جمعرات، 8 ستمبر، 2016

مسلمانان ہند یہ جاننے میں ناکام رہے کہ " کل کیا ہوگا، کل کے بعد کل کیا ہوگا، اگلے ہفتے کیا ہوگا ، اگلے مہینے کیا ہوگا اور اگلے سال کیا ہوگا۔"

محمد آصف ریاض
پچھلے دنوں مجھے ایک پروگرام میں بلا یا گیا۔ وہاں مجھ سے مسلم سیاست پربولنے کے لئے کہا گیا۔ ہم نے کہا کہ جمہوریت میں ہم مسلمان اورہندو سیاست کی بات نہیں کرسکتے، البتہ ہم سیاست کی بات کرسکتے ہیں۔ سب سے پہلے ہم نے سیاست کے بارے میں انھیں ونسٹن چرچل کا ایک قول سنایا ۔ چرچل نے کہا تھا :
 "سیاست اس اہلیت کا نام ہے کہ آدمی پیشگی طور پر یہ بتا سکے کہ کل کیا ہوگا، اگلے ہفتے اور اگلے مہینے اور اگلے سال کیا ہوگا، اور اگر کچھ نہ ہو تو آدمی میں یہ صلاحیت ہو کہ وہ یہ بتا سکے کہ کیوں نہیں ہوا۔"
Politics is the ability to foretell what is going what is going to happen tomorrow, next week next month and next year,and to have the ability to afterwards to explain why it did not happen”
Winston Curchill
کسی آدمی میں پیشگی طور پرچیزوں کو سمجھنے کی یہ صلاحیت کب پیدا ہوتی ہے؟ یہ صلاحیت اس وقت پیدا ہوتی ہے جبکہ اس کا مطالعہ بہت گہرا ہو، وہ چیزوں کوغیر جانبدار ہو کراعتدال پسندی کی نگاہ سے دیکھتا ہو، وہ ہر قسم کی کنڈیشننگ سے پاک ہو، وہ  اپنے ارد گرد کی دنیا کا گہرا ادراک رکھتا ہو، وہ انسانی نفسیات کو سمجھنے میں غلطی نہیں کرتا ہو، وہ تاریخی واقعات سے آشنا ہو، وہ جغرافیائی اور مذہبی حالات کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو، وہ لائن سے نکل کر بٹوین دی لائن، اور بیائونڈ دی لائن کا مفہوم سمجھتا ہو، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کے اندر 'جاگتے رہو' کی اسپرٹ موجود ہو۔
سیاست میں دوراندیشی کی بڑی اہمیت ہے۔ اسی سیاسی اہلیت کی کمی نے ملک میں مغل سلطنت کا خاتمہ کردیا، اسی سیاسی اہلیت کی کمی نے مسلمانوں کو اس ملک میں ایک ناچیز شئے بنا دیا ۔
مسلمانان ہند نے اپنی ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے تین ایسی غلطیاں کیں جس نے تاریخ کا رخ موڑ دیا۔ (1) پہلی غلطی انگریزوں کو کاروبارکرنے کی اجازت کی شکل میں۔ (2) دوسری غلطی 1857 کی بغاوت کی شکل میں۔(3) تیسری غلطی ملک کی تقسیم کی شکل میں۔
یہ تینوں غلطیاں مسلمانوں نے اس لئے کیں کیونکہ ان کے اندر یہ سمجھنے کی صلاحیت ختم ہوچکی تھی کہ" کل کیا ہوگا، کل کے بعد کل کیا ہوگا ، اگلے ہفتے کیا ہو گا ، اگلے مہینے کیا ہوگا، اور اگلے سال کیا ہوگا اور اس کے بعد کیا ہوگا۔"
انگریز ہندوستان میں
انگریزجب ہندوستان میں آئے تووہ فاتح کی شکل میں نہیں آئے تھے۔ وہ کاروباری کی شکل میں آئے تھے۔ انھوں نے یہاں مسلم حکمرانوں کی خوشامد کی اوراپنے لئے تجارت کے مواقع حاصل کئے، پھرانھوں نے مغل حکمرانوں سے اپنے لئے ٹیکس فری تجارت کا پروانہ حاصل کیا اوراس کے بعد انھوں نے رشوت کے ذریعہ گورنراورعلاقائی حکمرانوں کو خریدنا شروع کر دیا جو بعد میں مغل سلطنت کی تباہی کا سبب بنا۔ مغل حکمراں انگریز بیوپاریوں کی خوشامد سے اس طرح متاثرہوئے کہ وہ یہ جان نہ سکے کہ ان کے عزائم کیا ہیں، اورکل کیا ہونے والا ہے، اور جب جاگے تو وقت نکل چکا تھا۔
ایسٹ انڈیا کمپنی
ایسٹ انڈیا کمپنی نے 1623 تک سورت، احمد آباد، بھروچ، آگرہ اورموسولیپٹم میں اپنی فیکٹریاں قائم کرلیں تھیں۔ 1625 میں انھوں نے سورت میں واقع اپنی کمپنی کو قلعہ بند کرنا شروع کردیا جس پر مغل حکمراں بگڑ گئے اور فیکٹری کے چیف کو گرفتار کرلیا ۔  1639 میں کمپنی نے مدراس کے مقامی لیڈر کی ا جازت سے اپنی فیکٹری قائم کی اوراسے قلعہ میں تبدیل کرلیا۔ سترہویں صدی تک مدراس میں کمپنی پوری طرح آزاد ہوگئی ۔ 1633 میں ایسٹ انڈیا نے اڑیسہ میں پہلی فیکٹری قائم کی، انگلش کمپنی کو بعد میں بنگال کےھگلی میں فیکٹری کھولنے کا پروانہ ملا، پھر پٹنہ ، ڈھاکہ اور بنگال کے دوسرے علاقوں میں فیکٹریاں کھولی گیں۔ ملکی معیشت پرقبضہ کرنے کے بعد انگریزوں نے ملک پرحکومت کرنے کا عزم ظاہرکردیا تب مغل حکمراں اورنگ زیب سے ان کا ٹکرائو ہوا۔
اورنگ زیب نے  1686 میں انگریزوں سے لوہا لیا اورانھیں زبردست شکست دی۔ ان کی فیکٹریاں ضبط کرلیں اورانھیں مار کردوردرازکےعلاقوں میں بھگا دیا۔ سورت ، وشاکھا پٹنم ، مسولیپٹم میں ان کی فیکٹریاں ضبط کر لی گئیں اور ممبئی کے قلعہ کو ان سے چھین لیا گیا۔ مورخین لکھتے ہیں کہ انگریزوں نے مغل حکومت کی طاقت کا غلط اندازہ کر لیا تھا جب انھیں مغل حکومت کی اصل طاقت کا اندازہ ہوا تو انھوں نے ایک بار پھر "خوشامد اور خوش الفاظی" سے کام لینا شروع کرد یا اور معافی تلافی کے ساتھ کئی سالوں کے بعد پھر سے تجارت کا پروانہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اورنگ زیب  نے 150,000 کا معاوضہ وصول کرکےانھیں ایک بار پھر تجارت شروع کرنے کی اجازت دے دی۔
1691 میں انگریزوں کو   3000 روپے سالانہ کےعوض بنگال میں فیکٹری کھولنے کی اجازت دے دی گئی۔ مغلوں کی اس نااہلی کی قیمت نواب سراج الدولہ کو پلاسی کی جنگ 23 جون 1757میں چکانی پڑی جب وہ انگریزوں کے ہاتھوں بری طرح مار کھا گئے اوران کی شکست نے انگریزوں کے لئے پورے ملک کا دروازہ کھول دیا اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے اس ملک کےحکراں بن بیٹھے۔ ایک مورخ نے انگریزوں کی چالبازی اور مغلوں کی نا اہلی کا ذکران الفاظ میں کیا ہے۔:
"جب انگریزوں کو یہ ادارک ہوگیا کہ وہ فی الحال مغل امپائر سے ٹکر لینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں تو انھوں نے اپنا طرزعمل بدل لیا اوراب  خوشامد اور خوش الفاظی سےکام لینے لگے ۔ انھوں نے مغل حکمراںوں کے سامنے یہ عرضی داخل کی کہ "ان کے جرائم معاف کرد ئے جائیں"۔ مغل حکمراں نے انھیں معاف کردیا کیونکہ ان کے پاس یہ جاننے کی اہلیت نہ تھی کہ معصوم دکھائی دینے والے یہ کاروباری ایک دن ان کی حکومت کے لئے خطرہ بن جائیں گے۔"
 Having  discovered that they were not yet strong enough to fight with the Mughal power, the English once again became humble petitioners and submitted "that the ill crimes they have done may be pardoned."
Once again they relied on flattery and humble entreaties to get trading concessions from the Mughal Emperor. The Mughal authorities readily pardoned the English folly as they had no means of knowing that these harmless-looking foreign traders would one day pose a serious threat to the country.
1857 کی بغاوت
اب جبکہ مغل حکمرانوں کو شکست دے کر انگریزاس ملک کے حکمراں بن چکے تھے مسلمانوں نے نا حق اور نا عاقبت اندیشی کے طور پر ان نئے حکمرانوں کے خلاف بغاوت کر دی۔ ایک بار پھر مسلمان یہ جاننے میں ناکام رہے کہ جہاں ان کے حکمراں اورلائو لشکر ہارگئے، وہاں وہ محض عوامی بھیڑ کےبل پرکس طرح جیت سکتے ہیں۔ نتیجہ کے طور پر انگریزوں نے انھیں بری طرح کچل دیا، ان کی جاگیریں چھین لی گئیں ، ان کی جائدادیں ضبط کر لی گئیں ، انھیں نوکری سے نکال دیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کے بہترین دماغ قتل کردئے گئے۔ کہا جا تا ہے کہ اس بغاوت میں 70 ہزار سے زیادہ علما قتل کر دئے گئے تھے۔ بغاوت سے پہلے مسلمان یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ ان کی یہ بغاوت کیا نتیجہ لائے گی۔ 1857 کی اس شکست نے مسلمانوں کو معاشی ، سیاسی ، سماجی اور تعلیمی ، ہر لحاظ  سے توڑ کر رکھ دیا۔ اب وہ اس پوزیشن میں بھی نہیں رہے کہ وہ انگریزوں کے ساتھ کوئی بارگنینگ کرسکیں۔ اپنی ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے اپنی بارگیننگ کی طاقت بھی کھو دی اور انگریزوں پر ان کا جو رعب طاری تھا وہ بھی ختم ہوگیا۔ اس سلسلے میں مزید جانکاری کے لئے پڑھئے سرسید احمد خان کی کتاب "اسباب بغاوت ہند" ۔
آزادی ہند
1947 میں جبکہ انگریزوں کا ملک سے جانا طے ہوگیا تو مسلمانوں نے ایک بار پھرتاریخی غلطی دہرائی ۔ وہ غلطی ملک کی تقسیم کی غلطی تھی۔ مسلمانوں کے سچے لیڈرمولانا ابوالکلام نےانھیں خبردارکیا کہ اگرملک بٹ گیا تو ہندوستانی مسلمان ایک ناچیز اقلیت بن کررہ جائیں گے۔ لیکن لوگوں نے آزاد کی جگہ جناح کو ترجیح دی اورنتیجہ سب کے سامنے ہے۔ مزید جانکاری کے لئے پڑھئے مولانا آزاد کی سوانح  India Wins Freedom ))
مسلمانوں کو یہ جاننا چاہئے کہ تاریخی غلطیوں کا حل سیاسی شور و غاغا میں نہیں ہے۔ تاریخی غلطیوں کا حل اس فراست میں ہے جس کے ذریعہ آدمی یہ جان سکے کہ " کل کیا ہوگا ، کل کے بعد کل کیا ہوگا، اگلے ہفتے کیا ہوگا، اگلے مہینے کیا ہوگا، اگلے سال کیا ہوگا اور اس کے بعد کیا ہوگا۔"
یہ فراست کسی انسان یا قوم میں اس وقت پیدا ہوتی ہے جبکہ اس کے اندرعلم کا غلغلہ ہو ۔ اگر مسلمان یہ چاہتے ہیں کہ وہ ایک بار پھر سر بلند ہوں، تو انھیں سر سید احمد خان کے لفظوں میں  سب سے پہلے " علم کے خزانوں " پر قبضہ کرنا چاہئے۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں