کنفیوزن نہیں
محمد آصف ریاض
پانچ جنوری 2014 کو
دہلی کے انگریزی روزنامہ ٹا ئمزآف انڈیا میں ایک خبرشائع ہوئی تھی۔ یہ خبرانگریزی
زبان کے بارے میں تھی ۔ اس میں بتا یا گیا تھا کہ جو لوگ اچھی
انگریزی بولتے ہیں وہ انگریزی نہ بولنے والوں کے مقابلہ میں 34 گنا زیادہ کماتے
ہیں۔ اس رپورٹ کی سرخی یہ تھی :
English edge:
Those who speak the language fluently ‘earn 34% more than others’
رپورٹ میں بتا یا
گیا تھا کہ اترپردیش اوربہار سمیت نارتھ سینٹرل علاقہ میں محض 25 فیصد لوگ ہی
انگریزی پڑھتے ہیں۔ اس کے بر عکس جنوبی ہندوستان میں 75 فیصد لوگ انگریزی پڑھتے
ہیں۔ ( مجھے اس رپورٹ کو پڑھ کر یہ پتہ نہیں چل سکا کہ نارتھ کے لوگ انگریزی نہیں
پڑھنے کی وجہ سے غریب ہیں یا غریبی کی وجہ سے انگریزی نہیں پڑھتے )۔
بہرحال یہ ایک
تحقیقی رپورٹ تھی۔ اسے سینٹر فار ریسرچ اینڈ ڈیبیٹس ان ڈیولپمنٹ پالیسی کے ڈاکٹر
ابو صالح شریف اور نیشنل کونسل فار اپلائیڈ اکونامک ریسرچ نئی دہلی کے امت شرما نے
تیارکیا تھا۔ رپورٹ کا ایک اقتباس یہ تھا :
"جولوگ روانی سے
انگریزی بولتے ہیں وہ انگریزی نہیں بولنے والوں سے 34 فیصد زیادہ کماتے ہیں اور جو
لوگ ہلکی پھلکی انگریزی بولتے ہیں وہ انگریزی نہیں بولنے والوں سے 13 فیصد زیادہ
کماتے ہیں"
"Men who speak
English fluently earn wages about 34% higher and men who speak a little English
earn wages about 13% higher than those who don't speak any English," the
report said. Jan 5, 2014
میں نے اس سروے رپورٹ
کو اپنی کتاب " مظفر نگر کیمپ میں" نقل کیا ہے۔ مظفر نگر کے ایک عالم اس
کتاب کو پڑھ کر بہت خوش ہوئے۔ وہ دہلی میں رہتے ہیں۔ انھوں نے مجھے ایک میٹنگ میں
مدعو کیا۔ وہاں تعلیم کی اہمیت اور خاص
طور سے جدید علوم کی اہمیت پر بات چیت ہوئی۔
اس میٹنگ میں ایک
صاحب بیٹھے تھے انھوں نے انگریزی پراعتراض کیا اورکہنے لگے کہ اس قسم کی رپورٹیں
انگریزوں کی سازش ہیں ۔ اس طرح کی سازش کے ذریعہ وہ اپنی زبان و ثقافت کو فروغ
دینا چاہتے ہیں۔
میں نے انھیں بتایا
کہ سب سے پہلے آپ اپنے ذہن کو صاف کیجئے۔ آپ یہ جانئے کہ آپ اکیسویں صدی میں رہ
رہے ہیں۔ اکیسویں صدی میں رہ کرآپ اٹھارہویں صدی کی بیوقوفی نہیں کر سکتے۔
اٹھارہویں ، انیسویں اور بیسویں صدی تک کیا
ہوا تھا؟ مسلمان انگریزی زبان کے بارے میں کنفیوزڈ ہو گئے تھے، جس کی وجہ سے وہ
ملک کے ہندوؤں سے بہت زیادہ پچھڑ گئے تھے۔ انگریزی میں پچھڑنے کی وجہ سے وہ زندگی
کے تمام دوسرے شعبوں میں بھی پچھڑگئے تھے۔ وہ عملاً مزدوروں کا کنبہ بن کر رہ گئے
تھے۔ اس بات کو سب سے پہلے سر سید نے سمجھا اور انھوں نے مسلم نوجوانوں کو انگریزی
پڑھا نا شروع کیا، یہاں تک کہ انھوں نے مسلم نوجوانوں کوبرٹش حکومت میں ہندوؤں کے
برابر کھڑا کردیا۔ اس صورت حال کی تفصیل جاننے کے لئے پڑھئے معروف مصنف رفیق زکریا
کی کتاب "ہندوستانی سیاست میں مسلمانوں کا عروج "۔
کنفیوزن
کسی معاملہ میں انسان
کا مشتبہ ہوجانا ایک فطری امر ہے۔ مثلاً کسی انسان کے سامنے کوئی معاملہ آئے یا
اسے کوئی آئیڈیا دیا جائے تو بہت ممکن ہے کہ وہ اس آئیڈیا کے بارے میں اشتباہ کا شکار
ہوجائے۔ وہ آئیڈیا کے منظراور پس منظر کو لے کر کشمکش میں مبتلا ہوجائے۔ کنفیوزن
کا معاملہ ایک فطری معاملہ ہے۔ کنفیوزن انسان کے اندر فائنڈنگ اسپرٹ پیدا کرتا ہے۔
کنفیوزن آدمی کو اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ وہ کسی معاملہ میں فیصلہ لینے سے پہلے
خوب تحقیق کر لے۔ کنفیوزن انسان کوایک آئیڈیا سے دوسرے آئیڈیا تک لے جاتا ہے تاکہ
انسان کسی معاملہ میں صحیح نتیجہ تک پہنچ سکے ۔ کنفیوزن رومی کے لفظوں میں انسان
کو دو ونگس فراہم کرتا ہے تاکہ وہ اڑ سکے۔
“God turns you from one feeling to another and teaches by means of opposites so that you will have two wings to fly, not one”
کنفیوزن اگرانسان کو
کسی نتیجہ پرپہنچا ئے تو وہ ایک اچھی چیزہے اوراگر وہ انسان کو کہیں نہ پہنچائے تو
ایک بری چیز ہے۔ کنفیوزن اگرآپ کو ناکارگی
پرآمادہ کرے تو وہ ایک منفی رویہ ہے،
اوراگروہ آپ کو تحقیق و تفتیش پرابھارے تووہ ایک مثبت رویہ ہے، اورانسان اس دنیا
میں جو کچھ پاتا ہے وہ اپنے مثبت رویہ سے پاتا ہے ناکہ منفی رویہ سے۔ کنفیوزن کو تسلسل
دینا گویا زخم کو کینسربنانا ہے۔ آدمی کو چاہئے کہ جیسے ہی اسے کسی معاملہ میں
کنفیوزن ہوتو وہ تحقیق و تفتیش کے ذریعہ جلد سے جلد اپنے کنفیوزن کو دور کرے۔ وہ
کنفیوزن کے ساتھ نہ جئے کیوں کہ کنفیوزن نکمے پن کا دوسرا نام ہے۔
اس بات کوسمجھانے کے
لئے میں آپ کو ایک عرب خاتون کی مثال دوں گا۔ ایک ترک نژاد عرب خاتون نے عرب ذہنیت کا ذکر
کرتے ہوئے لکھا ہے: "اگر آپ کسی عرب سے کہیں کہ تم یہ کام کرو، تو وہ آپ کو جواب دے گا کہ جو کام
سب کر رہے ہیں اسے میں کیوں کروں ؟ پھر آپ اسے کوئی نیا کام بتائیں تواس کا جواب
ہوگا جو کام کوئی نہیں کر سکتا وہ میں کس
طرح کر سکتا ہوں۔؟
ہرچند کے مذکورہ خاتون
رائٹر نے ایک مخصوص ذہنیت کو عرب ذہنیت
بتایا ہے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ ایک مسلم ذہنیت ہے۔ اگرآپ کسی مسلمان سے کہیں
کہ وہ کام کرو تو آپ کو جواب دے گا کہ وہ
کام تو سب کر رہے ہیں تو پھر میں کیوں کروں؟ اب آپ اسے کوئی دوسرا کام بتائیں، وہ
جواب دے گا وللہ جو کام کوئی نہیں کر سکتا وہ میں کس طرح کر سکتا ہوں؟
کنفیوزن انسان کو کسی
منزل تک نہیں پہنچاتا۔ وہ انسان کو ذہنی بیماری میں مبتلا کردیتا ہے۔ اورجو شخص
ذہنی بیماری میں مبتلا ہو وہ کسی کام کا نہیں ہوسکتا۔
البرٹ آئسٹائن کا قول
ہے کہ "ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم کسی کام کو کرنے کے لئے پرفکٹ
وسائل کا تقاضا کرتے ہیں اور اپنے مقصد کے بارے میں کنفیوزڈ رہتے ہیں۔"
A perfection of means, and confusion of aims, seems to be our main problem.
Albert Einstein
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں