ہفتہ، 14 مارچ، 2015

دیکھئے کہ آپ کا عمل کیا کہہ رہا ہے

دیکھئے کہ آپ کا عمل کیا کہہ رہا ہے
محمد آصف ریاض
7 فروری 1015 کو دہلی اسمبلی کا انتخاب ہوا۔ اس انتخاب میں وزیراعظم مودی نے بلند و بانگ نعرے لگائے۔ انھوں نے ان تمام نعروں کو دہرایا جو وہ 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں کامیابی کے ساتھ لگا چکے تھے۔ چونکہ دہلی میں بڑے پیمانے پر لوگ جھگی جھونپڑی میں رہتے ہیں اور15 سے 20 سیٹوں پروہ  فیصلہ کن رول ادا کرتے ہیں اس لئے جناب مودی نے ایک نیا نعرہ دیا ۔ وہ نعرہ تھا "جہاں جھگی وہیں مکان"۔
مانا یہ جا رہا تھا کہ مودی صاحب  کے اس نعرہ کا بڑا فائدہ ہوگا۔ لیکن انتخاب کا نتیجہ بہت الٹا نکلا ۔ مودی صاحب کی پارٹی 70 میں صرف 3 سیٹیں ہی حاصل کر سکی۔
اہل دہلی نے مسٹرمودی کو بری طرح مسترد کردیا۔ کیوں ؟ اس لئے کہ جناب مودی کا قول کچھ اورتھا اوران کا عمل کچھ اور۔ ان کا عمل  ان کے قول کی تائید نہیں کر رہا تھا۔ مثلاً جب دہلی میں صدارتی حکومت قائم تھی توکئی جھگی جھونپڑیوں کو بلڈوز کردیا گیا تھا۔ دہلی میں قانون انتظامیہ کی حالت خستہ تھی۔ کلیسائوں پرمسلسل حملے ہو رہے تھے۔ فرقہ پرست طاقتیں آزادانہ گھوم رہی تھیں۔ اور یہ سب اس وقت ہورہا تھا جبکہ وزیراعظم خود دہلی میں موجود تھے اوران کی عظیم الشان حکومت نہایت آن بان کے ساتھ قائم تھی۔ الغرض یہ کہ تمام خوشنما وعدوں کے با وجود وزیراعظم مودی دہلی نہ جیت سکے اور وجہ صرف ایک تھی وہ یہ کہ ان کا عمل ان کے قول کو سپورٹ نہیں کر رہا تھا۔
یہی حال مسلمانوں کا ہے۔ مسلمان لوگوں کو قرآن و حدیث کی باتیں بتا تے ہیں لیکن کوئی بھی ان کی خوبصورت بولی کا خریدار نہیں بنتا۔ کیوں؟ اس لئے کہ وہ جو کچھ بولتے ہیں ان کا عمل اس کی نفی کرتا ہے۔ مثلاً مسلمان امن کی بات کرتے ہیں اورعملاً بد امنی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان کے علما عجز کی بات کرتے ہیں اورعملاً سرکش بنے رہتے ہیں۔
مسلمان ہوں یا مودی اگروہ صرف لوگوں کواپنا قول دیتے رہیں توانھیں ہر گز کامیابی ملنے والی نہیں ہے ۔ انسان بہرحال عمل کا خریدارہوتا ہے وہ قول کا خریدار نہیں ہوتا ۔ وہ درخت سے زیادہ اس کے پھولوں اور پھلوں کا طالب ہوتا ہے۔ آدمی کا ایک عمل اس کے بلین قول پر بھاری ہے۔
ایک مثال
اب میں یہاں قول و عمل کے بارے میں پیغمبراسلام کی زندگی سے ایک نمونہ پیش کروں گا۔ مکہ میں ایک بڑھیا رہتی تھی ۔ وہ اکثر پیغمبراسلام پر اپنی چھت سے کوڑا ڈال دیتی تھی ۔ پیغمبر اسلام اسے در گزر فرماتے ہوئے لوگوں کو نصیحت کرتے رہتے تھے۔
ایک دن ایسا ہواکہ بڑھیانےحسب معمول آپ پرکوڑا نہیں ڈالا ۔ آپ اس کے گھر گئے تو پتہ چلا کہ وہ بیمار ہے۔ آپ نے اس کی عیادت کی۔ بڑھیا کے سر پر ہاتھ رکھ کر پوچھا کہ ماں تمہارا کیا حال ہے۔ بڑھیا آپ کو دیکھ کرحیران رہ گئی۔ اس نے پوچھا تم یہاں کیوں آئے ہو؟ آپ نے فرمایا کہ معلوم ہوا ہے کہ آپ بیمار ہیں تو آپ کی عیادت کے لئے آگیا۔ یہ سن کر بڑھیا رونے لگی۔ اس نے کہا دنیا تم کو مذمم (جس کی مذمت کی جائے)کہتی ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ تو محمد  (جس کی تعریف کی جائے) ہے۔  یہ کہہ کر وہ مسلمان ہو گئی۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں