ہفتہ، 12 جولائی، 2014

We have to fight with the book

ہمیں کتاب سے لڑنا ہے

محمد آصف ریاض
ایک صاحب سے دہلی میں ملاقات ہوئی۔ انھوں نے ملاقات کے دوران ایک بہت ہی سبق آموزواقعہ سنایا۔ انھوں نے بتا یا کہ ا یک شخص ایک جنگل سے گزررہا تھا۔ اس نے ایک پرندے کے بچے کوگھونسلے میں اسٹریگل کرتے ہوئے دیکھا ۔ وہ بچہ گھونسلہ کو پھاڑ کر باہر نکلنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہا تھا۔
یہ دیکھ کر مذکورہ شخص کو رحم آگیا اور اس نے اپنے قلم  سے گھو نسلے کا منھ  بڑھا دیا۔ جیسے ہی گھونسلے کا منھ بڑا ہوا وہ بچہ چھلانگ لگا کر نیچے زمین پرآگیا۔ وہ اڑنا چاہ رہا تھا لیکن اڑ نہیں پا یا اورمر گیا۔
ایک تجربہ کارآدمی نے اسے بتا یا کہ آپ نے پرندے کے بچے کو ماردیا۔ اگر آپ اس کے گھونسلے کا منھ بڑا نہیں کرتے تو وہ زمین پرگرکرنہیں مرتا۔ اس نے بتا یا کہ پرندے باہری دنیا میں آ نے سے پہلے اپنی اندرونی دنیا یعنی گھونسلے میں بہت مشقت کرتے ہیں، یہ مشقت ان کے بال و پر کوبہت مضبوط کردیتی ہے ، یہاں تک کہ وہ ایک دن گھونسلہ کا منھ پھاڑ کر باہر نکل آتے ہیں اور فضائوں میں اڑنے لگتے ہیں۔
ہر آدمی کے اندر کمزوروں کی مدد کرنے کا جذبہ فطری طور پر موجود رہتا ہے۔ لیکن انسان اگر اپنے جذبے کو دماغ کے تابع نہ کرے تو ایسا ہوگا کہ وہ مدد کے نام پرمخلوق خدا کو ہلا کت میں ڈال دے گا۔ وہ پرندوں کو توانا ہونے سے پہلے ہی فضا ئوں میں  اڑنے کے لئے دھکیل دے گا۔
آج دنیا بھرمیں مسلمانوں کے لیڈران مسلمانوں کے ساتھ یہی کر رہے ہیں ۔ وہ انھیں ان کے گھروں سے نکال کر تباہی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ وہ انھیں صبر کی جگہ بے صبری کا سکھا رہے ہیں، وہ انھیں امن کی جگہ جنگ کی بات بتا رہے ہیں۔ وہ خدائی کتاب کی جگہ گولہ بارود لے کر اٹھ رہے ہیں۔ حالانکہ مسلمانوں کو خدا نے ایک ایسی کتاب دی ہے کہ اگراسے اچھی طرح ہر گھر میں پہنچا دیا جائے تو پوری دنیا سے جنگ خود بخود ختم ہوجائے گی۔
آج دنیا میں سات بلین انسان بستے ہیں۔ سب ایک ہی ماں باپ یعنی آدم کی اولاد ہیں۔ اب اگر انھیں قرآن پڑھنے کے لئے دیا جائے تو وہ ضرور اپنے باپ آدم کے دین کی طرف پلٹ آئیں گے۔ سات بلین انسانی آبادی میں ڈیڑھ بلین مسلمان ہیں، یعنی ہر مسلمان اگر پانچ قرآن اپنے غیر مسلم بھائیوں کے درمیان تقسیم کردے  تو کوئی وجہ نہیں کہ 10 سال کے اندر ساڑھے پانچ بلین انسانوں میں سے ایک بلین انسان آدم کے دین کی طرف پلٹ آئیں اور جب صورت یہ ہو کہ اتنی بڑی تعداد یعنی ساتھ بلین میں ڈھائی بلین مسلمان ہوں، تو پھر 10 سال کے بعد ان کی جو آبادی ہو گی اتنی بڑی آبادی سے کون لڑنا پسند کرے گا،  تب تو صورت حال یہ ہوگی کہ جنگ لڑے بغیر اپنا ہتھیار ڈال دے گی۔
مسلمانوں نے 628 میں صلح حدیبیہ کیا۔ یہ صلح دس سال کے لئے تھا ۔ اس وقت محض 1400 سو مسلمان مرد تھے جو حج کے لئے نکلے تھے جنھیں حدیبیہ کے مقام پر قریش نے جبراً روک لیا تھا۔ صلح حدیبیہ کے بعد No war treaty کی وجہ سے مسلمانوں کو دعوہ ورک کا موقع ملا اور اس دعوہ ورک کی وجہ سے ان کی تعداد دو ہی سال میں 10000 پہنچ گئی اورجب , 630میں مسلمان مکہ کی طرف بڑھے تو ان کی تعداد سے مرعوب ہو کر مکہ میں کوئی شخص مزاحمت کی جرئت نہیں کر سکا یہاں تک کہ ابو جہل کا بیٹا بھی نہیں۔

کیا مسلمان یہ واقعہ آج نہیں دہرا سکتے؟ کیا آج ہمارے ہاتھوں میں حدیبہ کا موقعہ نہیں ہے؟ کیا ہم اس آزمائے ہوئے کامیاب فارمولہ کو دوبارہ نہیں آزما سکتے؟ آپ کے دشمنوں کا حال یہ ہے کہ وہ آزمائے ہوئے ناکام فارمولہ کو بھی دوبارہ آزمانے سے نہیں چوکتے تو پھر کیا وجہ ہے کہ آپ آزمائے ہوئے کامیاب فار مولہ کو بھی آزمانے میں تردد سے کام لے رہے ہیں ؟

معروف صحافی اور دانشور کلدیپ نیئر نے اپنی سوانح Beyond the lines میں لکھا ہے کہ ایک بار انھوں نے ایک امریکی ڈپلومیٹ سے پوچھا کہ آپ کی معیشت تو ہتھیاروں پرمنحصر ہوتی جا رہی ہے، تو اتنے ہتھیار آپ کہاں کھپائیں گے، اس نے جواب دیا کہ اس انڈسٹری کو جاری رکھنے کے لئے ہم جنگ کو جاری رکھیں گے۔   We will keep the war going
  
ان کو جنگ سے فائدہ ہے تو وہ جنگ کی آگ بھڑکا رہے ہیں میں پوچھتا ہوں کہ مسلمانوں کو اس سے کیا فائدہ مل رہا ہے؟ کچھ بھی نہیں تو پھر مسلمان جنگ کیوں کریں؟
مسلمانوں کی انڈسٹری قرآن سے چلتی ہے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی تو جہاں کہیں وہ ہتھیار لے کر نکلتے ہیں آپ ان کے جواب میں قرآن لے کر نکلئے، صحابہ نے یہی کیا تھا اور کامیاب رہے تھے، تو پھر کیا وجہ ہے کہ مسلمان اسی کتاب کو لے کر نکلیں اور ناکام ہو جائیں؟

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں