جتنا ضروری اپنےآپ کوجانناہے،اتنا ہی ضروری اپنے مد مقابل کوجاننا بھی ہے
محمد آصف ریاض
مایا وتی ایک طاقتوردلت لیڈرہیں۔ اترپردیش میں
وہ کئی باروزیراعلیٰ کےعہدے پرفائزہوچکی ہیں۔ انھوں نے اپنی سیاست کی ابتدا بہت ہی
جارحانہ انداز میں کی تھی۔ کبھی ان کا نعرہ ہوا کرتا تھا۔ ' تلک ترازو اور تلوار ان کو مارو
جوتے چار'۔
کئی بار وزیراعلیٰ رہنے
کے بعد مایا وتی کے دل میں وزیراعظم بننے کی خواہش پیدا ہوئی۔ لیکن ان کے ساتھ
مشکل یہ تھی کہ جس نعرہ کے ساتھ وہ اترپردیش کی وزیراعلیٰ بنیں تھیں، اسی نعرہ کے
ساتھ وہ ملک کی وزیراعظم نہیں بن سکتی
تھیں۔ چنانچہ انھوں نے اپنے نعرے کو بدل دیا اوراب ان کا نیا نعرہ ہے:' سروجن
ہیتائی اورسروجن سوکھائی' 'Sarvjan Hitai' and 'Sarvjan Sukhai'
یعنی سب کی بھلائی سب کا ہت'
اس نعرہ کے تحت مایا وتی
نے 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں قدم رکھا۔ انھوں نے نہ صرف خوبصورت نعرہ دیا
بلکہ سیٹ شیئرنگ میں بھی اس خوبصورتی کو بر قرار رکھنے کی کوشش کی۔انھوں نے برہمنوں کو سب
سے زیادہ یعنی 21 سیٹیں دیں۔ ان کا یہ نعرہ بھی بہت
مشہور ہوا' برہمن سنکھ بجائے گا ہاتھی بڑھتا جائے گا'
یہاں یہ بات قابل ذکرہے
کہ یوپی میں برہمنوں کی تعداد 16 فیصد ہے
اوردلت پچیس فیصد۔ مایا وتی کا ماننا ہے کہ اگردلت برہمن اور مسلم ووٹ ان کی جھولی
میں آجائے تووہ ہندوستان پر راج کر سکتی ہیں۔ اسی لئے انھوں نے برہمنوں کو21 سیٹوں
کے ساتھ مسلمانوں کو 19 سیٹیں دے دیں۔
لیکن برہمنوں پرمودی کا
نشہ اس طرح چڑھا ہوا تھا کہ مایا وتی کے ہزارکہنے کے با وجود کہ ان کی پارٹی نے برہمنوں
کو سب سے زیادہ یعنی 21 سیٹیں دی ہیں، برہمنوں پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ اس صورت حال
سے مایا وتی بہت پریشان ہوئیں۔ دریں اثنا انھیں معلوم ہوا کہ بی جے پی نے برہمنوں
کو صرف 3 سیٹیں ہی دی ہیں۔ اب انھوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ بی جے پی نے یوپی میں
برہمنوں کو صرف 3 سیٹیں دی ہیں جبکہ ہم نے 21 سیٹیں دی ہیں۔ ان کے اس بیان کا بڑا
اثر پڑا۔ برہمن اچانک سے جاگ اٹھے۔ انھیں لگا کہ بی جے پی نے مذہب کے نام پرانھیں
ٹھگ لیا ہے۔ انھوں نے جے پی کو کھلے عام برا بھلا کہنا شروع کردیا۔
اس واقعہ کو انگریزی
اخبارمیں پڑھ کرمجھےعربی کا ایک قول یاد آگیا۔ وہ قول یہ ہے۔ تعرف الشیا باضدادھا
یعنی چیزیں اپنی ضد سے جانی جاتی ہیں۔ برہمنوں کو21 کی عدد اس وقت تک سمجھ میں
نہیں آئی جب تک کہ انھیں 3 کی عدد کا علم نہ ہوا۔
یہ واقعہ بتا ریا ہے کہ
آدمی اگر اپنے 21 کو جانے اوراپنے حریف کے 3 کو نہ جانے تو بہت ممکن ہے کہ ہزار
ہنگامے کے با وجود بھی وہ اپنامدعا حآصل نہ کر سکے۔
یہاں مجھے ایک چینی
فلاسفراورجنگی امور کے ماہرسن تزو(Sun Tzu)کا قول یاد آگیا۔ وہ کہا کرتا تھا:
”اگر تم دشمن کو جانتے ہو اورخود کو بھی
جانتے ہوتوتمہیں سو لڑائیوں کے نتائج سے بھی ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر تم خود کو
جانتے ہو اور دشمن کو نہیں جانتے تو ہر جیت کے ساتھ تمہیں ہار کا منھ دیکھنا پڑے
گا۔ اوراگر تم نہ دشمن کو جانتے ہو اور نہ خود کو توہرلڑائی میں تمہیں ہزیمت
اٹھانی پڑے گی ۔ سن تزو
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں