بدھ، 18 فروری، 2015

پاکستانیوں کی نجات

پاکستانیوں کی نجات

محمد آصف ریاض
پاکستان میں تقریباً ہرروزقتل وغارت گری کے بازارگرم  ہوتے ہیں ۔ یہاں تقریباً ہرروزکوئی نہ کوئی خونی واقعہ ضرور پیش آتا ہے۔ کبھی مسجد پرحملہ ہوتا ہے توکبھی چرچ جلائے جاتے ہیں۔ کبھی اسکولوں کو نشانہ بنا یا جا تا ہے توکبھی خانقاہوں میں خون کی ہولی کھیلی جا تی ہے۔ صورت حال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اب پاکستانی اسےاپنا نوشتہ تقدیرسمجھنے لگے ہیں۔ انھیں یہ لگتا ہے کہ اب وہ اس سلسلے میں کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ They cannot do anything about this))
اسی قسم کا ایک خونی واقعہ وہ ہے جسے پشاورکا قتل عام کہا جا تا ہے۔ یہاں 16 دسمبر2014 کو ایک اسکول میں 9 دہشت گرد گھس آئے اورانھوں نے ننھے ننھے بچوں پرگولیاں چلانی شروع کردیں یہاں تک کہ 150 بچوں کو گولیوں سے بھون ڈالا۔ آج 13 فروری 2015 کوجبکہ میں اپنا یہ مضمون لکھ رہا ہوں ایک اورحملہ پشاورکی ایک مسجد میں ہوا ہے جہاں درجنوں لوگ مارے گئے ہیں۔
ایک عرصہ سے میں یہ سوچتارہا ہوں کہ آخر پاکستان کی یہ حالت کیوں ہوئی ؟ آخریہاں کوئی گھرکوئی عبادت خانہ ،کوئی تعلیم گاہ شدت پسندوں کے ہاتھوں سے محفوظ کیوں نہیں ہے؟  کیوں پاکستانیوں کو ہر روز ایک نئی چیخ و پکار کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ اس کا جواب ہمیں قرآن کی اس آیت میں ملا:
" اوریقیناً یونس بھی رسولوں میں سے تھا۔ یاد کرو جب کہ وہ ایک بھری ہوئی کشتی کی طرف بھاگ نکلا ۔ پھر قرعہ اندازی میں شریک ہوا اورمات کھائی۔ آخرکارمچھلی نےاسے نگل لیا اوروہ ملامت زدہ تھا۔ اب اگروہ تسبیح (توبہ) کرنے والوں میں سے نہ ہوتا تو وہ لوگوں کے اٹھائے جانے کے دن (قیامت) تک اسی مچھلی کے پیٹ میں رہتا۔  37: 139- 144))
حضرت یونس کا زمانہ آٹھویں صدی قبل مسیح کا ہے۔ وہ عراق کے شہرنینویٰ میں رسول بنا کربھیجے گئے تھے۔ انھیں تبلیغ دین کا کام دیا گیا تھا ۔ ایک مدت تک تبلیغ کے بعد آپ نے اندازہ کیا کہ قوم ایمان لانے والی نہیں ہے۔ آپ دلبرداشتہ ہوگئے اورشہر چھوڑ دیا۔ آگے جانے کے لئے آپ غالباً دجلہ کے کنارے ایک کشتی میں سوار ہوئے۔ کشتی زیادہ بھری ہوئی تھی۔ درمیان میں پہنچ کر ڈوبنے لگی۔ چنانچہ کشتی کو ہلکا کرنے کے لئے قرعہ ڈالا گیا کہ جس کا نام نکلے اسے دریا میں ڈال دیا جائے۔ قرعہ حضرت یونس کے نام نکلا اورکشتی والوں نے آپ  کو دریا میں پھینک دیا یہاں ایک مچھلی نے انھیں نگل لیا۔ یونس نے اپنی قوم کو قبل از وقت چھوڑ دیا تھا ۔ انھوں نے بے صبری کا مظاہرہ کیا تھا چنانچہ آپ کو مچھلی کے پیٹ میں بند کردیا گیا اوراس وقت تک آپ کو اس مصیبت سے نجات نہیں ملی جب تک کہ آپ نے توبہ نہیں کیا۔
اب پاکستان کا حال دیکھئے۔ پاکستان14 اگست 1947 کو وجود میں آیا۔ پاکستان کا وجود خدائی منصوبہ کے خلاف تھا ۔ کیونکہ اس کے قیام پرامت میں اتفاق رائے نہیں تھا۔ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان کے قیام کے خلاف تھی جو آج تک ہندوستان میں ہے اورخدا کے فضل سے یہاں کےمسجدومحراب کو روشن کئے ہوئے ہے۔
معروف مبصراورسیاسی تجزیہ کارکلدیپ نیئرنے اپنی سوانح Byond the lines   میں لکھا ہے کہ "ملک کی تقسیم سے سب سے بڑا نقصان مسلمانوں کو ہوا۔ کیونکہ تقسیم کے دوسرے ہے دن مسلمان ہندوستان کےاندرایک چھوٹی سی اقلیت بن کر رہ گئے حالانکہ اب تک وہ ایک بڑی طاقت تھے۔" اس سلسلے میں مزید جانکاری کے لئے پڑھئے مولانا ابوالکلام آزاد کی سوانح" آزادی ہند " India wins freedom انگریزی ایڈیشن۔
ملک کی تقسیم سے مسلمانوں کا سب سے پہلا اورامیجیٹ نقصان یہ ہوا کہ کئی مسلم اکثریتی صوبے اچانک دو لخت ہوکر رہ گئے۔ مثلا پنجاب جوکہ ایک مسلم صوبہ تھا پنجاب اورمغربی پنجاب کے درمیان منقسم ہوگیا۔ اسی طرح بنگال جومسلم صوبہ تھا مشرقی اورمغربی حصوں میں بٹ گیا۔ اسی طرح کشمیر کو دو حصوں میں بانٹ دیا گیا اورآسام کے بھی دو حصے کئے گئے۔ دوسرا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ بہت سے مساجدو مدارس اچانک ویران ہوگئے۔ بہت سی مسلم بستیاں جہاں کی فضائیں اذان کی صدائوں سے ہمہ وقت گونجتی رہتی تھیں اچانک اجڑ گئیں۔ مثلاً پنجاب، ہریانہ راجستھان، بہار، بنگال اورآسام کی مسلم بستیاں وغیرہ ۔ خدا کا فضل ہے کہ بہت سی تباہ حال مسلم بستیوں کو مسلمانان ہند نے ایک بار پھرسے آباد کردیا ہے جیسے ہریانہ ، بنگال، آسام، اور پنجاب کی مسلم بستیاں وغیرہ۔ اس سلسلے کی ایک رپورٹ وہ ہے جسے دی نیشنل ورلڈ نامی ویب سائٹ نے ان الفاظ میں شائع کیا ہے
 " Maolana Ludhianvi said. "In fact, because of excellent co-operation by the Sikhs, in the past few years in Punjab we have been able to resurrect nearly 20 mosques which had been lying in virtual ruins or had been turned to gurdwaras or had been occupied by illegal settlers for decades."

ملک کی آزادی کا وقت جوں جوں قریب آ تا گیا ملک میں مسلم لیگیوں نے بڑا طوفان مچایا۔ انھوں نے خوبصورت ہندوستان کو چھوڑ کر جہاں مسلمان ہزارسال سے آباد چلے آرہے تھے اورجس کےبارے میں حدیث میں پیشن گویاں بھی موجود ہیں، ایک نیا جنگل بسانا چاہا اورلوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے اس جنگل کا نام "اسلام آباد" رکھ دیا ۔ انھوں نے " بن کے رہے گا پاکستان، بٹ کے رہے گا ہندوستان" جیسے بھڑکائو نعروں سے پورے ماحول کو خراب کردیا ۔ 1946  میں انگریزوں کی نگرانی میں قائم ہونے والی عبوری حکومت سے مسلم لیگی اس قدر دلبرداشتہ ہوئے کہ انھوں نے ملک کو چھوڑ کر بھاگ جانے کا فیصلہ کیا اورآخر کار 1947 میں یہاں سے ٹرینوں بسوں اور بیل گاڑیوں میں بھر کر بھاگ کھڑے ہوئے۔
انھوں نے حضرت یونس کی طرح بے صبری کا مظاہرہ کیا اور دعوت کے مواقع پرسیاست کے مواقع کو ترجیح دی۔ انھوں نے صرف یہ دیکھا کہ اب ہندوستان میں ان کے لئے حکومت اورسیاست کے مواقع نہیں ہیں ۔ انھوں نے یہ نہیں دیکھا کہ دعوت کا میدان اب بھی کھلا ہوا ہے۔ اگر وہ دعوتی نگاہ سے دیکھتے تو انھیں ہندوستان میں بے پناہ مواقع نظر آجاتے۔ بہت جلد انھیں اس  با ت کا احساس ہوجا تا کہ دعوت کے راستے وہ سب کچھ پا سکتے جنھیں  وہ سیاست کے راستے سے پانا چاہتے ہیں۔ شیطان نے انھیں ایک ہی موقع دکھا یا وہ تھا سیاست کا موقع۔ شیطان نے انھیں بتایا کہ اب تمہارے لئے یہاں کوئی  موقع نہیں ہے اس لئے یہاں سے نکل جائو۔ انھوں نے شیطان کے بہکاوے پرہجرت کی اور دعوت کا میدان چھوڑ دیا۔ وہ بیل گاڑیوں پر سوار ہوکر بھاگ کھڑے ہوئے تو خدا نے انھیں حضرت یونس کی طرح مصیبت کے پیٹ میں بند کردیا اور تب سے آج تک وہ اس مصیبت کے پیٹ میں کراہ رہے ہیں لیکن نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے۔ وہ اس مصیبت سے اس وقت تک نجات حاصل نہیں کر سکتے جب تک کہ توبہ نہ کریں اور اپنے اوپر دعوت کا دروازہ نہ کھولیں۔
 " اوریقیناً یونس بھی رسولوں میں سے تھا۔ یاد کرو جب کہ وہ ایک بھری ہوئی کشتی کی طرف بھاگ نکلا ۔ پھر قرعہ اندازی میں شریک ہوا اورمات کھائی۔ آخرکارمچھلی نےاسے نگل لیا اوروہ ملامت زدہ تھا۔ اب اگروہ تسبیح (توبہ) کرنے والوں میں سے نہ ہوتا تو وہ لوگوں کے اٹھائے جانے کے دن (قیامت) تک اسی مچھلی کے پیٹ میں رہتا۔"  37: 139- 144))

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں