پیر، 23 مارچ، 2015

گھوڑے کے آگے گاڑی مت باندھئے

گھوڑے کے آگے گاڑی مت باندھئے

محمد آصف ریاض
آج مارچ 2015 کی 22 تاریخ ہے۔ ایک نوجوان ملنے کے لئے آئے ہیں ۔ ان کا نام ندیم ہے ۔ وہ بہارکے رہنے والے ہیں لیکن ان کی تعلیم مغربی بنگال میں ہوئی ہے،اوروہ وہیں بس گئے ہیں۔ ان دنوں وہ جاب کی تلاش میں دہلی آئے ہوئے ہیں۔ بات چیت کے دوران انھوں نے مغربی بنگال کے بارے میں بہت سی باتیں بتائیں۔ میں نے ان سے وہاں کے مسلمانوں کے بارے میں پوچھا توان کا جواب بہت ہی مایوس کن تھا۔
انھوں نے بتا یا کہ وہاں مسلمانوں میں تعلیم کی بہت کمی ہے اوروہ اخلاقی طورپربہت ہی زیادہ بگڑے ہوئے لوگ ہیں۔ اپنا ایک تجربہ بیان کرتے ہوئے انھوں نےکہا کہ ایک مرتبہ انھیں ایک بزنس کے سلسلے میں بنگلہ دیش سے ملحق ایک مسلم بنگالی علاقہ میں جانےکا اتفاق ہوا۔ یہاں ایک کمپنی اپنا اسکریپ فروخت کر رہی تھی ۔ ایک بنگالی مسلمان نذورل نے مجھےاس کی اطلاع دی۔ ایک ہندومارواڑی دوست کولے کر میں وہاں گیا۔ نذرول نے ہم لوگوں کی بڑی آئو بھگت کی۔ اس نے بڑا لمبا سلام کیا اوربولا کہ ندیم بھائی تم تواپنے ہو، تم تو مسلمان ہو۔ اس دوران ان میں کا کوئی آدمی آتا اورہمارا منھ دیکھ کرسلام کرتا۔ وہ کہتا سلام وعلیکم ورحمۃ اللہ، بھالو باچی، آمی بھالو باچی ۔ پھردوسرا بھی اسی طرح اپنے کلمات دہراتا۔  
ایسے ہی کئی لوگ سامنے آئے سبھوں نے لمبےاندازمیں سلام کیا۔ ہمیں مچھلی بھات کھلا یا گیا۔ اس کے بعد ہم نے کہا کہ اب کام کی بات کی جائے،اسی درمیان نذورل نے میرے ہم سفرمارواڑی دوست کا موبائل اپنے ہاتھ میں لے لیا اوراسے چھو کرکہنے لگا کتنا بھالو باچی یعنی کتنا اچھا لگ رہا ہے۔ میں نے مذاق کے اندازمیں کہا کہ آپ ہی کا ہے۔ اس کے بعد اس نے اس موبائل کو اپنے پاس رکھ لیا پھراپنے بیٹے شفیقول کو بلا یا ۔ شفیقول یہ موبائل لے جا۔ ہم لوگ تھوڑی دیرخاموش رہے پھرکہا کہ بھیا مذاق ہوگیا اب موبائل واپس کر دو۔ وہ موبائل 30 ہزار کا تھا۔ اس نے جواب دیا ہمیں 'بوکا' سمجھا ہے۔ ہم نے تم کوکھلا یا پلا یا اوراپنا تین گھنٹہ دیا اورتو موبائل مانگتا ہے! تمہیں یہاں سے زندہ جا نا ہے کہ نہیں؟ ہم نے اسے یاد دلا یا کہ بھائی میں مسلمان ہوں تم بھی مسلمان ہو۔ ہمیں ہمارا موبائل دے دو اس نے کہا ، مسلمان ! مسلمان ہے تو کیا؟ گلہ کاٹ دوں گا۔ یہاں سے نکل جا۔ میرا ہندو دوست بہت ڈر گیا اوراس نے اشارہ کیا کہ موبائل چھوڑ دو یہ لوگ گاڑی بھی چھین سکتے ہیں۔ ہمیں بھی حالات کا اندازہ ہوگیا اورہم لوگ کسی طرح وہاں سے جان بچاکر بھاگے۔
پولیس اسٹیش میں معاملہ درج کرانا چاہا توانسپکٹر نے یہ کہہ کر معاملہ درج کرنے سے انکار کردیا کہ اس طرح کے معاملات یہاں ہر روز ہوتے رہتے ہیں۔ ہم رپورٹ درج نہیں کر سکتے۔ ندیم صاحب نے بتا یا کہ اگرآپ کی جیب میں 100 روپے ہوں اور بنگالی خاص کرسرحدی بنگالیوں کو پتہ چل جائے تو وہ آپ کو بغیر لوٹے نہیں چھوڑیں گے، یہاں تک کہ وہ آپ کے قتل سے بھی باز نہیں آئیں گے۔ یہ سن میں مبہوت رہ گیا۔
بنگال میں مسلمانوں کی آبادی 30 فیصد ہے ۔ لیکن ریاست کی ترقی میں مسلمانوں کا رول صفر ہے۔ بہت سی مسلم سیاسی پارٹیاں بنگال کو اپنا سیاسی امپائر بنانا چاہتی ہیں لیکن انھیں کوئی کامیابی نہیں مل رہی ہے اور نہ ہی انھیں کوئی کامیابی ملنے والی ہے۔ کیونکہ ان کا نقطہ آغاز ہی غلط ہے۔ جو قوم اتنی بگڑی ہوئی ہو کہ سوروپے کے لئے لوگوں کی جان لینے سے بھی باز نہ آئے وہ قوم حکمرانی کس طرح کر سکتی ہے، خدا ایسا تو نہیں کہ وہ اس طرح کے لوگوں کو حکمراں بنا کر اہل زمین پر ظلم کرے۔

سماجی اوراخلاقی ایمپائربنانے سے پہلے سیاسی ایمپائرکی تعمیرکا خواب دیکھنا دیوانگی کی حد تک غلط ہے۔ یہ گھوڑے کے آگے گاڑی باندھنے کے مترادف ہے، اورکوئی بھی شخص گھوڑے کےآگے گاڑی باندھ کراپنا سفرمکمل تو دور شروع بھی نہیں کر سکتا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں