مجھے اس فلسفی سے اتفاق نہیں
محمد آصف ریاض
شاہ ولی اللہ (February 21, 1703 – August 20, 1762) ایک عظیم مصنف اور مفکر تھے۔انھیں محدث دہلوی
بھی کہا جا تا ہے۔ انھوں نے درجنوں کتابیں لکھیں. ان کی ایک
کتاب کانام" لبدور البازغہ" { The rising moons } ہے ۔ فلسفہ سے متعلق یہ ایک بہترین کتاب
ہے۔
اس کتاب میں شاہ ولی اللہ نے انسانی زندگی کے تمام پہلوں کو ٹچ کرنے کی
کوشش کی ہے۔ مثلاً کوئی سماج کس طرح وجود میں آتا ہے، حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے، حاکم
کی ذمہ داری کیا ہوتی ہے، رعایا کی ذمہ داری کیا ہوتی ہے، معیشت کیا چیز ہوتی ہے، تعلیم
و تربیت کو کس طرح فرغ دیا جا سکتا ہے، ہم آہنگی کیا چیز ہوتی ہے، عدلیہ اور قضا سے
کیا تقاضا کیا جاتا ہے، جنگ سے کس طرح بچا جائے اور کس طرح جنگ کی جائے، خدا کا نام
، خدا کی صفات، خدا کے ننانوے اسما، قرآنی آیات کی تفصیل، تقدیر پر ایمان لانا، انسانی
زندگی کےحقائق، زندگی اور موت، آخرت، جنت اور جہنم ، فرشتہ اور شیطان، اس طرح کے تمام
موضوعات اس کتاب میں موجود ہیں۔
بلاشبہ یہ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ مولانا
عبید اللہ سندھی کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ ہر اس شخص کو یہ
کتاب پرھنی چاہئے جسے فلسفہ میں تھوڑی بہت دلچسپی ہو۔
میں نے اس کتاب کو پڑھا۔ یہ کتاب واقعتا ایک اچھی
کتاب ہے لیکن مجھے اس کتاب کی تمام مشمولات سے اتفاق نہیں۔ مثلاً اس کتاب کا ایک باب " Teacher of People" کے نام سے ہے ۔ اس باب میں شاہ ولی اللہ
نے بتایا ہے کہ کسی استاذ کو کیسا ہونا چا ہئے۔ ان کے مطابق ایک اچھے استاذ کی پہچان
یہ ہے کہ اس کے اندرزور کلام پایا جاتا ہو۔ ان کے لفظوں میں:
His greater
inclination should be the employment of eloquence it has direct appeal to the
mind
{Teacher of people p-90}
مجھے اس بات سے اتفاق نہیں۔
آدمی زور کلام سے صرف خطابت کی دھوم مچا سکتا ہے۔ وہ ہنگامہ کھڑا کر سکتا ہے۔ وہ بھیڑ
اکٹھی کر سکتا ہے لیکن وہ اس کے ذریعہ کوئی سنجیدہ اور تعمیری کام انجام نہیں دے سکتا۔
سنجیدہ اور تعمیری کام کے لئے وہ زبان درکارہے جسے فطرت کی زبان کہا جاتا ہے۔ اوریہی
وہ زبان ہے جسے دل کی زبان سے تعبیر کیا گیا ہے۔ کسی دانشور نے کہا ہے:صرف ایک ہی
زبان ہے اور وہ زبان دل کی زبان ہے۔
There is only one language , the language of heart
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں