ہفتہ، 22 ستمبر، 2012

In this world you cannot build your own world


اس دنیا میں دنیا کی تعمیر ممکن نہیں ہے

محمد آصف ریاض

مسٹر روچیر شرما (RUCHIR SHARMA) ایک نامور مصنف، ماہر معاشیات اور بڑے بزنس مین ہیں۔ وہ ایمرجنگ مارکٹ ایکوٹیز اینڈ گلوبل میکرو ایٹ مارگن اسٹینلی انوسٹمنٹ مینجمنٹ کے ہیڈ ہیں۔

RUCHIR SHARMA is head of Emerging Market Equities and Global Macro at Morgan Stanley Investment Management.

مسٹر شرما عام طور پر ہر مہینے ایک ہفتہ کسی باہری ملک میں گزارتے ہیں اور وہاں کی معیشت کا قریب سے جائزہ لیتے ہیں۔ وہ نیوز ویک کے سابق معاون ایڈ یٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور وال اسٹریٹ جرنل اور اکونامک ٹائمز کے لئے مستقل کالم لکھتے ہیں۔
ابھی حال ہی میں ان کی ایک کتاب شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب کا نام بریک آئوٹ نیشن ہے(Breakout Nations)  ۔ اس کتاب میں مصنف نے دنیا بھر کے دودرجن ترقی پذیر معیشت کا جائزہ لیا ہے۔

اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے دی پوسٹ امریکن  ورلڈ(The Post-American World )  کے مصنف  فرید ذکریا نے لکھا ہے :
 Breakout Nations is the most interesting book on the new economic landscape that I have read in years.”

مسٹر شرما نے اپنی اس کتاب میں دنیا کی دو درجن معیشت کا جائزہ لیا ہے اور بتا یا ہے کہ کس طرح ایک معیشت کے بعد دوسری معیشت دنیا کے سامنے آتی رہتی ہے۔

مسٹر شرما نے کتاب کے پیش لفظ {{Prologue میں لکھا ہےکہ_ "تاریخ بتاتی ہے کہ معاشی ترقی سانپ اور سیڑھی کا کھیل ہے۔ کامیابی کی چوٹی پر پہنچنے کے لئے کوئی شارٹ کٹ راستہ نہیں ہے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ بہت کم سیڑھیا ہیں اور بہت زیادہ سانپ، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کھیل میں اوپر چڑھنے کے بجائے گرنے کا امکان زیادہ ہے۔ کوئی ملک سیڑھی پر ایک دہائی دو دہائی اور تین دہائی تک چڑھتا ہے اور پھر وہاں اسے سانپ ڈس لیتا ہے اور پھر دوبارہ منھ کے بل زمین پر گرجا تا ہے۔" مسٹر شرما کے لفظوں میں:
Yet history suggests economic development is like a game of snakes and ladders. There is no straight path to the top, and there are few ladders than snakes, which mean that it is easier to fall than to climb.
A nation can climb the ladders for a decade, two decades three decades, only to hit a snake and fall back to the bottom.

مسٹرشرما نے یہ تو بتا یا ہے کہ تاریخ بتا تی ہےکہ اس زمین پر کسی معیشت کو ثبات حاصل نہیں ہے۔ لیکن وہ یہ نہیں بتا سکے کہ آخر ایسا ہوتا کیوں ہے؟ اس کا جواب ہمیں قرآن میں ملتا ہے۔ قرآن میں ہے:
"اور دائود نے جالوت کو قتل کردیا اور اللہ نے اسے سلطنت اور حکمت سے نوازا اور جن جن چیزوں کا چا ہا اسے علم دیا اگر اس طرح اللہ انسانوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعہ ہٹا تا نہ رہتا تو زمین کا نظام بگڑ جاتا، لیکن د نیا کے لوگوں پر اللہ کا بڑا فضل ہے{ کہ اس طرح وہ دفع فساد کا انتظام کرتا رہتا ہے۔"(2:251)

اصل بات یہ ہے کہ خدا کا نظام تقسیم ایسا نہیں ہے کہ وہ کسی ایک کو سب کچھ دے دے۔ اگر وہ ایسا کرے تو زمین کرپشن سے بھرجائے۔ اور ہر طرف لاقانونیت کا راج ہو۔ خدا دائریکٹ اس دنیا کی نگہ بانی کر رہا ہے، وہ ایک کو دوسرے سے ہٹا تا رہتا ہے تاکہ زمین کا بیلنس{توازن} باقی رہے۔ خدا اگر زمین پر کسی ایک کو سب کچھ  دے دے تو زمین کا پورا توازن بگڑ جائےگا۔ چنانچہ خداکے منصوبہ کے مطابق ایسا ہوتا ہے کہ ہر ایک دہائی دو دہائی اور تین دہائی پرایک دوسری طاقت ابھرتی ہے جو اپنے سے پہلی طاقت کو پیچھے دھکیل دیتی ہے۔

اب اسی بات میں ان لوگوں کے سوالوں کا جواب بھی  ہے جو یہ کہتے ہیں کہ عربوں کے پاس اتنا پیسہ ہے لیکن وہ ٹکنا لوجی کی دنیا میں مہارت کیوں نہیں رکھتے؟  وہ کوئی فائٹر جیٹ کیوں نہیں تیار کرتے؟ وہ کوئی جہاز کیوں نہیں بناتے ؟ وہ میٹرو کیوں نہیں تیار کرتے؟ وہ اسپیس ورلڈ میں میں اپنی  اہلیت کیوں نہیں ثابت کرتے؟ وہ توانائی کے میدان میں دنیا کی رہنمائی کیوں نہیں کرتے؟ وہ انو ویشن کیوں نہیں کرتے ؟ وغیرہ۔

خدا صرف عربوں کا خدا نہیں ہے

بات یہ ہے کہ جس وقت عرب کی زمین توانائی اگل رہی تھی، جب عرب کی زمین سے تیل پٹرول اور گیس کا دریا بہہ رہا تھا ٹھیک اسی وقت یوروپ نشاط ثانیہ کے دور سے گزر رہاتھا اور نئی نئی ٹکنالوجی کے ساتھ دنیا کو مرعوب کر رہا تھا۔ خدا نے دنیا کو ایوی ایشن کے ایج میں داخل کیا تو عربوں کو ایندھن کی دولت سے مالا مال کردیا تاکہ زمین پر توازن باقی رہے ۔

ذراغور کیجئے کہ اگر ایسا ہوتا کہ خدا عربوں کو توانائی تیل پڑول اور گیس کے ساتھ ٹکنالوجی بھی دے دیتا یعنی وہ جہاز بناتے ٹریںیں بناتے جیٹ فائٹر تیار کرتے اور اسپیس میں دوڑتے تو کیا ہوتا؟ لوگ کہتے خدا عالم کا خدا نہیں ہے۔ خدا صرف عربوں کا خدا ہے۔
 پھر ایسی صورت میں خدا کا وہ منصوبہ بھی ناکام ہوجا تا جس کے تحت خدا کسی کو دیکر اور کسی سے لے کر آزماتا ہے۔

تاریخ بتاتی ہے کہ زمین پر کوئی بھی قوم ہمیشہ حکومت نہیں کر سکتی ۔ اگر کسی قوم کا ہر فرد مل کر اپنی معیشت کو سنبھالے تب بھی اس معیشت پر ایک وقت آئے گا جب وہ منھ کے بل زمین پر گر جائے گی۔ کیونکہ اس دنیا میں ثبات خدا کے کریشن پلان کے خلاف ہے اور یہاں کوئی شخص ایسا نہیں اور نہ کوئی قوم جو خدا کے کریشن پلان کے خلاف جاکر کامیاب ہوجائے۔ یہاں انسان اپنی معیشت کا محل تیار کرے گا د س سال بیس سال تیس سال اور پھر وہ دیکھے گا کہ اس کا بنا یا ہوا محل ایک روز تاش کے پتوں کی طرح زمین پر آگیا۔

اس دنیا میں صرف آخرت کی تعمیرہی ممکن ہے

اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس دنیا میں کسی کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ  اپنی دنیا کی تعمیر کر سکے۔ دوسرے لفظوں میں اس دنیا میں دنیا کی تعمیر سرے سے ممکن  ہی نہیں ہے۔ اس دنیا میں صرف آخرت کی ہی تعمیر ممکن ہے۔ یعنی کسی کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ آخرت کو مائنس کر کے اس دنیا کی تعبیر و تشریح کر سکے۔ انسان مجبور ہے کہ وہ آخرت پر ایمان لائے۔ کیونکہ اس کے علاوہ اس کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے۔

پس جولوگ آخرت کا انکار کرتے ہیں وہ اس دنیا کی تخلیق کی توضیح بھی نہیں کر سکتے ۔ یعنی وہ یہ نہیں بتا سکتے کہ یہ دنیا آخر کیوں بنائی گئی ہے اور یہاں انھیں کس لئے بسایا  گیا ہے۔ اور اگر صرف کھانے کمانے اور اپنی دنیا چمکانے کے لئے انھیں یہاں بسا یا  گیا ہے تو وہ اس میں بار بار ناکام کیوں ہوجا تے ہیں؟ ایسے لوگوں کے سامنے یہ دنیا ایک بند گلی کی طرح ہے۔ جہاں تاریکی ہے ، مایوسی ہے ، اور رنج و غم  کا عذاب ہے ۔ ایسے لوگ دنیا میں بھی ڈائریکشن لیس زندگی گزاریں گے اور آخرت میں بھی۔ ایسے لوگ دنیا میں بھی مایوسی اور تاریکی  میں رہیں گے اور آخرت میں بھی ۔ بائبل میں ایسے لوگوں کی تصوریر کشی ان الفاظ میں کی گئی ہے" ابد تک کے لئے رونا اور دانت پیسنا ہوگا۔"

مضمون نگار " امکانات کی دنیا" کے مصنف ہیں۔
 آپ ان سے رابطہ کر سکتے ہیں:asif343@gmail.com
  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں