ہفتہ، 28 مارچ، 2015

ہندو تاریخ سے ایک سبق

ہندو تاریخ سے ایک سبق

محمد آصف ریاض
ہندوستان جب 1947 میں آزاد ہوا تو فطری طورپریہ ملک ان لوگوں کے ہاتھوں میں آیا جو یہاں کےقدیم باشندے تھے۔ یہ لوگ ہندو تھے اورمختلف قبائل اورگروہوں میں منقسم تھے۔
محمد غوری نے 1192 میں ہندوستان پرحملہ کیا اورترائن کی جنگ میں ہندو راجا پرتھوی راج چوہان کوشکست د ینے میں کامیابی حآصل کی۔ پنجاب اورموجودہ ہریانہ کوجیتنے کے بعد 1193 میں غوری بڑی تیزی سے صوبہ بہارکی طرف بڑھا، یہاں اس کا سامنا بودھ راجائوں سے ہوا تاہم یہاں بھی وہ کامیابی کا پرچم لہرانے میں کامیاب ہوگیا۔ اب وہ صوبہ بنگال کی طرف بڑھا اوربہت جلد بنگال کو بھی اس نے زیر کر لیا، اس طرح ہندوستان میں غوری سلطنت کا قیام عمل میں آیا۔
1192 میں ہندوستان میں مسلمانوں کی جوتاریخ شروع ہوئی تھی وہ 1857 میں آخری مغل بادشاہ بہادرشاہ ظفرکی انگریزوں کے ہاتھوں شکست کے ساتھ ختم ہوگئی۔ اس دوران ملک کے ہندوں کو مسلسل 8 سوسالوں تک مختلف قسم کی تبدیلیوں سے گزرنا پڑا۔ مثلاً مغل دوریعنی سولہویں صدی میں ہندوئوں کواچانک ایک نئی زبان سیکھنی پڑی۔ یہ زبان فارسی تھی۔ زبان کی تبدیلی کا واقعہ قوموں کی زندگی میں کوئی سادہ واقعہ نہیں ہوتا۔ یہ بہت بڑا واقعہ ہوتا ہے۔ زبان کی تبدیلی قوموں کی زندگی کا نقشہ بگاڑ دیتی ہے۔
اس بات کو سمجھے کے لئے آپ اتنا سمجھ لیں کہ جب 1857 میں انگریزاس ملک کے حکمراں ہوئے تو انھوں نے فارسی کو دفتری زبان سے معزول کردیا ۔ انگریزوں کے اس عمل سےاچانک سارے مسلم انٹیلیکچوئلس بے زبان ہو کر رہ گئے۔ تمام امرا، شرفا، اورفقہا اچانک بے روزگارہوگئے۔ زبان کی تبدیلی نے پوری قوم کوایک ایسی گھاٹی میں اتار دیا جہاں وہ صرف اپنے آپ کو جانتے تھے، وہ باہری دنیا سے واقف نہیں تھے۔ وہ دوسروں سے انٹریکشن نہیں کر سکتے تھے۔ وہ دوسری دنیا سے پوری طرح کٹ گئے تھے۔ اب وہ جدید افکارکو پڑھ نہیں سکتے تھے کیوں کہ جدید افکارکو نئی زبان میں پیش کیا جا رہا تھا اورمسلمان اس نئی زبان سے واقف نہیں تھے۔
زبان کی تبدیلی نے مسلمانوں کومعاشی، سماجی اورسیاسی طورپراپاہج بنا کررکھ دیا تھا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ابھی جو قوم ہیروبنی ہوئی تھی اچانک وہ زیرو بن گئی ۔ تب سرسید نے مسلمانوں کو نئی زبان یعنی انگریزی سکھانے کا بیڑا اٹھا یا۔ لیکن صورت حال کو دوبارہ  پٹری پر لانے میں کئی صدیاں لگ گئیں۔ صورت حال یہ ہے کہ مسلمان آج بھی اس رولنگ زبان میں پچھڑے ہوئے ہیں، نتیجہ کار دنیا کے دوسرے میدان میں بھی پچھڑ گئے ہیں، مثلا معاشی ، تعلیمی ، سماجی اور سیاسی میدان میں وہ ایک پسماندہ قوم بنے ہوئے ہیں۔
مسلمانوں کے بر عکس ہندوئوں کی زندگی میں بارباربھونچال آیا۔ پہلے ان کی زبان سنسکرت تھی، پھرانھوں نے بہت جلد فارسی سیکھ لی اوراپنے آپ کو سماجی ، معاشی ، تعلیمی اور سیاسی طورپر(Irrelevant )  ہونے سے بچالیا۔ اسی طرح انگریزوں کے دورمیں جب فارسی کوختم کیا گیا توانھوں نے فوراً انگریزی زبان کوسیکھنا شروع کردیا اوربہت جلد وہ اس نئی زبان کو سیکھنے میں کامیاب ہوگئے۔
انگریزی سیکھ کرہندوئوں نے انگریزحکومت میں بڑے بڑے عہدے حاصل کئے۔ پڑھئے رفیق زکرکیا کی کتاب؛ (ہندوستانی سیاست میں مسلمانوں کا عروج؛ یا مولانا آزاد کی سوانح India wins freedom)
مختصریہ کہ ملک کے ہندئوں کوباربارہلا دینے والے حالات کا تجربہ ہوا، بارباران کی قومی زندگی تہہ وبالا ہوئی تاہم باربارانھوں نے حالات پرکنٹرول حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ باربارحالات نےانھیں بے معنی بنانے کی کوشش کی اورباربارانھوں نے حالات کے رخ کوموڑدیا۔ انھوں نے ایک زندہ قوم ہونے کا ثبوت دیا اورفطری طورپر وہ مسلمانوں سے آگے نکل گئے۔
ہرکامیابی کا رازصبراورجہد مسلسل میں چھپا ہے،اسی راستے سے ملک کے ہندو کامیاب ہوئے ہیں اوراسی راستے سے ملک کے مسلمان کامیاب ہوں گے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں