اور جب انسان تنہا ہوگا
محمد آصف ریاض
انسان پیدائشی طورپر کمزورواقع ہواہے۔ وہ اپنی ماں کے پیٹ سے ایسا کمزورآتا ہے کہ اگر کوئی شخص اسے تکلیف
پہنچائے تو وہ اپنا بچائوبھی نہیں کرسکتا۔ نہ وہ بول سکتا ہے نہ سمجھ سکتا ہے اور
نہ اپنے خیالات کا اظہار کرسکتا ہے۔ پھرخدا اسے زمین پر طاقت دیتا ہے۔ اب وہ بولنے
لگتا ہے۔ اب اس کے اندر چیزوں کی فہم آجاتی ہے۔ وہ زمین پراپنا خاندان اور قبیلہ
بنا تا ہے۔ یہ قبیلہ اسے ماحول میں پروٹکشن {Protection} فراہم کرتا ہے۔
اس پروٹکشن کو پاکرانسان کو یہ زعم ہوجاتا ہے کہ اب اسے کوئی گزند نہیں پہنچا
سکتا،اب وہ ہر خطرہ سے باہر ہے۔ انسان رفتہ رفتہ کمزری کی نفسیات سے نکل کرطاقت کی
نفسیات میں جینے لگتا ہے۔
طاقت کی یہ نفسیات انسان کے اندر سرکشی اور انا کی نفسیات پیدا کرتی ہے۔ انسان
اپنے آگے کسی کو قابل اعتنا نہیں سمجھتا، یہاں تک کہ جب کوئی ڈرا نے والا اس کے
پاس آتا ہے تووہ اسے یہ کہہ کرچپ کرا دیتا ہے کہ سچائی اس کے ساتھ ہے اور اسی لئے
اسے زمین پر طاقت ملی ہوئی ہے۔
وہ زمین پراپنا ایک اپمائر بنا تا ہے اور لوگ اس اپمائر کو دیکھ کراس کے ارد
گرد جمع ہوجاتے ہیں۔ وہ ماحول میں اونچا مقام پا لیتا ہے۔
لیکن بہت جلد اسے ایک اور تجربہ ہوتاہے۔ وہ تجربہ ہے کمزوری کا تجربہ۔ خدا وند
اسے بیماری میں مبتلا کرتا ہے تاکہ وہ اپنی اصل کی طرف لوٹے۔ وہ اپنےاندر سیکنڈ
تھاٹ پیدا کرے، یعنی وہ یہ جانے کہ جس طرح وہ اپنی پیدائش کے وقت کمزورتھا اسی طرح
وہ آج بھی کمزور ہے۔
خداانسان کو بیماری میں مبتلا کرتا ہے تاکہ وہ بیماری کے دسترخوان سےاپنے لئےعجز،انکساری،رحمدلی،اخوت
اور بردباری کی غذا لے کر اٹھے، لیکن عجیب بات ہے کہ انسان اس دسترخوان سے بھی سر کشی،
ناشکری اورنافرمانی کی غذا لے کر اٹھتا ہے۔
ایسا کیوں ہے؟ ایسا اس لئےہے کیوں کہ انسان جب بیمار پڑتا ہے تووہ اپنےآپ کو
اپنے قبیلہ کے پروٹکشن میں پاتا ہے۔ اب جب کہ وہ بیماری سے صحت مند ہوکر نکلتا ہے
تو اسے ایسا لگتا ہے کہ اس کے قبیلہ نے اسے بچا لیا۔ وہ بیماری کے بعد اپنی
تندرستی پر اس طرح تبصرہ کرتا ہے۔
" اس کے عزم {Will
power} اور اس کے مضبوط قبیلہ نے اسے بچالیا۔"
انسان عجز کے دسترخوان پر بٹھا یا جا تا ہے تاکہ وہ اپنے اندرعجز پیدا کرے، وہ
اپنی ناطاقتی کو جانے لیکن انسان اس دسترخوان سے بھی سرکشی کی غذا لے کر اٹھتا ہے،
وہ یہاں بھی اپنی طاقت کو جانتاہے۔
اب انسان اپنے خاندان، قبیلہ اور آل اولاد کے پروٹکشن کو دائمی سمجھ لیتا ہے۔ وہ
خدا کو چھوڑ کراپنی آل اولاد اور قبیلہ میں جینے لگتا ہے۔
پھراس پر موت کا حملہ ہوتا ہے۔ اس کا سارا قبیلہ ایک بار پھر اسے بچانے کے لئے
ایکٹو ہوجا تا ہے۔ قبیلہ کا ہر فرداسے پروٹکشن دیتا ہےلیکن تمام پروٹکشن کے باوجود
خدا کا فرشتہ اسےاٹھا کر لےجاتا ہےاور کوئی اسے بچا نہیں پاتا۔
اب انسان پرکھلتا ہے کہ وہ جن طاقتوں پر بھروسہ کئے ہوئے تھا وہ سرے سے کوئی
طاقت ہی نہیں تھی۔ وہ اپنے آپ کو ایک اور دنیا میں پاتا ہے، جہاں اس کے ساتھ کوئی
نہیں ہوتا،جہاں وہ اپنے آپ کو تنہا پاتا ہے۔
کتنی عجیب بات ہے کہ انسان آل اولاد مِں پڑارہتا ہے اور بھول جاتا ہے کہ آخر
کار اسے آخری سفرپر تنہا نکلنا ہے۔
قرآن کا ارشاد ہے:
"اورسب قیامت کے دن اس کے سامنے اکیلے اکیلے حاضر ہوں گے۔" {19:95}
"اورجو چیزیں یہ بتاتا ہے سب ہمارے پاس رہ
جائیں گی اور یہ اکیلا ہمارے سامنےآئے گا۔" {19:80}
مضمون نگار"امکانات کی دنیا" کے مصنف ہیں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں