جمعرات، 19 فروری، 2015

کوشش کرنے والوں کی کبھی ہارنہیں ہوتی

کوشش کرنے والوں کی کبھی ہارنہیں ہوتی

محمد آصف ریاض
مئی 2014 کے لوک سبھا انتخابا ت کے لئے بی جے پی کے لیڈراورگجرات کے وزیراعلی نریندرداس مودی نے بہت ہی جارحانہ مہم شروع کی ۔ مسٹرمودی کوجب بی جے پی کی طرف سے وزیراعظم کا امیدواربنا یا گیا توانھوں نے ملک بھرمیں تقرباً پانچ سو ریلیاں کیں اوراپنی آتشیں تقریر کی بدولت میدان مارنے میں کامیاب ہوگئے۔ ان کی پارٹی پوری اکثریت کے ساتھ جیت گئی اورمسٹرمودی 26 مئی 2014 کوملک کے 15 ویں وزیراعظم بن گئے۔
مودی لہرکا ملک بھرمیں ایسا رعب طاری ہوا کہ اسی رعب کی بدولت مودی نے اپنی پارٹی کو مہارشٹر، ہریانہ، اور جھارکھنڈ کے اسمبلی انتخابات میں جیت دلا دی ۔ مودی لہر نے سیاسی سمندر میں وہ طوفان اٹھا یا کہ بشمول کانگریس دوسری تقریباً تمام پارٹیاں اس طوفان میں ڈوبتی ہوئی نظر   آئیں۔ ہرسیاسی کھلاڑی مودی لہرکے سامنے بے بس نظرآرہا تھا۔ اسی اثنا میں دہلی سے ایک شخص کھڑا ہوا۔ اس کا نام اروند کیجریوال تھا۔ لوگ اسے'مفلرمین' بھی کہتے ہیں کیونکہ وہ سردیوں میں اپنے گلے میں معمولی قسم کا مفلر لپیٹے رہتا تھا۔
 اروند کیجریوال عام آدمی پارٹی کے کنوینراوردہلی کے وزیراعلیٰ ہیں۔ وہ بہت زیادہ محنتی لیڈرمانے جاتے ہیں۔ انھوں نے انا ہزارے تحریک سے سیاسی زندگی کا آغازکیا۔ 2012 میں انھوں نےعام آدمی پارٹی بنائی اور2013 کے انتخاب میں حصہ لیا۔ اس انتخاب میں انھوں نے پندرہ سالوں سے دہلی پر راج کرنے والی خاتون وزیراعلیٰ شیلا دکشت کو بری طرح مات دی ۔ انتخابات کے بعد 28 سیٹوں کے ساتھ وہ بی جے پی کے بعد دوسری سب سے بڑی پارٹی بن کرابھرے۔ کانگریس کی مدد سے انھوں نے 23 دسمبر1913 کو دہلی کے وزیراعلیٰ کا حلف اٹھا۔ لیکن چونکہ ان کی پارٹی کواکثریت حاصل نہیں تھی اس لئے بہت جلد یعنی 14 فروری 2014 کو اپنےعہدے سے استعفیٰ د ے دیا۔
وزیراعلیٰ کاعہدہ چھوڑ کرکجریوال لوک سبھا کےانتخاب میں مودی کو ٹکر دینے کے لئے بنارس چلے گئے۔ لیکن یہاں انھیں مودی لہرکے ہاتھوں سخت قسم کی ہزیمت اٹھانی پڑی۔ مودی لہرمیں ان کی پارٹی بھی ملک بھرمیں بری طرح ہارگئی البتہ کسی طرح پنجاب میں وہ 4 سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
2015 میں دہلی میں صدرراج کا خاتمہ ہوا اورکیجریوال ایک بار پھرمیدان میں اترآئے۔ اس بار کیجریوال کا مقابلہ بنارس کے مودی سےنہیں تھا بلکہ اس مودی سے تھا جواپنی لہرکی بدولت ملک کا وزیراعظم بن چکا تھا اوراسی لہرکی بدولت وہ کئی ریاستی انتخابات بھی جیت چکا تھا۔ دہلی کے ریاستی انتخابات میں بھی اورریاستوں کی طرح 'چلوچلیں مودی کے ساتھ' کا نعرہ دے کر بی جے پی نےالیکشن کو کیجریوال بنام مودی کردیا۔ حالانکہ کیجریوال اس سے بچنا چاہ رہے تھے۔ لیکن بی جے پی اس کے لئے تیارنہ تھی۔ وہ کجریوال کومودی کے طوفان میں ڈوبا کرماردینا چاہ رہی تھی۔
مسٹرمودی نے دہلی میں کیجریوال کے خلاف یکے بعد دیگرے کئی ریلیاں کیں ۔ وہ اپنی آتشیں تقریر میں اس قدر آگے نکل گئے کہ انھوں نے کجریوال کو بھگوڑا اور نکسلی تک کہہ ڈالا۔ ہرطرف مودی لہرکا ہوا کھڑا کیا گیا لیکن کجریوال ہارماننے والے نہ تھے۔ انھوں نے ہار سے جیت کو نچوڑنے کی قسم کھا رکھی تھی ۔ انھوں نےپارٹی کو ازسرنو منظم کیا اور مودی لہر کے سامنے ڈٹ گئے ۔ انھوں نے سینکڑوں ریلیاں کیں اورگھرگھرجاکرلوگوں سے رابطہ قائم کیا۔ نتیجہ کارانتخاب جیت گئے۔
10 فروری 2015 کی صبح جب اسمبلی انتخابات کے نتائج کا اعلان ہوا توملک کا ہرشخص سکتے میں تھا۔ کجریوال نے مودی کو کہیں کا نہیں چھوڑا تھا اورپوری بی جے پی کو انھوں نے ڈوبا کر برباد کردیا تھا۔ مودی لہرکا خاتمہ اس اندازمیں ہوا کہ ان کی پارٹی 70 میں محض 3 سیٹ ہی لا سکی۔ حالت یہ ہوگئی کہ بی جے پی سے وزیراعلیٰ کی امیدوارکرن بیدی بھی الیکشن ہارگئیں جبکہ کانگریس اپنا کھاتہ بھی نہ کھول سکی ۔
کیجریوال کی اس حیران کن فتح پرہر طرف سے انھیں مبارک باد دی جانے لگی۔ امیتابھ بچن نے بھی انھیں مبارکباد دی۔ انھوں نے کیجریوال کومبارکباد دیتے ہوئے اپنے والد ہری ونش رائے بچن کی یہ نظم ٹیوٹ کی:
لہروں سے ڈر کر نوکا پار نہیں ہوتی
کوشش کرنے والوں کی کبھی ہارنہیں ہوتی
ننھی چیٹی جب دانا لے کر چلتی ہے
چڑھتی ہے دیواروں پرسوبارپھسلتی ہے
من کا وشواش رگوں میں ساہس بھرتا ہے
چڑھ کرگرنا گرکرچڑھنا نہ اکھڑتا ہے
آخراس کی محنت بیکارنہیں ہوتی
کوشش کرنے والوں کی کبھی ہارنہیں ہوتی
اسفلتا ایک چنوتی ہے اسے سیوکارکرو
کیا کمی رہ گئی دیکھو،اورسدھارکرو
جب تک نہ سفل ہونیند چین کوتیا گوتم
سنگھرش کا میدان چھوڑ کرمت بھاگوتم
کچھ کئے بنا ہی جئے جئے کار نہیں ہوتی
کوشش کرنے والوں کی کبھی ہارنہیں ہوتی

ہری ونش رائے بچن

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں