جمعہ، 6 جون، 2014

فرعون نہیں رہا لیکن فرعونیت باقی ہے

محمد آصف ریاض
فرعون بڑا ظالم بادشاہ تھا۔ اس نے یہود کواپنا غلام بنا لیا تھا۔ وہ یہود کے لڑکوں کوقتل کرادیتا تھا اوران کی لڑکیوں کواپنی غلامی میں رکھتا تھا۔ اس کی قوم قبطی، یہود کے خلاف ہر روزایک نیا ظلم ایجاد کرتی تھی اورفرعون ان کی پشت پرکھڑا رہتا تھا۔ حضرت موسیٰ نے جب فرعون کوخدا سے ڈرایا تووہ بھڑک اٹھا۔ وہ اپنی قوم سے مخاطب ہو کر کہنے لگا:
"مجھے چھوڑو، کہ میں موسیٰ کو مار ڈالوں۔ اوروہ اپنے رب کو پکارے۔ مجھے تو ڈر ہے کہ یہ کہیں تمہارا دین نہ بدل ڈالے یا ملک میں کوئی بہت بڑا فساد برپا نہ کر دے۔"
فرعون کا کوئی دین نہ تھا۔ وہ اپنے آپ کو انا ربکم الاعلیٰ کہا کرتا تھا۔ یعنی کہ میں ہی تہارا سب سے بڑا رب ہوں۔ اسی کے ساتھ وہ اپنی قوم کے اکابرین کو بھی خدا کے مقام پررکھتا تھا تا کہ وہ اپنےاکابرین کے نام پراپنی قوم پرحکومت کرسکے:
ہردورمیں خدا پرستوں کے خلا ف آ با پرستوں نے وہی رائے پیش کی ہے جو مو سیٰ کے سلسلے میں فرعون نے پیش کی تھی۔ یعنی مجھے چھوڑو کہ میں اسے مار ڈالوں کہیں وہ تمہارا دین نہ بدل ڈالے یا زمین پر فساد نہ برپا کردے۔
اپنے ملک میں  ہندو شدت پسندوں کی بات سنئے اور پڑھئے تو یہاں بھی آپ کو فرعون کے بیان کی باز گشت سنائی دے گی۔ یہاں میں مثال کے طور پر ہریانہ واچ ویب سائٹ سے ایک اقتباس نقل کر رہا ہوں۔
" ہریانہ کا مطلب ہوتا ہےخدا کا گھر۔ 'ہری' سنسکرت کا لفظ ہے، ہری کے معنی خدا ہوتا ہے اور' یا نا ' کا مطلب گھر۔ـــ  ہندوئوں کو چاہئے کہ وہ ذات پات سے اوپراٹھ کرہریانہ کے تحفظ کے لئے متحد ہو جائیں۔ ہماری سرزمین، پماری وراثت، اور ہماری عورتیں سب مسلمانوں کے نرغے میں ہیں۔"
 The name Haryana means "The Abode of God" from the Sanskrit words: Hari (God) and Ayana (Home)
Hindus must unite – across caste and gotra lines – and fight together to protect Haryana, our land, our heritage, our women – all of whom are rapidly falling prey to the Muslims.
Haryana Watch

آدمی کو جب زمین پرطاقت ملتی ہے تووہ ہرچیز کواپنی دسترس میں دیکھنا چاہتا ہے یہاں تک کہ وہ چاہتا ہے کہ خدا بھی وہی ہوجس کووہ خدا بنائے۔ وہ بتوں کو تراش کرانھیں خدا بنا تا ہے اورلوگوں کو مجبورکرتا ہے کہ وہ اس کی پرستش کریں۔ وہ اپنے اکابرین کی پوجا کرتا ہےاوران کی مورتیاں تراشتا ہے اور پتھرکی ان مورتیوں کے نام پر وہ زندہ انسانوں کے قتل سے بھی باز نہیں آتا۔ کل کے سرکشوں کا طریقہ بھی یہی تھا اورآج کے سرکشوں طریقہ بھی یہی ہے۔ آدمی اس لئے سرکشی کرتا ہے کیوں کہ وہ صرف اپنی طاقت کو جانتا ہے جس دن اسے خدا کی طاقت کا اندازہ ہو جائے گا اس دن وہ اپنے آپ کواسی طرح ایک گھلا ہوا انسان پائے گا جس طرح نمک پانی سے گھل جاتا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں