جمعہ، 4 جولائی، 2014

What is the hurry?

اتنی جلدی کیا ہے؟

محمد آصف ریاض
مودی حکومت نے27 مئی 2014 کوایک سرکولرجاری کیا تھا۔ اس سرکولرمیں تمام وزارت اورمتعلقہ محکمات سے کہا گیا تھا کہ وہ سرکاری کا موں میں ہندی کو ترجیح دیں ۔ بینکوں اوردوسرے محکمات سے کہا گیا تھا کہ وہ سوشل میڈیا پرہندی کا استعمال کریں۔ ایسا کرنے والوں کوانعام سے نوازنے کا اعلان کیا گیا تھا۔
جیسے ہی اس سرکولرکوعام کیا گیا، تمل نا ڈوسمیت ملک کے دوسرے خطے میں ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ ہرطرف سے اس کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں۔ اڈیشہ میں ایک رکن اسمبلی نے ہندی میں سوال پوچھا تو اسے ایسا کرنے سے روک دیا گیا۔ تمل ناڈو میں  ڈی ایم کے چیف ایم کرونا ندھی نے مذکورہ سرکولر کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ "غیر ہندی بھاشیوں کو سیکنڈ کلاس شہری بنا نے کی ایک سازش ہے۔"


giving priority to Hindi will be construed as a first step towards attempt at creating differences among non-Hindi speaking people and making them second class citizens".


ہندی کے خلاف شورو غوغا اتنا بڑھا کہ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کوسامنے آکرصفائی پیش کرنی پڑی۔ انھوں نے ٹیوٹر پر لکھا کہ "وزارت ملک کی تمام زبانوں کی ترویج و اشاعت کے لئے پابند عہد ہے۔"


"”The ministry is committed to promote all languages of the country,”


اس پورے معاملہ پر ملک کے معروف صحافی اور دانشور کلدیپ نیئر نے ایک مضمون لکھا۔ اس مضمون کا عنوان تھا:


India & the politics of language


اس مضمون میں کلدیپ نیئر نے بتا یا کہ زبانیں تہذیب وثقافت سے جڑی ہوتی ہیں۔ کوئی بھی قوم اپنی زبان سے دست بردار ہونا نہیں چاہتی۔ بنگلہ پر اردو کو تھوپنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ بنگلہ دیش پاکستان سےعلیحدہ ہوگیا۔ زبان کا معاملہ بہت نازک اور پیچیدہ معاملہ ہوتا ہے چنانچہ اس کے بارے میں کوئی فیصلہ لینے سے پہلے بہت زیادہ غورو خوض کر لیناچاہئے۔ انھوں نے پوچھا کہ جلدی کیا ہے؟ اتنے سالوں تک انتظار کیا گیا تو کچھ اورانتظار کر لیا جائے تو کیا نقصان ہو جائے گا ؟ آخرکار ہر ریاست میں تمل ناڈو کو چھوڑ کر ہندی کو ایک لازمی سبجکٹ قرار دے دیا گیا ہے لوگ ہندی سیکھ رہے ہیں۔ مختلف ریاستوں سے جاب کی تلاش میں نکلنے والے لوگ ہندی سیکھ رہے ہیں۔ فلم نے ہندی کو پورے ملک میں پہنچا دیا ہے اور اب صورت حال یہ ہے کہ سائوتھ یعنی جنوبی ہند میں بھی کوئی شخص ہندی میں بات چیت کر سکتا ہے۔ انھوں نے پوچھا کہ 50 سال کے بعد کتنی زبانیں باقی رہ جائیں گی؟ چنانچہ اس معاملہ میں صبر ہی سب سے بڑی پالیسی ہے۔ یہاں تک کہ جنوبی ہند کے لوگ بھی اتر پردیش، راجستھان اور گجرات کی طرح ہندی می مہارت حاصل کر لیں۔


Meanwhile, the chauvinist supporters of Hindi should patiently wait till people all over the country are proficient in Hindi. Already, it is a compulsory subject in all the states except for Tamil Nadu. Job seekers from different states too have underlined the necessity of learning Hindi. Films have spread the language throughout the country and one can converse in the south in Hindi or Hindustani. A few more years will see the entire non-Hindi speaking population speaking the language fluently.


Published: July 1, 2014


یہ ایک واقعہ ہے جو بتا رہا ہے کہ کچھ سماجی معاملات اتنے پیچیدہ ہوتے ہیں کہ حکومت بھی ان کے سامنے مجبور ہوجاتی ہے۔ حکومت کے سامنے بھی اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچتا کہ وہ صبر کرے۔


اس ملک میں مسلمانوں کے بھی کئی معاملات ہیں۔ مثلا سیاسی معاملات ، معاشی معاملات ، سماجی معاملات وغیرہ۔ مسلمان انھیں ایک ہی جست میں حل کر لینا چاہتے ہیں۔ مثلا ان دنوں مسلمانوں کے درمیان سیاست کا غلغلہ ہے۔ ہر طرف جسے دیکھئے سیاسی گفتگو میں مصروف ہے۔ مدرسہ کے مولوی سے لے کر کالج کے بیچلر تک سب سیاسی اکھاڑے میں کود پڑے ہیں ۔ انھیں لگتا ہے کہ سیاست کے ذریعہ وہ اپنا سب کچھ پا سکتے ہیں جنھیں وہ نادانی کے ذریعہ کھو چکے ہیں۔ لیکن اس کا نتیجہ کیا نکل رہا ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ بلکہ بعض اوقات یہ کائونٹر پروڈکٹیو ثابت ہوجا تا ہے۔


مسلمان سیاسی جنون میں یہ بھول چکے ہیں کہ سیاست نمبر گیم کا نام ہے۔ اس وقت اگر ملک کے سارے مسلمان متحد ہوکر بھی سیاست کریں تو وہ اپنی اس سیاست سے کچھ حاصل کر نے والے نہیں ہیں۔ کیوں کہ وہ زیادہ سے زیادہ 15سے 20 فیصد کی ہی سیاست کر سکیں گے ، ہاں اگر وہ پچاس سال صبر کرلیں تو شاید انھیں یہ موقع مل جائے کہ وہ پچاس فیصد کی سیاست کر سکیں۔

اسی طرح ان کے دوسرے مسائل ہیں جیسے بھید بھائو (discrimination) کا مسئلہ وغیرہ۔ ملک کے مسلمان اگران مسائل پر 50 سال صبر کرلیں اوراپنے آپ کو تعمیری کام میں لگا دیں، مثلاً اسکول کھولیں، لائبریری چلائیں، کالجز قائم کریں، اسپتال بنائیں، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ دوسروں کو فائدہ پہنچانے والی قوم بن کررہیں ، جسے قرآن میں خیر امت کہا گیا ہے ۔ اگر وہ ایسا کریں تو وہ پائیں گے کہ جن مسائل کے حل کے لئے وہ بار بار سڑکوں پر اتر رہے تھے ان میں زیادہ تر مسائل وہ تھے جو خود بخود حل ہو گئے۔

مسلمانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ نیچورل ریمیڈی کو نہیں جانتے۔ انھیں جاننا چاہئے کہ وقت کا ایک دھورا وہ ہے جسے وہ یا ان کے جیسے لوگ گھماتے ہیں اور ایک دھرا وہ ہے جسے خود خدائے پاک گھماتا ہے۔ چنانچہ مسلمانوں کو اس وقت تک صبر کرنا چاہئے جب تک کہ وقت کا دھورا ان کے فیور میں نہ آجائے۔ اس بات کو قرآن میں اس طرح سمجھا یا گیا ہے: ولربک فصبر، یعنی اپنے رب کے لئے صبر کرو۔

3 تبصرے: