منگل، 11 ستمبر، 2012

Do you not understand?


کیا تم سمجھ نہیں رکھتے؟

محمد آصف ریاض

انسانی جسم خلیوں (Cells ) کا مجموعہ ہے۔ خلیوں کی اینٹ سے انسانی جسم کی تعمیر ہوئی ہے۔ ان خلیوں کی تعداد انسانی جسم میں ایک اندازے کے مطابق 100 ٹریلین سے زیادہ ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ انسانی جسم کے ہر خلیہ میں جینیاتی اطلاعات(Genetic Information)  موجود ہوتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ہر خلیہ اپنے اندر ایک عظیم کتاب رکھتا ہے۔ یہ کتاب اتنی ضخیم ہے کہ اگر اس کے 'کیمیکل لیٹر س' کو 'ڈی کوڈ' کرکے کاغذ پر لکھا جا ئے تو( Encyclopedia - Britannica ) جیسی 32 کاپیاں تیار ہوجائیں گی۔ حالانکہ انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا  25,000 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ صرف ایک خلیہ میں جو اطلاعات ہیں، اگر انھیں کاغذ پر لکھاجائے تو لاکھوں صفحات درکار ہوں گے۔

انسانی جسم کی اصل ایک خلیہ پر ہوتی ہے، پھر یہ خلیہ 'ری پروڈکشن' کے خاص مرحلے سے گزرتاہے۔ ری پرو ڈکشن کے مرحلے سے گزرتے ہوئے ہرخلیہ اپنی کتاب کی نقل یعنی (DNA) کی فوٹو کاپی دوسرے خلیہ کو دے دیتا ہے۔

 خلیہ کے ری پر ڈکشن کے سارے عمل کی نگرانی کی جاتی ہے۔ اس نگراں کا نام(Enzymes)  ہے۔ انزائم ری پرو ڈکشن کے دوران پورے عمل کی نگرانی کرتا ہے، اور یہ دیکھتا ہے کہ ڈی این اے کی فوٹو کاپی میں کہیں کوئی غلطی تو نہیں رہ گئی ہے، کوئی لیٹر غائب تو نہیں ہے۔ اگر کہیں کوئی غلطی رہتی ہے تو انزائم اس کی اصلاح کردیتا ہے۔ ڈی این اے نامی یہ کتاب انسان کو جینیاتی اطلاعات فراہم کرتی ہے۔ اس کتاب میں عضویات کے متعلق احکام لکھے ہوتے ہیں۔ انزائمس ڈی این میں لکھے احکام کو پڑھ کر اس کے احکام کے مطابق فی سیکنڈ لاکھوں پروٹین تیار کرتے ہیں۔ پھر پروٹین کو جسم کے ان حصوں میں پہنچایا جاتا ہے جہاں اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً مردہ خلیات کو زندہ خلیوں سے بدلا جا تا ہے اور پرانے 'بلڈ سیل' کو نئے 'بلڈ سیل' میں تبدیل کر دیا جا تا ہے۔ اور یہ سب اس عظیم کتاب میں لکھے احکام کے مطابق ہوتا ہے جسے سائنس کی زبان میں ڈی این اے کہا جا تا ہے۔
 امریکہ سے لے کر چین اور دنیا بھر کے دوسرے بڑے بڑے سائنسداں
( DNA) میں پوشیدہ )3-billion) کیمیکل لیٹرس کو ڈی کوڈ کر نے کی کوشش میں لگے ہیں۔
یہ کائنات اتفاقی نہیں ہے
انسانی جسم میں خلیوں اور ڈی این اے کا محکم نظام بتا رہا ہے کہ یہ کائنات  اتفاقی نہیں ہے، اور زمین و آسمان کی تخلیق کسی (Coincidence)  کا نتیجہ نہیں ہے۔
اگر آپ اپنی میز پر کاغذ میں لکھی ہوئی کوئی تحریر پائیں تو کیا آپ یہ سمجھ لیں گے کہ ہواچلی اور اس نے قلم اور کاغذ کو میز پر پہنچا دیا اور پھر یہ تحریرخود بخود وجود میں آگئی؟ نہیں آپ ایسا ہر گز نہیں سوچ سکتے !

میز پررکھی ہوئی ایک چھوٹی سی تحریر آپ کو بتاتی ہے کہ یہ کوئی اتفاقی واقعہ نہیں ہے، تو کیا DNA نامی اس عظیم کتاب کو آپ ایک اتفاقی واقعہ کہہ کر ٹال جائیں گے! نہیں، ہرگز نہیں، آپ ایسا نہیں کرسکتے۔
"اور ہم نے آسمان اور زمین کواور جو کچھ بھی ان میں ہے کچھ کھیل کے طور پر نہیں بنا یا۔ اگر ہم کوئی کھلونا بنانا چاہتے اور یہی کچھ ہمیں کرنا ہوتا تواپنے ہی پاس کرلیتے۔ مگر ہم باطل پر حق کو مارتے ہیں جو اس کا سر توڑ دیتا ہے" (سورہ انبیا، آیت نمبر 16-18)۔
 
دوہرا انتظام
خدا نے جب انسان اور کائنات کی تخلیق کی تو اس کی رہنمائی کے لئے ایک محکم نظام تیار کیا۔ انسان کا جسم صحیح انداز میں کام کرے اس کے لئے اس نے ڈی این اے تیار کیا۔ اس کتاب میں انسانی عضویات سے متعلق تفصیلات درج کردیں۔ یہ کام انسانی جسم کی نگرانی کے لئے کیا گیا۔ لیکن صرف یہی کافی نہیں تھا۔
 انسان کو ایک اور کتاب کی ضرورت تھی، جو اس کو بتاتی کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے! صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے! خدا نے انسان کی تخلیق کیوں کی! انسان کی تخلیق سے خدا کی منشا کیا ہے! زمین و آسمان کی تخلیق کیوں کر ہوئی! آسمان پر پرندوں کو اڑنا کس نے سکھا یا! پانی میں مچھلیوں کو چھلانگ لگا نا کون بتا تا ہے! انسان کو دل و دماغ کیوں دیا گیا ہے! کان اور آنکھیں کس لئے ہیں!

انسان کی اس ضرورت کی تکمیل کے لئے خدا نے قرآن اتارا، اوراس میں انسان کی زندگی کے بارے میں تمام تفصیلات درج کردیں۔ قرآن میں ہے؛
"لوگو! ہم نے تمہاری طرف ایک ایسی کتاب بھیجی ہے، جس میں تمہارا ہی ذکر ہے۔ کیا تم سمجھتے نہیں؟" (سورہ الانبیا، آیت نمبر 10)

We have bestowed upon you a book that mentions you. Do you not understand?

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں