مسلمانوں کا جرم بھی وہی ہے جو یہود کا جرم تھا
محمد آصف ریاض
اگرآپ دہلی کےشاہین باغ، ابوالفضل،
بٹلہ ہائوس اورجامعہ نگرجیسے مسلم علاقوں سے گزریں توآپ کوایسامحسوس ہوگا کہ آپ گویا
پہاڑوں کے درمیان سے گزررہے ہیں۔ اونچی اونچی عمارتوں سے گزرکرآپ کوایسا لگے گا کہ
گویا آپ قبر میں دھنستےجا رہے ہیں۔
یہاں ہرطرف کنکریٹ کا جنگل ہے۔ دور دور تک کہیں کوئی درخت نظر نہیں آتا۔
آلودگی کی وجہ سے لوگوں کو یہاں سانس لینے میں دقت ہوتی ہے۔ 20 اپریل 2014 کو یہاں
ایک شخص سےنماز کے بعد میری ملاقات ہوئی۔ ان کا مکان بھی بہت اونچا اوربہت بڑاہے۔
میں نے بات چیت کے دوران ان سے کہا کہ آپ لوگ غاصب ہیں۔ آپ لوگوں کا معاملہ لوٹ
ماراورڈاکہ زنی کا معاملہ ہے۔ وہ کہنے لگے کہ کس طرح؟
میں نے انھیں بتا یا کہ آپ جامعہ نگر کے مسلم علاقوں سے گزرجائیں آپ کو پہاڑوں
کی طرح اونچی اونچی عمارتیں نظرآجائیں گی لیکن
کہیں کوئی درخت نظر نہیں آئے گا۔ بڑے بڑے مکانوں میں کوئی چھوٹی سی جگہ بھی درختوں
کے لئے نہیں چھوڑی گئی ہے۔
میں نے انھیں بتا یا کہ آپ لوگ سانس لیتے ہیں۔ آپ کے بچے اورگھر والے سب
آکسیجن لیتے ہیں کیونکہ آکسیجن کے بغیرآپ زندہ نہیں رہ سکتے۔ یہ آکسیجن کہاں سے
ملتا ہے؟ یہ آسمان سے تو نہیں ٹپکتا؟ یہ آپ کو درختوں سے حاصل ہوتا ہے۔ لیکن مسلمانوں
کا حال یہ ہے کہ درخت لگاتے نہیں اورآکسیجن لیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جن
دوسرے لوگوں (ہندوئوں ) نے آکسیجن کے لئے درخت لگائے ہیں، مسلمان ان کے اوران کے بچوں کا
آکسیجن چرا لیتے ہیں۔ یہ کوئی سادہ معاملہ نہیں ہے ۔ یہ معاملہ لوٹ ماراورڈاکہ زنی
کا معاملہ ہے۔ یہ معاملہ قرآن کے مطابق فساد فی الارض کا معاملہ ہے۔
درختوں کا طریقہ
درخت فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ لیتے ہیں تووہ اسے آکسیجن کی شکل میں فضا کولوٹادیتے
ہیں۔ وہ زمین سے توانائی حاصل کرتے ہیں تووہ پتوں کوگراکرزمین سے لی گئی توانائی کو
واپس کردیتے ہیں۔ گویا وہ خاموش انداز میں بتا رہے ہیں کہ آدمی کو چاہئے کہ وہ جوکچھ
وہ کسی سے لے،اسے اس سے بہتر چیز لوٹا دے۔ لیکن مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ اگروہ
زمین سے کچھ لیں تووہ اسے لوٹانے والے نہیں، اوراگر فضائوں سے کچھ لیں تو وہ اسے
واپس کرنے والے نہیں۔ اوراگرانھیں آسمان سے کچھ ملے تو وہ اسے لوٹانے والے نہیں۔ مثلا
وہ درختوں سے آکسیجن لیتے ہیں اوردرخت نہیں لگاتے۔ انھیں آسمان سے خدائی کلمہ ملا
ہوا ہے لیکن وہ اس کلمہ کا چرچا نہیں کرتے۔ وہ آلودگی سے پاک فضا چاہتے ہیں اوراس
کے لئے کوئی قیمت نہیں چکاتے۔
مسلمان اپنی حقیقت کےاعتبار سےیہود بن گئے ہیں۔ قرآن میں یہود کے ایک گروہ کی صفت
یہ باتئی گئی ہے کہ اگرآپ انھیں کوئی چیز دیں تو وہ اسے لوٹانے والے نہیں۔
وَمِنْ اَہْلِ الْکِتَابِ مَنْ اِنْ تَاْمَنْہُ بِقِنْطَارٍ یُّؤَدِّہٖٓ اِلَیْْکَ
وَمِنْہُمْ مَّنْ اِنْ تَاْمَنْہُ بِدِیْنَارٍ لاَّ یُؤَدِّہٖٓ اِلَیْْکَ اِلاَّ مَا
دُمْتَ عَلَیْْہِ قَآءِمًا ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ قَالُوْا لَیْْسَ عَلَیْْنَا فِی الْاُمِّیّٖنَ
سَبِیْلٌ وَیَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ()(سورۃ آل عمران
-3آیت75)
اہل کتاب میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ اگران کے پاس امانت کا ڈھیربھی رکھو تو مانگنے
پر ادا کریں گے اوران میں سے ایسے بھی ہیں کہ اگر تم ان کے پاس بطور امانت ایک دینار
بھی رکھو تو وہ اس وقت تک اس کو تمھیں لوٹانے والے نہیں ہیں جب تک تم ان کے سر پر سوار
نہ ہوجاؤ۔ یہ اس وجہ سے کہ وہ کہتے ہیں کہ ان امیوں کے معاملے میں ہم پر کوئی الزام
نہیں۔ یہ لوگ جانتے بوجھتے اللہ پرجھوٹ باندھتے ہیں۔"
یہود اپنے دورزوال میں غاصب قوم بن گئے تھے۔ ان کا حال یہ ہوگیا تھا کہ جب وہ
کسی سے کوئی چیز لیتے تو اسے لوٹاتے نہیں تھے۔ اس کی سزا انھیں اس شکل میں دی گئی کہ
انھیں زمین سے چن چن کر مٹا دیا گیا۔ توجس جرم پریہود کو مٹا دیا گیا ٹھیک اسی جرم
پرمسلمانوں کو کیوں باقی رکھا جائے گا؟
آج روئے زمین پرمسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، وہ کسی سازش کا نتیجہ نہیں
بلکہ وہ ان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے۔ خدا غاصبوں کو زمین پر بسنے نہیں دے گا۔ کیونکہ
اس نے اپنی کتاب میں لکھ دیا ہے۔
"اور زبور میں ہم نصیحت کے بعد یہ
لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث ہمارے نیک
بندے ہوں گے۔"
) الانبیاء (21:105
زبورمیں ہے :" “For evildoers will be cut off, But those who wait for the LORD, they will inherit the land
"بدکارکاٹ کرپھینک دئے جائیں گےاورنیکوکارزمین کے وارث ہوں گے۔"
Psalm 37:9
بہت خوب
جواب دیںحذف کریںجزاکم اللہ
جواب دیںحذف کریںجزاکم اللہ
جواب دیںحذف کریںجزاکم اللہ
جواب دیںحذف کریں