بدھ، 23 جولائی، 2014

میں ہندوستانی مسلمانوں سے پوچھ رہا ہوں

میں ہندوستانی مسلمانوں سے پوچھ رہا ہوں

محمد آصف ریاض
ملک کی آزادی کے ساتھ ہی ملک کی تقسیم کا سانحہ پیش آگیا۔ 1947 میں بٹوارے کے وقت پنجاب میں مسلمانوں کی اکثریت تھی لہذا یہ طے پا یا کہ پنجاب پاکستان کے ساتھ جا ئے گا، پھر یہ ہوا کہ پنجاب کے مشرقی علاقہ میں سکھ اورہندو رہتے تھے جو اس بٹوارے پرراضی نہ ہوئے تو مغربی پاکستان جہاں مسلمان اکثریت میں تھے اسے پا کستان کو دے دیا گیا اور مشرقی پنجاب ہندوستان کے ساتھ رہا۔  اس طرح مغربی پنجاب کا 65 فیصد حصہ پاکستان کو گیا اور مشرقی پنجاب کا 35 فیصد حصہ ہندوستان کے حصے میں آیا۔
بٹوارے کی صورت میں بہت خون خرابہ ہوا۔ پروفیسر اے آر مومن A. R. Momin   کے مطابق تقسیم کے دوران تقریبا پانچ لاکھ لوگ مارے گئے۔ مغربی پنجاب میں مسلمانوں نے ہندوئوں اورسکھوں کو مارا اور مشرقی پنجاب میں ہندو اور سکھوں نے مسلمانوں کو چن چن کر قتل کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کا تقریباً صفایا ہوگیا، ہزاروں مسجدیں نیست و نابود کر دی گئیں اور بہت سی مسجدیں سکھوں اور ہندوں کے قبضے میں چلی گئیں اوران میں بہت سی مسجدیں آج بھی ان کے قبضے میں ہیں۔
ملک کی تقسیم نے لوگوں کے دلوں کوبانٹ دیا تھا، حالانکہ جو احمق ملک کو بانٹ رہے تھے وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ صرف زمینوں کا بٹوارہ ہے، اس سے لوگوں کے دلوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ وہ اپنی جہالت میں اس قدرغرق تھے کہ انھیں پتہ ہی نہیں تھا کہ مذہب کے نام پرتقسیم بہرحال انسانوں کے دلوں کو بانٹ دے گا۔ بہرکیف وہی ہوا جو ہونا تھا۔ یعنی دونوں طرف سے زبردست خون ریزی ہوئی اور ہزاروں لوگ مارے گئے۔ مزید جانکاری کے لئے پڑھئے : India wins freedom . by Maulana Azad
1984 میں آپریشن بلو اسٹار، وزیر اعظم اندرا گاندھی کا قتل، اور پھرسکھ  قتل عام کے بعد سکھوں میں مسلمانوں کے تئیں سیکنڈ تھاٹ پیدا ہوا۔ چونکہ ملک بھر میں سکھوں کو ہندوں کے ہاتھوں قتل و خون کا سامنا کرنا پڑا تھا اس لئے انھوں نے اس برے وقت میں مسلمانوں کواپنے قریب پایا۔ پہلے جو سکھ مسلمانوں کو دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے، اب وہ مسلمانوں کے قریب ہونا پسند کرنے لگے تھے۔
موقع جو گنوا دیا گیا
1984 کے سکھ فساد کے بعد مسلمانوں کے تئیں سکھوں کی سوچ کا بدلنا گویا خدا کے اس قانون کے مطا بق ہوا تھا جسے قرآن میں نداولہا بین الناس یعنی ہم لوگوں کے درمیان وقت کو پھیرتے رہتے ہیں۔ یہ ملک کے مسلمانوں کے لئے بہت بڑا موقع تھا کہ وہ اپنے آپ کو سکھوں کے قریب کریں اورانھیں خدا کا کلمہ سنا ئیں۔ لیکن ملک کے مسلمان ایسا نہ کرسکے، کشمیر جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے اس کی سرحد پنجاب سے ملتی ہے لیکن اس نے بھی صرف فساد میں اضافہ کیا وہ خدا کے داعی کے طور پر سکھوں کو کچھ دے نہ سکے، انھوں نے بندہ خدا کو خدا کا کلمہ نہیں سنا یا، یعنی انھیں قرآن نہیں پہنچا یا گیا۔ اس طرح انھوں نے ایک سنہرا موقع (golden opportunity )  کھو دیا۔
مسلمانوں کے تئیں سکھوں کے رویہ میں تبدیلی کا عالم یہ تھا کہ جب میں 2008 میں چنڈی گڑھ گیا تو وہاں کے مفتی شہر سے منی ماجرا کے ایک مدرسہ میں میری ملاقات ہوئی ۔ میں نے ان سے پوچھا کہ یہاں مسلمانوں کا کیا حال ہے؟ انھوں نے بتا یا کہ ایک وقت تھا جب مسلمان اس ریاست میں اپنا نام لینے سے گھبرا تے تھے لیکن اب انھیں کھلی آزادی حاصل ہے، آج وہ ٹوپی کرتا پہن کراور داڑھی رکھ کر شہروں میں گھومتے ہیں اور کوئی انھیں روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے۔ انھوں نے بتا یا کہ سکھوں نے جن مساجد پر قبضہ جما رکھا تھا انھیں وہ خود ہی رضاکارانہ طور پر مسلمانوں کے حوالے کر رہے ہیں۔ بہار اور یوپی کے جو مسلم مزدور یہاں کام کررہے ہیں سکھ انھیں زمین دے کر بسا لیتے ہیں اوران پر مسجدوں کے دروازے کھول دیتے ہیں بعض اوقات وہ نئی مسجد بنا کربھی  دے دیتے ہیں۔
پنجاب کے شاہی امام حبیب الرحمٰن لدھیانوی سے فون پر ہماری بات چیت ہوئی تو ایک بات چیت میں انھوں نے بتا یا کہ اب تک انھوں نے ریاست میں 400 مسجدیں سکھوں کے ہاتھوں سے واگزار کرا لی ہیں اوران میں بہت سی مسجدیں وہ ہیں جنھیں خود سکھوں نے رضا کارانہ طور پر مسلمانوں کو واپس لوٹا  دیا ہے یا لوٹا رہے ہیں۔
فتح گڑھ صاحب میں دیوا گنڈواں (Diwa Gundwan) گائوں میں سکھوں اور ہندوں نے مل کر اس مسجد کی از سر نو تعمیر کی ہے جسے تقسیم کے وقت نقصان پہنچا یا گیا تھا۔ موگا کے نزدیک اجیت وال Ajitwal  گائوں میں ایک مسجد تھی جسے تقسیم کے وقت تقریباً مسمار کر کے کوڑا دان میں تبدیل کر دیا گیا تھا ، ایک دن چند سکھ ، مسلم اور ہندو طلبا نے اسے صاف کرنا شروع کیا اور پھر سبھوں نے مل کر اسے از سر نو تعمیر کر دیا۔
مسلمانوں کے تئیں سکھوں کے اندر بدلائو کا عالم یہ تھا کہ شرومنی گرودوا پربندھک کے ایک سابق صدر نے یہاں تک کہہ دیا کہ تقسیم کی لڑا ئی میں انھوں نے ایک مسلم کو مار دیا تھا اب انھیں اپنے جرم پر ندامت ہے اور وہ اس گناہ کو دھونے کے لئے ایک مسجد بنانا چاہتے ہیں اور انھوں نے اپنے گائوں میں ایک مسجد تعمیر کی ۔
1985 کے بعد مسلمانوں کے تئیں سکھوں کے رویہ میں آنے والی تبدیلی ملک کے مسلمانوں کے لئے ایک بہت بڑا موقع تھا۔ مسلمان اس موقع کا استعمال کر کے سکھوں کے درمیان قرآن کا پیغام پیش کر سکتے تھے ، وہ وہاں اپنے لئے تجارت کے مواقع تلاش کر سکتے تھے ، لیکن کہا جا سکتا ہے کہ مسلمان ایسا کرنے میں پوری طرح ناکام رہے۔ کشمیری جو سر حد پر ہونے کی وجہ سے سکھوں کے بہت قرب تھے وہ اپنی کشمیریت کا لبادہ اوڑھ کر سوئے رہے۔ انھوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ایک پڑوسی کے تئیں ان کی اپنی کوئی دینی ذمہ داری بھی ہے۔
 1985 کے واقعہ کا الٹا فائدہ بی جے پی نے اٹھا یا ۔ بی جے پی نے سکھوں کو یہ سمجھا یا کہ  سکھوں کا قتل عام کانگریس نے کرا یا تھا، حالانکہ کہا جا تا ہے کہ سکھوں کے خلاف اشتعال انگیزی میں ہندو تنظیموں کا بڑا کر دار تھا ۔ لیکن اس سچائی کے باوجود بی جے پی نے اسے کانگریس کا معاملہ بنا دیا۔
روزنامہ ہندو کی ایک رپورٹ کے مطابق  2014 کے لوک سبھا انتخابات  کے موقع پر موجودہ وزیر اعظم مسٹر مودی جب  پنجاب گئے تو انھوں نے وہاں عوام  سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اکالی دل کے ساتھ بی جے پی اتحاد صرف د دو پارٹیوں کا اتحاد نہیں ہے بلکہ یہ ہندو اور سکھ کا اتحاد ہے۔



Mr. Modi said that the alliance between the Akali Dal and BJP was not just political but represents Hindu-Sikh unity, which the Congress has tried in vain to sabotage through its “divide and rule” agenda.


The Hindu 24, 2014 03
مسلمانوں کو یہ شکایت ہے کہ  پوری دنیا میں ان کے ساتھ ظلم و زیادتی کا سلوک ہوتا ہے لیکن وہ کبھی اس بات پر غور نہیں کرتے کہ ان کے ساتھ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ ان کے ساتھ ایسا اس لئے ہو رہا ہے کیوں کہ وہ پیغمبر کے مقام پر فائز کئے گئے لیکن وہ پیغمبرانہ ذمہ داری نبھانے میں ناکام رہے اس  لئے خدا نے لوگوں کے دلوں کو ان پر سخت کردیا۔ اورسزا کے طور پر انھیں  رسوائی کی پیٹ میں دفن کر دیا جس طرح  حضرت یونس کو مچھلی کے  پیٹ میں ڈال دیا تھا۔
 اب رسوائی کے  پیٹ سے نکلنے کے لئے مسلمانوں کے پاس ایک ہی راستہ ہے، وہ یہ کہ وہ توبہ نصوح سے کام لیں۔  وہ سچی توبہ کریں اور حضرت یونس کی طرح اپنے مشن پر لوٹ جائیں۔
ہندوستان میں ایک ارب  پچیس کروڑ لوگ رہتے ہیں ۔ اس میں  تقریباً پچیس کروڑ مسلمان ہیں ، چنانچہ  ہر مسلمان مرد عورت پر فرض ہے کہ وہ اپنے پانچ قریبی ساتھیوں کو ایک ایک قرآن گفٹ کریں ۔ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک خدائی پیغام کو پہنچائیں۔ وہ خدائی دین کے علمبردار بنیں ۔ اسی راستے سے خدا نے ماضی میں انھیں  سر خرو کیا تھا اور دوبارہ اسی راستے سے وہ اس دنیا میں سر خرو ہو سکتے ہیں۔ اس کے علا وہ مسلمانوں کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔ خدا کے سامنے جب غیر مسلم یہ دعویٰ  کریں گے کہ خدا یا، مجھے کسی نے آپ کا پیغام نہیں پہنچایا تو خدا اس وقت مسلمانوں سے ضرور پوچھے گا کہ تم نے خدا کا کلمہ لوگوں کو کیوں نہیں پہنچایا؟ کیا مسلمان خدا کے اس سوال کا جواب دینے کے لئے تیار ہیں؟ میں ہندوستانی مسلمانوں سے پوچھ رہا ہوں!

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں