بدھ، 26 دسمبر، 2012

You have no excuse now


اب آپ کے پاس کوئی عذر نہیں بچتا

محمد آصف ریاض
کل شیشے کے گلاس میں ناریل کا پانی نکال کرمیری طرف بڑھا یا گیا۔ میں نے دیکھا کہ وہ پانی بالکل شفاف تھا۔ میں اس پانی کو دیکھ کر تھوڑی دیر کے لئے سکتے میں آگیا۔ سوکھی ہوئی لکڑیوں کے درمیان سے پاکیزہ اور اس قدرشفاف پانی کانکلنا میرے لئے ایک معجزہ سے کم نہیں تھا!
مجھے،ناریل کےاس پانی کو دیکھ کر حضرت موسیٰ کا وہ معجزہ یاد آگیا جس کا ذکر قرآن کے سولہویں پارہ میں ہواہے۔ حضرت موسیٰ کو حکم ہوا کہ وہ فرعون کے پاس جائیں،اسے سمجھائیں اور اللہ کا خوف دلائیں کہ و ہ سرکش ہوگیا ہے۔
جب موسیٰ اپنے بھائی ہارون کے ساتھ فرعون کے پاس اللہ کا پیغام لے کر پہنچے تو اس نے ا پنے حوارین کو جمع کر کے کہا کہ "یہ دونوں محض جادو گر ہیں۔اوران کا پختہ ارادہ ہے کہ اپنے جادو کے زور سے تمہیں تمہارے ملک سے نکال باہر کریں،اور تمہارے بہترین مذہب کو بر باد کردیں،توتم بھی اپنا کوئی داﺅ اٹھا نہ رکھو،صف بندی کر کے آگے بڑھو،جوآج غالب آگیا،وہی بازی لے گیا"!مقابلہ آرائی کے وقت جادو گروں نے کہا موسیٰ پہلے تم یا پہلے ہم!
موسیٰ نے جواب دیا پہلے تم ہی اپنے کر تب دکھا لو۔انھوں نے اپنی رسیوں اور لکڑیوں کو زمین پر ڈال دیا، موسیٰ کو لگا کہ لکڑیاں اوررسیاں ان کے جادوکے زورسےدوڑ بھاگ رہی ہیں۔ پس موسیٰ اندر سے ڈرگئے!
خدا کا حکم ہوا ڈرومت موسی، والق مافی یمینک تلقف ماصنعو، جو تمہارے دائیں ہاتھ میں ہے،اسے زمین پر ڈال دو،وہ ان کی تمام کاریگری کو نگل جائے گا۔ موسی نے اپنے ہاتھ کی لکڑی زمین پر ڈال دی اور وہ سانپ بن کر ان کے کرتبوں کو نگل گیا۔ موسیٰ کا یہ معجزہ دیکھ کرتمام جادو گر سجدہ میں گر پڑے۔اور پکار اٹھے،ہم تو موسیٰ اور ہارون کے رب پر ایمان لائے۔
فرعون نے کہا میری اجازت سے پہلے ہی تم ایمان لےآئے !میں تمہارے ہاتھ پاﺅں الٹے سیدھے کٹوا کر کھجور کے تنے پر لٹکوا دوں گااورتمہیں معلوم ہوجائے گا کہ کس کی مار زیادہ سخت اور زیادہ دیر پا ہے!جا دو گروں نے جواب دیا، ناممکن کہ ہم موسیٰ کے خداپرتمہیں ترجیح دیں۔
حضرت موسیٰ کا معجزہ جادوگروں کے لئے ایک حیران کن تجربہ تھا۔ اس تجربہ نے ان کے سوچنے کے اندازکو یکلخت بدل دیا۔ اب فرعون ان کا کنسرن نہیں رہا بلکہ خداوند ان کا سب سے بڑا کنسرن بن گیا۔
گلاس میں ناریلکاپانی کو دیکھ کر میں سوچنے لگا خدا وند نے موسی کے ذریعہ جومعجزہ ظاہر کیا تھا اس نے جادو گروں کو یکلخت بدل دیا تھا۔
موسیٰ کا معجزہ کیا تھا؟ موسی نے فرعون اورجادو گروں کے سامنے جو معجزہ کیا تھا،اس میں ایک لکڑی سانپ میں تبدیل ہوگئی تھی،اس واقعہ نے جادو گروں کی زندگی میں بھونچال مچا دیا تھا۔ ان کے ذہن و دماغ پر اسٹوننگ ہوئی تھی اور پھر ان کے سوچنے کا زاویہ ہمیشہ کے لئےبدل گیا تھا۔
آج ہمارے سامنے بھی یہ معجزہ ہورہا ہے اور نہایت تواتر کے ساتھ ہو رہا ہے لیکن کوئی بھی اس سے سیکھنے کے لئے تیار نہیں ہے۔
آج بھی لکڑیاں پانی میں تبدیل ہورہی ہیں۔ لکڑیاں آگ بن رہی ہیں،لکڑیاں شادابیاں اگل رہی ہیں، لکڑیاں ہمارے لئے آرام و راحت کا سبب بن رہی ہیں،یہ معجزات نہایت تواتر کے ساتھ ہورہے ہیں لیکن آج کسی کی زندگی میں بھونچال نہیں آرہا ہے۔ موسیٰ کے اس معجزہ کے مقابلہ میں کوئی جادو گرنہیں ہے،سب کے سب فرعون بنے ہوئے ہیں۔
ایسا کیوں ہے؟
اصل بات یہ ہے کہ جادو گروں نے معجزہ کو ایک بار ہی دیکھا تھا اس لئے ان کا چونک اٹھنا لازمی تھا۔ آدمی کی نفسیات یہ ہے کہ جب وہ کسی حیرت انگیز واقعہ کو پہلی بار دیکھتا ہے تو وہ چونک اٹھتا ہے،لیکن جب یہی حیرت انگیز واقعہ بار بار ہو تو وہ اس میں اپنے لئے کوئی سبق نہیں پاتا۔ وہ اس سے اپنے لئے تفکر کی غذا حاصل نہیں کرتا۔ وہ اس کے تئیں بہرا،گونگا،اور اندھا بن جا تا ہےاوریہی انسان کا جرم ہے۔
انسان کا جرم!
حکومت جب کوئی نیا قانون لاتی ہے، تو وہ اس کاخوب چرچا کرتی ہے تاکہ قانون سے متعلق نکات ہر شخص پر ظاہر ہوجائے اور کسی کے لئے کوئی اکسکیوز باقی نہ رہے ۔
مثلاً سال کے آخر میں حکومت ٹیکس سے متعلق بہت سارے اشتہارات دیتی ہے جس میں بتا یا جاتا ہے کہ ٹیکس چوری کرنے والوں کو کیا سزا ہو سکتی ہے! اس جانکاری کے باوجود اگر کوئی شخص ٹیکس چراتا ہے، تو گویا وہ قانون کی نظر میں اپنے آپ کو مجرم قرار دیتا ہے۔اورقانون کے خلاف بغاوت کرتا ہے۔
خدا اپنے معجزات کو ہر روز ظاہر کر رہا ہے تا کہ کوئی شخص یہ نہ کہے کہ اے ،خداوند! تو نے جا دو گروں کی رہنمائی کے لئے معجزہ ظاہر کیا تھا، لیکن میری رہنمائی کے لئے کوئی معجزہ نہ کیا،اسی لئے ہم گمراہ ہوئے۔ اب انسان کے پاس کوئی اکسکیوز نہیں بچتا۔انسان نے خدا کے معجزہ کے مقابلہ میں جادو گر بننے کے بجائے فرعون بن کر اپنے آپ کو مجرم قرار دے دیا ہے۔ انسان نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ جنت کا طلبگار نہیں بلکہ دوزخ کا طلب گار ہے۔ وہ پھولوں کا نہیں کانٹوں کا طلبگار ہے۔

ہفتہ، 22 دسمبر، 2012

Devine design of Paradise


جنت وہی ہے، جسے خدا وند بنائے

محمد آصف ریاض
آدمی زمین پر بڑی تگ و دو کے بعد اپنی تمناﺅں کا ایک گھر بناتا ہے اور جب وہ اپنے اس گھر میں داخل ہوتا ہےتو اسے ایک صدماتی تجربہ (Shocking experience) سے گزرنا پڑتا ہے۔ اپنے نئے گھر میں داخل ہوتے ہی اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس نے اپنے لئے جس نئے گھر کی  تعمیر کی ہے وہ کامل ڈیزائن پرنہیں ہے۔ یعنی جس نقشہ پر اس نے اپنا گھر بنا یا ہے، وہ نقشہ نا مکمل ہے۔ اب وہ اپنے گھر کو دیکھ کر خوش ہونے کے بجائے مایوس ہوجاتا ہے۔
 وہ اپنے گھر کو نئے نقشہ پر تعمیر کرنا چاہتا ہے، لیکن وسائل کی کمی کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کرپا تا۔ وہ وقت کے ساتھ سمجھوتہ کرتا ہے اور مطلوبہ وسائل کے انتظار میں رہتا ہے تاکہ نئے نقشہ پر وہ اپنے لئے از سر نو ایک نئے گھر کی تعمیر کر سکے ۔
اب جب کہ اسے مطلوبہ وسائل حاصل ہوجاتے ہیں تو وہ اپنے پہلے گھر کو منہدم کرکے ایک نئے ڈیزائن پرا پنی تمناﺅں کا گھر تعمیر کرتاہے۔
زمین پر یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ ہرآنے والا وقت پچھلے ڈیزائن کو مسترد کردیتا ہے۔ چنانچہ کنسٹرکشن اور ڈسٹرکشن کا کام اس زمین پر مسلسل جا ری ہے۔ آدمی ہر بار یہ سوچ کر گھر بنا تا ہے کہ اس میں داخل ہوکر وہ اپنی مطلوبہ خوشی کو پالے گا۔ لیکن ہر بار اسے ایک صدماتی تجربہ ہوتا ہے۔ ہر بار اسے جو چیز ملتی ہے وہ احساس محرومی ہے۔ ہر بار اسے پانے کی جگہ کھونے کا احساس ہوتا ہے۔
جنت کا گھر
اب ذرا سوچئے کہ اگر اللہ سبحانہ تعالیٰ انسانوں کے لئے جنت کا فیصلہ کرے، اور انھیں تعمیراتی وسائل دے کر یہ کہے کہ جاﺅ تم اپنے لئے خود سے جنت کی تعمیر لو، تو کیا ہوگا؟
انسان خوبصورت جنت بنا ئے گا لیکن جیسے ہی وہ اپنی بنائی ہوئی جنت میں داخل ہوگا،اسے یہ احساس ستانے لگے گا کہ اس نے اپنے لئے جس جنت کی تعمیر کی ہے وہ اپنے کامل ڈیزائن پر نہیں ہے۔ اس خیال کے آتے ہی وہ اسے منہدم کرنا شروع کر دے گا۔ وہ ایک نئے ڈیزائن پر اپنی جنت تعمیر کرے گا، لیکن پھر اسے احساس ہوگا کہ وہ ڈیزائن بھی نامکمل ہے۔ اوراب اس کا ایک ہی کام رہ جائے گا یعنی اپنی بنائی ہوئی جنت کومنہدم کرنا اور اسے از سر نو تعمیر کرنا۔ جنت میں اسے وہ چیز نہیں ملے گی جس کے لئے جنت بنائی گئی ہے، یعنی ابدی مسرت Eternal bliss
انسان کے لئے یہ ممکن نہ تھا کہ انسان خود سے اپنے لئے جنت بنا تا تو خداوند نے جنت کا نقشہ خود سے تیار کیا اور اپنی نگرانی میں اسے تعمیر کرایا تاکہ انسان کو اس میں ابدی خوشی مل سکے۔ اگر جنت میں انسان کو کامل خوشی نہیں ملتی تو جنت کی تعمیر کا مقصد ہی فوت ہوجاتا۔ انسان اگر خود سے اپنی جنت کی تعمیر کرتا تو اسے وہ چیز نہیں مل پاتی جس کے لئے جنت بنائی گئی ہے۔ یعنی کامل مسرت۔ اٹرنل بلیس ۔خدا نے کامل ڈیزائن پر جنت کی تعمیر کی تاکہ انسان کو وہاں کامل خوشی مل سکے۔
خدا نے اپنے کامل ڈیزائن کا نمونہ اس کائنات میں پھیلا دیا تاکہ بندوں کو اس بات کا ادراک ہوجائے کہ اس کی جنت بھی اسی قسم کے کامل نقشے پر بنی ہوگی۔
 مثلاً خدا نے زمین پر درخت کو اگایا۔ درخت کو اس نے کامل ڈیزائن پر تیار کیا۔ درخت کو دیکھ کر کوئی نہیں کہتا کہ اسے ہٹاﺅاس سے بہتر ڈیزائن کا درخت تیار کیا جا سکتا ہے۔ خدا نے پہاڑ کو بنا یا ۔ پہاڑ اپنے کامل ڈیزائن پرہے،کوئی نہیں کہتا کہ پہاڑ کو ہٹا ﺅ کیونکہ یہ ڈیزائن فرسودہ ہے اوراس سے کامل ڈیزائن کا پہاڑ بنا یا جا سکتا ہے۔ خدا نے کامل ڈیزائن پر زمین کو پھاڑ ا اور دریا بہا یا،کوئی نہیں کہتا کہ اسے بھر دوکیوں کہ اس سے بہتر ڈیزائن کا اور دریا بہا یا جا سکتا ہے۔ خدا نے آسمان کو بلند کیا کوئی نہیں کہتا کہ اس آسمان کو ہٹاﺅ، اس سے بہتر آسمان کی تعمیر کی جا سکتی ہے۔ خدا نے گھاس کو بچھا یا کوئی نہیں کہتا کہ اس گھاس کو ہٹا ﺅ اس سے بہتر ڈیزائن پر گھاس کو بچھا یا کا سکتا ہے۔خدا نےکائنات میں ہر چیز کو اس کے کامل ڈیزائن پر تیار کیا۔ کوئی اس سے بہتر ڈیزائن نہیں دے سکتا۔ یہ ایک نمونہ ہے جو بتا رہا ہے کہ اسی قسم کامل ڈیزائن پرخداونداپنے نیک بندوں کے لئے جنت کی تعمیر کرے گا۔
اب انسان یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ خدا کے کامل نقشہ پر تیار کی گئی جنت میں خوش نہیں رہ سکے گا کیوں کہ وہاں اس کے لئے یہ موقع نہیں ہوگا کہ وہ اپنی جنت کی تعمیر ایک نقشہ کے بعد دوسرے نقشہ پر کر سکے۔ وہ وہاں اوب جائے گا۔
بلاشبہ اس طرح کی باتیں نادانی اور بے خبری کی باتیں ہیں۔ انسان سے پوچھا جائے گا کہ خدا نے کامل ڈیزائن پر درختوں کو بنا یا تو کیا کوئی درختوں کو دیکھ کر اوب گیا ؟ خدا نے کامل ڈیزائن پر سمندر کو بنا یا تو کیا کوئی دریا اور سمندر کو دیکھ کر اوب جا تا ہے۔ خدا نے کامل ڈیزائن پر پہاڑ وں کو بنا یا تو کیا کوئی انھیں دیکھ کر اوب گیا ؟ خدا نے کامل ڈیزائن پر پھولوں کو کھلا یا تو کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ پھولوں کو دیکھ کر اس کا دل اوب گیا ہے۔ نہیں ہر گز نہیں، تو پھر وہ کامل جنت میں کس طرح اوب جائے گا۔
بات یہ ہے انسان کے لئے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ اپنی جنت کی تعمیر خود سے کر سکے۔ نہ اس دنیا میں اور نہ آخرت کی دنیا میں ۔ یہ صرف خدا ہے جو انسان کو جنت دے سکتا ہے۔ جنت وہی ہے جسے خدا بنائے، انسان کی بنائی ہوئی ہر جنت اسے عقوبت خانہ معلوم ہوگی۔ وہ اس سے بہت جلد اوب جائے گا، وہ اس سے نکلنے کے لئے بے چین ہوجائے گا۔ وہ اسے بہت جلد منہدم کرنا شروع کر دے گا۔ خدا نے کامل نقشہ پر جنت کی تعمیر کی تاکہ انسان کو وہاں کامل خوشی مل سکے۔
رگ وید میں ہے ۔”مجھے اس لوک میں دوام عطا کرجہاں مود ،مدہ اور پرمود تین قسم کی لذات حاصل ہوتی ہیں اور دیرینہ تمنائیں پوری ہوتی ہیں“۔ —رگ وید منتر 11
قرآن میں ہے ”ان کے لئے جنت میں وہ سب کچھ ہوگا جو وہ چاہیں گے اور وہ جنت میں ہمیشہ رہیں گے“الفرقان"
دوسری جگہ ارشاد ہے ”کوئی نہیں جانتا کہ نیک بندوں کے لئے جنت میں کیا کیا سامان چھپا کر رکھے گئے ہیں" "السجد"

پیر، 17 دسمبر، 2012

There is comfort in the remembrance of God


خدا وند کو مت بھول

محمد آصف ریاض
15 دسمبر 2012 کو میں گھر سے آفس کے لئے نکلا۔ مجھے نوئیڈا سیکٹر 15 جانا تھا۔ یہاں اتر کر میں نے آفس کے لئے ایک رکشہ لے لیا۔ رکشہ سے اتر کر کرایہ دیا اور آفس کی طرف بڑھنے لگا۔ تبھی رکشہ والے نے اچانک میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ میں حیران ہوکر اس کی طرف دیکھنے لگا۔ میں نے دیکھا اس کی آنکھیں تقریبًا بھیگ چکی تھیں۔
وہ بھرائی ہوئی آواز میں گویا ہوا۔ " آپ ایک اچھے مسلمان ہیں۔ میں نے آپ کو کئی بار اپنے رکشہ پر سوار کیا ہے۔ میں بھی مسلمان ہوں لیکن آپ کی طرح نہیں۔"
 غالباً رکشہ پراس نے مجھ سے وہ دعایہ کلمات سن لئے تھے جوحالت عجز میں خدا کی نعمتوں اور رحمتوں کو یاد کر کے اکثر میری زبان پرجاری ہوجاتے۔
 مثلاً خدایا، اپنےاس عاجز بندے کو بخش دے، معاف فرما۔ آسمان سے میری دستگیری کوآاور میرے گناہوں کو بھلادے۔ میرے کام کو خراب مت کر۔ میرے لئے زمین پرزندگی کے اسباب پیدا فرما، میرے ماں باپ رحمت فرمااورمیرے لئے اپنے پاس جنت میں ایک گھر بنادے۔ میرے علم کو بڑھااور میرے لئے اپنی بخششیں تمام کر،وغیرہ۔
اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا آپ مجھے کچھ نصیحت کیجئے۔
میں نے نصیحت کرتے ہوئے اس سے کہا "اپنے خدا وند کو مت بھول، اسے صبح و شام پکارو۔ دیکھ، جو خدا وند اتنی بڑی زمین اور اتنے بڑے آسمان کاخالق ہے، کیا وہ تمہارے لئے ایک چھوٹا سا مکان نہیں بنا سکتا؟ اپنے رب سے امید باندھ اور اس کو گریہ و زاری کے ساتھ پکار۔ دیکھ، جو خدا وند کائنات میں ہرچیز کے لئے اسباب پیدا کر رہا ہے، کیا وہ تمہاری کامیابی کے اسباب پیدا نہیں کرسکتا؟
میری اس نصیحت پروہ خوش ہوا اور مسکرایا۔ خدا وند کے ذکر نے اس کی مایوسی کو یاس میں بدل دیا۔ اوربلا شبہ خدا وند کی یاد میں بندوں کے لئے سکون ہے۔ اسی بات کو قرآن میں اس طرح سمجھایا گیا ہے: "یاد رکھو، اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو تسلی حاصل ہوتی ہے" {13:28}

جمعہ، 14 دسمبر، 2012

You cannot do anything except prayer


اب آپ کچھ نہیں کر سکتے دعا کے سوا

محمد آصف ریاض
آج جمعہ کا دن ہے ۔ دسمبر 2012کی 14 تاریخ ۔ آج میں نے جمعہ کی نماز نوئیڈا کے اشوک نگر جامع مسجد میں پڑھی۔ اس مسجد میں ہرجمع کو ہزاروں لوگ نماز پڑھنے آتے ہیں۔ نوئیڈا سیکٹر پندرہ میں واقع آفس سے نزدیک ہونے کی وجہ سے میں بھی یہیں نماز پڑھتا ہوں۔ اس جامع مسجد کے امام نے آج جو خطبہ دیا وہ اس طرح ہے:
"حضرت جنید بغدادی بہت بڑے پہلوان تھے۔ پوری دنیا میں ان کی پہلوانی کا چرچا تھا۔ انھوں نے اپنی پہلوانی کا لوہا منوانے کے لئے بہت ریاضت کی تھی۔ { مولانا نے یہ نہیں بتا یا کہ وہ کون سے پہلوان تھے جن سے کشتی لڑکرجنید بغدادی نے پوری دنیا میں اپنی پہلوانی کا لوہا منوایا تھا} لیکن ایک دن عجیب و غریب واقعہ ہوا کہ ان کی ساری پہلوانی دھری کی دھری رہ گئی۔ ایک پتلے دبلے آدمی سے وہ ہار گئے۔ لوگوں کو حیرانی ہوئی کہ اتنا بڑا پہلوان ایک معمولی آدمی سے کس طرح ہار گیا۔ لوگوں نے جنید بغدادی سے پوچھا حضرت آپ کی پہلوانی کا سکہ ساری دنیا میں چلتا ہے لیکن یہ دبلا پتلا شخص کس طرح آپ کو ہرانے میں کامیاب ہوگیا۔؟ جنید بغدادی نے فرمایا۔ وہ شخص" سید " تھا اور سید کے احترام میں میں نے اپنی شکست کو قبول کرلیا۔ قربان جائے جنید بغدادی پر، جنھوں نے سید کا اس قدر احترام کیا۔ اسی احترام کی وجہ سے انھیں خدا نے یہ مقام دیا کہ وہ پانی پر مصلی  بچھا کرنماز پڑھتے تھے۔"
یہ صرف ایک مسجد کا خطبہ نہیں ہے۔ اس طرح کی بے تکی ، بے ہودہ، اور گندی کہانیاں آپ ملک کی تقریباً تمام مساجد میں سن سکتے ہیں۔
مذکورہ امام کا خطبہ بتا رہا ہے کہ مسلمانوں کے اندر جہالت کی جڑیں کتنی گہری ہوگئی ہیں۔ اگر آپ بغور جائزہ لیں تو پائیں گے کہ مسلمانوں پرجہالت کی تہیں اتنی زیادہ ہیں کہ آگر آپ انھیں ہٹانا چاہیں تو ہٹا نہیں سکتے۔ آپ ہار جائیں گے۔
حدیث میں قیامت کی ایک نشانی یہ بتائی گئی ہے کہ  لوگ عالیشان مساجد تعمیر کرنے لگیں گے توسمجھ لینا کہ قیامت نزدیک آگئی۔
(Doomsday will not come until people boast about mosques and decorations in them.) [Ibn Mâja]
لوگ بڑی بڑی مساجد بنائیں گے اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک وقت آئے گا جب تمہاری ترجیحات بدل جائیں گی۔ تم لوگ اپنی تعمیر کے بجائے درو دیوار کی تعمیر میں لگ جائوگے۔ یعنی شفٹ ان پرائیریٹی کا معاملہ پیش آئے گا۔ لوگ درو دیوار کی تعمیر میں لگ جائیں گےاور اپنی تعمیرکو بھول جائیں گے۔
مسلمانوں کی مسجدوں کو دیکھئے تو آپ کو اس حدیث کا وزڈم سمجھ میں آجائے گا۔ مسلمانوں کی بڑی بڑی مسجدوں میں چھوٹے چھوٹے امام کی بہتات بتا رہی ہے کہ قیامت سر پر آگئی۔ اب آپ کچھ نہیں کر سکتے، دعا کے سوا۔  

بدھ، 12 دسمبر، 2012

When the man will come to know his weakness


پہلا حکم بھی خدا کا تھا اور آخری حکم بھی خدا کا ہے

محمد آصف ریاض
انسانی جسم کا نظام کئی چیزوں پرمشتمل ہے۔ مثلاً ڈائیجسٹیو سسٹم { digestive system }  امیون سسٹم immune system نروس سسٹم {nervous system} ریسپریٹری سسٹم { respiratory system} وغیرہ۔
اسی قسم کا ایک سسٹم وہ ہے جسے سائنس کی اصطلاح میں یورینری سسٹم {urinary system} کہاجا تاہے۔
انسانی جسم کے اندر یورینری سسٹم ایک عجیب وغریب سسٹم ہے۔ اسی سسٹم کے تحت انسانی جسم کے فضلات پیشاب کے راستے سے باہر نکلتے ہیں۔ اس کام میں کڈنی اوربلاڈر کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ اگر یہ سسٹم کام کرنا چھوڑ دے تو انسان زندہ نہیں رہ سکےگا۔
The urinary system eliminates waste from the body, in the form of urine. The kidneys remove waste from the blood. The waste combines with water to form urine. From the kidneys, urine travels down two thin tubes called ureters to the bladder. When the bladder is full, urine is discharged through the urethra.
خدا وند نے انسان کی تخلیق کی اوراسےاس کی زندگی کاسامان دیا۔ مثلاً انسان کے جسم میں خود کارنظام پیداکیا تاکہ زمین پرانسان کی زندگی قائم رہے۔ ایک نظام وہ ہے جوانسان کے جسم کے اندر پیدا کیا جیسے امیون سسٹم، نروس سسٹم، ریسپریٹری سسٹم، یورینری سسٹم وغیرہ۔ اور دوسرانظام وہ ہے جسے انسانی جسم کے باہر یعنی کائنات میں رکھا۔ مثلاً پانی کا نظام، ہواکا نظام، روشنی کا نظام، آکسیجن کا نظام،لائف سپورٹ سسٹم کا نظام، وغیرہ۔
ایک صورت تو یہ تھی کہ انسان پانی پیتا اورنیچے سے وہ پانی نکل جاتا۔ دوسری صورت یہ تھی کہ انسان پانی پیتا اور وہ پانی رفتہ رفتہ بوند بوند ٹپک کر نیچے سے نکل جاتا۔ اگر ایسا ہوتا تو انسان مستقل مصیبت میں پڑجاتا۔
خدانے بندوں پررحم فرما یا اور یورینری کا ایک نہایت مستحکم نظام پیدا کیا۔ پھراس نظام کوایک معینہ مدت کے لئےانسان کے حوالے کردیا۔ اب صورت یہ ہے کہ انسان جب چاہتا ہے پیشاب کرتا ہے اور جب چاہتا ہے نہیں کرتا۔ ایسا نہیں ہوتا کہ وہ اوپر سے پانی پی رہا ہو اور نیچے سے پانی ٹپکنےلگے۔ خدا نے یورینری کا ایسامستحکم نظام بنا یا ہے کہ انسان کو اپنے سسٹم پر کنٹرول حاصل ہوگیا ہے۔ اب وہ جب چاہتا ہے پیشاب کرتا ہے اور جب چاہتا ہے روک لیتا ہے۔
تاہم یہی وہ بات ہے جس نے انسان کوغلط فہمیں میں ڈال دیا ہے۔ اب انسان یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ اسے پورے نظام پر قدرت حاصل ہوگیا ہے۔ اب اسے چلانے کے لئے خدا کی ضرورت نہیں رہی۔ خدا اب ایک سیمبولک نام نام بن گیا ہے۔ خدا اب آخری سیٹ پر جا چکا ہے۔ اب خدا کی سیٹ پر خود اس کا اپنا قبضہ ہے۔
انسان کو یہی غلط فہمی کائنات کی دوسری چیزوں کے بارے میں ہوگئی ہے۔ خدا نے انسان کی تخلیق کی اور اسے بہت معنی خیزکائنات میں بسایا۔اس کے لئے زندگی کا سارا سامان اتارا اورسارے نظام کو انسان کے تابع کردیا۔ انسان پانی پردوڑتا ہے آسمان میں اڑتا ہے۔ اب انسان کو یہ غلط فہمی ہوگئی کہ انسان کائنات پر قابو پا چکا ہے۔ اب وہ جو چاہئے کرے۔ اب اسے خدا کی ضرورت نہیں رہی۔
لیکن یہ ایک غلط فہمی ہےجوزیادہ دنوں تک باقی رہنے والی نہیں۔ ایک دن آئے گا جب انسان اس لائق بھی نہیں رہے گا کہ وہ اپنی خواہش سے پیشاب بھی کر سکے۔ اس کا یورینری سسٹم سیز کر لیا جائے گا۔ تب انسان جان لے گا کہ پہلا حکم بھی خداکا تھا اورآخری حکم بھی خدا کا ہے۔ نہ پہلے اسے کوئی قدرت حاصل تھی اور نہ آخر میں۔ نہ اس نے کائنات کے نظام کو بنا یا تھا اور نہ وہ اس لائق تھا کہ وہ خدا کو مائنس کر کےاس کے سسٹم کواستعمال کر سکے۔
انسان کو ایک مدت کے لئے اختیارات دئے گئے ہیں۔ قرآن میں اس مدت کو امتحان کی مدت کہا گیا ہے۔ قرآن میں ہے " جس نے موت اور حیات کوپیدا کیا تاکہ معلوم کرے کہ تم لوگوں میں کون اچھا عمل کرنے والا ہے۔"67:2}}
انسان امتحان حال میں ہے۔ امتحان حال میں آدمی کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ چاہے کرے۔ وہ چاہے تو اپنی کاپی پرکچھ لکھےاور چاہے تو نہ لکھے۔ لکھنے اور نہ لکھنے کے لئے اس پر کوئی دبائو نہیں بنا یا جا ئےگا۔ امتحان حال میں اسے کسی چیز پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔
انسان ٹسٹ حال میں ہے، وہ جو چاہے کرے۔ لیکن مدت امتحان کے ختم ہوتے ہی اس کی آزادی اس سے چھین لی جائےگی۔ پھر اس کے اعمال کے لحاظ سے اس کا فیصلہ کردیا جائے گا۔
اس روزنیکوکاروں کوابدی جنت میں بسا دیا جائےگااور برے لوگوں کو جھنم کے کوڑے دان میں رونے اور دانت پیسنے کے لئے چھوڑ دیاجائےگا۔

ہفتہ، 1 دسمبر، 2012

The Life After


موت کے بعد زندگی

محمد آصف ریاض
29نومبر2012 کونوئیڈاسیکٹر پندرہ میں واقع اپنے آفس سے نکل کرظہر کی نماز پڑھنے کے لئے قریب کے ایک پارک میں گیا۔ یہ پارک بہت مینٹینڈ {maintained} تھا۔ ہری ہری گھاس دورتک پھیلی ہوئی تھی۔ میں جب اس گھاس پرنماز کے لئے کھڑا ہوا تو میری نماز گویا فطرت کی نماز بن گئی۔
میں سوچنے لگا کہ یہ مٹی بھی عجیب وغریب چیز ہے۔ ایک مٹھی مٹی میں کئی بلین مایکرواسکوپک بیکٹریا ہوتے ہیں۔ یہ بیکٹیریا مسلسل کام کرتے رہتے ہیں۔ یہ نیوٹرینٹ پیدا کرتے ہیں اور بیماری کے خلاف دفاعی محاذ تیار کرتے ہیں۔ مٹی میں انسان کے لئے زندگی ہے۔
Modern soil science is demonstrating that these billions of living organisms are continuously at work, creating soil structure, producing nutrients and building defense systems against disease. In fact, it has been shown that the health of the soil community is key to the health of our plants, our food and our bodies.
اسی زمین پرانسان کے لئے پانی کا ذخیرہ ہے۔ اسی زمین سے انسان اپنے لئے کھانے کی چیزیں نکالتا ہے۔ اسی زمین پر وہ سوتا اور جاگتا ہے۔ اسی زمین پر انسانی زندگی قائم ہے۔ یہاں استثنائی طورپرانسانی زندگی کا ساراسامان موجود ہے۔ اس زمین کے علاوہ کوئی ایسی زمین نہیں جہاں انسان کے لئے لائف سپورٹ سسٹم موجود ہو، جہاں کی مٹی درخت اگاتی ہواور جہاں کے درخت آکسیجن اورکھانا فراہم کرتے ہوں۔
قرآن میں اس حقیقت کا بیان ان الفاظ میں ہوا ہے:
 " کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے زمین کوفرش بنا یا۔ اور پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑ دیا۔ اور تم کو جوڑا جوڑا پیدا کیا۔ اور تمہاری نیند کو باعث سکون بنا یا۔اور رات کو لباس بنایا۔ اور دن کو معاش کا وقت بنایا۔ اورتمہارےاوپر سات مضبوط آسمان قائم کئے۔ اور ایک نہایت روشن اور گرم چراغ پیدا کیا۔ اور بادلوں سے لگاتار پانی برسایا۔ تاکہ اس کے ذریعہ سےغلہ اور سبزی اور گھنے باغ اگائیں۔"   {78:6-16}
آدمی اس زمین پر چلتا پھرتا ہے۔ وہ اس پر سرکشی اور ہنگامہ آرائی کرتا ہے،تاہم ایک وقت آتا ہے جب یہ زمین انسان کو نگل جاتی ہے۔ انسان مٹی میں مل کر قصہ پارینہ بن جاتا ہے۔
قرآن میں ہے: "اسی زمین سے ہم نے تمکو پیدا کیا، اسی میں ہم تمہیں واپس لے جائیں گے، اور اسی سے تمکو دوبارہ نکالیں گے۔" {20:55}
قرآن کا یہ بیان کوئی ریہیٹریک  rhetoric }} نہیں ہے بلکہ یہ ایک حقیقت واقعہ کا اعلان ہے۔ انسان کا زندہ ہونا اوراس کا مٹی سے نکلنا مجموعی طورپر قیامت کے دن ہوگا، لیکن اس سے پہلے خداوند دوسری دوسری چیزوں کومارکرزندہ کررہا ہے تاکہ انسان انھیں دیکھ کرسمجھ لےکہ اسی طرح اس کا بھی مرنے کے بعد زندہ کیاجا ناہوگا۔ اسی سمجھ کے لئےانسان کو دماغ دیا گیا ہے۔
انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ دوسری دوسری چیزوں کومرتااورزندہ ہوتا ہوا دیکھ کروہ خوداپنے مرنے اور زندہ ہونے کو جان لے۔
درختوں کا ایک موسم میں مرکر دوسرے موسم میں جاگ اٹھنا بتا تا ہے کہ خدا اسی طرح انسانوں کو مرنے کے بعد زندہ کرے گا۔ انسان کا نیند کی حالت میں وقتی موت کے بعد پھرجاگ اٹھنا بتا تا ہے کہ اسی طرح انسان کا مرنے کے بعد زندہ کیا جا نا ہوگا۔
جس طرح سبزے مرکرایک موسم کے بعد دوسرے موسم میں زمین کے اندر سے زندہ اورسلامت نکل آتے ہیں اسی طرح انسان ایک دن زمین کے اندر سے زندہ اور سلامت نکالاجا ئے گا۔
قرآن میں اسی بات کا اعلان ان الفاظ میں کیا گیا ہے: "اسی زمین سے ہم نے تمکو پیدا کیا،اسی میں ہم تمہیں واپس لے جائیں گے، اور اسی سے تمکو دوبارہ نکالیں گے۔" {20:55}

منگل، 27 نومبر، 2012

The great dealing


حسن معاملہ

محمد آصف ریاض
قرآن کی سورہ بقرہ میں ہے" اگر تم عورتوں کو اس سے پہلے طلاق دے دو کہ تم نے انھیں ہاتھ لگا یا ہواور تم نے اس کا مہر بھی مقرر کردیا ہوتو تم مقررہ مہر کا آدھا دے دو۔ یہ اور بات ہے کہ وہ خود معاف کردے یا وہ شخص معاف کردے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہو۔ تمہارا معاف کردینا تقوی سے بہت نزدیک ہے۔ اور آپس کی فضیلت اور بزرگی کو فراموقش نہ کرو۔ یقیناً اللہ تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے۔" {البقرہ 237}
قرآن کی اس آیت میں حسن معاملہ کو بتا یا گیا ہے۔ اس میں  بتا یا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص شادی کرے اور مہر بھی مقرر ہوگئی ہو لیکن کسی وجہ سے اس کے اندر سیکنڈ تھاٹ پیدا جائے اور وہ ملاپ سے پہلے ہی اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہے تو اس پر لازم ہے وہ مقررہ مہر کا نصف حصہ اپنی بیوی کو ادا کرے۔
تاہم یہاں ایک گنجائش بھی رکھی گئی ہے۔ وہ یہ کہ دو نوں فرقیقن میں سے جو چاہے اپنے حصہ کو معاف کردے۔ لڑکی کا معاف کرنا یہ ہے کہ وہ اپنا حصہ چھوڑ دے اور لڑکے کا معاف کرنا یہ ہے کہ وہ مہر کا آدھا حصہ اپنے پاس بچا کر نہ رکھے بلکہ وہ مہر کی پوری رقم اپنی بیوی کو دےدے۔ ہر چند کہ قانوناً اسے نصف ہی دینا تھا۔
خداوند کے نزدیک یہ تقوی اور فضیلت کی بات ہے کہ آدمی اپنا حصہ معاف کردے۔ خدا وند نےفضیلت کا یہ موقع دونوں فریقین کو دیا۔ اگر صرف عورت کو معاف کرنے کا حق ہوتا تو اخلاقی طور پر عورت کو مرد پر فضیلت حاصل ہوجاتی اور اگرصرف مرد کو معاف کرنے کا حق ہوتا تو مرد کو عورت پر اخلاقی فضیلت حاصل ہوجاتی۔ خدا وند نے اپنے فضل سےچا ہا کہ دونوں کو برابر کا موقع ملے، تاکہ دونوں فرقین میں سے جو چاہے اپنا حصہ معاف کرکے اپنے آپ کو فضیلت اور تقوی کے مقام پر فائز کرے۔
آدمی ایک گھر میں رہتا ہے وہ ایک خاندان میں پر ورش پاتا ہے۔ وہ بھائی بہنوں والا، کنبہ اور قبیلہ والاہوتا ہے پھر اس پر جدائی کا وقت آتاہے۔
جدائی کے اس وقت میں ایک صورت تو یہ ہوتی ہے ہر فریق قانون کے مطابق اپنا اپنا حصہ مانگے اور ان میں کوئی بھی کچھ چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہو۔ یہاں تک کہ وہ ہر پراپرٹی میں الگ الگ حصہ لینے پربضد ہوں۔ اس طرح وہ اپنی پراپرٹی بھی برباد کریں اور دوسروں کی بھی۔ ان کا حال یہ ہو کہ ان میں ہر کوئی قانون کی زبان جانتا ہو کوئی تقوی اور فضیلت سے واقف نہ ہو۔
ایسا ہر گھر چڈھا { Chadha } کا گھر ثابت ہوگا۔ چڈھا برادران کا بہت بڑا بزنس تھا۔ ان لوگوں نے ملک بھر میں چھہ ہزار کروڑ سے زیادہ کا کاروبارپھیلا رکھاتھا۔ لیکن جب جدائی کا وقت آیا تو ان میں سے ہر ایک قانون کی زبان جانتا تھا کوئی تقوی کی زبان نہیں جانتا تھا،اس لئے کوئی بھی کچھ چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہوا اور بلآ خر دہلی کے چھتر پور فارم ہائوس میں دونوں بھائیوں نے ایک دوسرے کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔
Liquor and real-estate baron Gurpreet Singh Chadha, known as ‘Ponty Chadha’, and his younger brother, Hardeep, dies on Saturday after allegedly opening fire at each other during a meeting to resolve their property dispute. The Hindu Business Line۔ NEW DELHI, NOV 17
جدائی کی ایک دوسری صورت بھی ہے۔ وہ ہے تقوی اور فضیلت کے ساتھ جدا ہونا۔ اسلام میں معاملات صرف قانون تک پہنچ کر ہی ختم نہیں ہوجاتے بلکہ اس کے آگے بھی فریقین کے لئے کھونے اور پانے کا موقع باقی رہتا ہے۔ اسی موقع کو قرآن میں تقوی اور فضیلت کہا گیا ہے۔
لیکن عجیب بات ہے کہ انسان قانون کی زبان جانتا ہے، وہ تقوی اور حسن معاملہ کی زبان نہیں جانتا۔ انسان اپنا حق لینا جانتا ہے وہ اپنا حق چھوڑنا نہیں جانتا۔ وہ اپنے حق کے معاملہ میں قانون کے ہر دائو پیچ سے باخبر ہے لیکن تقوی کے قانون کونہیں جانتا۔
انسان مرکرجب اپنے خدا وند کے سامنے حاضر کیا جائے گا تو وہ معاملات کے بارے میں اپنے خدا وند سے یہ نہیں کہہ سکے گا کہ خدا یا میں تیرے فرمان کو نہیں جان سکا۔ خدا وند اس سے پوچھ گا کہ تو قانون کے دائو پیچ کو تو خوب جانتا تھا لیکن قرآن کے واضح فرمان کے معاملہ میں اپنی ہوشیاری کا ثبوت کیوں نہ دے سکا؟
اپنے حق کو جاننے میں ہر آدمی ہوشیار ہے۔ اس میں ہندو مسلم سکھ عیسائی کسی کا کوئی استثنا نہیں۔ اپنے مال کو جس قدر مضبوطی سےسیکولراور بے دین لوگ پکڑتے ہیں، اتنی ہی بلکہ اس سے بھی زیادہ مضبوطی سےدینداری کا دعوی کرنے والے لوگ پکڑتے ہیں۔ شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ دیندار ہیں اس لئے  وہ جو چاہیں کریں۔
حدیث میں اس بات کی پیشن گوئی اس طرح کی گئی ہے: ابن مردویہ کی ایک روایت میں ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "لوگوں پرایک کاٹ کھانے والا زمانہ آئے گا۔ یہاں تک کہ مومن بھی اپنے ہاتھوں کی چیز کو دانت سے پکڑ لے گا اور فضیلت و بزرگی کو بھول جائے گا۔ حالانکہ اللہ پاک کا حکم ہے کہ اپنے آپس کے فضل کو فراموش مت کرو۔"
} دیکھئے تفسیر ابن کثیر سورہ بقرہ صفحہ{114

جمعہ، 23 نومبر، 2012

Seeking pure faith


دین حق کی دریافت

محمد آصف ریاض
19نومبر 2012 کو دہلی کے اوکھلا میں میری ملاقات ایک نوجوان سے ہوئی۔ وہ ہر بات میں " یاعلی مولاعلی " کہہ رہے تھے۔ میں نے انھیں بتا یا کہ قرآن میں مولی صرف خدا کے لئے استعمال ہوا ہے۔ مثلاً سورہ الانفال کی ایک آیت ہے: "اوراگر وہ اعراض کریں تو جان لو کہ " اللہ تمہارا مولی ہے" اورکیا ہی اچھا مولی ہے اور کیا ہی اچھا مددگار"  (8:40)
میری اس بات پروہ کہنے لگےکہ ایران میں تو لوگ اسی طرح بولتے ہیں۔ میں نے کہا کہ اسلام وہ ہے جو قرآن سے درآمد کیا جائے نہ کہ ایران  اور عراق سے۔ میرے اس جواب پر وہ بہت زیادہ سوچنےلگے۔
اصل بات یہ ہے کہ اسلام لوگوں کی اپنی ڈسکوری نہیں ہے۔ لوگ جس اسلام کو جانتے ہیں وہ انھیں وراثت میں ملی ہے۔ چناچہ اس کے ساتھ وراثتی گندگیاں بھی درآئیں ہیں۔
ہر انسان پر لازم ہے کہ جب وہ شعور کی عمر کو پہنچے تودین کوقرآن کی روشنی میں از سرے نودریافت کرے۔ وہ دین کے معاملہ میں قرآن کو اپنا معیار بنائے۔ وہ قرآن کی کسوٹی پر رکھ کر اپنے دین و ایمان کا محاسبہ کرے۔
قرآن کا ایک نام فرقان بھی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: اور اس نے وہ کسوٹی {فرقان} اتاری ہے جو حق اور باطل کا فرق دکھانے والی ہے۔ (3:4)
فرقان کے معنی ہوتا ہے فرق کرنے والا۔ یعنی ایک چیز کو چھانٹ کر دوسری چیز سےالگ کر نے والا۔ اگر آدمی قرآن کی تلاوت سنجیدگی سے کرے تو وہ پائے گا کہ قرآن " اسلام اورغیر اسلام " میں فرق کرنا سکھا رہا ہے۔ قرآن دانے کو بھونس سے  الگ کردیتا ہے اور جھاگ کو پانی سے۔ اوربلا شبہ بھونس اس لئے ہے کہ اسے جلا دیا جائے اور جھاگ اس لئے ہے کہ اسے ہوائیں اٹھا کر لے جائیں۔ قرآن میں اس بات کوان الفاظ میں سمجھا یا گیا ہے۔
اور اعلان کر دو کہ حق آیا اور باطل مٹ گیا اور باطل تو مٹنے ہی والا ہے۔ (17: 81)
قرآن کو حق کہا گیاہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: "اللہ نے ٹھیک ٹھیک حق کے مطابق کتاب نازل کی۔" (2:176)
جب کوئی مچھورا اپنی جال پانی سے نکالتا ہے تو وہ مچھلی کو چن کر الگ کر لیتا ہے اوردوسرے کیڑے مکوڑوں کو الگ پھینک دیتا ہے۔
اسی طرح قران انسان کی رہنمائی کرتا ہے۔ قران برائی کو بھلائی سے چھانٹ کر الگ کردیتا ہے۔ قرآن انسان کومچھلی اور کیڑے مکوڑوں کے درمیان فرق کرنا سکھاتا ہے۔ وہ پانی اور جھاگ کو الگ کرتا ہے۔ وہ چھوٹ کو سچ سے الگ کر تاہے۔ وہ دانےاور بھونس کو چھانٹتاہے۔
ہرایمان والے پر فرض ہے کہ وہ اپنی زندگی کوقران کے سانچے میں ڈھالے۔ وہ قرآن کی روشنی میں وراثتی گندگیوں کو اپنی زندگی سے چھانٹ چھانٹ کر الگ کرے۔
وہ صرف ایک اللہ کو اپنا مولی بنائے۔ وہ شرک کی اس بیماری میں مبتلا نہ ہو جس میں یہود و نصاری مبتلا ہیں۔
سچے دین کی دریافت کی ذمہ داری ہر انسان کی اپنی ذمہ داری ہے۔ ہرانسان کو اپنی موت خود مرنا ہے کوئی دوسرا اس کے لئے نہیں مرے گا۔ اسی طرح ہر انسان کو اپنے ایمان کی حفاظت خود کرنی ہے، کوئی دوسرا اس کے ایمان کی حفاظت نہیں کر سکتا۔

Everybody has to do his own believing,because everybody has to die his own dying
ہر انسان کو خدا وند کے نزدیک اپنے اعمال کے لئے خود جوابدہ ہونا ہے کوئی دوسرا اس کے لئے جواب دہ نہیں ہوگا۔ نہ اس کا باپ نہ اس کا کنبہ اورنہ اس کا قبیلہ۔ ہر انسان پر فرض ہے وہ حق کے معاملہ میں کسی کے ساتھ سمجھوتہ نہ کرے۔ وہ ہر قسم کے تعصبات سے اوپر اٹھ کر دین کو دریافت کرے۔ وہ ہرقسم کی وراثتی گندگیوں کو اپنی زندگی سے چن چن کر نکال دے۔ 

بدھ، 14 نومبر، 2012

What is the creative writing?

کریٹیو رائٹنگ کیا ہے؟
محمد آصف ریاض

کریٹیو رائٹنگ کے لئے کوئی لگا بندھا اصول نہیں ہے۔ کریٹو رائٹنگ ہمیشہ کریٹیو تھنکنگ کے ذریعہ آتی ہے۔ چند خوبصورت الفاظ کےلکھ دینے سے کوئی رائٹر کریٹو نہیں بن جاتا۔ کریٹیو رائٹنگ کے لئے ضروری ہے کے آدمی بہت زیادہ پڑھے۔ وہ کتابوں کی قبر میں اپنے آپ کو دفن کردے ۔

لیکن صرف بہت زیادہ پڑھنا ہی کافی نہیں ہے ۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ رائٹر کے پاس بہت سارے تجر بات ہوں۔ لیکن صرف تجربات و مشاہدات ہی کریٹو رائٹنگ کے لئے کافی نہیں ہیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ آدمی بہت زیادہ تفکر کرنے والا ہو، اور اس کے ساتھ ہی اس کے اندر یہ صلاحیت بھی ہو کہ وہ ان تجربات و مشاہدات سے اپنے لئے کوئی حکمت کی بات نکال سکے۔ وہ شعوری طور پر اتنا بیدار ہوچکا ہو کہ ہر ناکامی سے کامیابی کو نچوڑ سکے۔ وہ ’رنگ سکسز آٹ آف فیلیور ( Wring success out of failure )کے آرٹ کو جانتا ہو۔

جس طرح درخت فضاﺅں سے کاربن ڈائی آکسائڈ اٹھاکر اسے آکسیجن میں کنورٹ کر دیتے ہیں، اسی طرح ایک کریٹیو رائٹر کو یہ کرنا ہے کہ وہ ہر نگیٹو چیز سے اپنے لئے ایک پوزیٹو چیز پیدا کر ے۔ وہ ہر No سے اپنے لئے Yes پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ وہ ہر واقعہ سے لوگوں کے لئے ایک سبق اخذ کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہو۔ اگر کوئی شخص ایسا کرنے میںکامیاب ہو گیا تو یہی وہ شخص ہے جسے کریٹیو رائٹر کہا جائے گا۔کریٹیو رائٹر مکھی پر مکھی نہیں مارتا اور ناہی وہ لگے بندھے اصولوں کا پابند ہوتا ہے۔

 کریٹیو رائٹنگ آٹ آف باکس آئیڈیاز  (Out of box ideas) کے ساتھ آنے کا نام ہے۔ کر یٹیو رائٹر سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ زندگی کے بہاﺅ کے ساتھ چل سکے ۔ وہ اپنے سمندر کے پانی کو ٹھہرنے نہ دے کیونکہ ٹھہرا ہوا پانی کسی کام کا نہیں ہوتا ۔ اسی طرح ٹھہرے ہوئے آئیڈیاز آئیڈیاز تو ہوتے ہیں لیکن وہ کسی کام کے نہیں ہوتے ۔

کریٹیو رائٹر کو زبان کی ڈی کوڈنگ کا ہنر بھی آنا چاہے۔ اپنی زبان میں ہر چیز کچھ نہ کچھ بولتی ہے۔ پتھر بھی کچھ بولتا ہے۔ پھول بھی کچھ بولتے ہیں، اسی طرح آسمان پر اڑتے ہوئے پرندے بھی اپنی زبان میں کچھ پولتے ہیں، سمندر میں مچھلیاں بھی کچھ بولتی ہیں۔ کریٹو رائٹر ان کی زبان کو ڈی کوڈ کرتا ہے۔ وہ چھپے ہوئے الفاظ کے معنی لوگوں کے سامنے کھولتا ہے ۔ جس شخص کے اندر ڈی کوڈنگ کی یہ صلاحیت ہو،یہی وہ شخص ہے جسے لوگ کریٹو رائیٹر کہتے ہیں۔

اسی طرح کریٹیو رائٹر کوحذف و اضافہ کے اصول سے بھی واقف ہوناچاہئے۔ اگر وہ حذف و اضافہ کے فن کو نہیں جانتا تو وہ خود بھی کنفیوزن کا شکار ہوگا اور دوسروں کو بھی کنفیوزڈ کر دے گا۔ وہ بے معنی الفاظ کا جنگل اگائے گا اور کوئی قیمتی بات نہیں کہہ سکے گا۔

حذف کیا ہے؟ نیوٹن نے دیکھا کہ درخت سے پھل گر کر نیچے زمین پر آگیا تو اس کا یہ یقین پختہ ہوا کہ زمین میں قوت کشش ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اس نے یہ بھی دیکھا کہ درخت کی جڑیں اوپر نہ جاکر نیچے جا رہی ہیں ۔اس کے بر عکس شاخیں اوپر کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ یعنی ایک درخت جتنا اندر ہے اتنا ہی باہر بھی ۔ تاہم یہ باتیں نیو ٹن کو کنفیوزڈ نہ کر سکیں ۔ اس نے جڑ کے نیچے جانے اور شاخوں کے اوپر بڑھنے کو حذف کر کے محض پھل کے گرنے کو لیا ، تبھی جا کراس کے لئے یہ ممکن ہوسکا کہ وہ کسی خاص نظریہ تک پہنچ سکے۔

بات یہ ہے کہ آدمی جب بھی کچھ لکھنے بیٹھتا ہے تو اس کے سامنے بہت ساری چیزیں بیان کر نے کے لئے ہوتی ہیں۔ اگر وہ ایسا کرے کہ سب کو بیان کرنا شروع کردے تو وہ خود بھی کنفیوزن کا شکار ہوگا اور دوسروں کو بھی کنفیوزڈ کردے گا۔ وہ الفاظ کے جنگل کے سوا کچھ بھی نہیں نہ اگا سکے گا۔ ایسے وقت میں انسان کو حذف و اضافہ کے اصول پر عمل کرنا پڑتا ہے۔ اسے کچھ چیز لینا ہو تا اور کچھ چیزوں کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ اگر آدمی حذف و اضافہ کے اس اصول سے واقف نہ ہو تو وہ کچھ اور ہوسکتا ہے، وہ کریٹیو رائٹر نہیں ہو سکتا۔

کریٹیو رائٹر کے اندر یہ صلاحیت بھی ہونی چاہئے کے وہ کائنات کی آفاقی زبان کو سمجھ سکے۔ وہ یونیورس میں پھیلی ربانی کتاب کے اوراق کو پڑھ سکے۔ وہ شعوری طور پر اتنا بلند ہو چکا ہو کہ وہ اپنے خالق سے کلام کر سکے۔

 جب کوئی شخص اپنے آپ کو اتنے ا علیٰ مقام پرپہنچانے میں کامیاب ہو جائے گا تو وہ الہامی زبان میں کلام کرنے لگے گا۔ اور یہی وہ کلام ہے، جسے جدید اصطلاح میں کر یٹیو رائٹنگ کہا جا تا ہے۔

کریٹیو رائٹنگ دل کی پاکیزگی کا نام ہے۔ صرف پاکیزہ دل ہی کوئی معنی خیز بات کہنے کا متحمل ہو سکتا ہے۔ با ئبل میں ہے:
You brood of snakes! How could evil man like you speak what is good and right? For a man heart determines his speech. A good man's speech reveals the rich treasures within him. An evil hear-ted man is filled with venom and his speech reveals it
Mathew 12: 33-36

پیر، 12 نومبر، 2012

A story of two boys

دو بچوں کی کہانی

محمد آصف ریاض
کل 11  اکتوبر 2012 کو میں دہلی جامع مسجد گیا ہوا تھا۔ اس سفر میں میرا چار سالہ بیٹا " محمد یحی"  بھی میرے ساتھ تھا۔
ہم لوگ جامع مسجد کے قریب پہنچ چکے تھے، لیکن مسجد کا راستہ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ میں نے نزدیک کے ایک دکاندار سے مسجد کا راستہ پوچھا۔ دکاندار ابھی کچھ بولتا کہ اس سے پہلے وہاں موجود ایک لڑکا بول پڑا۔ "مسجد جائیے گا ؟ چلئے میں آپ کو وہاں پہنچا تا ہوں ۔ میں بھی اسی طرف جا رہا ہے۔"
اس لڑکے کی عمرتقریباً چھ سال کی رہی ہوگی۔ وہ اسٹریٹ بوائے معلوم پڑ رہا تھا۔ میں نے پوچھا کہ بیٹے آپ کیا کرتے ہیں؟ اس نے جواب دیا میں یہاں "نگ" کا کام کرتا ہوں اور ساتھ میں پڑھائی بھی کرتا ہوں۔ وہ ترکمان گیٹ سلم ایریا کا رہنے والا تھا۔ وہ کرکرے ٹائپ کی کوئی چیز کھا رہا تھا اور بہت کنفی ڈنس کے ساتھ ہمارے آگے آگے چل رہا تھا۔
لیکن میرا بیٹا اس کے ساتھ چلنے کے لئے راضی نہ تھا۔ وہ بار بار میرے پائوں پکڑ کر مجھے روکنے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ احتجاً باربار پیچھے رک جاتا تھا۔ میں نے کہا آجائو بیٹا۔ جواب میں  اس بچے کی طرف انگلی کا اشارہ کر کے وہ بولنے لگا، وہ، وہ! یعنی اس کے ساتھ میں نہیں جائوں گا۔ اب اس بچے نے کہا کہ آجائو، بابو، آجائو، یہ کہتے ہوئے اس نے میرے بیٹے کو کرکرے کا ایک ٹکڑا دیا۔ میرے بیٹے نے اسے لے لیا اور پھر اس کے ساتھ چلنے پر کسی طرح راضی ہوا۔
اس اسٹریٹ بوائے کہ اندر مجھے شیئرنگ کیپاسٹی نظر آئی۔ وہ بہادر اور فیئر لیس تھا۔ اس کے اندر ایجسٹ کرنے کی پوری صلاحیت موجود تھی۔ مجھے لگا کہ وہ دنیا کے کسی بھی نقشے میں اپنے آپ کو ایجسٹ کر سکتا ہے۔
اس کے بر عکس مجھے لگتا ہے کہ شاید میرا بیٹا ایسا نہ کرسکے۔ وہ بڑا ہوکر شاید اپنی دنیا الگ بنائے۔ شاید وہ ہر دوسرے کی بنائی ہوئی دنیا میں اپنے آپ کو فٹ نہ کر سکے۔ وہ اپنی زندگی کا نقشہ خود تیار کرے۔ اور اپنے انداز میں اپنی زندگی گزارے۔
ایک لحاظ سے دیکھئے تووہ اسٹریٹ بوائےاچھا تھا، دوسرے لحاظ سے دیکھئے تومیرابیٹا۔ ایک ٹرینڈ سیٹر(Trend setter) تھا تو دوسرا ٹرینڈ فولورTrend follower) (
 حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں ہر آدمی کے اندر کوئی نہ کوئی یونک صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ خواہ وہ اسٹریٹ پر رہنے والا ہو خواہ وہ محل میں رہے۔