جمعہ، 14 دسمبر، 2012

You cannot do anything except prayer


اب آپ کچھ نہیں کر سکتے دعا کے سوا

محمد آصف ریاض
آج جمعہ کا دن ہے ۔ دسمبر 2012کی 14 تاریخ ۔ آج میں نے جمعہ کی نماز نوئیڈا کے اشوک نگر جامع مسجد میں پڑھی۔ اس مسجد میں ہرجمع کو ہزاروں لوگ نماز پڑھنے آتے ہیں۔ نوئیڈا سیکٹر پندرہ میں واقع آفس سے نزدیک ہونے کی وجہ سے میں بھی یہیں نماز پڑھتا ہوں۔ اس جامع مسجد کے امام نے آج جو خطبہ دیا وہ اس طرح ہے:
"حضرت جنید بغدادی بہت بڑے پہلوان تھے۔ پوری دنیا میں ان کی پہلوانی کا چرچا تھا۔ انھوں نے اپنی پہلوانی کا لوہا منوانے کے لئے بہت ریاضت کی تھی۔ { مولانا نے یہ نہیں بتا یا کہ وہ کون سے پہلوان تھے جن سے کشتی لڑکرجنید بغدادی نے پوری دنیا میں اپنی پہلوانی کا لوہا منوایا تھا} لیکن ایک دن عجیب و غریب واقعہ ہوا کہ ان کی ساری پہلوانی دھری کی دھری رہ گئی۔ ایک پتلے دبلے آدمی سے وہ ہار گئے۔ لوگوں کو حیرانی ہوئی کہ اتنا بڑا پہلوان ایک معمولی آدمی سے کس طرح ہار گیا۔ لوگوں نے جنید بغدادی سے پوچھا حضرت آپ کی پہلوانی کا سکہ ساری دنیا میں چلتا ہے لیکن یہ دبلا پتلا شخص کس طرح آپ کو ہرانے میں کامیاب ہوگیا۔؟ جنید بغدادی نے فرمایا۔ وہ شخص" سید " تھا اور سید کے احترام میں میں نے اپنی شکست کو قبول کرلیا۔ قربان جائے جنید بغدادی پر، جنھوں نے سید کا اس قدر احترام کیا۔ اسی احترام کی وجہ سے انھیں خدا نے یہ مقام دیا کہ وہ پانی پر مصلی  بچھا کرنماز پڑھتے تھے۔"
یہ صرف ایک مسجد کا خطبہ نہیں ہے۔ اس طرح کی بے تکی ، بے ہودہ، اور گندی کہانیاں آپ ملک کی تقریباً تمام مساجد میں سن سکتے ہیں۔
مذکورہ امام کا خطبہ بتا رہا ہے کہ مسلمانوں کے اندر جہالت کی جڑیں کتنی گہری ہوگئی ہیں۔ اگر آپ بغور جائزہ لیں تو پائیں گے کہ مسلمانوں پرجہالت کی تہیں اتنی زیادہ ہیں کہ آگر آپ انھیں ہٹانا چاہیں تو ہٹا نہیں سکتے۔ آپ ہار جائیں گے۔
حدیث میں قیامت کی ایک نشانی یہ بتائی گئی ہے کہ  لوگ عالیشان مساجد تعمیر کرنے لگیں گے توسمجھ لینا کہ قیامت نزدیک آگئی۔
(Doomsday will not come until people boast about mosques and decorations in them.) [Ibn Mâja]
لوگ بڑی بڑی مساجد بنائیں گے اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک وقت آئے گا جب تمہاری ترجیحات بدل جائیں گی۔ تم لوگ اپنی تعمیر کے بجائے درو دیوار کی تعمیر میں لگ جائوگے۔ یعنی شفٹ ان پرائیریٹی کا معاملہ پیش آئے گا۔ لوگ درو دیوار کی تعمیر میں لگ جائیں گےاور اپنی تعمیرکو بھول جائیں گے۔
مسلمانوں کی مسجدوں کو دیکھئے تو آپ کو اس حدیث کا وزڈم سمجھ میں آجائے گا۔ مسلمانوں کی بڑی بڑی مسجدوں میں چھوٹے چھوٹے امام کی بہتات بتا رہی ہے کہ قیامت سر پر آگئی۔ اب آپ کچھ نہیں کر سکتے، دعا کے سوا۔  

5 تبصرے:

  1. یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. درست فرما رہے ہیں آصف صاحب، لیکن ذرا یہ بتائیں کہ اس مضمون میں حدیث رسول کا اردو ترجمہ مع انگلش ترجمہ نقل کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ اگر آپ کو اصل متن دینا ہے تو عربی فراہم کریں، نہ کہ انگلش۔ اگر آپ بائبل کا حوالہ دے رہے ہوتے تو بات دیگر تھی۔

    مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ پوری قوم نفسیاتی مریض ہو گئی۔ جو جتنا بڑا نفسیاتی مریض ہے، اتنا ہی روشن خیال اور اتنا ہی بڑا دانشور۔ آج دانشوری کے لئے احساس کمتری اور مرعوبیت ضروری ہو گئی ہے شائد، اور یہ ایک ایسی چیز ہے جسے آدمی جتنا چھپانا چاہتا ہے اتنا ہی ظاہر ہوتی ہے، کیوں؟

    ظاہر ہے کہ آپ نے اردو زبان میں تحریر کردہ اس مضمون میں حدیث کا انگریزی ترجمہ نقل کرنے کے جواز پر غور نہیں کیا ہوگا۔۔۔۔۔

    آپ بخوشی اس کمنٹ کو ڈلیٹ کر سکتے ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. محترم ناصر بھائی
    السلام علیکم
    امید کہ بخیرہوں گے۔ مورخہ 15دسمبر کو محترم آصف ریاض صاحب کی تحریر بعنوان ”اشوک نگر جامعہ مسجد کے ایک کم علم امام کا خطبہ جمعہ۔۔ آپ بھی ملاحظہ کیجیے“ نظر سے گزرا۔ آصف ریاض صاحب کی تحریریں اکثر و بیشتر نظر سے گزرتی ہیں۔ موصوف کی تحریریں دعوت فکرو نظر دیتی ہیں۔ ان کی تحریریں عام طور سے مدلل، جامع اور پراثر ہوتی ہیں۔ ناچیز کے موصوف سے گہرے مراسم بھی ہیں۔ محترم آصف ریاض ذاتی طور پر ایک اچھے انسان بھی ہیں لیکن گزشتہ روز ان کی تحریر پڑھ کر تعجب بھی ہوا اور افسوس بھی۔ تعجب اس بات پرکہ آصف ریاض صاحب جیسے ذی علم اور ذی شعور انسان کا قلم ایسی لغزش کیسے کر سکتا ہے؟ اشوک نگر مسجد کے امام نے جمعہ کے خطبہ میں اگر کوئی جاہلانہ بات کہی بھی تو اسے نظر انداز کر دینا چاہیے تھا یا امام سے براہ راست استفسار کرنا چاہیے تھا کہ آیا اس نے جو باتیں کہیں ہیں اس کی کوئی دلیل بھی ہے یا نہیں؟ لیکن آصف ریاض صاحب نے ایسا کرنے کے بجائے امام مذکور کی کم علمی کو طشت از بام کرنا زیادہ مناسب سمجھا۔ یقینا اگر امام کی نظروں سے اُن کی یہ تحریر گزری ہوگی تو اُن کی سخت دلآزاری ہوئی ہوگی اور دلآزاری اسلام میں گناہ کبیرہ ہے۔(اے ایمان والو،احسان جتا کر اور دل آزاری کر کے اپنی خیرات کو اکارت مت کرو۔سورة البقرہ) اور اللہ کے رسولﷺ نے بھی دل آزاری کرنے سے منع فرمایا (بے شک کسی مسلمان کی ناحق بے عزتی کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ اس سے بڑھ کر دل آزاری کی حرمت اور کیا ہو سکتی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا .جس نے کسی مسلمان کو ایذا دی اس نے مجھے ایذادی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کو ایذادی۔
    اپنی اسی تحریر میں آصف ریاض صاحب رقمطراز ہیں : ”مسلمانوں پر جہالت کی تہیں اتنی زیادہ ہیں کہ اگر آپ انہیں ہٹانا چاہیں تو ہٹا نہیں سکتے۔ بلکہ آپ خود ہار جائیں گے۔“آصف ریاض صاحب کا یہ جملہ ناامیدی پر دلالت کرتا ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ نا امیدی کو اسلام نے کفر قرار دیا ہے
    نہ ہو نومید نومیدی زوال علم و عرفاں ہے
    امیدِ مردِ مومن ہے خدا کے رازدانوں میں
    آصف ریاض صاحب کی تحریریں میں خود بہت ذوق و شوق سے پڑھتا ہوں بلکہ اکثر و بیشتر اپنے احباب کو بھی پڑھواتا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ آصف ریاض صاحب کی اس تحریر نے مجھے سخت حیرت و تعجب میں ڈال دیا کہ آصف ریاض جیسا ذہین اور سنجیدہ انسان معمولی سی بات پر اتنا جذباتی کیسے ہو سکتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دل آزاری سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے
    دل بدست آورد کہ حج اکبر است
    از ہزاراں کعبہ یک دل بہتر است

    والسلام
    کامران غنی
    نئی دہلی

    جواب دیںحذف کریں