جمعرات، 25 اکتوبر، 2012

And we have set therein a glowing lamp


لوگو،آنکھیں کھولو، دیکھو خدا وند نے زمین وآسمان کو روشن کردیا ہے

 9اکتوبر 2012 کو طالبان کے مبینہ انتہا پسندوں نے 14سالہ ملالہ یوسف زئی کو گولی مارکر زخمی کردیا۔ ملالہ پاکستان کے سوات ضلع میں واقع قصبہ منگورہ کی رہنے والی ہیں۔ ملالہ کی پیدائش 12 جولائی 1997 کو ہوئی۔ ان کا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے11 سال کی عمر میں بی بی سی کے ڈیمانڈ پراسٹّو ری کے لئے "گل مکئی" کے فرضی نام پر بی بی سی کو کچھ خام مٹیریل دستیاب کرایاتھا۔
ملالہ پرحملہ بلاشبہ انسانی حقوق سے بڑھ کر بچوں کے حقوق پرحملہ تھا کیوں کہ جس وقت انھیں گولی ماری گئی اس وقت ان کی عمر محض چودہ سال تھی۔ اس لحاظ سے پوری دنیا میں ان پر ہونے والے حملہ کی مذمت ہوئی، یہاں تک کہ امریکی صدر نے بھی اس واقعہ کی مذمت کی اور پھر ملالہ کو لندن لے جا یا گیا جہاں وہ زیرعلاج ہیں۔
ملا لہ پر رپورٹنگ کرتے ہوئے ایک ہندوستانی اخبار نے اس طرح کی سرخی لگائی۔
"ملالہ آںکھیں کھولو، دیکھو تمہاری جلائی ہوئی قندیل سے ساری دنیا میں چراغ چلنے شروع ہوگئے ہیں"۔
بر صغیر کے مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ شاعری ہے
پتہ نہیں وہ قندیل کہاں ہے اورکوئی نہیں جانتا کہ وہ چراغ جلانے والے کہاں ہیں۔ "ملالہ آنکھیں کھولو،تمہاری جلائی ہوئی قندیل ساری دنیا میں جراغ جلنے شروع ہوگئے ہیں۔"
یہ سرخی حقیقت واقعہ سے زیادہ شاعری ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ شاعری ہے۔ یہاں کے پڑھے لکھے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد شاعر ہے اور جو اپنے آپ کو نثر نگار کہتے ہیں وہ بھی درحقیقت شاعرہیں، ان کی شاعری کوآپ "نثری شاعری" کہہ سکتے ہیں۔ میں یہاں آپ کو ایک مثال دوں گا۔
ملالہ کے ہی واقعہ پر ایک ہندوستانی مضمون نگار سہیل انجم کی تحریر شائع ہوئی ہے۔ "وہ اپنی تحریر کی ابتدا ان الفاظ سے کرتے ہیں۔
 "ملالہ یوسف زئی – یہ نام آج پوری دنیا میں امن کی علامت بن گیا ہے۔ کوئی اسے ننھی کلی کہہ رہا ہے تو کوئی امن کا فرشتہ، کوئی انسانیت کا نقیب کہہ رہا ہے تو کوئی مظلوموں کے لئے امید کی کرن۔ لیکن یہ ننھی کلی اس وقت موت زیست کی کشمکش میں گرفتار ہے اور امن و انسانیت میں یقین رکھنے والوں کے لئے دعائوں کا طلبگار۔" }سیاسی تقدیر نئی دہلی13 اکتوبر  {2012
آج اگرہمارے ملک میں اردو زبان روبہ زوال ہے تو اس میں غیروں کی سازش سے زیادہ اردو کے ادیبوں کا ہاتھ ہے۔ ان کے پاس کہنے کے لئے کچھ نہیں ہوتا۔ ان کے یہاں شبدوں کے جنجال کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کا پڑھا لکھا طبقہ اپنے بچوں کو اردو نہیں پڑھاتا۔
"ملالہ آنکھیں کھولو، دیکھو، تمہاری جلائی ہوئی قندیل سے ساری دنیا میں چراغ جلنے شروع ہوگئے ہیں۔" یہ وہ بیان ہے جو کہیں واقعہ نہیں بنا۔ یہ صرف مضمون نگار کے ذہن میں واقعہ بناہے۔ یہ شاعری ہے اور شاعری کی بنیاد جھوٹ پر ہوتی ہے۔ اور جھوٹ گمراہی ہے۔
البتہ ایک اور واقعہ خدا کی اس زمین پر ہر روز ہورہا ہے۔ لیکن کہیں اس کی خبر نہیں بن رہی ہے۔اگر اس واقعہ کی خبر بنائی جائے تو اس کی سرخی اس طرح ہوگی۔
"لوگو،آنکھیں کھولو، دیکھو، خدا وند نے زمین وآسمان کو روشن کردیا ہے۔"
اگراس قسم کی سرخی کے ساتھ کوئی رپورٹ تیار ہو تو بلا شبہ یہ ایک حقیقت واقعہ کا بیان ہوگا کیوںکہ خداوند ہر روز سورج کے ذریعہ زمین وآسمان کو روشن کرتا ہے تاکہ  زمین پرانسانی سرگرمیاں باقی رہیں۔
قرآن کاارشاد ہے:
 "اور تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان قائم کئے۔ اور ایک نہایت روشن اور گرم چراغ پیدا کیا۔"{78: 12-13}
"بڑا متبرک ہے وہ جس نے آسمان میں برج بنائے اور اس میں ایک چراغ اور ایک چمکتا چاند روشن کیا۔" { 25: 61}
"کیا دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کس طرح سات آسمان تہہ بہ تہہ بنائےاور ان میں چاند کو نور اور سورج کو چراغ بنایا؟"
{71: 15-16}
خداوند نے زمین کو روشن کر نے کے لئے سورج بنایا۔ لیکن صرف سورج کو بنادینا ہی کافی نہیں تھا۔ سورج کو مینیج کرنا بہت بڑا کام تھا۔ خدا وند ہر روزسورج کو مینیج کررہا ہے۔ وہ زمین کو چوبیس گھنٹے میں اس کے محور پر ایک بار نچا دیتا ہے۔جس کی وجہ سے کہیں دن ہوتا ہے اور کہیں رات ہوتی ہے۔ اگر زمین کو خداوند اس کے محور پر نہ نچا تا توکہیں صرف رات ہوتی اور کہیں صرف دن ہوتا۔ کہیں صرف تاریکی ہوتی اور کہیں صرف روشنی ہوتی۔ ایسی حالت میں زمین پر انسانی زندگی خطرے میں پڑ جاتی کیوں کہ دونوں صورتوں میں زمین اپنی زرخیزی کو کھودیتی۔کہیں انسان روشنی میں مرتا اور کہیں تاریکی میں۔ خدا نے اس صورت حال سے بچائوکے لئے ایک الٹی میٹ انتظام کیا۔ وہ زمین کو اس کے محور پر ہر روز نچا رہا ہے تاکہ زمین پر زندگی باقی رہے۔
زمین پر اتنا بڑا واقعہ انسان کی نگاہ کے سامنے ہر روز ہورہا ہے اور اسی واقعہ کی وجہ سے زمین پر انسان کی زندگی باقی ہے لیکن کوئی نہیں جو اسے خبر بنائے۔ انسان ایک واقعہ کو بطور واقعہ پیش کرنے کے لئے تیار نہیں ہے البتہ وہ ہر اس چیز کو بیان کر رہا جو کہیں واقعہ نہیں بنا۔
انسان سچ کو چھوڑ کر جھوٹ کا طلبگار بن رہا ہے۔ وہ حق کو چھوڑ کر باطل کا طرفداربن رہاہے۔ وہ انسانی واقعات کی جھوٹی سچی تعبیر کے لئےالفاظ کے سمندر بہا رہا ہے لیکن خدا ئی واقعات کے بیان کے لئے اس کے پاس کوئی لفظ نہیں۔
انسان نے سب کی قدر جانی یہاں تک کہ پاکستانی گائوں کی رہنے والی اس لڑکی ملالہ کی بھی، لیکن وہ اپنے خدا وند کی قدر نہ جان سکا۔ وہ اس کے لئے ایک خبر نہیں بنا سکا۔
 اس دن انسان کا کیا حال ہوگا جب وہ اپنے خداوند کے سامنے حاضرکیا جائے گا اور جب اس سے پوچھا جائے گا کیا ہم نے تجھیں آنکھیں نہیں د یں تاکہ تم دیکھتے، اور کیا دل اور دماغ نہیں دیا تا کہ تم تفکر کرتے، اور کیا کان نہیں دیا تا کہ تم اچھی باتوں کے طلبگار بنتے اور کیا زبان نہیں دی تاکہ تو اپنے خداوند کی کبریائی بیان کرتا۔
 اس دن انسان سے خدا وند کے سوالوں کا جواب نہیں بن سکے گا۔ وہ کہے گا کہ کاش آج میں مٹی ہوجاتا۔  یا لیتنی کنت ترابا۔
لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے۔{ لوگ دیکھیں گےکہ} قیامت کے روز پوری زمین اس کی مٹھی میں ہوگی اور آسمان اس کے دست راست میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔ {36:67}

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں