بدھ، 30 اپریل، 2014

مودی ، پرینکا اور مسلمان


مودی ، پرینکا اور مسلمان

محمد آصف ریاض
مودی گجرات فسادات کےساتھ ہی اپنی بدزبانی کےلئے بھی جانےجاتے ہیں۔ 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں انھوں نے میڈیا کے ذریعہ اپنی بدزبانی کی خوب تشہیرکی۔ انھوں نے راہل گاندھی کو ہتک آمیزاندازمیں شہزادہ ، کبھی شہزادے، کبھی  مذاقیہ تو کبھی نمونہ کہا۔ انھوں نے سونیا گاندھی کے لئے بھی بے ہودہ الفاظ استعمال کئے۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے پرینکا گاندھی اوران کے شوہرواڈرا کو بھی اپنی بدزبانی کا نشانہ بنا یا۔
مودی کے جواب میں امیٹھی میں ایک ریلی کے دوران پرینکا گاندھی نے جوکچھ کہا وہ قابل ذکر ہے۔ انھوں نے کہا: " ہمارے گھرانے کو ذلیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہماری فیملی کو بدنام کیا جارہا ہے۔ لیکن میں آپ کو بتا دوں کہ ہم پرجتنا حملہ کیا جائے گا ہم اتنا ہی مضبوط ہوکر ابھریں گے۔ ہم گریں گے تو اورمضبوطی کے ساتھ اٹھیں گے۔ ہم نے اپنی دادی اندرا گاندھی سے یہی سیکھا ہے۔"
آج جن تجربات سے گاندھی گھرانے کو گزرنا پڑ رہا ہے، ملک کے مسلمانوں کو بھی کم و بیش اسی قسم کے تجربات سے گزرنا پڑتا ہے۔ کبھی انھیں دہشت گرد کہہ کرگالی دی جاتی ہے، کبھی انھیں ریلوے اسٹیشن سے اٹھا لیا جا تا ہے، کبھی انھیں جہاز پر سوار ہونے سے روک دیا جا تا ہے۔ کبھی ان سے حب الوطنی کا سرٹیفیکیٹ مانگا جا تا ہے۔ کبھی انھیں امتحان میں بیٹھنے نہیں دیا جا تا۔ وغیرہ۔
مسلمان ان واقعات کو سازش کے خانے میں ڈال دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے خلاف سازش کی جا رہی ہے۔ وہ ان حقارت آمیز سلوک کے خلاف سڑکوں پر اتر آتے ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ صحیح رد عمل نہیں ہے۔ انھیں بھی پرینکا کی طرح ایک جگہ کھڑے ہوکر یہ کہنا چاہئے:
" ہمیں ذلیل کر نے کی کوشش کی جا رہی ۔ ہمیں رسوا کیا جا رہا ہے، ہم پرحملے ہو رہے ہیں۔ ہمیں مشتعل کیا جا رہا ہے۔ ہمیں گرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن  ہم آپ کو بتا دینا چاہتے ہیں کہ ہم پرجتنا حملہ کیا جا ئے گا ، ہم اتنا ہی مضبوط  ہوں گے۔ ہمیں جس قدر گرانے اور ذلیل کرنے کی کوشش کی جائے گی ہم اتنی ہی مضبوطی اور طاقت  کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوں گے۔ ہم نے یہی اپنے پیغمبر سے سیکھا ہے۔ قرآن نے ہمیں یہی بتایا ہے۔"

پیر، 28 اپریل، 2014

It is not enough to know yourself

جتنا ضروری اپنےآپ کوجانناہے،اتنا ہی ضروری اپنے مد مقابل کوجاننا بھی ہے

محمد آصف ریاض
مایا وتی ایک طاقتوردلت لیڈرہیں۔ اترپردیش میں وہ کئی باروزیراعلیٰ کےعہدے پرفائزہوچکی ہیں۔ انھوں نے اپنی سیاست کی ابتدا بہت ہی جارحانہ انداز میں کی تھی۔ کبھی ان کا نعرہ ہوا کرتا تھا۔ ' تلک ترازو اور تلوار ان کو مارو جوتے چار'۔
کئی بار وزیراعلیٰ رہنے کے بعد مایا وتی کے دل میں وزیراعظم بننے کی خواہش پیدا ہوئی۔ لیکن ان کے ساتھ مشکل یہ تھی کہ جس نعرہ کے ساتھ وہ اترپردیش کی وزیراعلیٰ بنیں تھیں، اسی نعرہ کے ساتھ وہ  ملک کی وزیراعظم نہیں بن سکتی تھیں۔ چنانچہ انھوں نے اپنے نعرے کو بدل دیا اوراب ان کا نیا نعرہ ہے:' سروجن ہیتائی اورسروجن سوکھائی' 'Sarvjan Hitai' and 'Sarvjan Sukhai'  یعنی سب کی بھلائی سب کا ہت'
اس نعرہ کے تحت مایا وتی نے 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں قدم رکھا۔ انھوں نے نہ صرف خوبصورت نعرہ دیا بلکہ سیٹ شیئرنگ میں بھی اس خوبصورتی کو بر قرار رکھنے کی کوشش کی۔انھوں نے برہمنوں کو سب سے زیادہ  یعنی 21 سیٹیں دیں۔ ان کا یہ نعرہ بھی بہت مشہور ہوا' برہمن سنکھ بجائے گا ہاتھی بڑھتا جائے گا'
یہاں یہ بات قابل ذکرہے کہ  یوپی میں برہمنوں کی تعداد 16 فیصد ہے اوردلت پچیس فیصد۔ مایا وتی کا ماننا ہے کہ اگردلت برہمن اور مسلم ووٹ ان کی جھولی میں آجائے تووہ ہندوستان پر راج کر سکتی ہیں۔ اسی لئے انھوں نے برہمنوں کو21 سیٹوں کے ساتھ  مسلمانوں کو 19 سیٹیں دے دیں۔
لیکن برہمنوں پرمودی کا نشہ اس طرح چڑھا ہوا تھا کہ مایا وتی کے ہزارکہنے کے با وجود کہ ان کی پارٹی نے برہمنوں کو سب سے زیادہ یعنی 21 سیٹیں دی ہیں، برہمنوں پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ اس صورت حال سے مایا وتی بہت پریشان ہوئیں۔ دریں اثنا انھیں معلوم ہوا کہ بی جے پی نے برہمنوں کو صرف 3 سیٹیں ہی دی ہیں۔ اب انھوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ بی جے پی نے یوپی میں برہمنوں کو صرف 3 سیٹیں دی ہیں جبکہ ہم نے 21 سیٹیں دی ہیں۔ ان کے اس بیان کا بڑا اثر پڑا۔ برہمن اچانک سے جاگ اٹھے۔ انھیں لگا کہ بی جے پی نے مذہب کے نام پرانھیں ٹھگ لیا ہے۔ انھوں نے جے پی کو کھلے عام برا بھلا کہنا شروع کردیا۔
اس واقعہ کو انگریزی اخبارمیں پڑھ کرمجھےعربی کا ایک قول یاد آگیا۔ وہ قول یہ ہے۔ تعرف الشیا باضدادھا یعنی چیزیں اپنی ضد سے جانی جاتی ہیں۔ برہمنوں کو21 کی عدد اس وقت تک سمجھ میں نہیں آئی جب تک کہ انھیں 3 کی عدد کا علم نہ ہوا۔
یہ واقعہ بتا ریا ہے کہ آدمی اگر اپنے 21 کو جانے اوراپنے حریف کے 3 کو نہ جانے تو بہت ممکن ہے کہ ہزار ہنگامے کے با وجود بھی وہ اپنامدعا حآصل نہ کر سکے۔
یہاں مجھے ایک چینی فلاسفراورجنگی امور کے ماہرسن تزو(Sun Tzu)کا قول یاد آگیا۔ وہ کہا کرتا تھا:
اگر تم دشمن کو جانتے ہو اورخود کو بھی جانتے ہوتوتمہیں سو لڑائیوں کے نتائج سے بھی ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر تم خود کو جانتے ہو اور دشمن کو نہیں جانتے تو ہر جیت کے ساتھ تمہیں ہار کا منھ دیکھنا پڑے گا۔ اوراگر تم نہ دشمن کو جانتے ہو اور نہ خود کو توہرلڑائی میں تمہیں ہزیمت اٹھانی پڑے گی ۔ سن تزو

بدھ، 23 اپریل، 2014

مسلمانوں کا جرم بھی وہی ہے جو یہود کا جرم تھا

مسلمانوں کا جرم بھی وہی ہے جو یہود کا جرم تھا


محمد آصف ریاض


اگرآپ دہلی کےشاہین باغ، ابوالفضل، بٹلہ ہائوس اورجامعہ نگرجیسے مسلم علاقوں سے گزریں توآپ کوایسامحسوس ہوگا کہ آپ گویا پہاڑوں کے درمیان سے گزررہے ہیں۔ اونچی اونچی عمارتوں سے گزرکرآپ کوایسا لگے گا کہ گویا آپ  قبر میں دھنستےجا رہے ہیں۔
یہاں ہرطرف کنکریٹ کا جنگل ہے۔ دور دور تک کہیں کوئی درخت نظر نہیں آتا۔ آلودگی کی وجہ سے لوگوں کو یہاں سانس لینے میں دقت ہوتی ہے۔ 20 اپریل 2014 کو یہاں ایک شخص سےنماز کے بعد میری ملاقات ہوئی۔ ان کا مکان بھی بہت اونچا اوربہت بڑاہے۔ میں نے بات چیت کے دوران ان سے کہا کہ آپ لوگ غاصب ہیں۔ آپ لوگوں کا معاملہ لوٹ ماراورڈاکہ زنی کا معاملہ ہے۔ وہ کہنے لگے کہ کس طرح؟

میں نے انھیں بتا یا کہ آپ جامعہ نگر کے مسلم علاقوں سے گزرجائیں آپ کو پہاڑوں کی طرح اونچی اونچی عمارتیں  نظرآجائیں گی لیکن کہیں کوئی درخت نظر نہیں آئے گا۔ بڑے بڑے مکانوں میں کوئی چھوٹی سی جگہ بھی درختوں کے لئے نہیں چھوڑی گئی ہے۔

میں نے انھیں بتا یا کہ آپ لوگ سانس لیتے ہیں۔ آپ کے بچے اورگھر والے سب آکسیجن لیتے ہیں کیونکہ آکسیجن کے بغیرآپ زندہ نہیں رہ سکتے۔ یہ آکسیجن کہاں سے ملتا ہے؟ یہ آسمان سے تو نہیں ٹپکتا؟ یہ آپ کو درختوں سے حاصل ہوتا ہے۔ لیکن مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ درخت لگاتے نہیں اورآکسیجن لیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جن دوسرے لوگوں (ہندوئوں ) نے آکسیجن کے لئے درخت  لگائے ہیں، مسلمان ان کے اوران کے بچوں کا آکسیجن چرا لیتے ہیں۔ یہ کوئی سادہ معاملہ نہیں ہے ۔ یہ معاملہ لوٹ ماراورڈاکہ زنی کا معاملہ ہے۔ یہ معاملہ قرآن کے مطابق فساد فی الارض کا معاملہ ہے۔

درختوں کا طریقہ

درخت فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ لیتے ہیں تووہ اسے آکسیجن کی شکل میں فضا کولوٹادیتے ہیں۔ وہ زمین سے توانائی حاصل کرتے ہیں تووہ پتوں کوگراکرزمین سے لی گئی توانائی کو واپس کردیتے ہیں۔ گویا وہ خاموش انداز میں بتا رہے ہیں کہ آدمی کو چاہئے کہ وہ جوکچھ وہ کسی سے لے،اسے اس سے بہتر چیز لوٹا دے۔ لیکن مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ اگروہ زمین سے کچھ لیں تووہ اسے لوٹانے والے نہیں، اوراگر فضائوں سے کچھ لیں تو وہ اسے واپس کرنے والے نہیں۔ اوراگرانھیں آسمان سے کچھ ملے تو وہ اسے لوٹانے والے نہیں۔ مثلا وہ درختوں سے آکسیجن لیتے ہیں اوردرخت نہیں لگاتے۔ انھیں آسمان سے خدائی کلمہ ملا ہوا ہے لیکن وہ اس کلمہ کا چرچا نہیں کرتے۔ وہ آلودگی سے پاک فضا چاہتے ہیں اوراس کے لئے کوئی قیمت نہیں چکاتے۔

مسلمان اپنی حقیقت کےاعتبار سےیہود بن گئے ہیں۔ قرآن میں یہود کے ایک گروہ کی صفت یہ باتئی گئی ہے کہ اگرآپ انھیں کوئی چیز دیں تو وہ اسے لوٹانے والے نہیں۔

وَمِنْ اَہْلِ الْکِتَابِ مَنْ اِنْ تَاْمَنْہُ بِقِنْطَارٍ یُّؤَدِّہٖٓ اِلَیْْکَ وَمِنْہُمْ مَّنْ اِنْ تَاْمَنْہُ بِدِیْنَارٍ لاَّ یُؤَدِّہٖٓ اِلَیْْکَ اِلاَّ مَا دُمْتَ عَلَیْْہِ قَآءِمًا ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ قَالُوْا لَیْْسَ عَلَیْْنَا فِی الْاُمِّیّٖنَ سَبِیْلٌ وَیَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ()(سورۃ آل عمران -3آیت75)

اہل کتاب میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ اگران کے پاس امانت کا ڈھیربھی رکھو تو مانگنے پر ادا کریں گے اوران میں سے ایسے بھی ہیں کہ اگر تم ان کے پاس بطور امانت ایک دینار بھی رکھو تو وہ اس وقت تک اس کو تمھیں لوٹانے والے نہیں ہیں جب تک تم ان کے سر پر سوار نہ ہوجاؤ۔ یہ اس وجہ سے کہ وہ کہتے ہیں کہ ان امیوں کے معاملے میں ہم پر کوئی الزام نہیں۔ یہ لوگ جانتے بوجھتے اللہ پرجھوٹ باندھتے ہیں۔"

یہود اپنے دورزوال میں غاصب قوم بن گئے تھے۔ ان کا حال یہ ہوگیا تھا کہ جب وہ کسی سے کوئی چیز لیتے تو اسے لوٹاتے نہیں تھے۔ اس کی سزا انھیں اس شکل میں دی گئی کہ انھیں زمین سے چن چن کر مٹا دیا گیا۔ توجس جرم پریہود کو مٹا دیا گیا ٹھیک اسی جرم پرمسلمانوں کو کیوں باقی رکھا جائے گا؟

آج روئے زمین پرمسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، وہ کسی سازش کا نتیجہ نہیں بلکہ وہ ان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے۔ خدا غاصبوں کو زمین پر بسنے نہیں دے گا۔ کیونکہ اس نے اپنی کتاب میں لکھ دیا ہے۔

"اور زبور میں ہم  نصیحت کے بعد یہ لکھ  چکے ہیں کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔"
) الانبیاء (21:105


زبورمیں ہے :" “For evildoers will be cut off, But those who wait for the LORD, they will inherit the land


"بدکارکاٹ کرپھینک دئے جائیں گےاورنیکوکارزمین کے وارث ہوں گے۔"
Psalm 37:9


منگل، 22 اپریل، 2014

Wisely , and slow . they stumble that run fast


जो तेज़ी से आगे बढ़ता है उसके गिरने की आशंका अधिक होती है

मोहम्मद आसिफ रियाज़

पन्द्रह फ़रवरी  2014 को दिल्ली के प्रगति मैदान पुस्तक मेला में जाने का मौक़ा मिला. मेला से हम ने कुछ किताबें खरीदीं. घर वापसी में देर हो गई. रात नौ बजे घर वापस आया. सारी रात बैठकर किताबें पढ़ता रहा. सुबह के समय नींद आ गई. सो कर उठा तो ऑफिस जाना था, इसलिए नहा कर   घर से निकल पड़ा. सुबह सिर में दर्द शुरू हुआ और शाम तक दर्द के साथ बुख़ार आ गया. ऑफिस से लौट कर दवाएं लीं और फिर बिस्तर पर आराम करने के लिए चला गया. सिर में दर्द बहुत तेज़ था और बुखार भी आ गया था तो उस रात कुछ पढ़ नहीं सका. सुबह जब नींद खुली तो कुछ राहत मिली लेकिन फिर भी कमजोरी इतनी थी कि शरीर पढ़ने की अनुमति नहीं दे रहा था, तो सुबह भी कुछ नहीं पढ़ सका. इस प्रकार मैं एक रात की मेहनत के कारण कई रातों की पढ़ाई से वंचित हो गया.

इस अनुभव से गुज़रने के बाद मुझे किसी विद्वान की यह बात याद आ गई "यह संभव है कि आप एक घंटा बहुत तेजी से अपने जीवन का सफर तय कर लें, लेकिन इसके साथ इस बात की आशंका लगी रहती है कि आप अपने एक घंटे की गति और तेजी के कारण एक सप्ताह से वंचित हो जाएंगे.”

मुझे इस अनुभव के आधार पर यह ज्ञान हुआ कि आदमी को किसी प्रकार का निर्णय लेने से पहले अपनी ऊर्जा की समीक्षा कर लेनी चाहिए. अगर आदमी ऐसा ना करे तो यह संभव है कि वह एक दिन बहुत तेज गति के साथ आगे बढ़े और दूसरे दिन किसी काम के लायक ना रहे. विलियम शेक्सपियर ने इस बात को इन शब्दों में समझाने की कोशिश की थी:

  Wisely , and slow . they stumble that run fast

"समझदारी के साथ धीमी गति से आगे बढ़ो, जो तेजी से आगे बढ़ता है उसके गिरने की आशंका अधिक होती है."

बच्चे धीरे धीरे बोलना सीखते हैं, पक्षी धीरे धीरे उड़ना सीखते हैं, पौधे धीरे धीरे तना व पेड़ में बदलते हैं, यह प्रकृति का सबक़ है और कोई भी व्यक्ति प्रकृति के खिलाफ जाकर सफल नहीं हो सकता है.

جمعرات، 17 اپریل، 2014

پھولوں کے نزدیک کانٹوں کا ہونا بتارہا ہے کہ خدا کی دنیا میں جزا اورسزا دونوں کا انتظام ہے

پھولوں کے نزدیک کانٹوں کا ہونا بتارہا ہے کہ خدا کی دنیا میں جزا اورسزا دونوں کا انتظام ہے
محمد آصف ریاض
اقبال کا ایک مشہورشعر ہے:
حفاظت پھول کی ممکن نہیں ہے
اگرکانٹے میں ہو خوئے حریری
یعنی اگرکانٹوں میں پھولوں کی سی نزاکت ہوتوپھرپھولوں کی حفاظت ممکن نہیں ہے۔ اقبال نے پھولوں کےدرمیان کانٹوں کودیکھ کریہ سمجھا کہ کانٹے پھولوں کی حفاظت کےلئے ہیں کیوں کہ ان میں خوئے حریری نہیں ہے، یعنی کانٹے پھولوں کی طرح نرم نہیں ہوتے۔ بہت ممکن ہے کہ اقبال نے کوئی پھول توڑنا چاہا ہواوراس عمل میں وہ کانٹوں سے الجھ گئے ہوں۔ اس الجھن نے انھیں بتا یا کہ کانٹے پھولوں کی حفاظت کے لئے ہوتے ہیں۔
لیکن میرے نزدیک یہ ایک لغوبات ہے۔ جوپھول بغیرکسی مداخلت کے کمہلانے والے اورختم ہونے والے ہیں ان کی حفاظت کے لئے کانٹے کیوں پیدا کئے جائیں گے؟ جو پھول موسم کی تاب نہ لاکرخود بخود مرنے والے ہیں ان کی حفاظت کے لئےخدا اس قدراہتمام کیوں کرے گا؟ جو پھول کا نٹوں کے رہتے ہوئے شاخوں پرمرجھا کرختم ہوجاتے ہیں ان کے لئے کانٹوں کا تحفظ کیا معنی رکھتا ہے۔ کانٹوں کے رہتے ہوئے پھولوں کا مرجھا کرختم ہونا بتارہا ہے کہ کانٹے اس لئے نہیں ہیں کہ وہ پھولوں کی حفاظت کریں، وہ کسی اور پر پز کے لئے ہیں؟
عربی کا ایک قول ہے تعرف الشیاء باضدادھا، یعنی چیزیں اپنی ضد سے جانی جاتی ہیں۔ آدمی اگرصرف پھولوں کی نزاکت کا تجربہ کرے تواس پراس کی معنویت نہیں کھلے گی۔ اسی لئے خدا نے پھولوں کے درمیان کانٹوں کورکھ دیا تاکہ دونوں کا موازنہ کرکے انسان کسی نتیجہ تک پہنچ سکے۔ وہ ایک خیال سے گزرکردوسرے خیال تک پہنچ سکے۔ ایک شخص اگرصرف محبت اورپیارکوجانے، اسے نفرت اور ہزیمت  کا تجربہ نہ ہو تو وہ محبت کی قدروقیمت کو نہیں جان سکتا۔ انسان چیزوں کواس کی ضد سے پہچانتا ہے۔ مثلا رات کو دن سے، زمین کو آسمان سے، خوبصورتی کو بدصورتی سے، صحت کو بیماری سے، روشنی کو تاریکی سے وغیرہ ۔
خدا پھولوں کے درمیان کانٹے پیدا کررہا ہے تاکہ انسان جزا اور سزا کو جان لے۔ انسان اپنی آنکھوں سے دیکھ لے کہ خدا کی دنیا میں اگر پھول ہیں توکانٹے بھی ہیں۔ اسی طرح اگر یہاں جزا کا انتظام ہے توسزا کا انتظام بھی  ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ جس طرح چاہیں اس دنیا میں رہیں، یہاں انھیں کوئی پکڑ نے والا نہیں ہے، ان کے لئے کانٹوں میں بہت بڑا سبق ہے۔ وہ یہ کہ خدا کی دنیا میں جزا کے ساتھ سزا کا بھی انتظام ہے۔ پھول اگرجزا کی علامت ہیں توکانٹے سزا کی علامت۔
اس واقعہ کا دوسراسبق یہ ہے کہ آدمی کانٹوں کے نزدیک بہت سنبھل سنبھل کرجاتا ہے کیوں کہ اسے ہروقت کانٹوں کے چبھ جانے کا خدشہ لگا رہاتا ہے،اسی طرح انسان کو اس دنیا میں سنبھل سنبھل کراپنی زندگی گزارنا ہے کیوں یہاں بھی ہرطرف کانٹے ہی کانٹے پھیلے ہوئے ہیں۔
اس دنیا کا مزاج ایسا ہے کہ اگر آپ ذرا سی غفلت برتیں تواپنے ہاتھ پھولوں پررکھنے کے بجائے کانٹوں پررکھ دیں گے۔ کانٹوں سے بچائوکی ایک ہی صورت ہے ،وہ ہے آدمی کی اپنی سنجیدگی۔ سنجیدگی ٹوٹی درگھٹنا گھٹی۔
غالباً میر نے اپنے اس شعر میں اسی بات کو سمجھانے کی کوشش کی ہے:
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کار گہہ شیشہ گری کا  
اس دنیا میں انسان کو جوچیز کانٹوں سے بچانے والی ہے وہ اس کی سنجیدگی ہے۔ سنجیدگی کی یہ صفت انسان میں کب پیدا ہوتی ہے؟ یہ صفت انسان میں تقویٰ سے پیدا ہوتی ہے۔ متقی انسان اپنے آپ کو خدا اور بندوں کے درمیان پاتا ہے، وہ اپنے آپ کو جزا اور سزا کے درمیان پاتا ہے،وہ اپنے آپ کو پھولوں اور کانٹوں کے درمیان پاتا ہے۔ وہ دنیا میں کسی چیز سے بے پروا ہوکر نہیں جیتا۔ 

بدھ، 16 اپریل، 2014

Food for the soul

ربانی غذا

محمد آصف ریاض
تیرہ اپریل 4014 کو میں دہلی کے اوکھلا علاقہ سے میٹرو پرسوارہوا۔ اس سفر میں میرے ساتھ ایک بڑے میاں بھی تھے۔ ہم دونوں میٹرو پرسوارہوئے اورسینٹرل سیکری ٹیریٹ کی طرف روانہ ہو گئے۔ میرے ایک ہاتھ میں کتاب تھی اوردوسرے ہاتھ میں انگریزی کا اخبار ٹائمز آف انڈیا تھا۔
میں میٹرو پراخبار پڑھنے لگا اسی دورمیان اچانک وہ اخبارمیرے ہاتھوں سے چھوٹ کرنیچے گرگیا۔ اس پراس بڑے میاں نےکہا کہ آپ کی پکڑ کمزورہو گئی ہے۔ وہ اپنا تھیلہ دکھا کرکہنے لگے کہ اب آپ اس قسم کا ایک تھیلہ خرید لیجئے۔ میرے منھ  سے نکلا کہ جناب والا یہ معاملہ تھیلے کا نہیں ہے۔ یہ ربانی منصوبہ کوجاننے کا معاملہ ہے۔ یہ صرف میری پکڑکے کمزور ہونے کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہی ہرشخص کے ساتھ ہونے والا ہے۔
آدمی اس زمین پرچلتا پھرتا ہے، اسے کچھ چیزوں پرخدا نے قدرت دے رکھی ہے، کچھ چیزوں کواس کے لئے مسخرکردیا گیا ہے تواب وہ سمجھتا ہےکہ وہ زمین پراپنی پکڑبنا چکا ہے۔ وہ دنیا کواپنی مٹھی میں دیکھنےلگتا ہے، تبھی اس پرکوئی صدماتی تجربہ گزرتاہے۔ مثلاً کبھی اس کے سامنے اس کے بچے مر جاتے ہیں، کبھی خود وہ ایسی صورت حال سے گزرتا ہے جسے روک پانے کی اس کے اندر قوت نہیں ہوتی۔ یہ تجربات بتاتے ہیں انسان کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں۔ کسی کے ہاتھ سے کسی چیزکا اچناک گرپڑنا کوئی سادہ معاملہ نہیں ، یہ ایک بہت بڑی یاد دہانی کا معاملہ ہے جوانسان کو اس کی اپنی کمزوری کی یاد دہانی کراتاہے۔
ایک مادہ پرست انسان اگراپنے ہاتھ سے کسی چیز کوگرتا ہوا دیکھے تو اسے تھیلے کا خیال آ ئے گا اوراگر ایک شخص جو معرفت حق میں جینے والا ہووہ اس قسم  کے تجربہ سے گزرے تو وہ اس تجربہ کو ربانی غذا کے حصول کا سبب بنالے گا۔ وہ اس حقیقت کو پالے گا کہ انسان آخر کار ایک کمزور مخلوق ہے۔ اس کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں۔ اس پر خدائے رحمٰن کے اس حکم کی حقیقت کھل جائے گی۔
" لو اب تم ویسے ہی تن تنہا ہمارے سامنے حاضر ہوگئے،جیسا ہم نے تمہیں پہلی مرتبہ اکیلا پیدا کیا تھا۔ جو کچھ ہم نے تمہیں دنیا میں دیا تھا وہ سب تم پیچھے چھوڑ آئے ہو۔  6: 94))
کتناعجیب ہے اس شخص کا معاملہ جودنیا کی ہرچیزکوحاصل کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ اسے پچاس ساٹھ سالوں میں اپنے پیچھے چھوڑ کرمرجائے۔ اس طرح کے آدمی کا معاملہ دوہرے نقصان کا معاملہ ہے۔ پہلا نقصان کمرتوڑ محنت کا اور دوسرا نقصان محنت کے پھل کو چکھے بغیر مرنے جانے کا۔

منگل، 15 اپریل، 2014

You may be ignored on the earth and not in the heaven

خدا کا فیصلہ انسان کے رویہ پر ہوتا ہے نہ کہ اس کے گمان پر

محمد آصف ریاض
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے فرمایا کہ تم میرے بعد اپنے اوپر دوسروں کی ترجیح دیکھو گے، تو تم صبر کرنا یہاں تک کہ تم مجھ سے ملو اور ملاقات کی جگہ حوض کوثر ہے۔ صحیح بخاری:( جلد دوم ،حدیث نمبر 998)
آدمی اس دنیا میں رہتا ہے تو اکثر یہ محسوس کرتا ہے کہ سماج میں اسے نظرانداز کیا جا رہا ہے اوراس کی جگہ دوسروں کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ وہ اپنے تئیں لوگوں کے اس رویہ سے دلبرداشہ ہوجا تا ہے اورسماج کے خلاف بغاوت کردیتا ہے۔ وہ ہم نہیں تو کوئی نہیں کا نعرہ لے کر اٹھتا ہے اور سماج میں ہنگامہ کھڑا کر دیتا ہے۔ لیکن اسلام اس قسم کی ہنگامہ آرائی کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام انسان کو بتا تا ہے کہ اگر ساری دنیا کے لوگ مل کر کسی ایک کو ترجیح دیں تو اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ خدا کے یہاں بھی وہی ترجیح پانے والاہے۔ بہت ممکن ہے کہ جو شخص اس دنیا میں اپنے آپ کو سب کچھ والا سمجھ رہا ہو خدا کے یہاں وہ کچھ والا نہ ہواور بہت ممکن ہے کہ جس شخص کو زمین پر کوئی ترجیح نہ دی جا رہی ہو،وہ آسمان پر ترجیح پانے والا ہو۔
جب آدمی پراس قسم کا تجربہ گزرے، جب وہ دیکھے کہ سماج میں اس کی جگہ دوسروں کو ترجیح دی جا رہی ہے، تو اسے دلبرداشتہ نہیں ہونا چاہئے۔ اسے ایسا ہر گز نہیں کرنا چاہئے کہ وہ سماج کے خلاف بغاوت کردے۔ اسے صبر کی روش اختیار کرنی چاہئے۔ بہت ممکن ہے کہ صبر کے ذریعہ اللہ پاک اسے وہ چیز دے جو اس کے وہم و گمان میں بھی  نہ ہو۔
 مثلاً ایک شخص کو کسی سماج میں سیاسی طور پراپرہینڈ حاصل ہو اوراسی قسم کے دوسرے انسان کو کوئی ترجیح نہیں دی جا رہی ہو اور وہ صبرکرنے والا ہو تو بہت ممکن ہے خدا اسے یا اس کی آل اولاد کو کسی دوسری چیز پر ترجیح دے ۔ مثلاً اسے تجارت میں بہت آگے بڑھا دے، یا اس کی آل اولاد کو علم میں آگے بڑھا دے ، یا اس کے یہاں بزرگی اور نیکو کاری کو عام کردے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اسے خدااور رسول کے یہاں ترجیح مل رہی ہو۔ اس کے لئے حوض کوثر کو سجایا جا رہا ہو۔

آدمی کو اگر آدمی سے نہ ملے تو مایوسی کی بات نہیں ۔ بہت ممکن ہے کہ جس وقت وہ اپنے جیسے انسانوں کے ذریعہ ٹھکرا یا جا رہا ہو ٹھیک اسی وقت خدا کے یہاں اس کے حق میں فیصلے ہو رہے ہوں۔ اصل بات یہ ہے کہ خدا کے یہاں چیزیں محرومی کی قیمت پرملتی ہیں۔ ایسا ممکن نہیں کہ ایک آدمی دنیا میں سب کچھ والا ہو اور وہ اپنے آپ کوآخرت میں بھی سب کچھ والا پائے۔ آدمی ایسا گمان کرسکتا ہے اور خدا کا فیصلہ انسانوں کے گمان پر نہیں ہوتا۔ خدا کا فیصلہ انسان کے اس رویہ پر ہوتا ہے جووہ کسی معاملہ میں اپنا تا ہے۔

پیر، 14 اپریل، 2014

Break your mind set

اپنے شاکلہ کو توڑئے

محمد آصف ریاض
تیرہ فروری 2014 کو دہلی کے پر گتی میدان میں عالمی کتاب میلہ کا انعقاد ہوا۔ اس کتاب میلہ میں ہماری دو کتابیں 'امکانات کی دنیا' اور' مظفر نگر کیمپ میں' دستیاب تھیں۔ کتابوں کا رسپانس بہت حوصلہ افزا تھا۔ میں دو مرتبہ اس کتاب میلے میں گیا۔ یہاں بنگلورکے سلام سینٹر کا اسٹال بھی لگا تھا۔ میں وقت نکال کر یہاں بھی گیا۔
سلام سینٹرکے بانی حامد محسن کی کتاب اسلام فیکٹس اینڈ فکشن (غلط فہمیاں) میری نگاہ سے گزری تھی ۔ یہ ایک اچھی کتاب ہے۔ جب میں میلہ میں گیا تو مجھے بتا یا گیا کہ یہاں سلام سینٹرکے بانی حامد محسن بذات خود موجود ہیں چنانچہ ان سےملنے کا یہ بہتر موقع تھا۔ یہاں اسٹال پر وہ بیٹھے تھے۔ جس وقت میں ان کے پاس پہنچا تو وہ سترہ اٹھارہ سال کے ایک نوجوان کواپنا انٹرویو دے رہے تھے۔ میں وہاں کھڑا رہا جب وہ فارغ ہوئے تو میں نے انھیں سلام کیا۔ انھوں نے جواب دیا لیکن کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ ابھی میں وہاں کھڑا تھا کہ اسی درمیان ایک ادھیڑعمر کا ایک شخص آیا اس کے چہرے پر داڑھی تھی اور وہ شیروانی پہنے ہوئے تھا، محسن صاحب نے اس سے بہت گرم جوشی سے ملاقات کی ۔ دونوں بات کرنے لگے میں دو تین منٹ وہاں کھڑا رہا پھر وہاں سے ہٹ گیا۔
ایک نوجوان کے لئے ان کے پاس وقت تھا غالباً اس لئے کہ وہ ماڈرن قسم کا نوجوان تھا اوروہ ان کا انٹرویو کر رہا تھا توانھیں امید تھی کہ وہ بچہ ان کے لئے ایک خبر بنائے گا۔ کیوں کہ خود محسن صاحب کا بیک گرائونڈ اشتہاری ایجنسی کا ہے تو یہ بات بہت زیادہ قرین قیاس معلوم پڑی ۔ دوسرے انسان سے انھوں نے اس لئے پرتپاک اندازمیں ملاقات کی کیوں کہ وہ دور قدیم کا انسان معلوم پڑ رہا تھا۔ یعنی ایک  شخص دور جدید کا تھا اوردوسرا شخص دور قدیم کا اوران دونوں کے درمیان میں کہیں بھی فٹ نہیں بیٹھ رہا تھا، شاید اسی لئے مجھے نظر اندازکیا گیا۔ میں بہت سادہ لباس میں تھا۔ میرے بال بکھرے ہوئے تھے ، اور چہرے سے کہیں کوئی رعب نہیں جھلک رہا تھا۔ میں کامل معنی میں ایک عام آدمی نظر آرہا تھا، تو جس طرح پولٹیشین عام آدمی کو نظر انداز کر دیتے ہیں، اسی طرح نام نہاد داعی بھی عام آدمی کو قابل اعتنا نہیں سمجھتا۔
مجھے لگتا ہے کہ آدمی چاہے کتنا ہی پڑھا لکھا کیوں نہ ہو، وہ اپنے شاکلہ پر ہی جیتا ہے۔ وہ ظاہر پرستی سے آگے بڑھ  کر نہیں سوچتا۔ دنیا میں بہت کم لوگ ہوئے ہیں جو نفع نقصان سے اوپر اٹھ کر سوچیں، جو آدمی کا احترام باہری چیزوں سے متاثر ہوئے بغیر اس کے جوہر کی بنیاد پرکریں۔

Do not lose hope

مایوسی نہیں

محمد آصف ریاض
برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نےایک پاکستانی بس ڈرائیور کے بیٹا ساجد جاوید کووزیرثقا فت نامزد کیا ہے۔ ان کی نامژدگی 9 اپریل 2014 کو ماریہ ملر 
(Maria Miller) کی جگہ پرہوئی ۔ 
بی بی سی نیوزکے مطابق جاوید کے والد 1961 میں پاکستان سے ہجرت کرکےبرطانیہ پہنچے اوریہاں 1969 میں ان کے بیٹےجاوید کی پیدائش ہوئی۔ جاوید نے یہیں مقامی اسکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کی پھرایکسٹریونیورسٹی سے معیشت وسیاست میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔
جاوید 2010 میں کنزرویٹیو پارٹی کے ٹکٹ پررکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے اوراب 2014 میں انھیں برطانیہ کا کلچرمنسٹربنایا گیا ہے۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق جاوید کےوالد جب برطانیہ آئے تھے توان کی جیب میں صرف ایک پونڈ تھا۔
جاوید کے والد کے لئے پاکستان میں کوئی موقع نہیں تھا۔ اس لئے انھوں نے ملک چھوڑکر برطانیہ جانے کا فیصلہ کیا۔
برطانیہ پہنچتے ہی ان کی زندگی بدل گئی۔ وہاں انھیں لا محدود مواقع حاصل ہوئے اوران مواقع کا استعمال کرکےانھوں نے اپنے بیٹوں کواعلیٰ تعلیم دی، ہاں تک کہ ان میں سےایک برطانیہ کاوزیرثقافت بن گیا۔
آدمی اپنے منصوبے کے مطابق ایک جگہ ناکام ہوجا تا ہےتواسے لگتا ہے کہ اب اس کی زندگی بے معنیٰ ہو کررہ گئی ہے۔ وہ اپنے آپ کو ایک لٹا ہوا انسان سمجھنے لگتا ہے۔ لیکن وہی آدمی جب ایک دوسری جگہ پہنچتا ہےتواسے ایک اورہی تجربہ ہوتاہے۔ یہ تجربہ اسے بتاتا ہے کہ چاہے مایوسی کتنی ہی تاریک کیوں نہ ہو، وہ امید کی روشنی کوختم نہیں کر سکتی۔
آدمی کوچاہئےکہ اگروہ ایک مقام پرناکام ہوجائےتوہرگزمایوس نہ ہو،کیوں بہت ممکن ہے کہ وہ دوسری جگہ کامیاب ہو نے والا ہو۔ آدمی صرف اپنے منصوبہ کوجانتا ہے وہ اپنے بارے میں خدائی منصوبہ کو نہیں جانتا۔ وہ نہیں جانتا کہ خدا نے اس کے لئے کامیابی کا کیا منصوبہ بنارکھا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ انسان اپنے منصوبہ کے مطابق ایک جگہ ناکام ہوجائے اورخدا ئی منصوبہ کےمطابق دوسری جگہ کامیابی سے ہمکنار ہو۔ آدمی کو چاہئے کہ جب اس کا اپنا منصوبہ ناکام  ہوتووہ خدا کے منصوبہ کی طرف دیکھے۔ وہ مایوس ہر گز نہ ہو۔ وہ یہ جانے کہ اس کا اپنا منصوبہ ناکام ہوسکتا ہے لیکن اس کے بارے میں خدا کا جو منصوبہ ہے وہ کبھی بھی ناکام نہیں ہوسکتا۔
مارٹن لیوتھرکنگ جونیئر ( پیدائش 15 جنوری 1929 : موت  4 اپریل 1968) کا قول ہے:
"ہمیں محدود قسم کی مایوسی کا سامنا ہو سکتا ہے لیکن ہم لا محدود قسم کی امید کا دامن نہیں چھوڑسکتے۔"
We must accept finite disappointment, but never lose infinite hope
Martin Luther King, Jr

ہفتہ، 12 اپریل، 2014

Prove your worth

آپ لوگوں کو بیٹے جیسا پیار دیں تاکہ لوگ آپ کو باپ مان لیں

محمد آ صف ریاض
معروف اسلامی اسکالراورمفکر مولانا وحید الدین خان نےاپنی ڈائری 1993-94  میں ایک دلچسپ واقعہ نقل کیا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ بنگلورکے ڈاکٹرسلطان ملاقات کے لئے آئے، انھو ں نے بتا یا کہ ان کی بیوی میسورگئیں اوروہاں سے کام کے لئے دو ہندو لڑکے لے آئیں۔ راجیش (8 سال ) شنکر ( 14 سا ل)۔
ان بچوں کو دیکھ کرڈاکٹر سلطان نے کہا کہ ان بچوں کی پڑھائی بند ہونا ٹھیک نہیں ہے، انھیں دوبارہ اسکول میں داخل کردو، یہ فاضل وقت میں گھرکا کام کریں گے۔ اب راجیش پانچویں کلاس اورشنکر گیارہویں کلاس میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
ان بچوں سے کسی پوچھنے والے نے پوچھا کہ تمہارے باپ کا نام کیا ہے؟ انھوں نے کہا احمد سلطان، تو پوچھنے والے کو تعجب ہوا۔ انھوں نے جواب دیا کہ ہمارے میسورکے باپ نے ہماری پڑھائی چھڑا دی تھی اوراحمد سلطان ہم کو پڑھوا رہے ہیں اورہمارا سارا خرچ دے رہے ہیں تو وہی ہمارے باپ ہیں۔ (صفحہ 144)
یہ ایک استثنائی واقعہ ہے جو بتا رہا ہے کہ اگرآدمی کسی سماج میں دینے والا بن کررہے تو وہ عملاً اس سماج کا باپ بن جاتا ہے۔ آج ملک کے مسلمانوں کویہ شکایت ہے کہ سماج میں ان کی کوئی عزت نہیں رہ گئی ہے۔ وہ اس بات کو تو جانتے ہیں کہ سماج میں ان کی کوئی عزت نہیں ہے، لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ ان کی عزت کیوں نہیں ہے؟
اصل بات یہ ہے آج کے مسلمان اپنی افادیت کھوچکے ہیں۔ وہ سوسائٹی کے لئے فائدہ مند ثابت ہونے کے بجائے نقصاندہ ثابت ہورہے ہیں، اسی لئے سوسائٹی نے انھیں  بہت پیچھے ڈھکیل دیا ہے۔
مثلاً مسلمانوں میں بہترین ٹیچرس پیدا نہیں ہو رہے ہیں، ان کے اندر تعلیم کا غلغلہ نہیں ہے، وہ فعال نہیں ہوتے۔ اس کے برعکس ملک کے کرسچن کو دیکھئے ان کے یہاں بہترین اساتذہ پیدا ہورے ہیں اوران کے اندر تعلیم کا غلغلہ ہے، اس لئے تعداد میں کم ہو نے کے با جود وہ عملاً سماج پر راج کر رہے ہیں۔

 مسلمانوں میں بہترین ڈاکٹرس اور نرسیں پیدا نہیں ہو رہی ہیں حالانکہ کیرالہ انھیں بہترین نرسوں کے ذریعہ نہ صرف ہندوستان میں بلکہ پوری دنیا میں اپنا ایک مقام بنا چکا ہے۔ سکھ ہندوستان کی ایک چھوٹی اقلیت ہیں لیکن اپنی جفا کشی اورافادیت کی وجہ سے ہرجگہ عزت پاتے ہیں۔
کرسچن تعلیمی اداروں کے بارے میں ایم کے موہنتی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:
"ملک میں کنونٹ اسکولوں کو تعلیمی اداروں میں سب سے زیادہ پسند کیا جا تا ہے۔ جدید تعلیمی مٹیریل، انگریزی میڈیم، اورجدید طرز زندگی، بشمول ڈریس کوڈ نے ان اسکولوں کواسٹیٹس سیمبول بنا دیا ہے۔"
  
Convent schools have become India's most sought-after educational institution. The modern study materials, English language medium and modern way of living (including dress and food choices) have led these schools to become status symbols among Indians.

M.P Mohanty
مسلمانوں کی ذلت اوررسوائی کی وجہ صرف ایک ہے، وہ یہ کہ سوسائٹی میں وہ اپنی افادیت کھوچکے ہیں۔ وہ دینے والی کمیونٹی کی جگہ لینی والی کمیونٹی بن کررہ گئے ہیں۔ مسلمان جب تک اس پوزیشن کو نہیں بدلیں گے، سماج میں ان کی پوزیشن بدلنے والی نہیں، چا ہے ان کے علما فتویٰ پرفتویٰ جاری کریں یا ان کے لیڈران ہنگامے پر ہنگامہ کھڑا کریں، عملاً کچھ بدلنے والا نہیں۔ ان کی موجودہ حالت اسی وقت بدل سکتی ہے جبکہ وہ سماج میں اپنی افادیت ثابت کردیں۔ جب تک وہ لوگوں کواپنے بیٹا جیسا پیار نہیں دیں گے وہ سماج کے باپ بھی بننے والے نہیں۔ 

جمعہ، 11 اپریل، 2014

पहले देखिये कि आग किस चीज़ से भड़की है



मोहम्मद आसिफ़ रियाज़
मिसाइल मैन के नाम से मशहूर ए.पी.जे. अब्दुल कलाम की नई पुस्तक 2013 में प्रकाशित हुई है. इस पुस्तक का नाम “माइ जरनी” (My Journey) है. उन्होंने इस पुस्तक में कई महत्वपूर्ण व दिलचस्प घटनाओं का ज़िक्र किया है. यहां उन घटनाओं में से एक का उल्लेख कर रहा हूँ. उन्होंने लिखा है कि जब वह अपने दोस्त सुधाकर के साथ पेलोड तैयारी प्रयोगशाला में रॉकेट के लिए पेलोड तैयार कर रहे थे तो उसी बीच एक खौफ़नाक घटना हुई. हुआ यह कि हम सोडियम और थरमाईट को मिलाते समय काम में इतने विलीन हो गए कि विज्ञान का एक सरल सिद्धांत भूल गए, वह यह कि अगर शुद्ध सोडियम में पानी का एक बूंद भी चला जाए तो धमाके के साथ आग भड़क उठेगी.

हुआ यह कि गर्मी का मौसम था, और तपिश बहुत ज़्यादा थी. हम प्रयोगशाला में पेलोड की जाँच करने पहुंचे तो सुधाकर ने अपना चेहरा झुका कर पेलोड को देखना चाहा. उसके चेहरे से पसीना टपक रहा था, जैसे उसका पसीना सोडियम पर पड़ा एक धमाके के साथ आग भड़क उठी.
सुधाकर ने अपने हाथ से प्रयोगशाला का शीशा तोड़ दिया और हमें धक्का देकर बाहर निकाल दिया. अब वह लहूलुहान हो चुका था. हम लोग बाहर खड़े होकर बड़ी बेबसी के साथ अपनी आँखों के सामने प्रयोगशाला को जलता हुआ देख रहे थे. हम उस पर पानी डाल नहीं सकते थे क्योंकि आग सोडियम से लगी थी, पानी डालने से ज़्यादा भड़क उठती.

It was a fire due to sodium , so using water would not help. Rather, it would add to the devastation. (My Journey: 97)

मानव जीवन में अक्सर समस्याएं पैदा होती रहती हैं. कभी एक प्रकार की समस्या उत्पन्न होती है तो कभी दूसरे प्रकार की समस्या. आदमी को हर समस्या का समाधान निकालना पड़ता है. लेकिन अगर कोई व्यक्ति हर समस्या को एक ही तरीका से हल करना चाहे तो वह समस्या को और अधिक जटिल बना देगा. वह उसे सुलझाने कि बजाय और उलझा देगा. हर समस्या एक अलग प्रकार के समाधान की मांग करती है. समस्या के समाधान से पहले व्यक्ति को देखना पड़ता है कि समस्या की आग किस चीज से भड़की है. यदि समस्या की आग सामान्य प्रकार की आग है तो उसे पानी से बुझाया जाएगा और अगर वह आग सोडियम से भड़की है तो उसे पानी से बचाया जाएगा, क्योंकि पानी सोडियम की आग को कई गुना अधिक भड़का देता है.


समस्या के समाधान से पहले आदमी को ज़रूर जानना चाहिए कि समस्या किस बात से पैदा हुई है. अगर कोई व्यक्ति समस्या की वास्तविकता को जाने बिना उसे हल करना चाहे तो बहुत मुमकिन है कि आग सोडियम से भड़की हो और वह उसे पानी से बुझा रहा हो.

No more confusion



کنفیوزن نہیں

محمد آصف ریاض

پانچ جنوری 2014 کو دہلی کے انگریزی روزنامہ ٹا ئمزآف انڈیا میں ایک خبرشائع ہوئی تھی۔ یہ خبرانگریزی زبان کے بارے میں تھی ۔ اس میں بتا یا گیا تھا کہ جو لوگ اچھی انگریزی بولتے ہیں وہ انگریزی نہ بولنے والوں کے مقابلہ میں 34 گنا زیادہ کماتے ہیں۔ اس رپورٹ کی سرخی یہ تھی :
English edge: Those who speak the language fluently ‘earn 34% more than others
رپورٹ میں بتا یا گیا تھا کہ اترپردیش اوربہار سمیت نارتھ سینٹرل علاقہ میں محض 25 فیصد لوگ ہی انگریزی پڑھتے ہیں۔ اس کے بر عکس جنوبی ہندوستان میں 75 فیصد لوگ انگریزی پڑھتے ہیں۔ ( مجھے اس رپورٹ کو پڑھ کر یہ پتہ نہیں چل سکا کہ نارتھ کے لوگ انگریزی نہیں پڑھنے کی وجہ سے غریب ہیں یا غریبی کی وجہ سے انگریزی نہیں پڑھتے )۔
بہرحال یہ ایک تحقیقی رپورٹ تھی۔ اسے سینٹر فار ریسرچ اینڈ ڈیبیٹس ان ڈیولپمنٹ پالیسی کے ڈاکٹر ابو صالح شریف اور نیشنل کونسل فار اپلائیڈ اکونامک ریسرچ نئی دہلی کے امت شرما نے تیارکیا تھا۔ رپورٹ کا ایک اقتباس یہ تھا :
"جولوگ روانی سے انگریزی بولتے ہیں وہ انگریزی نہیں بولنے والوں سے 34 فیصد زیادہ کماتے ہیں اور جو لوگ ہلکی پھلکی انگریزی بولتے ہیں وہ انگریزی نہیں بولنے والوں سے 13 فیصد زیادہ کماتے ہیں"
"Men who speak English fluently earn wages about 34% higher and men who speak a little English earn wages about 13% higher than those who don't speak any English," the report said. Jan 5, 2014
میں نے اس سروے رپورٹ کو اپنی کتاب " مظفر نگر کیمپ میں" نقل کیا ہے۔ مظفر نگر کے ایک عالم اس کتاب کو پڑھ کر بہت خوش ہوئے۔ وہ دہلی میں رہتے ہیں۔ انھوں نے مجھے ایک میٹنگ میں مدعو کیا۔  وہاں تعلیم کی اہمیت اور خاص طور سے جدید علوم کی اہمیت پر بات چیت ہوئی۔
اس میٹنگ میں ایک صاحب بیٹھے تھے انھوں نے انگریزی پراعتراض کیا اورکہنے لگے کہ اس قسم کی رپورٹیں انگریزوں کی سازش ہیں ۔ اس طرح کی سازش کے ذریعہ وہ اپنی زبان و ثقافت کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔
میں نے انھیں بتایا کہ سب سے پہلے آپ اپنے ذہن کو صاف کیجئے۔ آپ یہ جانئے کہ آپ اکیسویں صدی میں رہ رہے ہیں۔ اکیسویں صدی میں رہ کرآپ اٹھارہویں صدی کی بیوقوفی نہیں کر سکتے۔ اٹھارہویں ، انیسویں  اور بیسویں صدی تک کیا ہوا تھا؟ مسلمان انگریزی زبان کے بارے میں کنفیوزڈ ہو گئے تھے، جس کی وجہ سے وہ ملک کے ہندوؤں سے بہت زیادہ پچھڑ گئے تھے۔ انگریزی میں پچھڑنے کی وجہ سے وہ زندگی کے تمام دوسرے شعبوں میں بھی پچھڑگئے تھے۔ وہ عملاً مزدوروں کا کنبہ بن کر رہ گئے تھے۔ اس بات کو سب سے پہلے سر سید نے سمجھا اور انھوں نے مسلم نوجوانوں کو انگریزی پڑھا نا شروع کیا، یہاں تک کہ انھوں نے مسلم نوجوانوں کوبرٹش حکومت میں ہندوؤں کے برابر کھڑا کردیا۔ اس صورت حال کی تفصیل جاننے کے لئے پڑھئے معروف مصنف رفیق زکریا کی کتاب "ہندوستانی سیاست میں مسلمانوں کا عروج "۔
کنفیوزن
کسی معاملہ میں انسان کا مشتبہ ہوجانا ایک فطری امر ہے۔ مثلاً کسی انسان کے سامنے کوئی معاملہ آئے یا اسے کوئی آئیڈیا دیا جائے تو بہت ممکن ہے کہ وہ اس آئیڈیا کے بارے میں اشتباہ کا شکار ہوجائے۔ وہ آئیڈیا کے منظراور پس منظر کو لے کر کشمکش میں مبتلا ہوجائے۔ کنفیوزن کا معاملہ ایک فطری معاملہ ہے۔ کنفیوزن انسان کے اندر فائنڈنگ اسپرٹ پیدا کرتا ہے۔ کنفیوزن آدمی کو اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ وہ کسی معاملہ میں فیصلہ لینے سے پہلے خوب تحقیق کر لے۔ کنفیوزن انسان کوایک آئیڈیا سے دوسرے آئیڈیا تک لے جاتا ہے تاکہ انسان کسی معاملہ میں صحیح نتیجہ تک پہنچ سکے ۔ کنفیوزن رومی کے لفظوں میں انسان کو دو ونگس فراہم کرتا ہے تاکہ وہ اڑ سکے۔
“God turns you from one feeling to another and teaches by means of opposites so that you will have two wings to fly, not one”
کنفیوزن اگرانسان کو کسی نتیجہ پرپہنچا ئے تو وہ ایک اچھی چیزہے اوراگر وہ انسان کو کہیں نہ پہنچائے تو ایک  بری چیز ہے۔ کنفیوزن اگرآپ کو ناکارگی پرآمادہ کرے تو وہ ایک منفی رویہ  ہے، اوراگروہ آپ کو تحقیق و تفتیش پرابھارے تووہ ایک مثبت رویہ ہے، اورانسان اس دنیا میں جو کچھ پاتا ہے وہ اپنے مثبت رویہ سے پاتا ہے ناکہ منفی رویہ سے۔ کنفیوزن کو تسلسل دینا گویا زخم کو کینسربنانا ہے۔ آدمی کو چاہئے کہ جیسے ہی اسے کسی معاملہ میں کنفیوزن ہوتو وہ تحقیق و تفتیش کے ذریعہ جلد سے جلد اپنے کنفیوزن کو دور کرے۔ وہ کنفیوزن کے ساتھ نہ جئے کیوں کہ کنفیوزن نکمے پن کا دوسرا نام ہے۔
اس بات کوسمجھانے کے لئے میں آپ کو ایک عرب خاتون کی مثال دوں گا۔ ایک ترک نژاد عرب خاتون نے عرب  ذہنیت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: "اگر آپ کسی عرب سے کہیں کہ تم  یہ کام کرو، تو وہ آپ کو جواب دے گا کہ جو کام سب کر رہے ہیں اسے میں کیوں کروں ؟ پھر آپ اسے کوئی نیا کام بتائیں تواس کا جواب ہوگا  جو کام کوئی نہیں کر سکتا وہ میں کس طرح کر سکتا ہوں۔؟
ہرچند کے مذکورہ خاتون  رائٹر نے ایک مخصوص ذہنیت کو عرب ذہنیت بتایا ہے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ ایک مسلم ذہنیت ہے۔ اگرآپ کسی مسلمان سے کہیں کہ وہ کام کرو تو آپ کو جواب دے گا  کہ وہ کام تو سب کر رہے ہیں تو پھر میں کیوں کروں؟ اب آپ اسے کوئی دوسرا کام بتائیں، وہ جواب دے گا وللہ جو کام کوئی نہیں کر سکتا وہ میں کس طرح کر سکتا ہوں؟
کنفیوزن انسان کو کسی منزل تک نہیں پہنچاتا۔ وہ انسان کو ذہنی بیماری میں مبتلا کردیتا ہے۔ اورجو شخص ذہنی بیماری میں مبتلا ہو وہ کسی کام کا نہیں ہوسکتا۔
البرٹ آئسٹائن کا قول ہے کہ "ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم کسی کام کو کرنے کے لئے پرفکٹ وسائل کا تقاضا کرتے ہیں اور اپنے مقصد کے بارے میں کنفیوزڈ رہتے ہیں۔"

A perfection of means, and confusion of aims, seems to be our main problem.

Albert Einstein

بدھ، 9 اپریل، 2014

Worship God and do not associate parters with him



بتوں کے نام پر

محمد آصف ریاض
خدانےانسان کوآدم کے ذریعہ اس زمین پرپھیلایا۔ آدم پہلے انسان اورنبی اور رسول تھے۔ انھوں نے اپنے بچوں کو توحید کی تعلیم دی۔ انھوں نے اپنے بچوں کو وہی بتا یا جو بعد میں نوح ، ابراہیم ، موسی ، عیسی اور پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسم نے اپنی قوم کو بتا یا تھا۔ وہ یہ کہ اے قوم، خدا کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور بتوں کی گندگی سے بچتے رہنا۔ " تم لوگ اللہ کی بندگی کرو اوراس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائو"
) سورہ النساء4: 36)
انسان اول آدم کا اثران کے بچوں پربہت گہرا تھا۔ آپ کی قوم نے ایک خدا کی عبادت کی اورشرک کی برائیوں سے اپنے آپ کو بچائے رکھا۔ لیکن یہ صورت حال بہت دیر تک قائم نہ رہ سکی اور بعد کی نسلوں میں بگاڑ پیدا ہوگیا۔ انھوں نے خدا کے ساتھ دوسرے ناموں کو بھی ملانا شروع کردیا۔ رفتہ رفتہ وہ شرک کی بیماری میں مبتلا ہوگئے۔
تاہم شرک کی بیماری میں مبتلا ہونے کے با وجود سچے خدا کی تلاش کبھی ختم نہیں ہوئی۔ اولاد آدم کا دل کبھی بھی شرک پر راضی نہ ہوا ۔ انھیں ہمیشہ حقیقی خدا کی تلاش رہی۔ وہ خدا جو ان کی فطرت میں سمایا ہوا تھا ، وہ خدا جس کے بارے میں انھوں نے اپنے باپ آدم سے سن رکھا تھا۔
حقیقی خدا کے بارے میں انسان کی طلب نے سماج کے سربرآوردہ لوگوں کو اندر سے ہلا دیا۔ انھوں نے انسان کی اس فطری طلب کواپنے خلاف ایک خطرہ سمجھا۔ انھیں لگا کہ اگر لوگوں کو واحد اورحقیقی خدا مل گیا تو وہ بدل جائیں گے۔ انھیں اپنی زندگی جینے کا سلیقہ آجائے گا۔ حقیقی خدا کو پا کروہ کسی کے محتاج نہیں رہیں گے۔ حقیقی خدا کو پانے کے بعد لوگ وہی بات کہیں گے جو سچی اوراچھی ہو۔ وہ انصاف کا تقاضا کریں گے۔ وہ اچھائی کا حکم لگائیں گے اور لوگوں کو برائی اور سرکشی سے روکیں گے۔
اس صورت حال سے نبرد آزما ہونے کے لئے سماج کے امرا اور رؤسا نے ایک تدبیر اختیارکی۔ فوری طورپر انھوں نے کچھ کٹ پتلیاں تیار کرائیں اور انھیں  خدا بنا کر لوگوں کے سامنے پیش کردیا تاکہ لوگوں کو سچے خدا سے کاٹ دیا جائے۔

بتوں کی پرستش سے اس رولنگ کلاس پرکوئی زد نہیں پڑرہی تھی۔ کیونکہ بت انسان سے تبدیلی کا تقاضا نہیں کرتے، بت انسان کو ڈسپلن نہیں سکھاتے، بت انسانوں پر ذمہ داریاں عائد نہیں کرتے، بت نہ کچھ بگاڑ سکتے ہیں اورنا بنا سکتے ہیں، لہذا بتوں کو کٹ پتلی بنا کر آگے بڑھا یا گیا۔ ان بتوں کے پیچھے وقت کے کرپٹ اور چالاک لوگ کھڑے ہوگئے اور بتوں کی طرف سے خود بولنے لگے۔ بتوں کے نام پر وہ اپنی ہرالٹی سیدھی بات سماج سے منوانے لگے۔ بتوں کے ذریعہ انھیں یہ موقع ملا کہ وہ انسان کو کئی طبقات (Varna) میں بانٹ دیں۔ مثلا برہمن، کاشتریہ، ویشیہ، شودر، خدا کا بیٹا، چنے ہوئے لوگ، وغیرہ۔
انیسویں صدی کےمعروف دلت مفکراورادیب، مہاتما جیوتی بائو پھولے (11 April 1827 – 28 November 1890)  اس صورت حال کا ذکر اپنی کتاب غلامی گری (Salavery) میں بہت ہی کربناک انداز میں کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں:
"شودر اور اتی شودرغلامی کو دوسروں کی بہ نسبت زیادہ بہتر انداز میں سمجھتے ہیں کیونکہ انھیں غلامی کا براہ راست تجربہ ہے۔ شودروں کو برہمنوں نے فتح کیا اورانھیں غلام بنا لیا۔"
"the Shudra and Ati-Shudra would understand slavery better than anyone else because they have a direct experience of slavery as compared to the others who have never experienced it so; the Shudras were conquered and enslaved by the Brahmins.”
بتوں کے نام پر لوگوں کو سورن اور شودر کے نام پر بانٹا گیا۔ اسی تقسیم کی بنیاد پربڑے بڑے منادرتعمیر کئے گئے، اسی پرکلرجی کلاس تیارہوا، اسی پر رولنگ کلاس کو کھڑا کیا گیا۔ اگرآپ تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلے گا کہ بت پرستی اورشرک کو ہمیشہ رولنگ کلاس نے سپورٹ کیا۔ یہاں تاریخ سے میں چند ناموں کا ذکر کروں گا۔  قرآن میں ان ناموں کا ذکر اس طرح آیا ہے، فرعون، نمرود، ہامان ، قارون وغیرہ۔ یہ کون لوگ تھے؟ یہ سب حکمراں اور قوم کے سربر آوردہ لوگ تھے۔ یہاں میں چند مثالیں دوں گا جس سے پتہ چل جائے گا کہ کس طرح وقت کے بڑوں نے بتوں کی پشت پناہی کی۔
ابراہیم نےجب لوگوں کو بت پرستی اور جھوٹے معبودوں کی پرستش سے روکا تو پھر یہ  رولنگ کلاس بھڑک اٹھا۔ قرآن کا ارشاد ہے: "ابراھیم نے کہا کہ کیا تم اللہ کو چھوڑ کران چیزوں کو پوج رہے ہو جو نہ تمہیں نفع پہنچانے پرقادر ہیں اور نہ نقصان؛ تف ہے تم پر اور تمہارے ان معبودوں پر جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر پوجا کر رہے ہو۔ کیا تم کچھ بھی عقل نہیں رکھتے؟
نمرود اور اس کی قوم نے کہا" جلا ڈالو اس کو اور حمایت کرو اپنے معبودوں کی اگر تمہیں کچھ کرنا ہے۔ تو انھوں نے ابراہیم کو پکڑ کر آگ میں ڈال دیا۔ قرآن میں اس کا بیان اس طرح ہوا ہے۔ ہم نے کہا اے آگ ٹھنڈی ا ور سلامتی بن جا ابراہیم پر۔ 21: 66- 69 ))
اسی طرح موسیٰ نے جب لوگوں کو بت پرستی اور شرک سے پاک کرنا چاہا توانھیں شروع میں کوئی شخص نہ ملا۔ قرآن کا ارشاد ہے۔"موسیٰ کواس کی قوم سے چند نوجوانوں کےعلا وہ کسی نے نہ مانا، فرعون کے ڈر سے اورخود اپنی قوم کے حکمرانوں کے ڈر سے کہ کہیں ان کو تکلیف نہ پہنچائیں۔ اور واقعہ یہ ہے کہ " فرعون اس ملک میں زور رکھتا تھا اور یہ بھی بات تھی کہ وہ حد سے باہر ہوجا تا تھا۔ " (: 10: 83)
موسیٰ کی قوم بنی اسرائیل تھی اور یہ بت پرستی سے اجتناب کر تی تھی۔ چنانچہ  فرعون انھیں سخت قسم کی اذیت دیتا تھا۔ کیونکہ اسے ملک پر اقتدار حاصل تھا۔ قرآن کا ارشاد ہے:"اورقوم کے سرداروں نے کہا کہ کیا آپ موسیٰ کو اوران کی قوم کو یوں ہی رہنے دیں گے کہ وہ ملک میں فساد کرتے پھریں اوروہ آپ کو اورآپ کے معبودوں کو ترک کرتے رہیں: فرعون نے جواب دیا "میں ان کے بیٹوں کو قتل کرائوں گا اور ان کی عورتوں کو جیتا رہنے دوں گا،ہمارے اقتدارکی گرفت ان پر بہت مضبوط ہے۔"7: 127))
اسی طرح جب مکہ میں پیغمبراسلام نے لوگوں کوایک خدا کی طرف بلا یا تو مکہ کا رولنگ کلاس" قریش" بھڑک اٹھا اوراس کا سردارابوجہل محمد کے قتل کے درپے ہوگیا یہاں تک کہ پیغمبراسلام کو مکہ چھوڑ کر مدینہ ہجرت کرنا پڑا۔
آپ نے دیکھا کہ کس طرح کلرجی کلاس اوررولنگ طبقہ بتوں کی پرستش کو اسٹیبلش کرنے کے لئے کوشاں تھا۔  کیوں؟ اس لئے کہ یہ بت ان کے پرپزکی فیڈنگ کر رہے تھے۔ وہ ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کر رہے تھے بلکہ وہ انھیں یہ موقع دے رہے تھے کہ وہ بتوں کے نام پر سماج میں جو چاہیں کریں۔ انھیں معلوم تھا کہ بت ان کے کاموں میں مداخلت کرنے والے نہیں ۔ اور نہ ہی وہ کسی کا کام بنا سکتے یا بگاڑ سکتے ہیں۔
اس بات کو سمجھانے کے لئے میں آپ کو ایک مثال دوں گا جس سے آپ کوسمجھ میں آجائے گا کہ رولنگ کلاس نے بت پرستی کو کیوں رواج دیا اور کیوں اس کی پشت پناہی کر تے رہے؟
ایک مثال
مان لیجئے کہ ایک حکومت ہو جوکسی خاص کمیو نٹی کو کوئی حق دینے کے خلاف ہو۔ لیکن عدالت نے مداخلت کی اور یہ حکم جاری کیا کہ آپ کو اس خاص کمیونٹی سے کسی ایک کو وزیر بنانا ہوگا۔ اب جبکہ لوگوں کا دبائو بڑھا توحکومت کے لئے نا گزیر ہوگیا کہ وہ عدالت کے حکم کی نا فرمانی کرے ۔ چنانچہ اس نے ایک راستہ نکالا۔ اس نے مذکورہ سماج میں سے ایک نہایت ناکارہ انسان کواٹھا یا اوراسے وزیر بنا دیا تاکہ وہ وزیر ان کے ہاتھوں میں کٹ پتلی بنا رہے، وہ وزیر رہتے ہوئے بھی عملاً کچھ نہ کر سکے، جیسے بت ، کہ وہ بت رہتے ہوئے بھی عملاً کوئی اختیار نہیں رکھتے۔
اسی طرح بت پرستی نے زور پکڑا۔ لوگوں کو حقیقی خدا سے محروم رکھنے کے لئے وقت کے بڑوں نے  جھوٹے بت تراشے ۔ انھیں سجا سنوار کر لوگوں کے سامنے پیش کیا۔ کیونکہ یہ بات رولنگ کلاس کے فیور میں تھی۔  بت خود بول نہیں سکتے تھے اس لئے رولنگ کلاس کو یہ موقع ملا کہ وہ پیچھے سے اس کے نام پر بولیں۔ یعنی بتوں کے نام پر کل بھی فراڈ کیا گیا اور بتوں کے نام پر آج بھی فراڈ کیا جا رہا ہے۔ یہ کھیل بہت پرانا ہے اورا سے آج تک کھیلا جا رہا ہے۔
اسلام کا موقف
اسلام بت پرستی کے خلاف ہے۔ کیونکہ بت پرستی کے راستہ سے سماج میں ہرقسم کی برائی داخل ہوتی ہے۔ مثلاً ایک شخص لوٹ پاٹ کرے اوربتوں پرکچھ چڑھا دے، ایک شخص فراڈ کرے اور بتوں کو دودھ سے نہلا دے،ایک شخص بتوں کے نام پر اپنے آپ کو خدا بنا لے، ایک شخص بدکاری کرے اور کہے کہ  مسیح نے کفارہ ادا کر دیا ہے، ایک شخص زمین پر منمانی کرے اور کہے کہ اسے منمانی کا حق ہے کیوں کہ وہ خدا کا چنا ہوا ہے۔ اسلام ان تمام چیزوں کو خارج کرتا ہے۔ وہ ہر شخص کو ایک خدا کے سامنے جوابدہ بنا تا ہے۔ اسلام میں خدا کے سامنے سب برابر ہیں ایک عام آدمی بھی اورایک بادشاہ بھی۔ اسلام میں انسان کا تعلق براہ راست خدا سے ہے بیچ میں کوئی میڈل مین نہیں۔