پیر، 9 فروری، 2015

وزیر اعظم مودی اور امن کے دس سال

وزیر اعظم مودی اور امن کے دس سال

محمد آصف ریاض
پندرہ اگست کو قوم کے نام اپنے پہلےخطاب میں وزیراعظم نریندر مودی نے لال قلعہ سے یہ اعلان کیا تھا کہ " ہمیں تشدد سے پاک دس سال دیجئے۔ لڑائی جھگڑا اورتشدد سے پاک دس سال ملک کی تقدیربدل دینے کے لئے کافی ہے"۔ ٹائمز آف انڈیا نے اس کی رپورٹنگ کرتے ہوئے لکھا تھا:
PM Narendra Modi pitches for 10-year moratorium on violence
چونکہ وزیراعظم گجرات فساد کولے کرہمیشہ چرچے میں رہے ہیں، شاید اسی لئے مسلمانوں کےایک طبقہ نےان کے اس اعلان کو شک کی نگاہ سے دیکھا ۔ کچھ لوگوں نے یہ سمجھا کہ آرایس ایس کواپنی پالیسی کے نفاذ کے لئے ابھی وقت درکارہےاورشاید وزیراعظم اسی لئے وقت مانگ رہے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں یہ ایک مفروضہ ہے۔ اپنی اصل کے اعتبارسے یہ تعبیر کی ایک غلطی ہے۔ مسلمانوں نے ایک صحیح پیغام کو  غلط معنیٰ میں لے لیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کوئی حکمراں اپنی ہی رعایا کی تباہی کا سامان کیوں تیار کرے گا اوراگر وہ اپنی ہی رعایا کوتباہ کرنے میں کامیاب ہوگیا تو وہ حکومت کس پر کرے گا؟
دوسری بات یہ کہ اگر یہ دس سال کا موقع آرایس ایس کی تیاری کے لئے ہے تواس کی قیمت کے طور پرہندوئوں کو اپنے لاکھوں بچوں کو تخریب کاری پرآمادہ کرنا ہوگا ؟ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلمان اپنے بچوں کو تخریب کاری سکھاتے ہیں اور اگروہ اپنے بچوں کو تخریب کاری نہیں سکھاتے تو ہندو اپنے بچوں کو تخریب کارکیوں بنائیں گے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو بیوقوفی خود مسلمان نہیں کرتے وہ ملک کے ہندو کیوں کرنے لگے؟
تیسری بات یہ ہےکہ اگریہ دس سال آرایس ایس اوردوسرے ہندو انتہا پسندوں کی تخریب کاری کی تیاری کے لئے ہے تو پھراس کی کیا گارنٹی ہے کہ دس سال تک اوراس کے بعد بھی وقت کا سرا ان ہی کے ہاتھوں میں رہے؟
تاریخ کا سبق بتاتا ہے کہ آدمی کواس بات کا اختیار ہوتا ہے کہ کسی چیزکا آغاز وہ اپنی امنگوں کے مطابق کرے لیکن اس کا انجام بھی اس کی امنگوں کے مطابق ہو اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی ؟
چند مثالیں
عیسائیوں نے بارہویں صدی کے آغاز میں مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگ کا آغاز کردیا تھا۔ یہ آغاز ان کے ہاتھ میں تھا لیکن اس کی قیمت انھیں یہ چکانی پڑی کہ یوروپ کا بڑا حصہ بشمول استنبول مسلمانوں کے ہاتھوں میں چلا گیا۔ بارہویں صدی کے خوبصورت آغاز کا انجام پندرہویں صدی میں بہت زیادہ افسوسناک تھا۔
روس 1979 میں افغانستان میں گھس گیا ۔ یہ اس کے اختیار میں تھا لیکن کیا انجام بھی اس کے اختیار میں تھا؟ سب جانتے ہیں کہ روس افغانستان سے اس حال میں نکلا کہ بہت جلد وہ 13 ٹکڑوں میں بکھر گیا تھا ۔ اسی طرح سری لنکا کے صدر راج پکشے نومبر  2005  میں تملوں کو کچل کر حکومت میں آئے اور 9 جنوری  2015 کے انتخاب میں اپنے حریف میتھری پا لا سری سینا Maithripala Sirisena کے ہاتھوں بری طرح شکست کھا گئے۔
 کیا راج پکشے کا مذہبی جنون انھیں بچا سکا ؟ نہیں! تو پھرمودی جی اسی طرح کے جنون میں کیوں مبتلا ہوں گے؟ جو عمل بڑے بڑوں کو پچیچھے دھکیل رہا ہو مودی جی اسی عمل کو دوہرا کر پچھلی سیٹ پر کیوں بیٹھنا چاہیں گے؟۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو حکمراں امن کے ساتھ 100 سال تک حکومت کر سکتا ہے تو وہ بد امنی پھیلا کر اپنی مدت حکمرانی کوگھٹا کردس سال کیوں کرے گا؟
اصل بات
اصل بات یہ ہے کہ دس سالہ امن کے ذریعہ وزیراعظم لوگوں کو امن کا مزا چکھانا چاہتے ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ جب لوگوں کو امن کا مزہ مل جائے گا تو وہ بد امنی پر کبھی نہیں اتر سکتے۔ شاید وہ لوگوں کو امن کا فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں تاکہ لوگوں کو اس میں مزہ ملنے لگے۔ وہ لوگوں کے اندر امن کی عادت پیدا کرنا چاہتے ہیں اور اسی لئے امن کے دس سال مانگ رہے ہیں؟
میں نہیں سمجھتا کہ اس کے پیچھے ان کا کوئی اورمنصوبہ ہے۔ اوراگرہے بھی تب بھی مسلمانوں کو ان کے اس اعلان کا استقبال کرنا چاہئے کیوں کہ قرآن میں بتا یا گیا ہے کہ جو آدمی چال چلتا ہے اس کا وبال اسی کے سر پر پڑتا ہے۔     

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں