جمعرات، 17 اپریل، 2014

پھولوں کے نزدیک کانٹوں کا ہونا بتارہا ہے کہ خدا کی دنیا میں جزا اورسزا دونوں کا انتظام ہے

پھولوں کے نزدیک کانٹوں کا ہونا بتارہا ہے کہ خدا کی دنیا میں جزا اورسزا دونوں کا انتظام ہے
محمد آصف ریاض
اقبال کا ایک مشہورشعر ہے:
حفاظت پھول کی ممکن نہیں ہے
اگرکانٹے میں ہو خوئے حریری
یعنی اگرکانٹوں میں پھولوں کی سی نزاکت ہوتوپھرپھولوں کی حفاظت ممکن نہیں ہے۔ اقبال نے پھولوں کےدرمیان کانٹوں کودیکھ کریہ سمجھا کہ کانٹے پھولوں کی حفاظت کےلئے ہیں کیوں کہ ان میں خوئے حریری نہیں ہے، یعنی کانٹے پھولوں کی طرح نرم نہیں ہوتے۔ بہت ممکن ہے کہ اقبال نے کوئی پھول توڑنا چاہا ہواوراس عمل میں وہ کانٹوں سے الجھ گئے ہوں۔ اس الجھن نے انھیں بتا یا کہ کانٹے پھولوں کی حفاظت کے لئے ہوتے ہیں۔
لیکن میرے نزدیک یہ ایک لغوبات ہے۔ جوپھول بغیرکسی مداخلت کے کمہلانے والے اورختم ہونے والے ہیں ان کی حفاظت کے لئے کانٹے کیوں پیدا کئے جائیں گے؟ جو پھول موسم کی تاب نہ لاکرخود بخود مرنے والے ہیں ان کی حفاظت کے لئےخدا اس قدراہتمام کیوں کرے گا؟ جو پھول کا نٹوں کے رہتے ہوئے شاخوں پرمرجھا کرختم ہوجاتے ہیں ان کے لئے کانٹوں کا تحفظ کیا معنی رکھتا ہے۔ کانٹوں کے رہتے ہوئے پھولوں کا مرجھا کرختم ہونا بتارہا ہے کہ کانٹے اس لئے نہیں ہیں کہ وہ پھولوں کی حفاظت کریں، وہ کسی اور پر پز کے لئے ہیں؟
عربی کا ایک قول ہے تعرف الشیاء باضدادھا، یعنی چیزیں اپنی ضد سے جانی جاتی ہیں۔ آدمی اگرصرف پھولوں کی نزاکت کا تجربہ کرے تواس پراس کی معنویت نہیں کھلے گی۔ اسی لئے خدا نے پھولوں کے درمیان کانٹوں کورکھ دیا تاکہ دونوں کا موازنہ کرکے انسان کسی نتیجہ تک پہنچ سکے۔ وہ ایک خیال سے گزرکردوسرے خیال تک پہنچ سکے۔ ایک شخص اگرصرف محبت اورپیارکوجانے، اسے نفرت اور ہزیمت  کا تجربہ نہ ہو تو وہ محبت کی قدروقیمت کو نہیں جان سکتا۔ انسان چیزوں کواس کی ضد سے پہچانتا ہے۔ مثلا رات کو دن سے، زمین کو آسمان سے، خوبصورتی کو بدصورتی سے، صحت کو بیماری سے، روشنی کو تاریکی سے وغیرہ ۔
خدا پھولوں کے درمیان کانٹے پیدا کررہا ہے تاکہ انسان جزا اور سزا کو جان لے۔ انسان اپنی آنکھوں سے دیکھ لے کہ خدا کی دنیا میں اگر پھول ہیں توکانٹے بھی ہیں۔ اسی طرح اگر یہاں جزا کا انتظام ہے توسزا کا انتظام بھی  ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ جس طرح چاہیں اس دنیا میں رہیں، یہاں انھیں کوئی پکڑ نے والا نہیں ہے، ان کے لئے کانٹوں میں بہت بڑا سبق ہے۔ وہ یہ کہ خدا کی دنیا میں جزا کے ساتھ سزا کا بھی انتظام ہے۔ پھول اگرجزا کی علامت ہیں توکانٹے سزا کی علامت۔
اس واقعہ کا دوسراسبق یہ ہے کہ آدمی کانٹوں کے نزدیک بہت سنبھل سنبھل کرجاتا ہے کیوں کہ اسے ہروقت کانٹوں کے چبھ جانے کا خدشہ لگا رہاتا ہے،اسی طرح انسان کو اس دنیا میں سنبھل سنبھل کراپنی زندگی گزارنا ہے کیوں یہاں بھی ہرطرف کانٹے ہی کانٹے پھیلے ہوئے ہیں۔
اس دنیا کا مزاج ایسا ہے کہ اگر آپ ذرا سی غفلت برتیں تواپنے ہاتھ پھولوں پررکھنے کے بجائے کانٹوں پررکھ دیں گے۔ کانٹوں سے بچائوکی ایک ہی صورت ہے ،وہ ہے آدمی کی اپنی سنجیدگی۔ سنجیدگی ٹوٹی درگھٹنا گھٹی۔
غالباً میر نے اپنے اس شعر میں اسی بات کو سمجھانے کی کوشش کی ہے:
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کار گہہ شیشہ گری کا  
اس دنیا میں انسان کو جوچیز کانٹوں سے بچانے والی ہے وہ اس کی سنجیدگی ہے۔ سنجیدگی کی یہ صفت انسان میں کب پیدا ہوتی ہے؟ یہ صفت انسان میں تقویٰ سے پیدا ہوتی ہے۔ متقی انسان اپنے آپ کو خدا اور بندوں کے درمیان پاتا ہے، وہ اپنے آپ کو جزا اور سزا کے درمیان پاتا ہے،وہ اپنے آپ کو پھولوں اور کانٹوں کے درمیان پاتا ہے۔ وہ دنیا میں کسی چیز سے بے پروا ہوکر نہیں جیتا۔ 

2 تبصرے: