہے۔ ہم یہود کو یوروپ سے نقل مکانی کرنے کی چھوٹ دے چکے ہیں۔ ہرسال ہزاروں کی تعداد میں یہودی یوروپ چھوڑ کر اسرائیل جا رہے ہیں۔ بلا شبہ وہاں وہ ہرطرف سے دشمنوں سے گھرے ہوئے ہیں تاہم اطمینان کی بات یہ ہے کہ وہاں ایک حکومت ہے جو یہود کے تحفظ میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی ہے"
   1948 سے پہلے کی صورت حال یہ تھی کہ یہود ایک عالمی کمیو نٹی تھی۔ وہ پوری دنیا میں پھیلی ہوئی تھی۔ تاہم جب اسے فلسطین میں لاکربسا دیا گیا تواچانک وہ ایک علاقائی کمیونٹی بن کررہ گئی ۔ انھوں نے اپنے آپ کو چاروں طرف سے مسلمانوں کے درمیان گھرا ہوا پا یا تو اپنی آبادی کو بڑھا نے کے لئے انھوں نے ساری دنیا کے یہود کواسرائیل میں بلا لیا۔ اس سے انھیں یہ فائدہ تو ہوا کہ اسرائیل کی آبادی میں کچھ  اضا فہ ہوگیا لیکن نقصان یہ ہوا کہ ساری دنیا یہود سے خا لی ہوگئی ۔ اب یہود عالمی پلیئر نہ رہ کرعلاقائی پلیئر بن گئے۔
ساری دنیا کے یہود جب اسرائیل میں آکرجمع ہوگئےتودوسرے لفظوں میں وہ مسلمانوں کے محاصرے میں آگئے۔ یہود کے ایک جگہ جمع ہونے سے مسلمانوں کو سب سے بڑا فائدہ یہ ملا کہ وہ یہود کی عالمی سازش سے بچ گئے۔ اٹھارہویں صدی اور اس سے پہلے عالم یہ تھا کہ مسلمان دنیا میں جہاں کہیں جاتے تھے انھیں یہود کی سازشوں سے دوچار ہونا پڑتا تھا۔ وہ جس خطے میں بھی جاکرآباد ہوتے تھے وہاں کے یہود مسلمانوں کے خلاف آسمان سرپراٹھا لیتےتھے۔ وہ دوسری قوموں خاص طورسے عیسائیوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکا دیتے تھے۔ یہود کی ان سازشوں کی وجہ سے اسپین سے مسلمانوں کا انخلا ہوا۔ یہود کی انھی سازشوں کی وجہ سے یکم نومبر 1922 کو عثمانی خلافت کا خاتمہ ہوا۔
خلافت عثمانیہ کے خاتمہ  کے بعد مسلمانوں کے لئے یہ مشکل ہوگیا تھا کہ وہ ان علاقوں کو اپنا مسکن بنائیں جہاں مسلمان سرے سے موجود نہ ہوں یا ہوں تو برائے نام ہوں ۔ یہود انھیں کہیں بھی آسانی سے بسنے نہیں دیتے تھے۔ مثلاً ان کے لئے یوروپ میں آباد ہونا بڑا مشکل امرتھا کیونکہ یہاں یہود کا بڑا دبدبہ تھا۔
خدا کا منصوبہ
اس زمین پرخدا کا منصوبہ یہ ہے کہ زمین پربسنے والا ہرانسان خدا کے پیغام کو جان لے۔ وہ خدا کی معرفت حاصل کر لے۔ اس کام کے لئے خدا نے ہر دور میں نبیوں اوررسولوں کومبعوث فرمایا۔ سب سے آخر میں پیغمبر اسلام کی بعثت ہو ئی پھرخدا نے ان کی امت اور قرآن کو ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دیا تاکہ ہر گھر میں خدائی کلمہ داخل ہوجائے۔ خدا کے اس منصوبہ کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
'لایبقی علی ظھر الأرض بیت مدر ولا وبر لا أدخلہ اللہ کلمة الاسلام بعز عزیز أوذل ذلیل ما یعزھم اللہ عزوجل فیجعلھم من أھلھا أو یذلھم فیدینون لھا.'' (مسند أحمد: ٢٣٦٣٩' مؤسسة الرسالة' الطبعة الثانیة' ١٩٩٩ء)
'' زمین کی پشت پر کوئی کچا یا پکا مکان باقی نہ رہے گا لیکن اللہ تعالیٰ اس میں اسلام کے کلمہ کو داخل کر دے گا، عزت والے کی عزت کے ساتھ اور ذلیل کی ذلت کے ساتھ' ۔
تاریخ کا سبق بتاتا ہے کہ خدائی منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کی راہ میں یہود سب سے بڑی رکاوٹ تھے۔ انھوں نے کئی نبیوں اور رسولوں کو قتل کیا۔ جب یہود کی سفاکی حد سے بڑھ گئی تو خدا نے یہود کو ایک جگہ سے دوسری جگہ ہٹا نا شروع کر دیا۔ اسی خدائی پروسس کے نتیجہ میں یہود یوروپ سے نکالے گئے تاکہ اہل یوروپ کے ہرگھر میں خدائی کلمہ داخل ہو سکے۔ اب جبکہ یوروپ سے یہود کا حتمی انخلا ہوچکا ہے تو صورت حال یہ ہے کہ یہاں کے ہر گھر میں خدائی کلمہ بڑی تیزی سے داخل ہو رہا ہے۔ یہود کے انخلا کے فوراً بعد یوروپ کا دروازہ اسلام کے لئے کھل گیا۔ آج صورت حال یہ ہے کہ یوروپ کا کوئی شہرنہیں ہے جہاں سے اللہ اکبر کی صدائیں بلند نہ ہوتی ہوں۔
اس واقعہ کو ایک یہود مفکر Sebastian Vilar Rodrigez نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
 " یوروپ نے ساٹھ لاکھ یہودیوں کواس لئے قتل کردیا تاکہ ان کی جگہ وہ دوکروڑ مسلمانوں کو آدباد کرسکیں۔"
Europe Killed Six Million Jews and Replaced them with 20 Million Muslims !
یوروپ آج توحید کا گہوارہ بن چکا ہے۔ یہاں ہر دن سینکڑوں کی تعداد میں لوگ اسلام قبول کر رہے ، اسی رفتار کو دیکھتے ہوئے کچھ شر پسند یہودیوں نے اسے یوروپ Europe کی جگہ Eurabia  یعنی عرب کہنا شروع کر دیا ہے۔  
یوروپ کے چند شہروں میں آباد مسلمانوں سے متعلق اعدادو شماریہاں پیش کئےجاتےہیں:مزید جانکاری کے لئے اس لنک پر کلک کریں::
http://en.wikipedia.org/wiki/List_of_cities_in_the_European_Union_by_Muslim_population