بدھ، 16 اپریل، 2014

Food for the soul

ربانی غذا

محمد آصف ریاض
تیرہ اپریل 4014 کو میں دہلی کے اوکھلا علاقہ سے میٹرو پرسوارہوا۔ اس سفر میں میرے ساتھ ایک بڑے میاں بھی تھے۔ ہم دونوں میٹرو پرسوارہوئے اورسینٹرل سیکری ٹیریٹ کی طرف روانہ ہو گئے۔ میرے ایک ہاتھ میں کتاب تھی اوردوسرے ہاتھ میں انگریزی کا اخبار ٹائمز آف انڈیا تھا۔
میں میٹرو پراخبار پڑھنے لگا اسی دورمیان اچانک وہ اخبارمیرے ہاتھوں سے چھوٹ کرنیچے گرگیا۔ اس پراس بڑے میاں نےکہا کہ آپ کی پکڑ کمزورہو گئی ہے۔ وہ اپنا تھیلہ دکھا کرکہنے لگے کہ اب آپ اس قسم کا ایک تھیلہ خرید لیجئے۔ میرے منھ  سے نکلا کہ جناب والا یہ معاملہ تھیلے کا نہیں ہے۔ یہ ربانی منصوبہ کوجاننے کا معاملہ ہے۔ یہ صرف میری پکڑکے کمزور ہونے کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہی ہرشخص کے ساتھ ہونے والا ہے۔
آدمی اس زمین پرچلتا پھرتا ہے، اسے کچھ چیزوں پرخدا نے قدرت دے رکھی ہے، کچھ چیزوں کواس کے لئے مسخرکردیا گیا ہے تواب وہ سمجھتا ہےکہ وہ زمین پراپنی پکڑبنا چکا ہے۔ وہ دنیا کواپنی مٹھی میں دیکھنےلگتا ہے، تبھی اس پرکوئی صدماتی تجربہ گزرتاہے۔ مثلاً کبھی اس کے سامنے اس کے بچے مر جاتے ہیں، کبھی خود وہ ایسی صورت حال سے گزرتا ہے جسے روک پانے کی اس کے اندر قوت نہیں ہوتی۔ یہ تجربات بتاتے ہیں انسان کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں۔ کسی کے ہاتھ سے کسی چیزکا اچناک گرپڑنا کوئی سادہ معاملہ نہیں ، یہ ایک بہت بڑی یاد دہانی کا معاملہ ہے جوانسان کو اس کی اپنی کمزوری کی یاد دہانی کراتاہے۔
ایک مادہ پرست انسان اگراپنے ہاتھ سے کسی چیز کوگرتا ہوا دیکھے تو اسے تھیلے کا خیال آ ئے گا اوراگر ایک شخص جو معرفت حق میں جینے والا ہووہ اس قسم  کے تجربہ سے گزرے تو وہ اس تجربہ کو ربانی غذا کے حصول کا سبب بنالے گا۔ وہ اس حقیقت کو پالے گا کہ انسان آخر کار ایک کمزور مخلوق ہے۔ اس کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں۔ اس پر خدائے رحمٰن کے اس حکم کی حقیقت کھل جائے گی۔
" لو اب تم ویسے ہی تن تنہا ہمارے سامنے حاضر ہوگئے،جیسا ہم نے تمہیں پہلی مرتبہ اکیلا پیدا کیا تھا۔ جو کچھ ہم نے تمہیں دنیا میں دیا تھا وہ سب تم پیچھے چھوڑ آئے ہو۔  6: 94))
کتناعجیب ہے اس شخص کا معاملہ جودنیا کی ہرچیزکوحاصل کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ اسے پچاس ساٹھ سالوں میں اپنے پیچھے چھوڑ کرمرجائے۔ اس طرح کے آدمی کا معاملہ دوہرے نقصان کا معاملہ ہے۔ پہلا نقصان کمرتوڑ محنت کا اور دوسرا نقصان محنت کے پھل کو چکھے بغیر مرنے جانے کا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں