جمعہ، 14 ستمبر، 2012

Man with power – Man with no power

کتنا طاقتور ہے انسان _کتنا کمزور ہے انسان

محمد آصف ریاض
انسان کتنا طاقتور ہے اس کا اندازہ مجھے کل(13sep-20012)  دہلی میٹرو پر سوار ہوتے ہوئے ہوا۔ میں یہ دیکھ کرحیران رہ گیا کہ انسان نے دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ کس طرح آگ کو بھی اپنے قابو میں کرلیاہے۔ مثلاً میٹرو بجلی سے چلتی ہے۔اور بجلی کیا ہے؟ آگ ہے آگ۔ لیکن انسان نے حیرت انگیز طور پر اس آگ پر قابو پا لیا ہے۔ ایک میٹرو کو دوڑانے کے لئے جو بجلی استعمال ہوتی ہے اتنی بجلی لاکھوں  لوگوں کو جلادینے کے لئے کافی ہے۔ لیکن انسان نے اس آگ کوایک پتلی سی تار(Wire) میں بند کردیا ہے۔ جس طرح کسی جن کو بوتل میں بند کیا جا تا ہے اسی طرح انسان نے گویا آگ کے پہاڑ کوایک پتلی سی وائرمیں بند کردیا ہے۔ اس تار سے ٹریںیں کرنٹ پاتی ہیں اور لاکھوں انسانوں کو لے کر ادھر سے ادھر بھاگتی پھرتی ہیں۔ یہ دیکھ کر مجھے انسان کی طاقت کا علم ہوا۔ انسان نے آگ پر قابو پا لیا ہے۔ وہ پہاڑوں پر قابو پا چکا ہے۔ وہ پرندوں سے زیادہ رفتار میں آسمان میں دوڑ رہا ہے۔ وہ زمین پر ہوا کی رفتار میں بھاگ دوڑ کر رہا ہے۔ یہ سب دیکھ کر میں نے انسان کے پاور کو جانا۔
کتنا کتنا کمزور ہے انسان
اسٹیفن ہاکنگ (born 8 January 1942) موجودہ دور کے بہت بڑے برٹش سائنسداں ہیں۔ انھوں نے دنیا کو ایک نئی تھیوری سے واقف کرا یا ہے۔ اس تھیوری کا نام سنگل اسٹرنگ تھیوری ہے۔ انھوں نے بتا یا ہے کہ کا ئنات کی ہر چیز اس طرح ایکٹ کر رہی ہے جیسے ہر چیز واحد ڈور میں بندھی ہو۔ مسٹرہاکنگ کیمبرج یونیورسٹی میں 1979 سے 2009 کے درمیان لوکیسین پروفیسر رہے۔ ان کی کتاب A brief History of Time  پاپولر سائنس میں اب تک کی بہترین کتاب سمجھی جاتی ہےاور یہ بسٹ سیلر ہے۔ ہاکنگ نے قیاس آرائی کی ہے کہ بلیک ہول سے بھی ریڈی ایشن خارج ہوسکتا ہے۔ اس قیاس آرائی کوسائنسی دنیا میں اسٹیفن ریڈی ایشن کا نام دیا گیا ہے۔
 
ہاکنگ موٹر نیورون بیماری (motor neurone disease)میں مبتلا ہیں اور پوری طرح ا پاہج ہوچکے ہیں۔ وہ چل پھر نہیں سکتے۔ وہ وھیل چیئر پر بے بسی کا مجسمہ بن کر بیٹھے رہتے ہیں۔ وہ اپنی وھیل چیئر پربے بسی کے عالم میں بیٹھ کرگویا انسان  کو یہ بتاتے ہیں کہ انسان کتنا کمزور ہے۔انھیں دیکھ کر میں نے انسان کی کمزوری کو جانا۔
انسان کی کمزوری کی ایک مثال راجیش کھنہ کی زندگی میں بھی ہے۔ راجیش کھنہ جب اپنے پروفیشن کے عروج پر تھے تو انھوں نے کہا تھا: میں خدا کے بعد سب سے بڑی ہستی ہوں:
Being on the top Rajesh Khanna once said, is a feeling of being next to God.
راجیش کھنہ کی موت69  سال کی عمر میں 18 جولائی   2012کواس حالت میں ہوئی کہ وہ مسلسل بیماری کی وجہ سے ہڈی کا ڈھانچہ بن چکے تھے۔
سچائی یہ ہے کہ اس دنیا میں ہر انسان دو حقیقتوں کے ساتھ جیتا ہے۔ ایک حقیقت اس کی کمزوری ہے اور دوسری حقیقت اس کی طاقت۔ عقلمند آدمی وہ ہے جو ان دونوں کے درمیان اعتدال کی راہ نکالتا ہے۔ وہ طاقت اور بے طاقتی کے درمیان توازن کو باقی رکھتا ہے۔
انسان کی اصل حقیقت بے طاقتی ہے کیونکہ انسان چاہے کتنا ہی بہادر کیوں نہ ہو ایک دن وہ بے بسی کا نمونہ بن کر مر جاتاہے۔ اس کی بادشاہت، اس کی آل اولاد، اس کا کنبہ، قبیلہ اور اس کی اپنی دنیا اسے مرنے سے نہیں بچا سکتی۔ موت کے ہاتھ کے سامنے ہر انسان بے بس اور کمزور ہے۔ انسان کویہاں جو طاقت ملی ہوئی ہے وہ محض اس لئے ہے تاکہ انسان اس کا استعمال کر کے آخرت کی دنیا کی تیاری کرے۔ وہ دنیا جو کبھی ختم ہونے والی نہیں ہے اور جہاں انسان کو ہمیشہ رہنا ہے۔ اس وزڈم کو قرآن میں اس طرح سمجھا گیا ہے۔
" آخر کار ہر شخص کو مرنا ہے اور تم سب اپنا پورا اجر قیامت کے دن پانے والے ہو۔ کامیاب در اصل وہ ہے جو وہاں آتش دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں داخل کردیا جائے۔ رہی یہ دنیا تو یہ محض ایک فریب ہے"(3-185)

1 تبصرہ:

  1. طاقت اور بے طاقتی کے درمیان توازن کو باقی رکھنے میں ایک محاذ پر امت اسلامیہ او دوسرے محاذ پر براھیمی عقیدے میں شامل مسیحی اور یہودی بری طرح ناکام چلے آرھے ھیں۔ انہیں جہاں آخرت کی پروا نہیں وہیں مسلمان بساط آخرت کو مقصد ایزدی کے عین برعکس الٹ کر رکھ دینے میں پیش پیش ھیں۔
    زیادہ باریکی سے دیکھا جائے تو مسلمانوں کی پوزیشن زیادہ مخدوش ھے کیونکہ ان کے یہاں دین او دنیا کے مفہوم کو بری طرح خلط ملط کر دیا گیا ھے۔ اول الذکر دونوں آخرت کی سوچ کے بغیر کہیں کہیں تخلیق کائنات کے مقصد سے ہم سے زیادہ قریب نظر آتے ھیں۔ واللہ علیم بذات الصدور

    جواب دیںحذف کریں