بدھ، 3 اکتوبر، 2012

Ignorant people do not believe in God


اور خدا کو وہی لوگ نہیں مانتے جو نادان ہیں

محمد آصف ریاض

Asif343@gmail.com

کل جب میں فجر کی نماز کے لئے اٹھا تو مجھے چڑیوں کی چہچہانے کی آواز سنائی دی۔وہ نہایت لطیف آواز تھی۔ میں تھوڑی دیر تک اس کے سحر میں کھوگیا ۔ پھر میں سوچنے لگاکہ کتنا عظیم ہے وہ خالق جس نے انسان کی تخلیق کی اور وہ اس سے غافل بھی نہیں ہوا ! یعنی ایسا نہیں کیا کہ وہ انسان کو پیدا کرکے اس سے بے تعلق ہوجا تا ۔اس نے زمین پر انسان کی دل بستگی کا ہر سامان پیدا کیا ۔انسان خوش رہے اس کے لئے دو طرفہ انتظام کیا گیا۔ ایک انتظام تو خود انسان کے اندر کیا گیا اور دوسرا انتظام انسان کے باہرخارجی دنیامیں کیا گیا۔

مثلاً انسان کے کانوں میں لطیف آواز گونجے اس کے لئے اس نے چڑیوں کو چہچہانا سکھا یا، اور اس چہچہاہٹ سے انسان لطف اندوز ہو سکے اس کے لئے اسے کان دیا گیا ۔ذرا تصور کیجئے ایک ایسے شخص کا جو بہرا ہوتو اس کے سامنے چڑیاچہچہائے گی لیکن کیا وہ سن سکے گا؟


اسی طرح پھولوں کو لیجئے ۔خدا نے زمین پر پھول کھلائے تا کہ انسان انھیں دیکھ کرمسرور ہو سکے لیکن ایک اندھے آدمی کا تصور کیجئے کہ وہ گلشن میں کھڑا ہوگا لیکن کیا اسے اس کا شعور ہوگا کہ وہ کہاں کھڑا ہے!

 اسی طرح پھولوں کی خوشبوکو لیجئے خدا نے پھو لوں کے اندر خوشبو رکھا اور اس کے ساتھ ہی انسان کو ناک دیا تا کہ وہ اس خوشبو سے محظوظ ہو سکے۔ کیا بغیر ناک کہ آپ خوشبو کا تصور کر سکتے ہیں؟

 اب آدمی کے کھانے کو لیجئے آدمی ایک ہی بار میں چاول دال سبزی اور چٹنی کھا تا ہے،اور سب کا ٹسٹ اسے الگ الگ معلوم پڑتا ہے ۔خدا نے کھانے پینے کی بہت سی چیزیں پیدا کیں اور سب کا ذائقہ بھی مختلف رکھا لیکن صرف یہی کافی نہیں تھا اگر انسان کے اندرسنس آف ٹسٹ نہیں ہوتا توانسان کسی چیز میں ذائقہ نہیں پا تا۔ ذرا تصور کیجئے بخار کی حالت کا جس میں آپ کی قوت ذائقہ بڑی حدتک گھٹ جاتی ہے توآپ کو’ گلگلا ‘ اور ’ دال ‘ دونوں کے ذائقہ میں کوئی فرق نظر نہیں آتا ۔دونوں کا ٹسٹ بڑی حد تک ایک ہی معلوم پڑتا ہے۔خدا نے انسان کے اندر سنس آف ٹسٹ اس طرح رکھا ہے کہ انسان ایک ہی بار میں مختلف چیزوں کو کھا ئے اور سب کا ذائقہ الگ الگ معلوم ہو۔

 چیزوں پر نگاہ ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ انسانی دنیا اورخارجی دنیا میں عجیب و غریب ہم آہنگی پائی جاتی ہے ۔ مثلا ً باہر خوشبو ہے تو انسان کے پاس ناک ہے ،باہر طرح طرح کے کھانے ہیں تو انسان کے اندر قوت ذائقہ ہے ،اسی طرح باہر چڑیوں کی چہچہاہٹ ہے تو انسان کے پاس کان ہے۔ان چیزوں پر غور کرنے سے انسان اور اشیا کی باہمی ربط کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان چیزوں پر غور کرنے سے معلوم پڑتا ہے کہ کائنات کو ایک حکیم اور دانا ہستی نے وجود میں لایا ہے ۔یہ کسی کھلنڈرے کا کھیل نہیں ہے۔ اور نہ ہی یہ عظیم کائنات اتفاقی اور حادثاتی طور پر وجود میں آگئی ہے۔ اس قدر باہم مربوط اور منظم کائنات کو اتفاقی قرار دینا ایسا ہی ہے کہ آپ کے سامنے ایک خوبصورت پینٹنگ ہو اور اس پینٹنگ کو دیکھ کر کوئی بد ذوق یہ کہے کہ کسی نے کئی قسم کے رنگ کو اکھٹا کیا تھا لیکن کسی شرارتی بچے نے اس پر گلاس کا پانی انڈیل دیا اور اس سے اتفاقی طور پر یہ پینٹنگ وجود میں آگئی۔ بلا شبہ یہ بات کوئی نادان ہی بول سکتا ہے ۔ اور خدا کو وہی لوگ نہیں مانتے جو نادان ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں