بدھ، 12 دسمبر، 2012

When the man will come to know his weakness


پہلا حکم بھی خدا کا تھا اور آخری حکم بھی خدا کا ہے

محمد آصف ریاض
انسانی جسم کا نظام کئی چیزوں پرمشتمل ہے۔ مثلاً ڈائیجسٹیو سسٹم { digestive system }  امیون سسٹم immune system نروس سسٹم {nervous system} ریسپریٹری سسٹم { respiratory system} وغیرہ۔
اسی قسم کا ایک سسٹم وہ ہے جسے سائنس کی اصطلاح میں یورینری سسٹم {urinary system} کہاجا تاہے۔
انسانی جسم کے اندر یورینری سسٹم ایک عجیب وغریب سسٹم ہے۔ اسی سسٹم کے تحت انسانی جسم کے فضلات پیشاب کے راستے سے باہر نکلتے ہیں۔ اس کام میں کڈنی اوربلاڈر کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ اگر یہ سسٹم کام کرنا چھوڑ دے تو انسان زندہ نہیں رہ سکےگا۔
The urinary system eliminates waste from the body, in the form of urine. The kidneys remove waste from the blood. The waste combines with water to form urine. From the kidneys, urine travels down two thin tubes called ureters to the bladder. When the bladder is full, urine is discharged through the urethra.
خدا وند نے انسان کی تخلیق کی اوراسےاس کی زندگی کاسامان دیا۔ مثلاً انسان کے جسم میں خود کارنظام پیداکیا تاکہ زمین پرانسان کی زندگی قائم رہے۔ ایک نظام وہ ہے جوانسان کے جسم کے اندر پیدا کیا جیسے امیون سسٹم، نروس سسٹم، ریسپریٹری سسٹم، یورینری سسٹم وغیرہ۔ اور دوسرانظام وہ ہے جسے انسانی جسم کے باہر یعنی کائنات میں رکھا۔ مثلاً پانی کا نظام، ہواکا نظام، روشنی کا نظام، آکسیجن کا نظام،لائف سپورٹ سسٹم کا نظام، وغیرہ۔
ایک صورت تو یہ تھی کہ انسان پانی پیتا اورنیچے سے وہ پانی نکل جاتا۔ دوسری صورت یہ تھی کہ انسان پانی پیتا اور وہ پانی رفتہ رفتہ بوند بوند ٹپک کر نیچے سے نکل جاتا۔ اگر ایسا ہوتا تو انسان مستقل مصیبت میں پڑجاتا۔
خدانے بندوں پررحم فرما یا اور یورینری کا ایک نہایت مستحکم نظام پیدا کیا۔ پھراس نظام کوایک معینہ مدت کے لئےانسان کے حوالے کردیا۔ اب صورت یہ ہے کہ انسان جب چاہتا ہے پیشاب کرتا ہے اور جب چاہتا ہے نہیں کرتا۔ ایسا نہیں ہوتا کہ وہ اوپر سے پانی پی رہا ہو اور نیچے سے پانی ٹپکنےلگے۔ خدا نے یورینری کا ایسامستحکم نظام بنا یا ہے کہ انسان کو اپنے سسٹم پر کنٹرول حاصل ہوگیا ہے۔ اب وہ جب چاہتا ہے پیشاب کرتا ہے اور جب چاہتا ہے روک لیتا ہے۔
تاہم یہی وہ بات ہے جس نے انسان کوغلط فہمیں میں ڈال دیا ہے۔ اب انسان یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ اسے پورے نظام پر قدرت حاصل ہوگیا ہے۔ اب اسے چلانے کے لئے خدا کی ضرورت نہیں رہی۔ خدا اب ایک سیمبولک نام نام بن گیا ہے۔ خدا اب آخری سیٹ پر جا چکا ہے۔ اب خدا کی سیٹ پر خود اس کا اپنا قبضہ ہے۔
انسان کو یہی غلط فہمی کائنات کی دوسری چیزوں کے بارے میں ہوگئی ہے۔ خدا نے انسان کی تخلیق کی اور اسے بہت معنی خیزکائنات میں بسایا۔اس کے لئے زندگی کا سارا سامان اتارا اورسارے نظام کو انسان کے تابع کردیا۔ انسان پانی پردوڑتا ہے آسمان میں اڑتا ہے۔ اب انسان کو یہ غلط فہمی ہوگئی کہ انسان کائنات پر قابو پا چکا ہے۔ اب وہ جو چاہئے کرے۔ اب اسے خدا کی ضرورت نہیں رہی۔
لیکن یہ ایک غلط فہمی ہےجوزیادہ دنوں تک باقی رہنے والی نہیں۔ ایک دن آئے گا جب انسان اس لائق بھی نہیں رہے گا کہ وہ اپنی خواہش سے پیشاب بھی کر سکے۔ اس کا یورینری سسٹم سیز کر لیا جائے گا۔ تب انسان جان لے گا کہ پہلا حکم بھی خداکا تھا اورآخری حکم بھی خدا کا ہے۔ نہ پہلے اسے کوئی قدرت حاصل تھی اور نہ آخر میں۔ نہ اس نے کائنات کے نظام کو بنا یا تھا اور نہ وہ اس لائق تھا کہ وہ خدا کو مائنس کر کےاس کے سسٹم کواستعمال کر سکے۔
انسان کو ایک مدت کے لئے اختیارات دئے گئے ہیں۔ قرآن میں اس مدت کو امتحان کی مدت کہا گیا ہے۔ قرآن میں ہے " جس نے موت اور حیات کوپیدا کیا تاکہ معلوم کرے کہ تم لوگوں میں کون اچھا عمل کرنے والا ہے۔"67:2}}
انسان امتحان حال میں ہے۔ امتحان حال میں آدمی کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ چاہے کرے۔ وہ چاہے تو اپنی کاپی پرکچھ لکھےاور چاہے تو نہ لکھے۔ لکھنے اور نہ لکھنے کے لئے اس پر کوئی دبائو نہیں بنا یا جا ئےگا۔ امتحان حال میں اسے کسی چیز پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔
انسان ٹسٹ حال میں ہے، وہ جو چاہے کرے۔ لیکن مدت امتحان کے ختم ہوتے ہی اس کی آزادی اس سے چھین لی جائےگی۔ پھر اس کے اعمال کے لحاظ سے اس کا فیصلہ کردیا جائے گا۔
اس روزنیکوکاروں کوابدی جنت میں بسا دیا جائےگااور برے لوگوں کو جھنم کے کوڑے دان میں رونے اور دانت پیسنے کے لئے چھوڑ دیاجائےگا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں