جمعہ، 15 جنوری، 2016

گھر واپسی ممکن ہے؛ لیکن یہ واپسی نئے گھرمیں بھی ہوسکتی ہے

گھر واپسی ممکن ہے؛ لیکن یہ واپسی نئے گھرمیں بھی ہوسکتی ہے
محمد آصف ریاض
جب سے بی جے پی حکومت میں آئی ہے، ہرطرف گھرواپسی کا غلغلہ ہے۔ آرایس ایس ، وشو ہندو پریشد اور ہندو مہا سبھا نامی  منووادی تنظیمیں ہرطرف گھرواپسی کا شورمچا رہی ہیں۔
گھرواپسی کے اس شورنے برادران وطن کو خاص طورسے دلتوں، آدی واسیوں اوراوبی سیزکوجنھیں ورن ویوستھا میں" شودر" کہا جا تا ہے، یہ سوچنے پرمجبورکردیا کہ آخر یہ مسلمان کون ہیں اوراگروہ گھر واپسی کریں گے تو کس گھر میں جائیں گے؟
مسلمانوں کے بارے میں ان کی ڈسکوری نے انھیں بتایا کہ یہ مسلمان کوئی دوسری مخلوق یا کوئی ایلین نہی ہیں، جیسا کہ منو وادی ان کے بارے میں انھیں بتا تے ہیں، بلکہ یہ مسلمان بھی انھیں دلتوں آدی واسیوں اوراو بی سیز کے گوشت پوست کا حصہ ہیں۔ وہ بھی انھیں کے بھائی بندھو ہیں۔
اپریل 2014 کو جب کہ موجودہ وزیراعظم مسٹرمودی اپنی انتخابی ریلیوں میں مصروف تھے، اس دوران مجھے پٹنہ جانے کا موقع ملا۔ اس سفر میں ایک ہندو جوڑے سے ملاقات ہوئی ۔ اس نے مجھے بتا یا:
"مسلمان کون ہیں؟ مسلمان میرے ہی بھائی ہیں۔ وہ میرے ہی گوشت پوست کا حصہ ہیں ۔ ہم دو بھائی تھے ایک کو اسلام پسند آیا تواس نےاسلام قبول کر لیا اور ہم ہندو رہ گئے ۔ اب اگر کوئی میرے بھائی کو مارے گا، یا اسے برا بھلا کہے گا تو کیا ہم چپ بیٹھے دیکھتے رہیں گے؟ ہر گز نہیں۔" جب وہ بول رہا تھا تو اس کی بیوی وہیں بیٹھ کراسے بغور سن رہی تھی اورمیں مسکرا رہا تھا۔ مجھے محسوس ہوا کہ آج ایک بھائی نے دوسرے بھائی کو پہچان لیا۔ اوراس کے لئے ہمیں ان منو وادیوں کا شکریہ ضرور ادا کرنا چاہئے جو گھر واپسی کی مہم چلا رہے ہیں۔
اب ایک دوسرا واقعہ سنئے۔ 9 جنوری 2016 کومیں اپنی بیوی اوربچوں کے ساتھ دہلی کتاب میلہ میں گیا ہوا تھا۔ میں بذریعہ آٹو وہاں گیا تھا۔ راستے میں ڈرائیورسے بات چیت ہونے لگی ۔ یہ ڈرائیور یوپی کے متھرا شہرکا رہنے والا تھا۔ اس نے بات چیت کے دوران مجھ سے جو کچھ کہا اسے میں یہاں نقل کرتا ہوں۔ اس نے کہا: 
"ہندوستان میں بہت کم مسلمان باہرسے آئے ہیں۔ یہ یہاں کے دلت آدی واسی، اوراوبی سیزتھے جھنوں نے منووادیوں کی تھوپی ہوئی سماجی نا برابری، ظلم اورجہالت کے خلاف آوازبلند کی اوراسلام دھرم کو اپنا لیا۔ وہ میرے بھائی بندھو ہیں۔ اورمنو وادی ان سے اسی لئے نفرت کرتے ہیں کیوں کہ وہ ہم میں سے ہیں۔"
میں سوچنے لگا کہ ہرعمل کا ایک رد عمل ہو تا ہے۔ اورمنو وادیوں نے جس زور شور سے گھر واپسی کا ہنگامہ کھڑا کیا ہے اس سے برادران وطن میں (منو وادیوں کو چھوڑ کر) یہ پیغام گیا کہ وہ مسلمانوں کے بارے میں از سر نو جانکاری حاصل کریں اوراس جانکاری نے انھیں بتا یا کہ مسلمان دوسرے نہیں ہیں وہ انھیں ہندوئوں میں سے ہیں جنھیں منو وادی شودریا انٹچیبل کہتے ہیں۔
گھر واپسی کا معاملہ
بلا شبہ منو وادیوں نے گھر واپسی کا معاملہ اٹھا کر بہت  بڑی غلطی کی ہے۔ وہ یہ بھول رہے ہیں کہ مسلمان ان کی نگاہ میں ایلین ہوسکتے ہیں لیکن وہ عام ہندوئوں کی نگاہ میں ایلین یا کوئی اجنبی مخلوق نہیں ہیں۔ گھر واپسی کے امکان سے کسی کو انکار نہیں ہے لیکن یہ واپسی پرانے گھر میں ہی ہو یہ ضروری نہیں ہے ، یہ واپسی نئے گھر میں بھی ہو سکتی ہے۔ کیونکہ ایسا  دیکھا گیا ہے لوگ بہت مشکل سے اپنے لئے ایک نیا گھر بناتے ہیں اورجب کوئی نیا گھر بنا لیتا ہے تو پھروہ پرانے گھرمیں واپس جا نا پسند نہیں کرتا۔ چنانچہ اس بات کا امکان کافی بڑھ گیا ہے کہ مسلمانوں کےوہ بھائی جو اپنے پرانے گھرمیں رہ گئے ہیں، وہ اپنے بھائی کے نئے گھرکے دروازے پردستخط دینا شروع کردیں۔ یعنی واپسی ہو گی۔ لیکن یہ واپسی نئے گھر کی طرف ہوگی ۔ اوراگرایسا ہوا تو یقیناً منووادیوں کو بڑی تکلیف ہوگی اوراس تکلیف کے لئے وہ خود ہی ذمہ دار ہوں گے۔
ایک مثال:
امرائو سلودیا 1978 بیچ کے آئی ایس آفیسر ہیں۔ قانون کے مطابق انھیں 31 دسمبر2015 کو راجستھان چیف سکریٹری کے عہدے پر فائز ہوجا نا تھا اوراگر ایسا ہوتا تو وہ ریاست کے پہلے دلت چیف سکریٹری ہوتے۔ لیکن سلودیا کو پرموشن نہیں دیا گیا اوران کی جگہ موجودہ چیف سکریٹری کی مدت میں توسیع کر دی گئی۔ ایسا اس لئے کیا گیا کیونکہ سلودیا دلت تھے۔ سلودیا کو یہ بات ناگوار گزری اورانھوں نے بے انصافی کے خلاف لڑتے ہوئے مسلمان بن جانے کا اعلان کردیا۔ دی ہندواخبار نے اس واقعہ کی رپورٹنگ ان الفاظ میں کی ہے:  
After being denied the promotion that would make him the State’s Chief Secretary, senior IAS officer Umrao Salodia, a 1978 batch IAS officer from the Dalit community, on Thursday, appealed to Chief Minister Vasundhara Raje for Voluntary Retirement. Mr. Salodia, who alleged the Raje government of “victimising him on the basis of caste” also converted to Islam, on Thursday
مسٹر سلودیا کا یہ واقعہ بتا رہا ہے کہ گھر واپسی کی مہم منووادیوں کے لئے الٹی بھی  پڑسکتی ہے۔ جو لوگ یہ مہم چلا رہے ہیں انھیں جاننا چاہئے کہ وہ کسی کواس کے نئے گھرسے نکال کرواپس پرانے گھر میں نہیں دھکیل سکتے، اور نہ ہی وہ کسی کو نیا گھر بنانے سے روک سکتے ہیں۔

ہفتہ، 9 جنوری، 2016

نرمی باقی رہنے والی چیز ہے اور سختی باقی نہیں رہتی

نرمی باقی رہنے والی چیز ہے اور سختی باقی نہیں رہتی
محمد آصف ریاض
جنوری 2016 کو نئی دہلی میں کچھ  لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ وہ ایک معا ملہ پراپنی بے چینی کا اظہار کررہے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ صبرکیجئے کیونکہ اللہ تعا لیٰ صبرکرنے والوں کے ساتھ۔ ہے۔ میں نے انھیں قرآن کی یہ آیت پڑھ کرسنائی۔ فصبركَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ " پس اے نبی صبر کرو جس طرح اولو العزم رسولوں نے صبر کیا"۔ 46:34  
میری اس بات پرایک صاحب بھڑک اٹھے اورکہنے لگے کہ آدمی کب تک صبر کرے گا؟ وہ کب تک بچ بچ کرچلتا رہے گا؟ میں  نے جواب دیا کہ اسی کا نام تقویٰ ہے۔ پھرمیں نے انھیں حضرت عمرکا ایک واقعہ سنا یا ہے۔
ایک مرتبہ حضرت عمر بن خطاب نے حضرت ابی بن کعب سے تقویٰ کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے پوچھا کہ اے کعب تقویٰ کیا ہے؟ حضرت کعب نے جواب ديا امیرالمومنین آپ کبھی خار دار وادیوں سے گزرے ہیں ؟ جواب ملا ہاں! أبی بن کعب نے پوچھا : کس طرح گزرے ؟ حضرت عمرنے جواب دیا: دامن کوبالکل سميٹ لیا تھا اور بچ بچ کر چلتا تھا، حضرت کعب نے فرمایا اے امیرالمومنین یہی تقویٰ ہے۔ ( تفسير ابن کثير : 1/43)
اصل بات یہ ہے کہ یہ دنیا ناساز گار حالات سے بھری پڑی ہے اوران ناساز گارحالات سے بچ بچ کر نکل جانے کا نام تقویٰ ہے۔ لیکن میری ان باتوں کا میرے سامعین پر کوئی اثرنہیں پڑا۔ وہ اب بھی اپنی بے صبری کا مظاہرہ کر رہے تھے۔
اس دوران ایک بوڑھے شخص نے ایک اوربات کہی جو مجھے پسند آئی۔ اس نے کہا کہ انسان کے پاس منھ ہے۔ اس میں زبان بھی ہے اور دانت بھی۔ زبان نرم ہوتی ہے اوردانت سخت۔ لیکن جب انسان بوڑھا ہوکرمرجا تا ہے تو اس کے سارے دانت جھڑ جاتے ہیں لیکن اس کی زبان باقی رہ جاتی ہے۔۔ اس سے معلوم ہوا کہ نرمی باقی رہنے والی چیز ہے اور سختی باقی نہیں رہتی۔
اس بوڑھے شخص کی بات سن کر مجھے قرآن کی یہ آیت یاد آگئی۔
فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا، إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا : یعنی  مشکل کے ساتھ آسانی ہے؛ پس یقیناً مشکل کے ساتھ آسانی بھی ہے۔