جمعہ، 12 اکتوبر، 2012

Devine Sharbat


خدائی شربت

محمد آصف ریاض
کل میری طبیعت کچھ اچھی نہیں تھی۔ میں نے تلاوت کلام پاک کے بعد اپنی اہلیہ سے کہا کہ وہ میرے لئے ایک گلاس شربت تیار کرے۔ اس نے میرے لئے ایک گلاس شربت تیار کیا۔ وہ بہت سادہ شربت تھا۔ اسے پانی چینی اور لیمون سے تیار کیا گیا تھا۔ یہ اتنا اچھا تھا کہ میں اسے ایک ہی گھونٹ میں پی گیا۔ اب میں سوچنے لگا کہ یہ شربت "مین میڈ" تھا یا " گوڈ میڈ"؟ اسے انسان نے تیار کیا تھا یا اللہ نے؟ میرے علم نے مجھے بتا یا کہ اسے اللہ  نے تیار کیا تھآ۔
میں لیمون، پانی اور چینی کی تخلیق پر غور کرنے لگا کیونکہ انھیں اجزا سے مل یہ شربت  تیار ہوا تھا۔ لیمون درخت میں تیار ہوتا ہےاور درخت اپنا کھانا ضیائی تالیف یعنی {Photosynthesis} کے عمل کے ذریعہ حاصل کرتا ہے۔
درخت سورج سے انرجی حاصل کرتا ہے اور زمین سے پانی لیتا ہے۔ وہ فضا سے کاربن ڈائی ایکسائڈ کو اٹھا کر سوگر اور آکسیجن میں تبدیل کردیتا ہے۔
 Leaves are the food factories of a tree. Using energy from the sun, which they capture with a green pigment called "chlorophyll," leaves convert the carbon dioxide and water into oxygen and sugar (food) through the process of photosynthesis. The gases needed for and generated by photosynthesis enter and exit through tiny holes called "stomata" on the under surface of the leaves. Water vapor also exits through the stomata in the process of transpiration. 
زمین وآسمان کی پوری فضا ایکٹیو ہوتی ہے تو ہمیں لیمون اور گننا حاصل ہوتا ہے۔ درخت کے لئے ضروری ہے کہ آسمان پر سورج نکلے۔ لیکن اگر اس کی روشنی زمین پر برابر پڑتی رہے تو زمین پر زندگی پروان نہیں چڑھ سکتی۔ زمین پر موجود تمام جاندار کی موت ہوجائے گی۔ اس صورت حال سے بچنے کے لئے خدا نے ایک الٹی میٹ نظام تیار کیا۔ اس نے زمین کو چوبیس گھنٹے میں اس کے ایکسس پر نچا دیا، جس کی وجہ سے زمین پر کہیں دن ہوتا ہے اور کہیں رات ہوتی ہے۔ اگر صرف دن ہوتا یا صرف رات ہی ہوتی تب بھی زمین پر درختوں کا اگنا ممکن نہیں تھا۔
 خدا پوری زمین کو سورج کے گرد 1000 میل فی گھنٹے کی رفتار سے نچا رہا ہے تاکہ انسان کے لئے دن ہو اور رات ہو اور تاکہ زمین پر زندگی یقینی بنے۔ اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ ایک لیمون اور گننا کی تخلیق کے لئے خدا کتنے بڑے نظام کو چلا رہا ہے۔
 اسی طرح پانی کو لیجئے۔ زمین کا 70 فیصد حصہ پانی سے بھراہواہےلیکن یہاں پینے کے لائق پانی صرف 1 فیصد ہے۔ باقی پانی سالٹی ہے۔ یعنی نمک سے بھراہوا۔ اس پانی کو نمک سے پاک کیا جا سکتا ہے لیکن یہ اتنا مہنگا ہے کہ انسانیت اس پر آنے والی لاگت کو برداشت نہیں کر سکتی۔
About 70% of the earth’s surface is covered with water. Ninety-seven percent of the water on the earth is salt water. Salt water is filled with salt and other minerals, and humans cannot drink this water. Although the salt can be removed, it is a difficult and expensive process.
Two percent of the water on earth is glacier ice at the North and South Poles. This ice is fresh water and could be melted; however, it is too far away from where people live to be usable.
Less than 1% of all the water on earth is fresh water that we can actually use. We use this small amount of water for drinking, transportation, heating and cooling, industry, and many other purposes.
خدا وند پانی کی فراہمی کے لئے بھی الٹی میٹ انتظام فرمارہا ہے۔ اس خدائی انتظام کے تحت سورج اپنی ہیٹ سمندر پر مارتا ہے۔ سورج کی ہیٹ سے نمک بھاری ہونے کی وجہ سے نیچے رہ جاتا ہے اور پانی ہلکا ہونے کی وجہ سے فضاِئوں میں اڑ جا تا ہے۔ بادل اس پانی کو اٹھائے پھرتا ہے اور خدا کے حکم کے مطابق اسے برسا دیتا ہے اس کام میں ہوائیں اس کی مدد گار ہوتی ہیں۔
 یعنی جو پانی ہم پیتے ہیں اس کو پانی بنانے کے لئے خدا زمین وآسمان کو پوری طرح ایکٹیو کئے ہوئے ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ زمین اپنے اندر پانی کو سمیٹ کر رکھتی ہے اور وہ انسان کو لوٹا دیتی ہے اگر وہ خود اس کو پی جا ئے تو انسان سخت مشکل میں پڑجائے گا۔
ایک گلاس شربت پراس پورے غورو فکر سے گزرنے کے بعد میرا سینہ شکر خدا وندی سے بھر گیا۔ مجھے لگا کہ وہ ہاتھ جس نے مجھے شربت پلا یا وہ کسی انسان کا ہاتھ نہیں تھا وہ در اصل خدا کا ہاتھ تھا۔ 

خدا وند براہ راست اپنے ہاتھوں سے انسان کو کھلا تا اور پلاتا ہے تاکہ انسان اس کا شکرادا کرے لیکن یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ اس زمین پر ناشکروں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ جو چیز خدا کو اپنے بندے سے مطلوب تھی وہی چیزانسان سے کہیں کھو گئی ہے۔ یعنی ، شکر،عجز،انکساری اور منعم کے آگے گریہ زاری کا جذبہ۔
قرآن کا ارشاد ہے:" وہ اللہ ہے جس نے وہ سب کچھ تمہیں دیا جو تم نے اس سے مانگا۔ اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہوں تو شمار نہیں کر سکتے، حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی بے انصاف اور ناشکراہے۔ 14:34

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں