ہفتہ، 6 اکتوبر، 2012

Do not take everything as Islam phobia


ہر معاملہ کو اسلامو فوبیا کی نگاہ سے نہ دیکھیں 


محمد آصف ریاض

سوٹزر لینڈ کی پارلیمنٹ نے 28 ستمبر 2012 کوعوامی مقامات پر برقعہ پر پابندی لگانے کی اپیل کو مسترد کردیا ہے۔ برقعہ پر پابندی کے حق میں 87 ممبران پارلیمنٹ نے ووڈ دئے جبکہ اس کے خلاف 93 ممبران نے ووٹنگ کی۔

2001 کے اعداد شمار کے مطابق سوئٹزر لینڈ میں مسلمانوں کی تعداد 310,807 تھی جو 2009 میں بڑھ کر 4لاکھ ہوگئی۔

برقعہ پر پابندی کے خلاف حکومت کے فیصلہ کا دفاع کرتے ہوئے ایک رکن پارلیمنٹ مسٹر مسٹر ہگ ہلٹ پولڈ {Hugues Hiltpold }نے کہا کہ برقعہ پر پابندی لگانا ایک قسم کی شدت پسندی ہوگی اور اس سے مسلم ممالک سے آنے والے سیا حوں کا سوئٹزر لینڈ کے بارے میں منفی ذہن بنے گا۔

Speaking against the ban, Hugues Hiltpold of the Free Democratic Partystated, "[t]he wearing of these kinds of garments for religious reasons does not pose real problems in daily life, since the practice is not very common in the Swiss Muslim community," and he added that such a ban could give Muslim tourists visiting Switzerland a negative view of the country

عجیب بات ہے کہ سوئٹزر لینڈ کی پارلیمنٹ نے نقاب پر پابندی نہ لگانے کا فیصلہ کیا ہے اس کے بر عکس اس کے ایک پڑوسی ملک فرانس کی پارلیمنٹ نے نقاب پر پابندی لگادی ہے۔

یہ دونوں عیسائی مما لک ہیں لیکن نقاب کے بارے میں دونوں کی رائے میں اختلاف ہے۔ ایک نے نقاب کے حق میں فیصلہ لیااور دوسرے نے نقاب کے خلاف۔
اصل بات یہ ہے کہ سوئٹز لینڈ کی معیشت کا انحصار بڑی حد تک سیاحت پر ہے۔ یہاں بڑے پیما نے پر ترکی اور عرب ممالک سے مسلم سیاح آتے ہیں۔ اس طرح وہ سوئٹزر لینڈ کی معیشت کو تقویت پہنچاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہاں مسلمان گیونگ کمیو نٹی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن فرانس میں وہ رسیونگ اینڈ پر ہیں اس لئے فرانسیسی حکومت انھیں ایک بوجھ سمجھتی ہے اور انھیں کوئی خاص اہمیت نہیں دیتی۔

مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہر معاملہ کو اسلامو فوبیا کی نگاہ سے نہ د یکھیں اور نہ اسے مذہبی تعصب پسندی پر محمول کریں کیونکہ اس دنیا میں بہت سارے معاملات معیشت سے جڑے ہوتے ہیں انھیں معاشی پس منظرمیں ہی دیکھنا چاہئے۔ انھیں مذہبی پس منظر میں دیکھنا نادانی پر جہالت کا اضافہ کرنا ہے۔

اس واقعہ کا دوسرا سبق یہ ہے کہ مسلمانوں کو ہر حال میں دینے والی کمیو نٹی بن کر رہنا چاہئے۔ اگر وہ لینے والی کمیونٹی بنیں گے تو وہ اپنی اہمیت اپنی عزت وقار سب کھودیں گے۔

اب آپ کہیں گے کہ ہر جگہ مسلمان کس طرح دینے والی کمیونٹی بن سکتے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مسلمانوں کے پاس قرآن کی شکل میں خدا کی یونیورسل کتاب ہے وہ اس کتاب کا پیغام لوگوں کو دیں یہی سب سے بڑا دینا ہوگا۔ خدا ئی کتاب ایک نظریاتی کتاب ہے اور آج کی اس دنیا میں جس چیز کی سب سے زیادہ کمی ہے وہ صالح اور مقدس نظریہ ہے۔ مسلمان اس صالح نظریہ کو پھیلا کر پوری دنیا میں عزت و وقار حاصل کر سکتے ہیں۔


قرآن شریف میں ہے " آپ ان لوگوں کو ڈرائیں جن کے باپ دا دا کو ڈرا یا نہیں گیا۔" {36:6}

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں