پیر، 14 اپریل، 2014

Break your mind set

اپنے شاکلہ کو توڑئے

محمد آصف ریاض
تیرہ فروری 2014 کو دہلی کے پر گتی میدان میں عالمی کتاب میلہ کا انعقاد ہوا۔ اس کتاب میلہ میں ہماری دو کتابیں 'امکانات کی دنیا' اور' مظفر نگر کیمپ میں' دستیاب تھیں۔ کتابوں کا رسپانس بہت حوصلہ افزا تھا۔ میں دو مرتبہ اس کتاب میلے میں گیا۔ یہاں بنگلورکے سلام سینٹر کا اسٹال بھی لگا تھا۔ میں وقت نکال کر یہاں بھی گیا۔
سلام سینٹرکے بانی حامد محسن کی کتاب اسلام فیکٹس اینڈ فکشن (غلط فہمیاں) میری نگاہ سے گزری تھی ۔ یہ ایک اچھی کتاب ہے۔ جب میں میلہ میں گیا تو مجھے بتا یا گیا کہ یہاں سلام سینٹرکے بانی حامد محسن بذات خود موجود ہیں چنانچہ ان سےملنے کا یہ بہتر موقع تھا۔ یہاں اسٹال پر وہ بیٹھے تھے۔ جس وقت میں ان کے پاس پہنچا تو وہ سترہ اٹھارہ سال کے ایک نوجوان کواپنا انٹرویو دے رہے تھے۔ میں وہاں کھڑا رہا جب وہ فارغ ہوئے تو میں نے انھیں سلام کیا۔ انھوں نے جواب دیا لیکن کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ ابھی میں وہاں کھڑا تھا کہ اسی درمیان ایک ادھیڑعمر کا ایک شخص آیا اس کے چہرے پر داڑھی تھی اور وہ شیروانی پہنے ہوئے تھا، محسن صاحب نے اس سے بہت گرم جوشی سے ملاقات کی ۔ دونوں بات کرنے لگے میں دو تین منٹ وہاں کھڑا رہا پھر وہاں سے ہٹ گیا۔
ایک نوجوان کے لئے ان کے پاس وقت تھا غالباً اس لئے کہ وہ ماڈرن قسم کا نوجوان تھا اوروہ ان کا انٹرویو کر رہا تھا توانھیں امید تھی کہ وہ بچہ ان کے لئے ایک خبر بنائے گا۔ کیوں کہ خود محسن صاحب کا بیک گرائونڈ اشتہاری ایجنسی کا ہے تو یہ بات بہت زیادہ قرین قیاس معلوم پڑی ۔ دوسرے انسان سے انھوں نے اس لئے پرتپاک اندازمیں ملاقات کی کیوں کہ وہ دور قدیم کا انسان معلوم پڑ رہا تھا۔ یعنی ایک  شخص دور جدید کا تھا اوردوسرا شخص دور قدیم کا اوران دونوں کے درمیان میں کہیں بھی فٹ نہیں بیٹھ رہا تھا، شاید اسی لئے مجھے نظر اندازکیا گیا۔ میں بہت سادہ لباس میں تھا۔ میرے بال بکھرے ہوئے تھے ، اور چہرے سے کہیں کوئی رعب نہیں جھلک رہا تھا۔ میں کامل معنی میں ایک عام آدمی نظر آرہا تھا، تو جس طرح پولٹیشین عام آدمی کو نظر انداز کر دیتے ہیں، اسی طرح نام نہاد داعی بھی عام آدمی کو قابل اعتنا نہیں سمجھتا۔
مجھے لگتا ہے کہ آدمی چاہے کتنا ہی پڑھا لکھا کیوں نہ ہو، وہ اپنے شاکلہ پر ہی جیتا ہے۔ وہ ظاہر پرستی سے آگے بڑھ  کر نہیں سوچتا۔ دنیا میں بہت کم لوگ ہوئے ہیں جو نفع نقصان سے اوپر اٹھ کر سوچیں، جو آدمی کا احترام باہری چیزوں سے متاثر ہوئے بغیر اس کے جوہر کی بنیاد پرکریں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں