بدھ، 9 اپریل، 2014

Worship God and do not associate parters with him



بتوں کے نام پر

محمد آصف ریاض
خدانےانسان کوآدم کے ذریعہ اس زمین پرپھیلایا۔ آدم پہلے انسان اورنبی اور رسول تھے۔ انھوں نے اپنے بچوں کو توحید کی تعلیم دی۔ انھوں نے اپنے بچوں کو وہی بتا یا جو بعد میں نوح ، ابراہیم ، موسی ، عیسی اور پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسم نے اپنی قوم کو بتا یا تھا۔ وہ یہ کہ اے قوم، خدا کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور بتوں کی گندگی سے بچتے رہنا۔ " تم لوگ اللہ کی بندگی کرو اوراس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائو"
) سورہ النساء4: 36)
انسان اول آدم کا اثران کے بچوں پربہت گہرا تھا۔ آپ کی قوم نے ایک خدا کی عبادت کی اورشرک کی برائیوں سے اپنے آپ کو بچائے رکھا۔ لیکن یہ صورت حال بہت دیر تک قائم نہ رہ سکی اور بعد کی نسلوں میں بگاڑ پیدا ہوگیا۔ انھوں نے خدا کے ساتھ دوسرے ناموں کو بھی ملانا شروع کردیا۔ رفتہ رفتہ وہ شرک کی بیماری میں مبتلا ہوگئے۔
تاہم شرک کی بیماری میں مبتلا ہونے کے با وجود سچے خدا کی تلاش کبھی ختم نہیں ہوئی۔ اولاد آدم کا دل کبھی بھی شرک پر راضی نہ ہوا ۔ انھیں ہمیشہ حقیقی خدا کی تلاش رہی۔ وہ خدا جو ان کی فطرت میں سمایا ہوا تھا ، وہ خدا جس کے بارے میں انھوں نے اپنے باپ آدم سے سن رکھا تھا۔
حقیقی خدا کے بارے میں انسان کی طلب نے سماج کے سربرآوردہ لوگوں کو اندر سے ہلا دیا۔ انھوں نے انسان کی اس فطری طلب کواپنے خلاف ایک خطرہ سمجھا۔ انھیں لگا کہ اگر لوگوں کو واحد اورحقیقی خدا مل گیا تو وہ بدل جائیں گے۔ انھیں اپنی زندگی جینے کا سلیقہ آجائے گا۔ حقیقی خدا کو پا کروہ کسی کے محتاج نہیں رہیں گے۔ حقیقی خدا کو پانے کے بعد لوگ وہی بات کہیں گے جو سچی اوراچھی ہو۔ وہ انصاف کا تقاضا کریں گے۔ وہ اچھائی کا حکم لگائیں گے اور لوگوں کو برائی اور سرکشی سے روکیں گے۔
اس صورت حال سے نبرد آزما ہونے کے لئے سماج کے امرا اور رؤسا نے ایک تدبیر اختیارکی۔ فوری طورپر انھوں نے کچھ کٹ پتلیاں تیار کرائیں اور انھیں  خدا بنا کر لوگوں کے سامنے پیش کردیا تاکہ لوگوں کو سچے خدا سے کاٹ دیا جائے۔

بتوں کی پرستش سے اس رولنگ کلاس پرکوئی زد نہیں پڑرہی تھی۔ کیونکہ بت انسان سے تبدیلی کا تقاضا نہیں کرتے، بت انسان کو ڈسپلن نہیں سکھاتے، بت انسانوں پر ذمہ داریاں عائد نہیں کرتے، بت نہ کچھ بگاڑ سکتے ہیں اورنا بنا سکتے ہیں، لہذا بتوں کو کٹ پتلی بنا کر آگے بڑھا یا گیا۔ ان بتوں کے پیچھے وقت کے کرپٹ اور چالاک لوگ کھڑے ہوگئے اور بتوں کی طرف سے خود بولنے لگے۔ بتوں کے نام پر وہ اپنی ہرالٹی سیدھی بات سماج سے منوانے لگے۔ بتوں کے ذریعہ انھیں یہ موقع ملا کہ وہ انسان کو کئی طبقات (Varna) میں بانٹ دیں۔ مثلا برہمن، کاشتریہ، ویشیہ، شودر، خدا کا بیٹا، چنے ہوئے لوگ، وغیرہ۔
انیسویں صدی کےمعروف دلت مفکراورادیب، مہاتما جیوتی بائو پھولے (11 April 1827 – 28 November 1890)  اس صورت حال کا ذکر اپنی کتاب غلامی گری (Salavery) میں بہت ہی کربناک انداز میں کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں:
"شودر اور اتی شودرغلامی کو دوسروں کی بہ نسبت زیادہ بہتر انداز میں سمجھتے ہیں کیونکہ انھیں غلامی کا براہ راست تجربہ ہے۔ شودروں کو برہمنوں نے فتح کیا اورانھیں غلام بنا لیا۔"
"the Shudra and Ati-Shudra would understand slavery better than anyone else because they have a direct experience of slavery as compared to the others who have never experienced it so; the Shudras were conquered and enslaved by the Brahmins.”
بتوں کے نام پر لوگوں کو سورن اور شودر کے نام پر بانٹا گیا۔ اسی تقسیم کی بنیاد پربڑے بڑے منادرتعمیر کئے گئے، اسی پرکلرجی کلاس تیارہوا، اسی پر رولنگ کلاس کو کھڑا کیا گیا۔ اگرآپ تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلے گا کہ بت پرستی اورشرک کو ہمیشہ رولنگ کلاس نے سپورٹ کیا۔ یہاں تاریخ سے میں چند ناموں کا ذکر کروں گا۔  قرآن میں ان ناموں کا ذکر اس طرح آیا ہے، فرعون، نمرود، ہامان ، قارون وغیرہ۔ یہ کون لوگ تھے؟ یہ سب حکمراں اور قوم کے سربر آوردہ لوگ تھے۔ یہاں میں چند مثالیں دوں گا جس سے پتہ چل جائے گا کہ کس طرح وقت کے بڑوں نے بتوں کی پشت پناہی کی۔
ابراہیم نےجب لوگوں کو بت پرستی اور جھوٹے معبودوں کی پرستش سے روکا تو پھر یہ  رولنگ کلاس بھڑک اٹھا۔ قرآن کا ارشاد ہے: "ابراھیم نے کہا کہ کیا تم اللہ کو چھوڑ کران چیزوں کو پوج رہے ہو جو نہ تمہیں نفع پہنچانے پرقادر ہیں اور نہ نقصان؛ تف ہے تم پر اور تمہارے ان معبودوں پر جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر پوجا کر رہے ہو۔ کیا تم کچھ بھی عقل نہیں رکھتے؟
نمرود اور اس کی قوم نے کہا" جلا ڈالو اس کو اور حمایت کرو اپنے معبودوں کی اگر تمہیں کچھ کرنا ہے۔ تو انھوں نے ابراہیم کو پکڑ کر آگ میں ڈال دیا۔ قرآن میں اس کا بیان اس طرح ہوا ہے۔ ہم نے کہا اے آگ ٹھنڈی ا ور سلامتی بن جا ابراہیم پر۔ 21: 66- 69 ))
اسی طرح موسیٰ نے جب لوگوں کو بت پرستی اور شرک سے پاک کرنا چاہا توانھیں شروع میں کوئی شخص نہ ملا۔ قرآن کا ارشاد ہے۔"موسیٰ کواس کی قوم سے چند نوجوانوں کےعلا وہ کسی نے نہ مانا، فرعون کے ڈر سے اورخود اپنی قوم کے حکمرانوں کے ڈر سے کہ کہیں ان کو تکلیف نہ پہنچائیں۔ اور واقعہ یہ ہے کہ " فرعون اس ملک میں زور رکھتا تھا اور یہ بھی بات تھی کہ وہ حد سے باہر ہوجا تا تھا۔ " (: 10: 83)
موسیٰ کی قوم بنی اسرائیل تھی اور یہ بت پرستی سے اجتناب کر تی تھی۔ چنانچہ  فرعون انھیں سخت قسم کی اذیت دیتا تھا۔ کیونکہ اسے ملک پر اقتدار حاصل تھا۔ قرآن کا ارشاد ہے:"اورقوم کے سرداروں نے کہا کہ کیا آپ موسیٰ کو اوران کی قوم کو یوں ہی رہنے دیں گے کہ وہ ملک میں فساد کرتے پھریں اوروہ آپ کو اورآپ کے معبودوں کو ترک کرتے رہیں: فرعون نے جواب دیا "میں ان کے بیٹوں کو قتل کرائوں گا اور ان کی عورتوں کو جیتا رہنے دوں گا،ہمارے اقتدارکی گرفت ان پر بہت مضبوط ہے۔"7: 127))
اسی طرح جب مکہ میں پیغمبراسلام نے لوگوں کوایک خدا کی طرف بلا یا تو مکہ کا رولنگ کلاس" قریش" بھڑک اٹھا اوراس کا سردارابوجہل محمد کے قتل کے درپے ہوگیا یہاں تک کہ پیغمبراسلام کو مکہ چھوڑ کر مدینہ ہجرت کرنا پڑا۔
آپ نے دیکھا کہ کس طرح کلرجی کلاس اوررولنگ طبقہ بتوں کی پرستش کو اسٹیبلش کرنے کے لئے کوشاں تھا۔  کیوں؟ اس لئے کہ یہ بت ان کے پرپزکی فیڈنگ کر رہے تھے۔ وہ ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کر رہے تھے بلکہ وہ انھیں یہ موقع دے رہے تھے کہ وہ بتوں کے نام پر سماج میں جو چاہیں کریں۔ انھیں معلوم تھا کہ بت ان کے کاموں میں مداخلت کرنے والے نہیں ۔ اور نہ ہی وہ کسی کا کام بنا سکتے یا بگاڑ سکتے ہیں۔
اس بات کو سمجھانے کے لئے میں آپ کو ایک مثال دوں گا جس سے آپ کوسمجھ میں آجائے گا کہ رولنگ کلاس نے بت پرستی کو کیوں رواج دیا اور کیوں اس کی پشت پناہی کر تے رہے؟
ایک مثال
مان لیجئے کہ ایک حکومت ہو جوکسی خاص کمیو نٹی کو کوئی حق دینے کے خلاف ہو۔ لیکن عدالت نے مداخلت کی اور یہ حکم جاری کیا کہ آپ کو اس خاص کمیونٹی سے کسی ایک کو وزیر بنانا ہوگا۔ اب جبکہ لوگوں کا دبائو بڑھا توحکومت کے لئے نا گزیر ہوگیا کہ وہ عدالت کے حکم کی نا فرمانی کرے ۔ چنانچہ اس نے ایک راستہ نکالا۔ اس نے مذکورہ سماج میں سے ایک نہایت ناکارہ انسان کواٹھا یا اوراسے وزیر بنا دیا تاکہ وہ وزیر ان کے ہاتھوں میں کٹ پتلی بنا رہے، وہ وزیر رہتے ہوئے بھی عملاً کچھ نہ کر سکے، جیسے بت ، کہ وہ بت رہتے ہوئے بھی عملاً کوئی اختیار نہیں رکھتے۔
اسی طرح بت پرستی نے زور پکڑا۔ لوگوں کو حقیقی خدا سے محروم رکھنے کے لئے وقت کے بڑوں نے  جھوٹے بت تراشے ۔ انھیں سجا سنوار کر لوگوں کے سامنے پیش کیا۔ کیونکہ یہ بات رولنگ کلاس کے فیور میں تھی۔  بت خود بول نہیں سکتے تھے اس لئے رولنگ کلاس کو یہ موقع ملا کہ وہ پیچھے سے اس کے نام پر بولیں۔ یعنی بتوں کے نام پر کل بھی فراڈ کیا گیا اور بتوں کے نام پر آج بھی فراڈ کیا جا رہا ہے۔ یہ کھیل بہت پرانا ہے اورا سے آج تک کھیلا جا رہا ہے۔
اسلام کا موقف
اسلام بت پرستی کے خلاف ہے۔ کیونکہ بت پرستی کے راستہ سے سماج میں ہرقسم کی برائی داخل ہوتی ہے۔ مثلاً ایک شخص لوٹ پاٹ کرے اوربتوں پرکچھ چڑھا دے، ایک شخص فراڈ کرے اور بتوں کو دودھ سے نہلا دے،ایک شخص بتوں کے نام پر اپنے آپ کو خدا بنا لے، ایک شخص بدکاری کرے اور کہے کہ  مسیح نے کفارہ ادا کر دیا ہے، ایک شخص زمین پر منمانی کرے اور کہے کہ اسے منمانی کا حق ہے کیوں کہ وہ خدا کا چنا ہوا ہے۔ اسلام ان تمام چیزوں کو خارج کرتا ہے۔ وہ ہر شخص کو ایک خدا کے سامنے جوابدہ بنا تا ہے۔ اسلام میں خدا کے سامنے سب برابر ہیں ایک عام آدمی بھی اورایک بادشاہ بھی۔ اسلام میں انسان کا تعلق براہ راست خدا سے ہے بیچ میں کوئی میڈل مین نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں